صلح حدیبیہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز دنیا کے حالات کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍ نومبر۲۰۲۴ء
٭… اگر مَیں اِن کے مقابلے میں آکر مِٹ گیا توقصّہ ختم ہوا لیکن اگرخدا نے مجھے فتح عطا کی اور میرے لائے ہوئے دین کوغلبہ حاصل ہو گیا توپھر مکّہ والوں کوبھی ایمان لے آنے میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے
٭… حضرت عثمانؓ کو ذاتی طور پر طوافِ بیت الله کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ
یہ ممکن نہیں کہ رسول اللہؐ تو مکّہ سے باہر روکے جائیں اورمَیں طواف کروں
٭… صحابہؓ بیعت کے لیے اِس طرح لپکے کہ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے اور اِن چودہ پندرہ سَو مسلمانوں کا ایک ایک فرد کہ یہی اِس وقت اسلام کی جمع پونجی تھی، اپنے محبوب آقا کے ہاتھ پر گویا دوسری دفعہ بک گیا
٭… دنیا کے حالات کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک
٭…اللہ تعالیٰ احمدیوں اور امن پسند لوگوں کو جنگ کے بد اثرات سے محفوظ رکھے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۲؍ نومبر۲۰۲۴ء بمطابق ۲۲؍نبوت۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۲؍ نومبر۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صلاح الدین صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایاکہ
حدیبیہ کے بارے میں بیان ہو رہا ہے۔
اِس بارے میں بُدَیْل بن وَرْقَا خُزَاعی اور دیگر قریش کے قاصدوں کا رسولِ کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔
اِس کی تفصیل میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی الله عنہ نے یوں بیان کیا ہے کہ جب آنحضرتؐ نے حدیبیہ کی وادی میں پہنچ کر قیام فرمایا تو اِس وادی کے چشمہ کے پاس قیام کیا۔ جب صحابہؓ اِس جگہ ڈیرے ڈال چکے توقبیلہ خزاعہ کاایک نامور رئیس بُدَیْل بن وَرْقَا نامی، جوقریب ہی کے علاقےمیں آباد تھا، اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آنحضرتؐ کی ملاقات کے لیے آیا اور اِس نے آپؐ سے عرض کیا کہ مکّہ کے رؤسا ءجنگ کے لیے تیار کھڑے ہیں اور وہ کبھی بھی آپؐ کو مکّہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ آپؐ نے فرمایا کہ
ہم تو جنگ کی غرض سے نہیں آئے بلکہ صرف عمرہ کی نیّت سے آئے ہیں
اور افسوس ہے کہ باوجود اِس کے کہ قریش مکّہ کو جنگ کی آگ نے جلاجلا کر خاک کررکھا ہے مگر پھر بھی یہ لوگ باز نہیں آتے اور مَیں تو اِن لوگوں کے ساتھ اِس سمجھوتہ کے لیے بھی تیار ہوں کہ وہ میرے خلاف جنگ بند کر کے مجھے دوسرے لوگوں کے لیے آزاد چھوڑ دیں۔ لیکن اگر اُنہوں نے میری اِس تجویز کو بھی ردّ کردیا اور بہرصورت جنگ کی آگ کوبھڑکائے رکھا تو مجھے بھی اُس ذات کی قَسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ پھر مَیں بھی اِس مقابلہ سے اُس وقت تک پیچھے نہیں ہٹوں گا کہ یا تو میری جان اِس رستہ میں قربان ہو جائے اور یا خدا مجھے فتح عطا کرے۔ اگر مَیں اِن کے مقابلے میں آکر مِٹ گیا توقصّہ ختم ہوا لیکن اگرخدا نے مجھے فتح عطا کی اور میرے لائے ہوئے دین کوغلبہ حاصل ہو گیا توپھر مکّہ والوں کوبھی ایمان لے آنے میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے۔
بُدَیْل بن وَرْقَا پر آپؐ کی اِس مخلصانہ اور دردمندانہ تقریر کا بہت اثر ہوا اَور اِس نے آپؐ سے عرض کیا کہ آپؐ مجھے کچھ مہلت دیں کہ مَیں مکّہ جا کر آپؐ کاپیغام پہنچاؤں
اور مصالحت کی کوشش کروں۔ آپؐ نے اجازت دے دی اور بُدَیْلاپنے قبیلے کے چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر مکّہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
