احمدیت کا سفر۔ نو مبائعین کے واقعات کی روشنی میں
مسیح علیہ السلام نے جن مردوں کو زندہ کیا ان کے قصے تو ہم سنتے ہیں لیکن آج ان کا کوئی نام و نشان نہیں۔ پر مسیح محمدی کی شان ذرا دیکھیے کہ آج آپ کے خلیفہ کے ہاتھ پر جو مردے زندہ کیے جارہے ہیں وہ ہمارے سامنے موجود ہیں۔
وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔
اور(خدا تعالیٰ) انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اس رسول کو بھیجے گا) جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔ (الجمعہ:۴)
ابتدائیہ
جب سورۃ الجمعہ کی ان آیات کا نزول ہوا جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت کا ذکر ہے تو صحابہؓ کی ایک جماعت آپؐ کے گرد تشریف فرماتھی۔صحابہؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہؐ وہ کون لوگ ہیں جن میں آپ مبعوث ہوں گے جو ابھی ہم سے ملےتو نہیں لیکن وہ بھی ہماری ہی جماعت کا حصہ ہیں؟ اُس وقت اِس بابرکت مجلس میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا دست مبارک اِن خوش قسمت صحابی کے کندھے پر رکھا اور فرمایا:لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَا لَہٗ رَجُلٌ مِنْ ھَؤُلَاء۔یعنی اگر ایمان ثریا ستارہ تک بھی جا پہنچے تو ان کی قوم میں سے ایک شخص اسے واپس لائے گا۔
اور یوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی عظیم الشان پیشگوئی فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت راشدہ کابابرکت دور آیا اور پھر امت کو ایک اندھیر ےزمانہ نے ڈھانپ لیا جس میں بزرگان امت اور مجددین ملت آسمان میں ستاروں کی مانند اپنے اپنے محدود دائروں کو روشن کرتےرہے۔لیکن پھرآسمان میں اُس بدر کا طلوع ہوا جس نے عرب کے سراج منیر کے نور سے ایک مرتبہ پھر دنیا کو روشن کردیا۔ یعنی حضرت بانئ جماعتِ احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ قادیان سے چڑھنے والا یہ چاند وہی رجل فارس تھے جو ثریا ستارے کی دوریوں سے ایمان کو پھر دنیا میں واپس لے آئے۔آپ وہی تھے جن کے ہاتھ پر آخرین کی وہ جماعت دوبارہ قائم ہوئی جن میں صحابہؓ کا رنگ پایا جانا مقدر تھا۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اسلام کی احیائے نو کا کام شروع کیا تو مخالفین نے آپ کو نیست و نابود کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن یہ مرد میدان،یہ خدا کا شیر خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے اپنا الٰہی قافلہ ساتھ لیے خوفناک طوفانوں اورشدید آندھیوں کو چیرتا ہوا بالکل محفوظ آگے سے آگے بڑھتا گیا۔۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو لدھیانہ میں جب آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پہلی بیعت لی تو ۴۰ قدسی نفوس آپ کے پیچھے ہولیے لیکن خدائے عز و جل نے آپ کو فتح و ظفر کے ایسے ایسے پھل دیےکہ یہ مٹھی بھر جماعت حضرت اقدس کی نظروں کے سامنے ہی لاکھوں کی تعداد تک پہنچ گئی۔ آپ علیہ السلام نے چودہ سو سال کے بعد ایک مرتبہ پھر دنیا میں عظیم روحانی انقلاب برپا کردیا۔اور چونکہ اللہ تعالیٰ خود مختلف ذرائع سے سعید روحوں کی ہدایت کا سامان کرتا رہا اِن تمام تر مخالفتوں کے باوجود مخلوق خدا آپ کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہوتی گئی اور آپؑ کے بعد خلافت احمدیہ کے ہر دور میں اسی طرح مخلص احباب جماعت میں داخل ہوتے گئےاور آج بھی ہو رہے ہیں۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا تھا کہ یَنْصُرُکَ رِجَا لٌ نُوْحِیْ اِلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔یعنی تیری مدد کے لیے ایسے لوگ تجھے دیے جائیں گے جنہیں ہم آسمان سے وحی کریں گے۔
