متفرق مضامین

صلہ رحمی

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں: ’’ایک انسان میں جو خصوصیات ہونی چاہئیں خاص طور پر ایک مرد میں جن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے جس سے پاک معاشرہ وجود میں آسکتا ہے وہ یہی ہے جن کا ذکر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے خلق کے ضمن میں فرمایا کہ صلہ رحمی اور حسن سلوک، رشتہ داروں کا خیال، ان کی ضروریات کا خیال، ان کی تکالیف کو دُور کرنے کی کوشش۔ اب صلہ رحمی بھی بڑا وسیع لفظ ہے اس میں بیوی کے رشتہ داروں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مرد کے اپنے رشتے داروں کے ہیں۔ ان سے بھی صلہ رحمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنوں سے۔ اگر یہ عادت پیدا ہو جائے اور دونوں طرف سے صلہ رحمی کے یہ نمونے قائم ہو جائیں تو پھر کیا کبھی اس گھر میں تُو تکار ہو سکتی ہے؟ کوئی لڑائی جھگڑا ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ کیونکہ اکثر جھگڑے ہی اس بات سے ہوتے ہیں کہ ذرا سی بات ہوئی یا ماں باپ کی طرف سے کوئی رنجش پیدا ہوئی یا کسی کی ماں نے یا کسی کے باپ نے کوئی بات کہہ دی، اگر مذاق میں ہی کہہ دی اور کسی کو بری لگی تو فوراً ناراض ہو گیا کہ میں تمہاری ماں سے بات نہیں کروں گا، میں تمہارے باپ سے بات نہیں کروں گا۔ میں تمہارے بھائی سے بات نہیں کروں گا پھر الزام تراشیاں کہ وہ یہ ہیں اور وہ ہیں تو یہ زود رنجیاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر، یہی پھربڑے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں کے رشتہ داروں سے اور ان کی سہیلیوں سے حسن سلوک فرمایا کرتے تھے۔ بے شمار مثالوں میں سے ایک یہاں دیتا ہوں۔ راوی نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے یہ تو خدیجہ کی بہن ہالہ آئی ہے۔ اور آپ کا یہ دستور تھا کہ گھر میں کبھی کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خدیجہ)

لیکن یہاں تھوڑی سی وضاحت بھی کر دوں اس کی تشریح میں۔ بعض باتیں سامنے آتی ہیں جن کی وجہ سے وضاحت کرنی پڑ رہی ہے۔ کیونکہ معاشرے میں عورتیں اور مرد زیادہ مکس اپ (Mixup) ہونے لگ گئے ہیں۔ اس سے کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ عورتوں کی مجلسوں میں بھی بیٹھنے کی اجازت مل گئی ہے اور بیویوں کی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھنے کی بھی کھلی چھٹی مل گئی ہے۔ خیال رکھنا بالکل اور چیز ہے اور بیوی کی سہیلیوں کے ساتھ دوستانہ کرلینا بالکل اور چیز ہے۔ اس سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ پھر بیوی تو ایک طرف رہ جاتی ہے اور سہیلی جو ہے وہ بیوی کا مقام حاصل کر لیتی ہے۔ مرد تو پھر اپنی دنیا بسا لیتا ہے لیکن وہ پہلی بیوی بیچاری روتی رہتی ہے۔ اور یہ حرکت سراسر ظلم ہے اور اس قسم کی اجازت اسلام نے قطعاً نہیں دی۔ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں شادی کرنے کی اجازت ہے یہاں ان معاشروں میں خاص طور پر احتیاط کرنی چاہئے۔ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، اُس بیوی کا بھی خیال رکھیں جس نے ایک لمبا عرصہ تنگی ترشی میں آپ کے ساتھ گزارا ہے۔ آج یہاں پہنچ کر اگر حالات ٹھیک ہو گئے ہیں تو اس کو دھتکار دیں، یہ کسی طرح بھی انصاف نہیں ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍جولائی ۲۰۰۴ء)

(مرسلہ: سیدہ منورہ سلطانہ۔ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button