بُدَیْل بن وَرْقَا نے مکّہ پہنچ کر قریش کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح کی تجویز سے آگاہ کیا۔ جوشیلے افراد نے انکار کیا، لیکن اہل الرّائے اور ثقہ لوگوں نے تجویز سننے کی اجازت دی۔ چنانچہ بُدَیْل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تجویز کااعادہ کیا۔اِس پر ایک شخص عُروہ بن مسعودنامی جو قبیلہ ثقیف کا ایک بہت بااثر رئیس تھا، نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ
اِس شخص محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ کے سامنے ایک عمدہ بات پیش کی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اِس کی تجویز کوقبول کر لیں
اور مجھے اجازت دیں کہ مَیں آپ کی طرف سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جا کر مزید گفتگو کروں۔اُس نے آنحضرتؐ کومتنبہ کیا کہ اگر آپؐ نے اپنی قوم کو جنگ میں تباہ کر دیا تو عربوں میں ایسا ظلم کسی نے نہیں کیا ہوگا اور اگر قریش غالب آ گئے تو آپؐ کے ساتھی آپؐ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور اگر آپؐ نے قریش سے جنگ کی تو یہ آپؐ کو قریش کے حوالےکر دیں گےاور وہ آپؐ کو قیدی بنا لیں گے تو پھر اِس سے زیادہ کون سی چیز سخت ہو گی؟ توحضرت ابوبکرؓ جو آپؐ کے پیچھے بیٹھے تھے، وہ غصّے ہوگئے اور کہنے لگے کہ اپنے بُت لات کو چومتے پھرو یعنی اُس کی پوجا کرو، یہ باتیں ہم سے نہ کرو تم!کیا ہم آپؐ کو چھوڑ جائیں گے؟
توعُروَہ نے کہا کہ یہ کون ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ یہ ابوبکرؓ ہیں۔ تو اُس نے کہا کہ الله کی قسم! اگر مجھ پر تیرا ایک احسان نہ ہوتا تو مَیں اِس کا ضرور جواب دیتا۔ کسی زمانہ میں عُرْوَہ پر
حضرت ابوبکرؓ کا احسان بھی تھا اورآپؓ نے ایک مرتبہ دیّت کی ادائیگی میں اُس کے تعاون مانگنے پر دس اونٹ دے کر تعاون کیا تھا۔
پھر وہ آنحضرتؐ سے باتیں کرنے لگا اور جب بات کرتا تو آپؐ کی داڑھی کو ہاتھ لگاتا۔ حضرت مغیرِہ بن شعبہؓ آنحضرتؐ کے پاس تلوار لے کر کھڑے تھے اور اپنے سر پر خَود پہن رکھا تھا، عُروہ بات کرنے کے لیے آگے بڑھا، پھر اُس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ آپؐ کی داڑھی مبارک کو ہاتھ لگائے تو حضرت مغیرِہؓ نے اپنی تلوار کے کونے سے اُس کو ہٹا دیا اور کہا کہ رسول اللهؐ کی داڑھی سے اپنے ہاتھ کو روکو قبل اِس کے کہ تلوار تم تک پہنچے کیونکہ کسی مشرک کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ آپؐ کی داڑھی کو چھوئے۔
پھر عُروہ نبیٔ کریمؐ کے صحابہؓ کو غور سے دیکھنے لگا، جب بھی رسول اللهؐ تھوکتے تو صحابہؓ اُس کو ہاتھ پر لے لیتے اور پھر اُس کو اپنے چہرے اور سینے پر مَلتے۔جب آپؐ صحابہؓ کو کسی چیز کا حکم دیتے تو صحابہؓ فوری طور پر اُس کو بجا لاتے۔
جب آپؐ وضو کرتے تو صحابہؓ وضو کے پانی کو حاصل کرنے کے لیے ٹوٹ پڑتے، کسی بال کو بھی نیچے گرنے نہیں دیتے تھے بلکہ اِس کو ہاتھ میں حاصل کر لیتے اور آپؐ کے سامنے اپنی آواز کو نیچا رکھتے تھے
اور آپؐ کی تعظیم کی وجہ سےآپؐ کو ترچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتے تھے۔ جب وہ آپؐ سے باتیں کرنے سے فارغ ہوا تو آپؐ نے اُس سے بھی وہی بات کہی جو بُدَیْل بن وَرْقَا سے کہی تھی اور ایک مدّت تک صلح کی تجویز پیش کی۔ پھر وہ قریش کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ
اَے میرے لوگو! مَیں سفارت کے لیے بادشاہوں کے درباروں، قیصروکسریٰ اور نجاشی کے دربار میں گیا ہوں۔ الله کی قسم! مَیں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا، جس کی ایسی اطاعت کی جائے، جیسی محمد(صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت گزاری اُس کے صحابہؓ میں ہوتی ہے۔
حضور انور نے تبصرہ فرمایا کہ کہاں تو وہ آیا تھا آنحضرتؐ کو کافروں سے ڈرانے کے لیے اور کہاں جب یہ نظارے دیکھےتو متأثر ہو کر گیا اور یہی بات پھر اُس نے جا کے اُن کافروں کو بھی بتائی۔پھراُس نے اپنا وہ سارا مشاہدہ بیان کیا جو اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں دیکھا تھا اور کہنے لگا کہ
اُس نے تم پر ایک بھلائی کی بات پیش کی ہے، لہٰذا اُسے قبول کر لو اور تم خوب جان لو کہ اگر تم نے اُس کے ساتھ تلوار کا ارادہ کر لیا تو وہ بھی تلوار کو تمہارے خلاف استعمال کریں گے
اور جب تم اُن کے صاحب کو روک دو گےتو مَیں نے اِس قوم کو دیکھا ہے کہ وہ اِس بات کی بالکل پروا نہیں کریں گے کہ اُن کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ الله کی قسم! مَیں نے اُس کے ساتھ ایسی عورتیں بھی دیکھی ہیں جو اُس کو ہمارے سپرد نہیں کریں گی۔ اَے میری قوم! اپنی رائے کو بدل لو اور اُس کے پاس جاؤ اور تم وہ چیز قبول کر لو جو وہ تمہارے سامنے رکھتے ہیں یعنی آنحضرتؐ نے جو صلح کی تجویز پیش کی ہے یا عمرہ کی بات کی ہے اُسے مان لو۔ مَیں تمہارا خیر خواہ ہوں۔اِس کے ساتھ مجھے یہ خوف بھی ہے کہ تمہاری مدد اُس شخص کے خلاف نہیں کی جائے گی جو بیت الله کی زیارت کے لیے آیا ہے۔اُس کے پاس قربانی کے جانور ہیں، جن کو وہ ذبح کریں گے اور پھر لَوٹ جائیں گے۔
پھر حلیس بن علقمہ کنانی ، اَحَابیش(قریش کے حلیف قبائل اور اُنہوں نے حبشی نامی پہاڑی کے دامن میں حلف لیا تھا، اِس لیے اُن کواَحَابیش کہتے ہیں) کے سردار نے کہا کہ مجھے آنحضرتؐ کے پاس جانے دو۔ تو قریش نے کہا کہ جاؤ۔ جب اُس نے رسول اللهؐ کو بلندی سے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص ہے جو ایسے قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے جو قربانی کے جانوروں کا احترام کرتے ہیں اور صحابہؓ کو فرمایا کہ اِسے دکھانے کے لیے قربانی کے جانور آگے گزارو۔ ایسا کرنے پر جب اُس نے وادی کے کنارے ایسے جانوروں کو دیکھا کہ جن کی گردن میں زیادہ عرصہ ہار رہنے کی وجہ سے گردن کے بال جھڑ چکے تھے۔ وہ جانور بار بار آواز نکال رہے تھے۔ صحابہؓ نے تلبیہ کہتے ہوئے اُن کااستقبال کیا اور وہ آدھے مہینے سے یہاں مقیم تھے اور کوئی خوشبو نہیں لگائی ہوئی تھی اور بال بھی پراگندہ تھے۔ جب اُس نے یہ دیکھا تو کہا کہ سبحان الله! اِن لوگوں کے لیے مناسب نہیں کہ وہ بیت الله سے روکے جائیں۔ کہنے لگا کہ الله تعالیٰ نے اِس بات کی اجازت نہیں دی کہ لخم، جُذَام، قندہ اور حمیر قبائل تو حج کریں اور عبدالمطلب کے بیٹےکو بیت الله سے روکا جائے۔ ربِّ کعبہ کی قسم! قریش ہلاک ہو جائیں گے، بے شک یہ لوگ عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ باتیں سن کر
آپؐ نے فرمایا! الله کی قسم! اَے بنو کنانہ کے بھائی، بالکل ایسی ہی بات ہے۔قریش نے اِس تمام احوال کے بیان کرنے پر اُسے اعرابی قرار دیتے ہوئے اُس کے مشاہدہ کو نعوذ بالله! آنحضرتؐ کا مکر وفریب قرار دیا۔
اِس سفر میں حضرت کعب بن عُجرہ کے لیے تکلیف کی صورت میں احرام کی حالت میں سر منڈوانے کی رخصت کا بھی ذکر ملتا ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ قریش سے اجازت لے کر مختلف لوگ بطورِ سفیر آنحضرتؐ کے پاس آتے تھے، اِن میں مِکْرَزْ بن حَفْصکا بھی ذکر ملتا ہے۔ جب یہ آیا تو رسول اللهؐ نے اُسے دیکھ کر فرمایا کہ یہ ایک دھوکے باز شخص ہے اور روایت میں فاجرکا لفظ بھی ملتا ہے۔ نیز آپؐ نے اُس سے بھی وہی بات کی جو عُروہ اور بدیل سے کی تھی۔ پھر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لَوٹ گیا اور اُن کو اِن باتوں کی خبر دی جو آپؐ نے اُس سے کی تھیں۔