ہر دور میں نو مبائعین کو روکا گیا، ڈرایا گیا، دھمکایا گیا، انہیں شدید تکلیفیں دی گئیں، ان کو گھروں سے نکالا گیا، ان کے مال ان سے چھینے گئے حتی کہ ان کی جانیں بھی ان سے چھین لی گئیں۔ لیکن یہ بیعت کرنے والے جاں نثار، یہ شیریں پھل جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے انہوں نے اپنے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے دی۔اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت میں مخمور اِنہوں نے ہر دور میں قربانیوں کی ایسی مثالیں رقم کیں اور امام وقت سے جڑ کے اپنے اندر ایسا روحانی تغیر پیدا کیا کہ جن سے واقعی صحابہ کا زمانہ تازہ ہوگیا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے سچ فرمایا:
مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مَے ان کو ساقی نے پلا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی
پس آج ہم احمدیت کے اُس سفر کی داستان سنیں گے جس کا آغازقادیان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہوا۔ اور ان مخلص احباب کی ایمان افروز کہانیاں بھی جو ہر دور میں احمدیت قبول کرکےاس برق رفتار الٰہی کارواں کے ساتھ شامل ہوتے گئےاور اپنی زندگی و آخرت سنوارتے رہے۔ان میں سے ہر ایک کی کہانی مسیح دوراں کی صداقت کا زندہ نشان ہے اوراللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کا زبردست ثبوت ہے۔عاجز کا موضوع ہے:احمدیت کا سفر نو مبائعین کے واقعات کی روشنی میں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں بیعت کے واقعات
سامعین کرام! جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی حکم سے ماموریت کا دعویٰ کیا تو مختلف راستوں سے مخلوق خدا حقیقی اسلام کو پہچان کے آپ کی بیعت میں شامل ہوئی۔
۱۔ان میں حضرت منشی جلال الدین صاحبؓ بھی تھے جنہوں نے خواب میں حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت کی اور خواب میں ہی آپ علیہ السلام نے انہیں اپنا نام اور جائے قیام کا پتہ بتایا۔جس کے بعد آپ قادیان تشریف لائے اور بیعت سے مشرف ہوئے۔
۲۔حضرت مولوی حافظ فضل دین صاحبؓ بھی تھے جنہوں نے عیسائی مشن کی سرگرمیوں اور اسلام پر ان کے حملوں سے پریشان ہوکے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اشتہار آپ کی نظروں سے گزار دیا اور یوں آپ کو بیعت کی توفیق ملی۔
۳۔حضرت میاں محمد دین صاحب پٹواری بھی تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معرکہ آراءکتاب براہین احمدیہ پڑھنی شروع کی تو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر آپ کو کامل یقین ہوگیا۔آپ فرماتے ہیں:براہین کیا تھی آب حیات کا بحر ذخّار تھا…ایک نور خدا تھا جس کے ظہور سے ظلمت کافور ہوگئی… حضرت میاں محمد دین صاحب فرماتے ہیں کہ براہین احمدیہ پڑھتے ہوئے جب بالآخر حق ان پر کھلاتو اُس رات محویت کے عالم میں بہت لمبی نماز پڑھی اور یہ نماز براہین نے پڑھائی کہ بعد ازاں آج تک میں نے نماز نہیں چھوڑی۔فرماتے ہیں کہ یہ حضرت مسیح موعود ؑکے ایک عظیم معجزہ کا اثر تھا۔
۴۔حضرت مولوی قطب الدین صاحب بھی تھے جنہوں نے لدھیانہ کے ریلوے سٹیشن پر جب حضرت اقدس ؑکو گاڑی سے باہر تشریف لاتے دیکھا تو آپ کا چہرہ مبارک دیکھتے ہی آنکھیں پُر نم ہوگئیں، طبیعت نے پلٹا کھایا اور دل نے گواہی دی کہ یہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔حضرت میاں عبد اللہ صاحب سنوری بھی فرماتے ہیں کہ جب قادیان آیا تو کوئی دلائل نہیں سنے بلکہ میری ہدایت کا موجب صرف حضور کا چہرہ مبارک ہی ہوا۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مامور ہوئے تو آپؑ نے دنیا کو بتایا کہ خداصرف پرانے قصوں تک محدود نہیں بلکہ وہ حی و قیوم خدا آج بھی میرے ہاتھ پر تازہ بتازہ نشانات دکھاتا ہے۔ جو ان نشانات کا مشاہدہ کرنا چاہے وہ قادیان میں میرے پاس آکر ٹھہرے۔
پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو بہتوں کو ایک نیا خدا ملا، بہتوں کی عبادات کا رنگ ہی بدل گیا، بہتوں کو الٰہی معارف عطا ہونے لگے۔ اور یہی وہ باتیں تھیں جن کی وجہ سے دل آپ کی طرف پھرنے لگے اور آپ کی جماعت میں ایک بے مثال روحانی تغیر پیدا ہونے لگا۔
ایک موقع پر جب کسی نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ تو پہلے ہی ایک باکمال بزرگ تھے۔آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے کیا فائدہ ہوا؟ تو اس پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا مجھے حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے فائدے تو بہت ہوئے ہیں لیکن ایک فائدہ ان میں یہ ہوا کہ پہلے مجھے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی اب بیداری میں بھی ہوتی ہے۔(حیات نور، باب چہارم، صفحہ۱۹۴)
سبحان اللہ! اور یہی وجہ تھی کہ جب مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرکے حق کو پہچانا اور زندہ خدا کا مشاہدہ کیا تو آپ کے جاں نثاروں کی جماعت نے اس راہ میں ہر قربانی دی۔ جب مسیح موعودؑ کا دامن پکڑا تو ایمان کی روشنی سے ایسے منور ہوئے کہ آسمان میں چمکتے ہوئے ستارے بن گئے۔
حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہیدؓ
ان میں سے ایک ستارہ سرزمین افغانستان کے علاقہ خوست کے رہنے والے ایک صاحب الہام بزرگ تھے جن کے ہزاروں مرید تھے۔ آپ کی نظر سے جب حضرت اقدس کی بعض کتابیں گزریں تو آپ فوراً سمجھ گئے کہ یہ وہی موعود ہیں جن کا صدیوں سے امت کو انتظار تھا اور آپ نے مسیح آخرالزمان کو قبول کر لیا۔یہ تھے حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ۔
محبت اور عشق کے جذبات سے لبریز آپ قادیان چلے آئے اور قریباً تین ماہ تک اپنے آقا کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے۔لیکن آپ کو الٰہی اشاروں سےمعلوم ہوگیا کہ عنقریب آپ کو اپنی جان کی قربانی دینی ہوگی۔جب آپ اپنے وطن کے لیے روانہ ہونے لگے تو آپ پر سخت رقت طاری ہوگئی کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یہ آپ کی آخری ملاقات ہوگی۔آپ کے آقا کو بھی بذریعہ الہام اللہ سے خبر مل چکی تھی اس لیے حضرت اقدس علیہ السلام بھی آبدیدہ ہوگئے۔
واپس پہنچے تو امیر کابل نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو گرفتار کرلیا۔آپ کو انتہائی بھاری زنجیریں پہنائی گئیں اور ایسی مشکل قید میں ڈالا گیا جو در اصل موت سے بھی بد تر تھی۔امیر کابل بار بار پیش کش کرتا رہا کہ اگر توبہ کرلیں تو آپ کو عزت سے رہا کردیا جائے گا۔لیکن صاحبزادہ صاحب ہر بار یہی جواب دیتے کہ جب میں جان گیا ہوں کہ یہی مسیح موعود ہیں تو میں ہر گز کسی دنیاوی لالچ سے ایمان کو نہیں چھوڑ سکتا۔بالآخر امیر کابل کے فیصلہ پر ایک جم غفیر کے سامنے آپ کو کھینچ کے مقتل میں لایا گیا اور کمر تک زمین میں گاڑ دیاگیا۔امیر نے دوبارہ کہا کہ اگر آپ اب بھی توبہ کرلیں تو میں بچالوں گا۔ اپنی جان پر اور اپنے اہل و عیال پر رحم کریں۔لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب کا پہاڑوں جیسا عزم و استقلال۔آپ نے فرمایا کہ میں حق کا انکار ہر گز نہیں کرسکتا۔جان کی کیا حقیقت ہے۔ تب آپ کوانتہائی بےدردی سے سنگسار کر دیا گیا اور اس طرح آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔
حضرت اقدس علیہ السلام نےآپ کی شہادت پر فرمایا کہ ’’تخم کی طرح شہید مرحوم کا خون زمین پر پڑا ہے اور وہ بہت بار آور ہوکر ہماری جماعت کو بڑھاوےگا…شہید مرحوم نے مر کر میری جماعت کو ایک نمونہ دیا ہے اور در حقیقت میری جماعت ایک بڑے نمونہ کی محتاج تھی۔‘‘