رسول اللهؐ کا اِس معاملے میں بطور اپنے سفیر حضرت خِرَاش بن اُمَیَّہکو قریش کی طرف بھیجنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ رسول اللهؐ نے اپنے اونٹ ثَعلب پر آپؓ کو قریش کی طرف بھیجا تاکہ قریش کے لوگوں تک وہ پیغام پہنچا دیں جس کے لیے وہ آئیں ہیں۔ تو
عِکرمہ بن ابی جہل نے اونٹ کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اِن کے قتل کا بھی ارادہ کیا مگر اَحابیش نے روک دیا اور حضرت خراشؓ کو جانے دیا اور وہ رسول اللهؐ کے پاس واپس آ گئے اور جو اِن کے ساتھ ہوا تھا، وہ آپؐ کو بتا دیا۔
بہرحال قریش نقصِ امن کی صورتحال پیدا کرتے رہے لیکن آنحضرتؐ درگزر فرماتے رہے۔قریش مکّہ نے جوش میں آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ پر حملے کا ارادہ کیا۔ اُنہوں نے چالیس پچاس آدمیوں (بعض روایات کے مطابق اسّی افراد) کی ایک پارٹی حدیبیہ بھیجی اور اُنہیں مسلمانوں کے کیمپ کے اردگرد گھوم کر نقصان پہنچانے کا حکم دیا، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش بھی کی۔ لیکن مسلمانوں کی ہوشیاری سے یہ سازش ناکام ہوئی اور یہ تمام افراد گرفتار کر لیے گئے۔
باوجود سخت طیش کے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن سب کو معاف فرما دیا اور مصالحت کی کوشش جاری رکھی۔
علامہ بیہقی نے عُروہ سے روایت کی ہے کہ پھر نبیٔ کریمؐ نے حضرت عمربن خطابؓ کو بلایا تاکہ اُنہیں قریش کی طرف بھیجیں۔ تو اُنہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللهؐ! قریش میری دشمنی سے واقف ہیں، اِس لیے مجھے اپنی جان پر خوف ہے اور بنو عدی میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو میری حفاظت کرے۔ یارسول اللهؐ! اگر آپؐ چاہتے ہیں تو مَیں چلا جاتا ہوں تو آپؐ نے اُن سے کچھ نہ کہا۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ یارسول اللهؐ! مَیں آپؐ کو ایک ایسے شخص کا بتلاتا ہوں، جس کی مکّہ میں مجھ سے زیادہ عزت ہے اور زیادہ بڑا خاندان ہے، جو اُس کی حفاظت کریں گے اور وہ آپؐ کے پیغام کو جو آپؐ چاہتے ہیں، پہنچا دیں گے اور وہ شخص حضرت عثمان بن عفّانؓ ہیں۔ بہرحال آپؐ نے حضرت عثمانؓ کو بلایا اور فرمایا کہ تم قریش کے پاس جا کر اُنہیں خبر دو کہ ہم قتال کرنے کے لیے نہیں آئے بلکہ عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔
حضرت عثمانؓ مکّہ گئے اور ابوسفیان سمیت قریش کے مجمع میں آنحضرتؐ کا پیغام پیش کیا، مگر قریش ضد پر قائم رہے کہ مسلمان اِس سال مکّہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ قریش نے حضرت عثمانؓ کو ذاتی طور پر طوافِ بیت الله کی کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ
یہ ممکن نہیں کہ رسول اللہ ؐتو مکّہ سے باہر روکے جائیں اورمَیں طواف کروں۔
مگرقریش نے کسی طرح نہ مانا اور بالآخر حضرت عثمانؓ مایوس ہو کر واپس آنے کی تیاری کرنے لگے۔
اِس موقع پر مکّہ کے شریر لوگوں کو یہ شرارت سوجھی کہ اُنہوں نے غالباً اِس خیال سے کہ اِس طرح ہمیں مصالحت میں زیادہ مفید شرائط حاصل ہوسکیں گی حضرت عثمانؓ اور اِن کے ساتھیوں کو مکّہ میں روک لیا۔ اِس پر مسلمانوں میں یہ افواہ مشہور ہوئی کہ اہل ِمکّہ نے حضرت عثمانؓ کو قتل کردیا ہے۔ یہ خبر جب پہنچی تو آنحضرتؐ کو بھی شدید غصّہ اور صدمہ تھا۔ تب آپؐ نے وہاں بیعتِ رضوان لی۔