سامعین کرام! آج بھی زمانہ کے امام کو قبول کرنے کے جرم میں دنیاکےمختلف ملکوں میں احمدیوں کو ظالمانہ طریق پر شہید کیا جا رہا ہے لیکن کیا اس سے جماعت کے قدم کبھی رکے ہیں؟ ہر گز نہیں۔مسیح محمدی کے وفا شعاروں نے باغ احمد کو جو اپنے خون سے سینچا تو ان کی قربانیوں کا پھل یہ ملا کہ ان جیسے ہزاروں لاکھوں مخلصین حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاءکو عطا کیے جارہے ہیں۔ اور احمدیت کا پیغام دُور دراز ملکوں میں بھی پہنچ رہا ہے اورہر رنگ و نسل کے لوگ اس الٰہی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔
خلافت احمدیہ کی روشن تاریخ
خلافت احمدیہ کی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ ہردور میں خدا تعالیٰ خود نو مبائعین کو احمدیت کی آغوش میں لاتارہا اور احمدیت کا قافلہ بھی خلافت کی شاندار قیادت میں ترقیات کی منازل طے کرتا ہوا فتوحات کے نئے ابواب میں داخل ہوتا رہا۔
جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو اخبارات میں بڑی تحدی سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ اب یہ سلسلہ تباہ ہوجائے گا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے جماعت مومنین کو حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر وحدت کی مضبوط لڑی میں پرودیا۔نظام خلافت کو ختم کرنے کے لیے خطرناک سازشیں کی گئیں لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے تمام اندرونی اور بیرونی حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف نظام خلافت کا حقیقی ادراک بخشا بلکہ مختلف علاقوں میں تبلیغی وفود بھیجےاور کثرت سے لوگ جماعت میں شامل ہوتے رہے۔
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بھی اس جائے فانی سے کوچ کرگئے تو ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت کا خوف امن میں بدل دیا اورحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے گرد جماعت کو جمع کردیا۔مخالفین نے کہا اب تو لازماً جماعت کا شیرازہ بکھر جائے گا کیونکہ ایک پچیس سالہ نوجوان کے ہاتھ میں جماعت کی باگ ڈور تھمادی گئی ہے۔لیکن اس نوجوان کو خدا ئے قادر مطلق نے خلیفہ بنایا تھا نہ کسی انسان نے۔اس نوجوان کے نصف صدی پر محیط دورخلافت کا ایک ایک دن معجزہ سے کم نہیں۔آپ بھی کاروانِ احمدیت کو ترقیات کی شاہراہوں پر گامزن رکھا۔ نظارتوں کا قیام، ذیلی تنظیمیں،تحریک جدید، وقف جدید، مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم، آپ کے دروس القرآن اور ہزاروں صفحات پر محیط ہر موضوع پر آپ کے لیکچر اور کتب کا ایک بے نظیر علمی خزانہ پھر دُور دراز ممالک میں تبلیغ اسلام۔ آپ کے دور خلافت میں بھی ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں نومبائعین بیعت کرکے جماعت میں داخل ہوئے۔
اس کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ ایسے وقت میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے کہ عیسائی پادری انتہائی متکبرانہ طریق پر یہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ افریقہ کو فتح کر لیں گے۔ اُس وقت حضور رحمہ اللہ نے افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لیے وسیع پروگرام بنایا اور شرک کی ہواؤں کا رخ بدل گیا اور اسلام احمدیت کا جھنڈا افریقہ کے دشت و صحرا میں لہرانے لگا۔نصرت جہاں سکیم کے تحت غریبوں کے لیے سکول اور ہسپتال بنائے گئے اور مغربی دنیا میں بھی آپ نے اسلام کی برتری ثابت کی۔پھر ۱۹۷۴ء کے پرخطر حالات میں آپ کے زیر سایہ جماعت ہر سازش سے محفوظ رہی۔مخالفین نے سوچا تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر وہ اس کی ترقی کو روک دیں گے، لیکن کیا وہ اس میں کامیاب ہوسکے؟بالکل نہیں۔ زمینی ایوانوں میں قانون سازی کرنے والےآسمان کا قانون بھول گئے تھے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے لکھ چھوڑا ہے کہ وہ اور اس کا رسول ہی غالب آئیں گے۔پس جیسے جیسے مخالفت کی آگ اس الٰہی جماعت کے خلاف بھڑکتی گئی اُسی قدر جماعت بھی بڑھتی گئی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا طاہر احمدصاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو خلافت کی ردا پہنائی۔ایک جابر حکمران نے فرعون زمانہ بن کر جب یہ دعویٰ کیا کہ وہ نعوذ باللہ احمدیت کو جڑ سے اکھاڑ دے گا تو اللہ تعالیٰ نے آسمان کی بلندیوں میں اسی کی دھجیاں اڑادیں یہاں تک کہ اس کی لاش بھی نہیں مل سکی۔ اور دوسری طرف حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جب ایم ٹی اے کا آغاز فرمایا تو اِنہیں آسمان کی فضاؤں کے ذریعہ خلیفۃ المسیح ہر گھر میں نازل ہونے لگے اور تبلیغ احمدیت کے ایک نئے سنہری دور کا آغاز ہوا۔ کیمرہ کی آنکھ نے عالمی بیعت کی تقریب میں ہر سال دنیا کو دکھا دیا کہ کس طرح لاکھوں کی تعداد میں نئے شاملین جماعت کا حصہ بنتے رہے۔ایم ٹی اے پر کبھی ہمارے آقا دل سوز آواز میں تلاوت قرآن فرماتےیا کبھی خطبات سے تشنہ دلوں کی پیاس بجھاتے، کبھی اردو کلاسوں میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ آپ کی دلربا ہنسی اور مسکراہٹ ہر دل کو باغ باغ کر دیتی، تو کبھی سوال و جواب کی مجالس میں علم و معرفت کے موتی بکھیر دیتے۔دنیا میں پھیلے ہوئے لوگ جو یوں تو خلیفہ وقت سے ملاقات نہیں کر سکتے تھے ان کی ہر روز ملاقات ہونے لگی اور اس عظیم مرد خدا کا چہرہ دیکھ کے اس کی باتیں سن کے بہتوں نے قبول احمدیت کی سعادت پائی۔
پھر ہماری خوش بختی کہ وہ وقت بھی آیا جب قدرت ثانیہ کے پانچویں مظہر آسمان میں چاند کی طرح طلوع ہوئے اور ایک مرتبہ پھر خوف کے اندھیروں میں امن کے اجالے نصیب ہوئے۔ہمیشہ کی طرح مخالفین نے سوچا کہ اب احمدیت کا قافلہ رک جائے گا۔لیکن وہ خدا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد باسعادت میں خود آسمانی اشاروں سے حق کے پیاسوں کو قبول احمدیت کی توفیق دیتا رہا اسی نے خلافت خامسہ میں بھی لاکھوں کی تعداد میں نو مبائعین کو ہمارے آقا اور امام حضرت مرزا مسرور احمدصاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ پر جمع کردیا۔اور خدا تعالیٰ نے اپنی فعلی شہادت سے ثابت کردیا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس جماعت کے قدم نہیں روک سکتی، کیونکہ اس قافلہ کا رہبر خدا کے قائم کردہ خلیفہ ہیں۔
نو مبائعین کے واقعات
سامعین کرام! اس دور میں نومبائعین کے بےشمار ایسے واقعات ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ وہ خدا جو پہلے زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں آسمانی نشانات کا ظہور فرماتا وہ آج بھی خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے تازہ بتازہ نشانات دکھا رہا ہے۔
فرانس سے ایک دوست کہتے ہیں کہ ایک رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس میرے گھر میں تشریف فرما ہیں اور مجھے نصائح فرما رہے ہیں۔اسی دوران میرے والد مرحوم نے دروازے پر دستک دی اور جب میں نے انہیں سامنے کھڑے دیکھا تو کہنے لگے دیکھو بیٹا یہ شخص جو تمہارے گھر میں بیٹھے ہیں یہ اللہ کا صحیح پیغام دینے والے ہیں۔تم ان کے پیچھے چل پڑو۔میں نے خواب میں ہی والد صاحب کو کہا کہ میں تو ان کو جانتا بھی نہیں جس پر والد صاحب نے کہا کہ ان کی ایک جماعت ہے جو اب تمام دنیا میں پھیل چکی ہے۔تم ان کے ساتھ چل پڑو اور بیعت کرلو۔جس پر موصوف نے بیعت کرلی۔
احمدیوں کے اچھے اخلاق سے متاثر ہوکے بھی نومبائعین جماعت میں داخل ہوتے ہیں۔ہنڈورس کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک تبلیغی سفر کے دوران Max صاحب کے ساتھ رابطہ ہوا۔وہ اور ان کے دوست جب مبلغ سے ملنے آئے اور مختلف سوالات کے جوابات دئے گئے تو Max صاحب کے دوست نہایت بد اخلاقی سے پیش آئےاوراٹھ کے چلے گئے مگر موصوف خود بیٹھے رہے اور بات چیت جاری رکھی۔اگلے دن انہوں نے بیعت کرلی اور جب ان سے بیعت کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے کہ کل جب میرے دوست نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا تو آپ لوگوں نے بالکل بھی سخت جواب نہیں دیا اور اس کی دل آزار باتیں خاموشی سے سنتے رہے۔میں اس وجہ سے بہت متاثر ہوا ہوں نیز حق بھی مجھ پر کھل گیا ہےاس لیے اب میری بیعت قبول کریں۔(الفضل، ۲۲؍مارچ ۲۰۱۹ء،صفحہ ۵۹)
فلپائن سے حسن البانی صاحب کا ایک واقعہ ہے۔بیعت سے قبل تحقیق کے دوران ایک روز جمعہ کی صبح کو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ اگر یہ جماعت سچی ہے تو مجھے بارش کا نشان دکھا کیونکہ بارش تیری رحمت کا نشان ہے۔ ابھی یہ دعا کر ہی رہے تھے کہ شدید بارش شروع ہوگئی اور اس قدر ہوئی کہ مسجد جانا مشکل ہوگیا۔جب ایسا ہواتو انہوں نے خدا تعالیٰ سے بارش رک جانے کی دعا کی۔پھر خدا کا تصرف دیکھئے کہ معجزانہ رنگ میں بارش رک گئی اور اس نشان کو دیکھنے کے بعد اسی دن حسن صاحب نے بیعت کر لی۔(الفضل، ۸؍نومبر ۲۰۲۲ء، صفحہ۱۴)
پس یہ ہے مسیح موعود علیہ السلام کی اعلیٰ و ارفع شان کہ آسمان میں بادل بھی زبان حال سے آپ کی صداقت کا اعلان کرتے ہیں کہ جاء المسیح جاء المسیح۔
مراکش سے الحسنی صاحب لکھتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہدایت کا ارادہ کیا تو انہیں ایم ٹی اے کا پتہ چلا۔جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی قصائد سنتے تو دل گواہی دیتا کہ یہ کلام کسی عام انسان کا نہیں ہوسکتا۔یہ تو دل میں اترنے والا کلام ہے۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ احمدیت میں داخل ہوگیا۔(الفضل، ۱۵؍ستمبر۲۰۲۰ء،صفحہ۱۴)
عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی ایک رشین خاتون جو اپنے مذہب پر دلی اطمینان محسوس نہیں کرتی تھیں۔انہیں جب اسلام احمدیت کا تعارف کروایا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی دی گئی تو کہنے لگیں کہ مذہب کے بارہ میں میرےجتنے سوالات تھے مجھے ان کے جوابات مل گئے ہیں اور مجھے تسلی ہوگئی ہے کہ واقعی اسلام حقیقی اور سچا مذہب ہے۔اس کے بعد انہوں نے مزید جماعتی کتب کا مطالعہ کیا اور اسلام کی صداقت پر ان کا ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔یہاں تک کہ موصوفہ قادیان بھی گئیں اور بیعت بھی کرلی۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ستمبر ۲۰۱۴، صفحہ ۵)
بےشمار واقعات ایسے ہیں جن میں ہر رنگ و نسل کے لوگ یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب پڑھی اور آپ کے کلام نے ہماری روح پر ایسے گہرے نقوش چھوڑ دیے کہ ہمارا دل یہ گواہی دینے پر مجبور ہوگیا کہ یہ شخص خدا کا فرستادہ ہے،کسی عام انسان کا یہ کلام ہو ہی نہیں سکتا۔ پس جو بھی تعصب سے پاک ہوکےبراہ راست مسیح موعود علیہ السلام کا کلام پڑھتاہے (یہ نہیں کہ مخالف علماء کی زبانی سن لیا) وہ لازماً آپ کی صداقت کا قائل ہوجاتا ہے۔کیونکہ جو روحانی معارف آپ کی کتب میں موجود ہیں وہ اپنی دلیل آپ ہیں۔ہمارے مخالفین ہمیں کافر کہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ سچے ہیں اور ہم جھوٹے تو پھر کیوں جماعتی لٹریچر، پروگراموں اور ویب سائٹوں پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں؟