یہ خبر حدیبیہ میں پہنچی تو مسلمانوں میں سخت جوش پیدا ہوا کیونکہ حضرت عثمان ؓآنحضرتؐ کے داماد اور معزز ترین صحابہؓ میں سے تھے اور مکّہ میں بطور اسلامی سفیر کے گئے تھے اور یہ دن بھی اَشْہرِحُرُم کےتھے، حرمت والا مہینہ تھا اور پھر مکّہ خود حرم کا علاقہ تھا۔ آنحضرتؐ نے فوراً تمام مسلمانوں میں اعلان کر کے اُنہیں ایک ببول یعنی کیکر کے درخت کے نیچے جمع کیا اور جب صحابہؓ جمع ہو گئے تو اِس خبر کا ذکر کر کے فرمایا کہ اگر یہ اطلاع درست ہے توخدا کی قسم! ہم اِس جگہ سے اُس وقت تک نہیں ٹلیں گے کہ عثمان کا بدلہ نہ لے لیں۔ پھر آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ آؤ اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر جو اسلام میں بیعت کا طریقہ ہے، یہ عہد کرو کہ تم میں سے کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا، مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا۔
اِس اعلان پر صحابہؓ بیعت کے لیے اِس طرح لپکے کہ ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے اور اِن چودہ پندرہ سَو مسلمانوں کا ایک ایک فرد کہ یہی اِس وقت اسلام کی جمع پونجی تھی، اپنے محبوب آقا کے ہاتھ پر گویا دوسری دفعہ بک گیا۔
جب بیعت ہورہی تھی تو آنحضرتؐ نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے کیونکہ اگروہ یہاں ہوتا تواِس مقدس سودے میں کسی سے پیچھے نہ رہتا لیکن اِس وقت وہ خدا اَور اُس کے رسول کے کام میں مصروف ہے۔
اسلامی تاریخ میں یہ بیعت بیعتِ رضوان کے نام سے مشہور ہے یعنی وہ بیعت جس میں مسلمانوں نے خدا کی کامل رضا مندی کا انعام حاصل کیا۔ قرآن شریف نے بھی اِس بیعت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔
صحابۂ کرامؓ بھی ہمیشہ اِس بیعت کو بڑے فخر اور محبّت کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے اور اِن میں سے اکثر بعد میں آنے والے لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ
تم تو مکّہ کی فتح کو فتح شمار کرتے ہو مگر ہم بیعتِ رضوان ہی کو فتح خیال کرتے تھے اور اِس میں شبہ نہیں کہ یہ بیعت اپنے کوائف کے ساتھ مل کر ایک نہایت عظیم الشان فتح تھی۔
نہ صرف اس لیے کہ اِس نے آئندہ فتوحات کا دروازہ کھول دیا بلکہ اِس لیے بھی کہ اِس سے اسلام کی اس جاں فروشانہ روح کا جو دینِ محمدیؐ کا گویا مرکزی نقطہ ہے ایک نہایت شاندار رنگ میں اظہار ہوا اَور فدائیان اسلام نے اپنے عمل سے بتا دیا کہ وہ اپنے رسولؐ اور اس رسولؐ کی لائی ہوئی صداقت کے لیے ہر میدان میں اور اِس میدان کے ہر قدم پر موت وحیات کے سودے کے لیے تیار ہیں۔ اِسی لیے صحابہ کرامؓ بیعتِ رضوان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ بیعت موت کے عہد کی بیعت تھی یعنی اِس عہد کی بیعت تھی کہ ہر مسلمان اسلام کی خاطر اور اسلام کی عزت کی خاطر اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر پیچھے نہیں ہٹے گا ۔
آخر پر حضور انور نے فرمایا کہ صلح حدیبیہ کی مزید تفصیل ان شاء الله آئندہ بیان ہو گی۔
خطبۂ ثانیہ سے قبل حضور انور نے دنیا کے موجودہ حالات کے پیش نظر دعائیہ تحریک فرماتے ہوئے احبابِ جماعت کو گھروں میں دو سے تین مہینے کا راشن رکھنے کی یاددہانی کروائی نیز تلقین فرمائی کہ سب سے اہم نقطہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اُس کی رضاحاصل کرنے کی کوشش کریں اور اُس سے تعلق پیدا کرنے اور اُس میں بڑھنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق دے۔مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ ہو
https://www.alfazl.com/2024/11/22/111023/
٭…٭…٭