تیونس سے منیہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے اسلامی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے لیکن دوسرے مسلمانوں کے حیات مسیح اور دجال کے متعلق عجیب و غریب عقائد سے ہمیشہ الجھن رہتی۔میں پریشان تھی اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرتی۔ایک روز چینل بدلتے ہوئے ایم ٹی اے مل گیا۔ایک پادری کے ساتھ وفات مسیح پر بحث چل رہی تھی لیکن دوسرے چینلز کے برعکس میزبان اور شرکاء کی گفتگو بڑی پُروقار تھی۔میں ایم ٹی اے باقاعدگی سے دیکھتی رہی اور معلوم ہوا کہ مسیح موعود ظاہر ہوگئے ہیں۔بس پھر دل نے سچائی کو پہچان لیا اور انہوں نے بیعت کرلی۔(خطبہ جمعہ، ۱۲؍ستمبر۲۰۱۴ء)
سامعین کرام! آپ یقین جانیئے ایم ٹی اے اللہ تعالیٰ کی ایک انمول نعمت ہے اور احمدیت کی ترقیات کے سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ نہ صرف احمدیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے انتہائی مفید ہے بلکہ غیر وں کے لیے بھی ہدایت کا سامان ہے۔کیونکہ ایک طرف تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا روح پرور کلام اور آپ کی تعلیمات بیان کی جاتی ہیں جو خودبخود دلوں میں اترتی ہے۔ اور دوسری طرف اس چینل کی زینت اور محور حضرت خلیفۃ المسیح ہیں جن کے لبوں سے نکلا ایک ایک لفظ مجسم تبلیغ ہے۔
بیعت کے بعد اللہ تعالیٰ نو مبائعین کو اپنی تائید و نصرت کے نشانات بھی دکھاتا ہے۔ انڈیا سے ظہور الحق صاحب لکھتے ہیں کہ جب ۲۰۱۶ء میں اللہ تعالیٰ نے بیعت کی توفیق دی تو آپ کے خلاف شدید مخالفت شروع ہوگئی۔ ایک دن مخالفین اکٹھے ہو کر مجھے مارنے اور توبہ کروانے کے لیے نکلے لیکن خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس دن شدید زلزلہ آیا اور جو لوگ مجھے مارنے اور توبہ کروانے کے لیے آنے والے تھے ان لوگوں کا بہت نقصا ن ہوا اور وہ مجھ تک پہنچ ہی نہیں سکے۔(الفضل، ۲۲؍مارچ ۲۰۱۹ء،صفحہ۶۴)
اسی طرح انڈونیشیا میں ایک سادہ سے احمدی جو فیکٹری میں مزدوری کرتے تھے انہیں جب احمدیت کی سچائی معلوم ہوگئی تو انہوں نے بیعت کرلی۔ ان کی فیکٹری کے افسر کو جب پتہ چلا تو اس نے کہا یا تو احمدیت چھوڑ دو یا فیکٹری چھوڑ دو۔تو اس نو مبائع نے مضبوط ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں احمدیت کا انتخاب کرتا ہوں اور انہوں نے اس بات کی پرواہ نہ کی کہ ملازمت سے نکالے جانے کے بعد وہ گزارہ کیسے کریں گے۔اب خدا کی تقدیردیکھیئے کہ کچھ ماہ بعد وہ فیکٹری دیوالیہ ہوگئی اور دوسری طرف اس نو مبائع نے اپنی فیکٹری لگالی۔تو اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو نشان دکھایا۔ (الفضل، ۷؍ستمبر ۲۰۲۱ء،صفحہ ۱۳)
نومبائعین کی ایک بھاری تعداد ہے جو خلیفہ وقت کے قبولیت دعا کے نشانات سے بیعت کی سعادت پانے والی ہے۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والی ایک نو احمدی خاتون نادیہ صاحبہ نے حضور انور سے ملاقات میں اپنی والدہ کی کینسر کی بیماری کے لیے دعا کی درخواست کی جس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ صحت دے گا اور فضل کرے گا اور حضور انور نے ان کی والدہ کے لیے ایک الیس اللہ کی انگوٹھی بھی دی جو ان کی والدہ نے پہن لی۔کچھ عرصہ بعد جب ان کی والدہ چیک اپ کے لیے گئیں تو ڈاکٹر زنے کہا کہ اب ان کو کسی قسم کے ٹیسٹ یا chemotherapy کی ضرورت نہیں۔کیونکہ ان کی صحت اب کینسر ہونے سے پہلے کی صحت سے بھی زیادہ بہتر ہوگئی ہے۔ اس معجزانہ شفا نے سارے خاندان کے دلوں پر ایسا گہرا اثر چھوڑا کہ ۳۶ا؍فراد پر مشتمل یہ سارا خاندان بیعت کرکے احمدیت کی آغوش میں آگیا۔
سامعین کرام! مسیح علیہ السلام نے جن مردوں کو زندہ کیا ان کے قصے تو ہم سنتے ہیں لیکن آج ان کا کوئی نام و نشان نہیں۔ پر مسیح محمدی کی شان ذرا دیکھیے کہ آج آپ کے خلیفہ کے ہاتھ پر جو مردے زندہ کیے جارہے ہیں وہ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ کیا یہ نظارے، یہ معجزات، دنیا میں کہیں اور نظر آتے ہیں؟ اگر ہیں تو کوئی دکھائے تو صحیح۔ نہیں ہیں اور کبھی نہیں ہوسکتے۔پس آج ہر قسم کی زندگی خواہ روحانی ہو یا جسمانی صرف اور صرف مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوکے خلافت احمدیہ کو تھام کے مل سکتی ہے۔اور آج وہ مقدس وجود، خدا کی قدرت کے مظہر، زندگی کی روح جوہم میں موجود ہیں، ان کی شان میں اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اِنِّیْ مَعَکَ یَا مَسْرُوْر یعنی اے مسرور! میں تیرے ساتھ ہوں۔اور ہم نے بارہا قدم قدم پر اپنے آقا کی تائید و نصرت میں یہ الہام پورا ہوتے بھی دیکھا ہے۔ پس جب تک ہم اپنے امام کا دامن پکڑ کے رکھیں گے اور اپنی اولادوں کو یہ سبق دیتے رہیں گے کہ خلیفہ وقت سے وابستہ رہنے میں ہی ہماری زندگی ہے، تو کوئی دشمن ہمیں ایک ذرہ بھر بھی نقصاں نہیں پہنچا سکے گا۔
ہالینڈ میں پیدا ہونے والے ایک نوجوان کا واقعہ بھی سننے سے تعلق رکھتا ہے۔انہیں اللہ تعالیٰ نے جب بیعت کی توفیق دی تو والدہ بے حد پریشان ہوئیں کہ نہ جانے کس اسلامی فرقہ میں ان کا بیٹا شامل ہوگیا ہے۔اسی پریشانی کی عالم میں والدہ نے اسی رات خواب دیکھی کہ ان کا بیٹا زمین پر ادب سے بیٹھا ہے اور ایک حسین و جمیل شخص اس کے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھے خوشنودی کااظہار کر رہے ہیں۔والدہ نے بیدار ہوکے جب یہ خواب بیٹے کو سنائی تو اس نے خلفاء اور حضرت اقدس علیہ السلام کی تصاویر دکھانی شروع کیں اورجب مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر پر پہنچا تو والدہ نے کہا یہی وہ بزرگ تھے جنہیں کل رات خواب میں دیکھا تھا۔لیکن اس پر بس نہیں۔والدہ نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے کہا کہ تمہاری پیدائش سے قبل بھی میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک جگہ گند میں ڈوبی جارہی ہوں اور یہی وہ بز رگ ہیں جو مجھے اس گند میں ڈوبنے سے بچاتے ہیں۔کہنے لگیں یقیناً یہ خدا کے بزرگ سچے ہیں۔آج میں بھی بیعت کرتی ہوں۔
پس اس زمانہ میں اگر ہم دنیا کی آلائشوں اور اس کے اندھیروں سے نجات چاہتے ہیں تو یہی ایک راہ ہے :
احمدیت یعنی حقیقی اسلام
دنیا کے دُور دراز علاقوں میں، ہر رنگ و نسل کے لوگوں میں احمدیت کا پیغام پہنچنا، خود خوابوں کے ذریعہ مسیح موعود اور آپ کے خلفاء کے نورانی چہروں کو دیکھنا، اور شدید مخالفتوں کے باوجود جماعت کی غیر معمولی ترقی اور مقبولیت، کیا یہ انسانی کوشش ہو سکتی ہے؟
یقیناً یہ خدا کا الٰہی سلسلہ ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! یہ خداتعالیٰ کی رحمت ہے کہ تم میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو۔
پس ہم نے کبھی بھی خدا کا یہ احسانِ عظیم بھولنا نہیں۔اگر آج ہم اس ثمر دار درخت کا حصہ نہ ہوتے تو نہ جانے کہاں اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بدگمانی سے دُور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔ اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں۔ جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔ مگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے۔ اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔ مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خداتعالیٰ کا ایک بندئہ مطیع بن جاتا ہے۔ ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور میں اس میں ہوں۔‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد۳صفحہ۳۴)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
صدق سے میری طرف آؤ اِسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
٭…٭…٭
نومبائعین کے ایک گروپ کی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات