خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08 نومبر 2024ء

’’بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس وغیرہ لگا کر وصول کرتے ہیں اور یہاں ہم رضا اور ارادہ پر چھوڑتے ہیں۔ چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور ایک خلوص کا کام ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس مادی دنیا میں جبکہ ہر طرف لوگ اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسے قربانی کرنے والے عطا فرمائے ہیں جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر قربانی دینے کی خواہش رکھتے ہیں

غریب لوگ تو بہت بڑی قربانی کر کے چندے دیتے ہیں۔ گو ان کی قربانیاں بظاہر مالی لحاظ سے، رقم کے لحاظ سے بہت چھوٹی ہوتی ہیں لیکن وزن کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت بڑی قربانیاں ہیں

احمدی کو یہی فائدہ ہے کہ قربانی اللہ تعالیٰ قبول کرتاہے اور ساتھ پھر جو دعائیں ہیں وہ قبول کرتا ہے اور اس کی برکات پھر ظاہر ہوتی ہیں

جماعت احمدیہ دنیا کے ہر خطہ میں پھیلی ہوئی ہے۔ آج دو سو بیس ممالک میں جماعت احمدیہ قائم ہے اور ہر جگہ ہمیں قربانی کرنے والوں کی مثالیں نظر آتی ہیں۔ مَیں اس وقت جب خطبہ دے رہا ہوں تو کہیں رات ہے، کہیں دن ہے لیکن ہر کوئی اس خطبہ کوسن رہا ہے اور جماعت احمدیہ ایک امتِ واحدہ کا نظارہ پیش کر رہی ہے۔ پس یہ چیز ہے جو جماعت احمدیہ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے

اگر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری ضروریات خود پوری فرماتا رہے گا۔ بغیر کسی خوف اور غم کے ہم اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر خوف سے نکالے گا۔ ہمیں ہر غم سے نکالے گا۔ ہماری مشکلات کو دور کرے گا۔ ہماری ضروریات کو پورا کرے گا۔ اور یہی چیز ہے جس کے حصول کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو ہم نے راضی کرنا ہے

ہم جماعت کی ترقیات کو بھی دیکھیں گے اور پہلے سے بڑھ کر ہم کامیابیاں دیکھتے چلے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے چلے جائیں گے اور دشمن کو ناکام و نامراد ہوتا دیکھتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ وہ دن بھی جلدلائے کہ ہم یہ دیکھیں

تحریکِ جدید کے نوّےویں(۹۰)سال کے دوران افرادِ جماعت کی طرف سے پیش کی جانے والی مالی قربانیوں کا تذکرہ اور اکانوےویں(۹۱)سال کے آغاز کا اعلان

گذشتہ سال کے دوران جماعت ہائے احمدیہ عالَم گیر کو تحریکِ جدید میں 17.98ملین پاؤنڈ مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ یہ وصولی گذشتہ سال کے مقابلے میں 7 لاکھ 89 ہزارپاؤنڈ زیادہ ہے

مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مخلص احمدیوں بالخصوص نومبائعین اور نوجوانوںکی طرف سے پیش کی جانے والی مالی قربانیوں سے متعلق ایمان افروز واقعات کا بیان

بنگلہ دیش اور پاکستانی احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک

مکرمہ امینہ چقماق ساہی صاحبہ (واقفہ زندگی۔ ٹرکش ڈیسک) اور مکرم محمود احمد ایاز صاحب آف ناروے کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08 نومبر 2024ء بمطابق 08 نبوت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ(البقرہ:275)

وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی، چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق مالی قربانیوں میں بہت بڑھ چڑھ کر اپنے آپ کو پیش کرنے والی ہے۔ جماعت کے مختلف چندے ہیں۔چندہ عام، چندہ وصیت وغیرہ لازمی چندہ جات ہیں۔ پھر تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کی تحریکات ہیں۔ ہر جگہ جہاں بھی ضرورت پڑے

جماعت احمدیہ کے افراد اخلاص و وفا کے ساتھ بڑھ چڑھ کر مالی قربانیوں میں حصہ لیتے ہیں

اور چھپ کر بھی اور اعلانیہ طور پر بھی قربانی کر رہے ہوتے ہیں بلا اس خوف کے کہ انہیں کوئی مالی تنگی ہو جائے۔ یہ زمانہ جبکہ دنیا، دنیا کی لذتیں تلاش کرنے میں ڈوبی ہوئی ہے اور مال جمع کرنے میں ڈوبی ہوئی ہے احمدی ہیں جو مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو چھپ کر قربانیاں کرتے ہیں اور یہ اظہار کرتے ہیں کہ ان کی قربانیاں پتہ نہ لگیں۔ جماعت احمدیہ میں اکثریت تو کم آمدنی والوں کی ہے اور اوسط درجےکے کمانے والوں پر مشتمل ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا غیرمعمولی قربانیاں دینے والے بھی لوگ ہیں اور کبھی اس بات کا اظہار نہیں کرتے کہ جماعت نے اتنی تحریکات شروع کی ہوئی ہیں، ہماری آمدنی محدود ہےکہاں سے دیں بلکہ ایک دلی جوش اور جذبہ سے یہ قربانیاں دیتے ہیں۔ مجھے پتہ ہے بعض لوگ ایسے ہیں جو بہت بڑی قربانی کرکے بھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنا پیٹ کاٹ کر، اپنی خوراک کم کر کے، اپنے بچوں کے اخراجات کم کر کے یہ قربانیاں دیتے ہیں اور ان کو کبھی خیال نہیں آیا یا انہوں نے کبھی یہ اظہار نہیں کیا کہ ہماری یہ قربانیاں ہیں اور ہم پر کیوں اتنا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ ہمیں بھی فلاں مقصد کے لیے ضرورت ہے۔ تو اب جبکہ ہمیں ضرورت ہے تو جماعت ہماری مدد کرے۔ کبھی کسی قسم کا احسان نہیں ہوتا۔ ضرورت بھی ہو تو انتہائی جھجک اور عاجزی کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور وہ بھی قرضہ کی صورت میں۔

پھر بعض لوگوں نے قربانیاں کرنے کے لیے یہ طریق بھی اختیار کیا ہوا ہے کہ مالی قربانیوں کے لیے ایک ڈبہ بنا لیتے ہیں جس میں ہر سال یا ہر وقت جو بھی آمد ہو جب بھی جہاں سے کوئی پیسے آتے ہیں اس میں ڈالتے رہتے ہیں اور اس طرح سال کے آخر میں جمع کر لیتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب تحریکِ جدید کی تحریک جاری فرمائی تو آپؓ نے سادہ زندگی کا مطالبہ کیا تھا اور آپؓ نے فرمایا تھا کہ سادہ زندگی کر کے اپنے پیسے جوڑو اور اس کے حساب سے خرچ کرو اور اس کے نتیجہ میں بعض لوگ ایسے ہیں جو خود سادہ سے سادہ زندگی گزارتے ہیں اور بڑی بڑی رقمیں دیتے ہیں۔ بظاہر ان کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اتنی بڑی رقم نہیں دے سکتے لیکن ہزاروں ڈالروں یا ہزاروں پاؤنڈوں میں یا ہزاروں یورو میں قربانیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ اس مادی دنیا میں ان ملکوں میں رہ کر اتنی قربانی کرنا بہت بڑی بات ہے اور جو غریب ممالک ہیں، پاکستان ہے، ہندوستان ہے یا افریقہ کے ممالک ہیں وہاں تو احمدیوں کے ذرائع بہت کم ہیں اور بڑی مشکل سے لوگوں کے گزارے ہوتے ہیں پھر بھی قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے چھپ کر بھی اور ظاہری طور پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے اور ہر وقت اسی فکر میں رہتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ایک جگہ کہ

اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب

کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب

(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 410)

پس یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقی مومن ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جب کوئی بھی تحریک کی جائے یا جب تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کا اعلان ہوتا ہے تو قرض لے کر بھی رقم ادا کر دیتے ہیں حالانکہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ قرض لے کر ادا کریں۔ اور کوئی خوف نہیں ان کو ہوتا۔ ان کو پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود ہی پورا بھی کر دے گا۔ پس

جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے بڑے قربانی کرنے والے عطا فرمائے ہوئے ہیں۔

غیروں کی طرح یہ نہیں ہے کہ پانچ دس روپے دے کر پھر سو دفعہ مسجد میں اعلان کروائیں۔ ایسے بہت سے واقعات میرے سامنے آتے ہیں جہاں لوگ بڑھ چڑھ کر قربانیاں دینے کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ اس میں افریقہ کے ممالک بھی شامل ہیں۔ یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں۔ ایشیا کے ممالک بھی شامل ہیں۔

غریب لوگ تو بہت بڑی قربانی کر کے چندے دیتے ہیں۔ گو ان کی قربانیاں بظاہر مالی لحاظ سے، رقم کے لحاظ سے بہت چھوٹی ہوتی ہیں لیکن وزن کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت بڑی قربانیاں ہیں۔

وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ فرمایا تھا کہ ایک درہم ہزار درہم سے سبقت لے گیا یا ایک لاکھ درہم سے سبقت لے گیا۔

(سنن النسائی،کتاب الزکاۃ باب جھد المقل حدیث 2528)

اور یہ روح دور دراز رہنے والے غریب ملکوں کے لوگوں میں بھی ہے کہ مالی قربانیاں دینے سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ انہیں ہر قسم کے خوف سے بھی دور کرتا ہے اور ان کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ مثلاً

تنزانیہ

کے امیر صاحب نے لکھا کہ ایک صاحب ہیں۔ نومبائع ہیں عبداللہ صاحب۔ انہوں نے کہا مجھے چندے دینے کے دو فائدے نظر آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کے بعد سے میرے رزق میں اضافہ ہو گیا۔ دوسرے میں جب بھی کاروبار کرتا ہوں، ایک دکان چلاتا ہوں۔ میری دکان کی ساری چیزیں فوراً فروخت ہو جاتی ہیں اور جلدی سے پھر میری دکان خالی ہو جاتی ہے۔ پھر نیا مال لے کے آتا ہوں اور اس سے مجھے منافع ہوتا جاتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی کرنے کا نتیجہ ہے۔

قزاخستان

سے ایک صاحب ہیں زادانوف صاحب، ہمیشہ بڑے جوش و خروش سے چندہ میں حصہ لیتے ہیں۔ سابق فوجی ہیں۔ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ پنشن ملتی ہے لیکن جب بھی پنشن ملتی ہے فوراً مرکز میں آ کر چندے ادا کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے چندوں سے اتنی برکت دی ہے کہ میرے کام جو رکے ہوتے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کروا دیتا ہے۔ یہ ان کی ایمان کی حالت ہے۔ کہتے ہیں میں نے ایک تجارتی عمارت کی تعمیر شروع کی جو تجارتی مرکز کے لیے تھی۔ میرے پاس جو جمع پونجی تھی سب اس میں لگا دی۔ پیسے ختم ہو گئے، وہ کام مکمل نہیں ہوا۔ میرا ایک اپارٹمنٹ تھا میں نے سوچا کہ اس کو بیچ کریہ پیسے یہاں لگا دیتا ہوں او ریہ کام پورا کر لوں۔ اب اپارٹمنٹ خریدنے کے لیے کوئی گاہک نہیں مل رہا تھا۔ بڑی ناامیدی کی صورتحال تھی۔ جو کچھ رقم آخری تھی وہ بھی ختم ہو رہی تھی۔ کہتے ہیں میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کسی طرح برکت ڈالے اور میری یہ رقم مل جائے، پوری ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا گاہک بھیجا جس نے میرا اپارٹمنٹ خرید لیا اور اس سے جو مجھے آمد ہوئی وہ پھرمیں نے اس تعمیر میں لگا دی۔ کہتے ہیں اب اپارٹمنٹ میں نے بیچ دیا، اب مسئلہ یہ تھا کہ میں نے رہنے کے لیے نیا گھر تلاش کرنا تھا وہ کس طرح کروں۔ لیکن وہی فرشتہ جو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا اس نے کہا آپ فکر نہ کریں مجھے اتنی جلدی گھر کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ایک سال تک بیشک اس گھر میں رہیں۔ اس طرح کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میری رہائش کی ضرورت بھی پوری کر دی اور میری تعمیر کا کام بھی پورا ہو گیا اور یہ سب کچھ میں سمجھتا ہوں کہ چندوں کی برکات اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے کا نتیجہ ہے۔

پھر

قزاخستان

سے ہی وہاں کی جماعت کے ایک عہدیدار لکھتے ہیں کہ جماعت کی ایک لجنہ، خاتون بائیوا روزہ صاحبہ ہیں۔ باقاعدگی سے تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے چندوں میں حصہ لیتی ہیں۔ ایک دن انہوں نے تحریک جدید اور وقف جدید کے چندے ادا کیے اور اپنی بیٹی کے لیے دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ اسے اچھی نوکری دے دے۔ انہوں نے مجھے بھی خط لکھا۔

خلافت سے ان لوگوں کا بڑا مضبوط تعلق ہے۔ بہت خط آتے ہیں رشیا سے یا ان سٹیٹس سے۔

کہتی ہیں کہ جب چندہ ادا کیا تو اگلے دن ہی اس کو اچھی نوکری مل گئی جبکہ اس سے پہلے وہ ہزار کوشش کر رہی تھی مگر کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ اب یہ حالت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالی، ان کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے ایسے سامان کیے کہ وہاں ملازمت دینے والوں نے خود فون کیا کہ ہم ملازمت دینے کے لیے تیار ہیں، آ جاؤ۔ اور بڑی اچھی ملازمت دی۔ کہتی ہیں کہ میرے لیے تو یہ ایک معجزہ تھا اور میں حیران ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اتنی جلدی اپنے فضل سے مجھے نوازا۔

جارجیا

یورپ کا ایک ملک ہے۔ میڈیکل کے ایک طالبعلم ہیں۔ کہتے ہیں ہماری جماعت کی میٹنگ ہوئی۔ صدر جماعت نے ایک سٹوڈنٹ کا ذکر کیا جس نے تحریکِ جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کہتے ہیں مجھے احساس ہوا کہ میں پیدائشی احمدی ہوں اور یہ سٹوڈنٹ جس کا ذکر کیا جا رہا ہے اس نے چار سال پہلے بیعت کی ہے اور مالی قربانی میں اتنا آگے نکل گیا ہے۔ مجھے بھی اپنا وعدہ بڑھانا چاہیے، مجھے شرم آئی۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ میں نے وعدہ بڑھا دینے کا ارادہ کیا اور پھرکہتے ہیں کہ وہاں عاملہ میں یہ بھی ذکر ہوا تھا جب صدر صاحب مالی قربانیوں کی تلقین کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کس طرح اپنی قربانی پیش کی تھی۔ سب کچھ پیش کر دیا تھا۔ کہتے ہیں اس مثال کو دیکھ کر میرے دل میں اَور جوش پیدا ہوا اور مجھے خیال آیا کہ مجھے بہرحال وعدہ بڑھانا چاہیے۔ چاہے میری حیثیت ہے کہ نہیں ہے میں قربانی کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ میں نے اتنا وعدہ کردیا کہ مجھے فکر تھی کہ اب ادا کیسے کروں گا؟ اس کے لیے کہتے ہیں میں نے پارٹ ٹائم ٹیکسی شروع کر دی۔ میں سٹوڈنٹ کے ساتھ ساتھ ٹیکسی بھی چلاؤں گا اور اپنا وعدہ پورا کر دوں گا۔ کہتے ہیں اس کے بعد مجھے اس کام میں لطف آنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے، اس کی خاطر قربانی کرنے کے لیے میں یہ کام کر رہا ہوں۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے نہیں کر رہا۔ کہتے ہیں بعض حالات ایسے مجھ پہ آتے تھے کہ پٹرول ڈلوانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے تو میں اپنے والد سے قرض لیتا تھا اور پھر کام کرتا تھا۔ پھر قرض بھی لوٹا دیتا تھا، چندہ بھی ادا کر دیتا تھا اس طرح میں اپنا وعدہ پورا کرتا جا رہا تھا اور کہتے ہیں کہ میں نے آخر وہ وعدہ پورا کر دیا جس کی کوئی امید نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ادائیگی کے سامان پیدا کر دیے۔

جرمنی

کی جماعت روڈگاؤ (Rodgav) کے صدر کہتے ہیں ہماری جماعت کا ٹارگٹ جو تھا وہ ہم نے پورا کر لیا۔ وہاں آجکل مسجد بنا رہے ہیں۔ وہاں خدام الاحمدیہ کے قائد نے اس کا بھی ہمیں کہا کہ ہمیں اس کے لیے مزید رقم اکٹھی کرنی چاہیے اور ہمارے ہاں پوٹینشل (potential) ہے، لوگوں میں چندہ دینے کی صلاحیت ہے۔ اسی طرح ہمیں تحریکِ جدید کی قربانی میں بھی بڑھنا چاہیے۔ اس میں بھی ہمارا معیار بہتر ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں 2019ء سے ہم نے مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینی شروع کی تھی۔ اس وقت ہمارا جو چندہ چند ہزار یورو تھا اب اتنا بڑھا کہ وہ لاکھوں میں چلا گیا اور لوگوں نے خوشی سے قربانی دی۔ بعض لوگوں کو اس طرح تحریک پیدا ہوئی کہ بعض واقفینِ زندگی نے یہ اعلان کیا کہ ہم اپنا ایک ماہ کا الاؤنس جماعت میں چندہ دے دیں گے۔ ایک صاحب کہتے ہیں مجھے یہ سوچ کر بڑی شرم آئی کہ ایک واقفِ زندگی اپنا الاؤنس دے رہا ہے اور میں بیشمار رقم کماتا ہوں میں کیوں نہیں ایسی بڑی قربانی کر سکتا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ جو رقم ملی بہت بڑی تھی وہ میں نے جماعت کو چندے میں دے دی۔ اگلے سال اپنے وعدے کو اَور بڑھا کر پیش کیا بلکہ دوگنا کر دیا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا دیا۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ مجھے بڑے اچھے کانٹریکٹ ملنے لگ گئے اور ہزاروں یورو جو تھا چالیس پچاس ہزار یورو تک مجھے چندہ ادا کرنے کی توفیق ملی۔ اس کا یہ اثر بھی ساتھ ہوا کہ کیونکہ نیکی کی جاگ لگ گئی تھی، اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنے کا شوق پیدا ہو گیا تھا تو انہوں نے اپنے ذاتی اخراجات بہت کم کر دیے اور خود سادہ کپڑوں میں گزارا کرنے لگے اور بالکل سادہ زندگی گزارنے لگے اور مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

سیکرٹری مال کہتے ہیں کہ ہم حیران ہوتے تھے کہ ان کی ظاہری حالت ایسی نہیں لیکن قربانیاں بیشمار کر رہے ہیں۔ اس پر مجھے ایک پرانا واقعہ بھی یاد آ گیا۔ کراچی میں ہمارے ایک بزرگ دوست شیخ مجید صاحب تھے۔ وہ بہت بڑی مالی قربانیاں کیا کرتے تھے اور اپنے گھر کے اخراجات کے لیے رقم رکھ کر باقی تمام تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے زمانے میں انہوں نے قرآن کریم کی اشاعت کے لیے اور باقی تحریکات کے لیے بہت بڑھ چڑھ کر قربانی کی تھی اور وہ یہی کہا کرتے تھے کہ میں تو جو کاروبار کرتا ہوں وہ تو کرتا ہی جماعت کے لیے ہوں۔ پس ایسے لوگ بھی جماعت میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہوئے ہیں اور پیدا کرتا چلا جا رہا ہے جو کماتے بھی اس لیے ہیں کہ جماعتی ضروریات کو پورا کیا جائے نہ یہ کہ پیسے اکٹھے کیے جائیں۔

قادیان

کے وکیل المال لکھتے ہیں کہ کیرالہ کے ایک صاحب ہیں وہ کہتے ہیں کہ میرے بڑے بُرے حالات تھے۔ کوئی کام نہیں مل رہا تھا۔ آخر میں نے سوچا کہ اَور تو کچھ نہیں، کپڑے کا کام شروع کرتا ہوں اور فٹ پاتھ پر ہی ایک میز لگا کر کام شروع کر دیا اور چندے کی ادائیگی باقاعدہ شروع کر دی۔ باقاعدہ حساب کر کے چندہ دیتے تھے۔ جو بھی آمد ہوتی تھی اس میں اللہ کے فضل سے بڑی برکت پڑی اور کہتے ہیں اب میں بڑی بڑی رقمیں چندے میں دیتا ہوں۔ کاروبار بھی دو تین سال میں وسیع ہو گیا۔ جہاں دوسرے لوگوں کے کاروبار متاثر ہو جاتے ہیں حالات کی وجہ سے لیکن ان کے کام میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا رہا اور متاثر نہیں ہوئے۔

یہ ہیں چندہ دینے کی برکات۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی بھی کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے کام میں برکت ڈال دیتا ہے اور ہم کام کرتے ہیں ہماری برکت اتنی نہیں پڑتی۔ اگر نیک نیت ہو تو اللہ تعالیٰ فائدہ پہنچاتا چلا جاتا ہے۔ پس

احمدی کو یہی فائدہ ہے کہ قربانی اللہ تعالیٰ قبول کرتاہے اور ساتھ پھر جو دعائیں ہیں وہ قبول کرتا ہے اور اس کی برکات پھر ظاہر ہوتی ہیں۔

تو ان کی بھی یہ قربانی ہے۔ یہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر جو میں نے قربانی کی، چندہ باقاعدگی سے دیتا تھا اس کا نتیجہ ہےکہ میرے کاروبار میں برکت پڑی۔ دوسرے لوگوں کے معاشی حالات بگڑ رہے تھے حالات کی وجہ سے لیکن کہتے ہیں مجھے تو فائدہ ہی ہوتا چلا گیا۔ اب ان کی اپنی بڑی بڑی دکانیں ہیں۔ کہاں فٹ پاتھ پر ایک ٹھیلہ لگایا ہوتا تھا، میز رکھی ہوتی تھی، اَب دکانیں ہیں بڑی بڑی اور شوروم بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب وہ لاکھوں میں چندہ ادا کرتے ہیں۔ اسی سال انہوں نے تحریک جدید میں بھی دس لاکھ روپیہ ادا کیا۔

بنگلہ دیش

سے ایک خاتون لکھتی ہیں واقفِ نو ہوں۔ چندے ادا کرتی ہوں، خطبے سنتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے میرے اندر ایمان پیدا کیا ہوا ہے اور مجھے جو وظیفہ ملتا ہے اس میں سے چندہ دیتی ہوں اور اللہ تعالیٰ اس میں اتنی برکت ڈالتا ہے کہ میرے تصور سے باہر ہے۔

اسی طرح

سیریا

کے ایک صاحب ہیں علی صاحب، کہتے ہیں مَیں نَومبائع ہوں۔ تحریکِ جدید کا پہلا وعدہ کیا۔ اپنے حالات کے لحاظ سے بڑا وعدہ لکھوا دیا۔ پھر دل میں کہا کہ رمضان سے پہلے میں یہ رقم جمع کروں گا۔ نوکری کرتا تھا، کوئی کانٹریکٹ وغیرہ نہیں تھا۔ سادہ سا کام تھا کارٹون وغیرہ کی ڈبنگ کر کے کام کیا کرتے تھے۔ تو کہتے ہیں مجھے پریشانی ہوئی کہ کس طرح میں یہ وعدہ پورا کروں گا تو بہرحال اسی سوچ میں ایک دن یہ مینیجر کے پاس گئے، اسے سلام کیا۔ مینیجر کہتے ہیں فون پہ کسی سے بات کر رہا تھا اس نے ہاتھ ہلا کر مجھے جواب دیا کہ بعد میں بات کرتے ہیں۔ کہتے ہیں میں جا کے کینٹین میں بیٹھ گیا تو وہاں اس کمپنی کا جو فنانس افسر تھا میرے پاس آیا اور مجھے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا اور اس نے کہا کہ مینیجر نے کہا ہے کہ تمہیں اتنی رقم دے دوں۔ تنخواہ کا گوشوارہ ابھی تیار نہیں ہوا لیکن مینیجر نے خود ہی میرے کام کا اندازہ کر کے مجھے اتنی رقم دے دی اور وہ اتنی رقم تھی جس سے میں تحریکِ جدید کا چندہ ادا کر سکوں۔ اور اس نے یہ بھی مجھے کہا کہ کسی اَور کو نہیں بتانا یہ رقم صرف تمہیں مل رہی ہے۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مدد کرتا ہے۔

کیلگری

میں ایک طالبہ ہے اس نے اپنے ایمان میں مضبوطی کا ذکر اس طرح بیان کیا۔ کہتی ہے مجھے ہر کوئی کہتا تھا کہ پڑھائی کے دوران جاب ملنی مشکل ہے۔ میں نے بہت دعا کی اور تحریکِ جدید کے صف اول کے جو چندہ دینے والے تھے ان میں شامل ہونے کے لیے لکھ دیا جو ایک ہزار یا اس سے زائد ڈالر کا وعدہ ہے۔ کہتی ہیں کہ چندہ دینے کی برکت سے مجھ پر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ تین دن میں جاب مل گئی اور میرا ایک سمسٹر بھی ضائع نہیں ہوا اور مجھے پیسے بھی مل گئے اور لوگ اس بات پر حیران تھے۔

بعض غریب ملک ہیں افریقہ کے۔

گنی کناکری

ہے، وہاں کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ وہاں ایک جگہ کے صدر جماعت عبداللہ کمارا صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد باقاعدگی سے چندہ ادا کرنا شروع کر دیا اور اس سال کہتے ہیں کُل جو ہمارا وعدہ تھا اس میں چالیس ہزار فرانک کی کمی تھی۔ تو جب مقامی معلم وصولی کے بعد واپس جانے لگے تو اس نوٹ کے ساتھ جانے لگے کہ اتنی کمی ہے تو کہتے ہیں مجھے بڑی شرمندگی ہوئی۔ میں اپنے گھر آیا تو میں نے جو اپنے اخراجات کے لیے رقم رکھی ہوئی تھی وہ ادا کر دی۔ کہتے ہیں کہ اگلے دن ہی مجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح return کیا کہ ایک شخص کا مجھے فون آیا۔ اس نے بتایا کہ فلاں وقت میں نے تم سے کام کروایا تھا اور میں اجرت دیے بغیر چلا گیا تھااور میں بڑی معذرت چاہتا ہوں اس کے لیے۔ اب مجھے بتاؤ کہ تم کیا چاہتے ہو؟ کیا لینا ہے؟ کہتے ہیں میں نے اس سے کہا کہ اس وقت تم نے جواجرت نہیں دی تھی اتنے سالوں کے بعد تو پھر اب یہ ہے کہ میں نے ایک موٹر سائیکل خریدنی ہے اور گھر کی تعمیر کروا رہا ہوں اس کو مکمل کروانا ہے اس کے لیے مجھے رقم چاہیے۔ اس نے مجھے فوری طور پر ادا کر دیے کہ یہ تمہاری اجرت ہے حالانکہ کہتے ہیں مجھے پتہ ہے یہ میری اجرت سے بہت بڑھ کر تھا۔ کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح کئی گنا بڑھ کر مجھے اپنے فضل سےنوازا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب کچھ چندے کی برکت ہے۔

سینٹرل افریقن ریپبلک

کے مبلغ انچارج کہتے ہیں: عیسیٰ صاحب نے مجھے بتایا کہ میری زندگی میں بہت سے مسائل تھے۔ گھر کے حالات بھی خراب تھے۔ سوچ رہا تھا کہ جماعت سے قرض کی درخواست کروں۔ ایک دن چندہ تحریکِ جدید اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے کے حوالے سے تقریر سنی کہ جو اللہ کی خاطر ایک دھیلا دیتا ہے اللہ تعالیٰ دس گنا بڑھا کر واپس کرتا ہے۔ کہتے ہیں میں نے کہا مَیں بھی یہ تجربہ کر لیتا ہوں۔ اسی روز سے چندے کی ادائیگی شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ کا ایسا کرنا ہوا کہ ترکی کے ایک تاجر نے جو ڈائمنڈ کا کاروبار کرتا تھا مجھے اپنی کمپنی میں لے لیا اور میرے حالات دن بدن بہتر ہونا شروع ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب میں نے اپنا گھر بھی تعمیر کر لیا ہے، سواری بھی، نیا موٹر سائیکل خرید لیا ہے۔ پہلے میرے پاس موٹر سائیکل ٹھیک کرانے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔

اب پھر یہی نہیں کہ غریب ملکوں کی بات ہے۔ جو ایمان کے مضبوط لوگ ہیں ان کی بات ہے بلکہ

جو ایمان کے مضبوط لوگ ہیں وہ ہر جگہ یہ نظارے دیکھتے ہیں۔ جو نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کرنا چاہتے ہیں اور کرتے ہیں

وہ نظارے دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو یہ نظارے دکھا کر چاہے وہ امیر ملکوں میں رہنے والے ہیں یا غریب ملکوں میں رہنے والے ہیں ان کے دین کو تقویت دینے کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ ان کے ایمان کو مضبوط فرماتا ہے۔

امریکہ

کے ایک سیکرٹری تحریک جدید ہیں انہوں نے لکھا کہ ڈیلس جماعت کے خادم کالج میں ہیں۔ والدین سے لنچ کے لیے پیسے ملتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس نوجوان نے سوچا کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے۔ ہر روز باہر سے کھانا کھا سکتا ہوں یہ رقم کسی اَور کام کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔ تو سوچنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ تحریکِ جدید میں شامل ہو جاؤں۔ چنانچہ انہوں نے وہ رقم تحریک جدید میں دے دی اور خود معمولی سے سیریل وغیرہ لے کر اپنا پیٹ بھر لیا۔ کہتے ہیں کہ اللہ کا فضل ایسا ہوا کہ میرے امتحانات کے نتائج بہت اچھے آئے اور مجھے زندگی میں بھی سکون آ گیا اور میں نے جس دن سے کم خوراک کھانا شروع کی مجھے ویسے بھی اپنی طبیعت میں ایک سکون محسوس ہوتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کو بڑھانا ہوتا ہے جس کے ایمان کو بڑھائے اور میں سمجھتا ہوں میری زندگی کا یہ سب سے بہترین فیصلہ تھا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کی طرف توجہ پید اکی۔

پھر

بیلجیم

ہے۔ کسی نے اپنی قربانی کے بارے میں لکھا۔ ایک خاتون ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ میں ملازمت کی تلاش میں تھی۔ کئی جگہ میں نے درخواستیں دیں۔ ہر جگہ درخواستیں رد ہو جاتی تھیں، تجربہ نہیں تھا۔ یہ کہا جاتا تھا کہ تمہیں تجربہ نہیں ہے۔ کہتی ہیں مالی سال تحریکِ جدید کا ختم ہو رہا تھا۔ ذہن میں آیا کہ اگرچہ میں اپنا وعدہ تو ادا کر چکی ہوں لیکن اللہ کی خاطر اَور قربانی کروں تو ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ فضل کر دے اور میری جو مشکلات ہیں ان سے مجھے نکال دے۔ کہتی ہیں اس کے بعد میں نے چندے میں اضافہ کر دیا اور کچھ زائدرقم دے دی۔ ابھی چند دن گزرے تھے کہ دو جگہوں سے جاب کی آفر آ گئی اور وہیں انہیں جاب مل گئی جہاں ان کی دلی تمنا تھی اور گھر سے بھی چند منٹ کے فاصلے پر یہ جگہ تھی۔ تو کہتی ہیں کہ میرے لیے تو یہ قدرت کا ایک نشان تھا۔ اس طرح کے بےشمار واقعات ہیں جو اللہ تعالیٰ لوگوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے دکھاتا رہتا ہے اور اس کے بعد پھر جب دوسروں کو بھی پتہ لگتا ہے تو اس کو دیکھ کر ان میں بھی قربانی کی روح پیدا ہوتی ہے۔

بعض لوگ جماعت میں ایسے بھی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، ارشاد ہے کہ سِرًّا قربانی کرنے والے ہیں۔ ایسے ہیں جو چھپ کےقربانی کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس کا کسی کو پتہ نہ لگے بلکہ بعض اس طرح کے ہیں کہ ایک جگہ سے ایک سیکرٹری مال نے لکھا اور وہاں کے مربی صاحب نے بھی لکھا کہ میں نے مشن ہاؤس کے سامنے جماعت کا لیٹرباکس کھولا تو اس میں ایک لفافہ پڑا ہوا تھا۔ اس میں ایک ہزار یورو تھا اور لکھا تھا تحریکِ جدید کا چندہ ہے اور نام پتہ کچھ نہیں تھا۔

پھر سیکرٹری مال صاحب نے یہ بھی لکھا کہ ایک شخص نے ہزاروں کی قربانی کی اور اس نے لکھا کہ میرا نام ظاہر نہ کریں۔ آپ کو پتہ ہے کہ میں نے دے دیا ہے۔ بس یہ ٹھیک ہے لیکن کہیں بھی اعلان نہیں کرنا کہ مَیں نے یہ قربانی کی ہے۔ تو اس قسم کے لوگ بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا فرمائے ہوئے ہیں جو قربانیاں بھی کرتے ہیں اور اس میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پچاس پچاس ہزار یورو جرمنی میں بعض لوگوں نے قربانیاں کیں اور کبھی اظہار نہیں کیا اور یہی کوشش ہوتی ہے کہ نام ظاہر نہ ہو۔ افریقہ میں بھی ایسے لوگ ہیں۔ یورپ میں بھی ہیں، امریکہ میں بھی ہیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس مادی دنیا میں جیسا کہ میں نے کہا جبکہ ہر طرف لوگ اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسے قربانی کرنے والے عطا فرمائے ہیں جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر قربانی دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔

جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے جب تحریک جدید شروع فرمائی تھی تو فرمایا تھا کہ سادہ زندگی اختیار کرو جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ بہت ساری مثالیں ایسی ہیں جو آج بھی اس زمانے میں بھی جبکہ دنیا ہاؤہو اور چکاچوند اور دکھاوا کی طرف مائل ہے اور خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا اظہار ہو، ہمارا پتہ لگے لوگوں کو۔ لوگ سادہ زندگی گزار کےخاموشی سے قربانیاں دے رہے ہیں جن کی بعض مثالیں میں نے پیش کی ہیں۔ بےشمار مثالیں اس طرح کی ہمارے سامنے آتی ہیں۔

آج کے دن جیسا کہ ہمیں پتہ ہے تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے۔آج میں اعلان کروں گا اور پہلے ہفتہ میں ہوتا ہے کیونکہ پہلا جمعہ یکم کو تھا اس لیے آج دوسرے جمعہ کر رہا ہوں ۔اس لیے میں نے قربانی کرنے والوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے کہ آج بحیثیت جماعت دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے افراد یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّھَارِ کے حقیقی مصداق بن رہے ہیں۔ عملی طور پر دن اور رات قربانی کر رہے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہاچوبیس گھنٹے یہ قربانی کا سلسلہ جاری ہے۔

جماعت احمدیہ دنیا کے ہر خطہ میں پھیلی ہوئی ہے۔ آج دو سو بیس ممالک میں جماعت احمدیہ قائم ہے اور ہر جگہ ہمیں قربانی کرنے والوں کی مثالیں نظر آتی ہیں۔ اس وقت جب مَیں خطبہ دے رہا ہوں تو کہیں رات ہے، کہیں دن ہے لیکن ہر کوئی اس خطبہ کوسن رہا ہے اور جماعت احمدیہ ایک امتِ واحدہ کا نظارہ پیش کر رہی ہے۔ پس یہ چیز ہے جو جماعت احمدیہ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔

یہی چیز ہے، یہی قربانی ہے، یہی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی خواہش ہے جو جماعت کی ترقی کا باعث ہے اور جب تک یہ صورت جماعت کے افراد میں رہے گی انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کو اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں سے نوازتا بھی چلا جائے گا۔

اکثر مثالیں جو میں نے پیش کی ہیں یا بعض نومبائعین کی ہیں یا نوجوانوں کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ روح آج بھی لوگوں میں پیدا کرتا چلا جا رہا ہے۔ ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا زمانہ ہے یہ اشاعتِ ہدایت کا زمانہ ہے، اس کی تکمیل کا زمانہ ہے، دنیا میں اسلام کی تعلیم کو پھیلانے کا زمانہ ہے، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح محمدی کے آنے کے بارے میں ہمیں اطلاع دی تھی۔ پس ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو جو ہدایت آپ لائے تھے جس کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ سے کی، اس کی اشاعت کی تکمیل کے لیے اللہ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو بنایا ہے۔

پس اگر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری ضروریات خود پوری فرماتا رہے گا۔ بغیر کسی خوف اور غم کے ہم اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر خوف سے نکالے گا۔ ہمیں ہر غم سے نکالے گا۔ ہماری مشکلات کو دور کرے گا۔ ہماری ضروریات کو پورا کرے گا اور یہی چیز ہے جس کے حصول کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو ہم نے راضی کرنا ہے

جیسا کہ مثالیں دی ہیں کہ جو احمدی اس بات کو سمجھتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ نے فضلوں کی بارش برسائی ہے۔

تبلیغِ اسلام کے جو کام ہو رہے ہیں اس کی برکات سے یہ سب قربانیاں کرنے والے فیض اٹھا رہے ہیں۔

جہاں بھی بیعتیں ہوتی ہیں یا جماعتی لٹریچر پر خرچ ہوتا ہے، جماعتی تبلیغ پر خرچ ہوتا ہے، جامعات پہ خرچ ہوتا ہے یہ سب اخراجات ان چندہ دینے والوں کو بھی اس ثواب میں شامل کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کوفیض پہنچاتا ہے۔

اب میں

تحریکِ جدید کے بعض کوائف

بھی پیش کرتا ہوں جیسا کہ ہر سال پیش کیے جاتے ہیں جس سے صورتحال واضح ہوتی ہے۔ اور پھر آخرمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پیش کروں گا۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کا نوّے والا سال اختتام کو پہنچا ہے اور اکانوے سال میں ہم شامل ہوئے ہیں۔ تحریکِ جدید کے جو سال ہیں ان میں یہ بھی وضاحت ہونی چاہیے کہ

دفتر اوّل کا سال اکانوےواں سال ہے، دفتر دوم کا سال اکاسیواں سال ہے، دفتر سوم کا سال ساٹھواں سال ہے، دفتر چہارم کا سال چالیسواں ہے، دفتر پنجم کا سال اکیسواں ہے۔

ہر انیس سال کے بعد نئے دفتر کا اجرا ہوتا تھا اور دفتر ششم کا دو سال پہلے اجراہوا تھا۔ اب جو بھی نئے مخلصین شامل ہوں گے چندہ تحریک جدید میں وہ دفتر ششم میں شمار ہوں گے جو پچھلے سال بھی ہوئے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو 17.98 ملین پاؤنڈ کی مالی قربانی کی توفیق تحریک جدید میں ملی۔ یہ گذشتہ سال سے 7 لاکھ 89 ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ جماعت جرمنی نے اس سال پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔

امیر صاحب جرمنی کو فکر رہتی تھی بلکہ ہے کہ تحریک جدید میں اضافہ کی وجہ سے دوسرے چندوں میں کمی ہو جائے گی۔ انہیں اللہ تعالیٰ پہ توکّل کرنا چاہیے۔

تحریکِ جدید کی قربانی کی وجہ سے باقی چندوں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا انشاء اللہ۔

اللہ تعالیٰ جماعت جرمنی کے اخلاص و وفا میں ترقی دیتا چلا جائے۔ کرنسیوں میں اتار چڑھاؤ کے باوجود مجموعی لحاظ سے قربانیوں میں جماعتوں نے آگے بڑھنے کے نظارے ہی دکھائے ہیں۔ کینیڈا اور امریکہ بھی فاستبقوا الخیرات کے مطابق ایک مقابلہ کرتے ہیں۔ گذشتہ سال کینیڈا نے نمایاں وصولی کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس دفعہ امریکہ نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ دوسری پوزیشن برطانیہ کی ہے۔ گو دونوں کا معمولی فرق ہے۔ ذرا سا زور لگائیں کینیڈا والے تو دوبارہ اوپر آ سکتے ہیں بہرحال

مجموعی طور پر صورتحال اس طرح ہے کہ جرمنی نمبر ایک پہ ہے۔ برطانیہ نمبر دوپہ ہے۔ امریکہ نمبر تین پہ۔ کینیڈا نمبر چار پہ۔ پھر مڈل ایسٹ کی جماعت نمبر پانچ پہ ہے۔ نمبر چھ پہ بھارت۔ سات پہ آسٹریلیا۔ آٹھ پہ انڈونیشیا۔ پھر مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ پھر گھانا ہے دسویں نمبر پہ۔

کرنسیوں میں بھی جو فی کس آمدنی کے حساب سے، فی کس چندے کے حساب سے لوگوں نے قربانی کی ہے اس میں بھی اللہ کے فضل سے بہت اضافہ ہے اور فی کس ادائیگی کے لحاظ سے تو امریکہ نمبر ایک پہ ہے۔ پھر سوئٹزرلینڈ نمبر دو اور پھر برطانیہ نمبر تین۔ کینیڈا نمبر چار۔ آسٹریلیا نمبر پانچ۔ بعض دوسری جماعتیں ہیں جو کارکردگی کے لحاظ سے قابل ذکر ہیں جن میں بنگلہ دیش۔نائیجیر۔ہالینڈ۔آسٹریا۔ فرانس۔ سوئٹزرلینڈ۔ آئرلینڈ اور مڈل ایسٹ کی جماعتیں ہیں۔

بنگلہ دیش باوجود وہاں کے جو آجکل حالات ہیں ملکی بھی ہیں اور جماعتی بھی سیاسی بھی بہت نامساعد حالات ہیں

بلکہ بعض احمدیوں کو بلا وجہ اب پھر مقدموں میں گرفتار کیا جا رہا ہے کہ گذشتہ گورنمنٹ کی وہ حمایت کر رہے تھے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ مخالفین نے احمدیوں کے گھروں کو بھی جلایا، بعض لوگوں کے گھر اس سال میں دو دفعہ جلائے گئے۔ ان کے ساتھ مار دھاڑ بھی کی گئی

لیکن ان لوگوں کے ایمان میں مزید اضافہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کے حالات بھی بہتر کرے اور ان کے ایمان و اخلاص کو بھی بڑھاتا چلا جائے۔ بنگلہ دیش کے لیے بھی دعا کرتے رہیں۔

افریقن ممالک میں وصولی کے لحاظ

سے نمبر ایک پہ گھانا ہے۔ پھر ماریشس۔ پھر برکینا فاسو۔ پھر نائیجیریا۔تنزانیہ۔ بینن۔ گیمبیا۔ لائبیریا۔ سیرالیون۔ یوگنڈا۔ یہ دس جماعتیں ہیں۔

شامل ہونے والوں کی مجموعی تعداد سولہ لاکھ اکاسی ہزار ہے

اور بہت ساری رپورٹیں ابھی نہیں آئیں۔ برکینا فاسو کے بعض علاقوں کی رپورٹس نہیں آئیں۔ وہاں کے حالات خراب ہیں۔ رابطہ نہیں ہو سکا لیکن اس کے باوجود مجموعی طور پر قربانی کرنے والوں کی تعداد میں گذشتہ سال سے پچاس ہزار کا اضافہ ہوا ہے اور اضافہ کرنے میں جو قابل ذکر ہیں وہ ہیں نائیجیریا۔ کانگو برازاویل۔ نائیجر۔ گیمبیا۔ کانگو کنشاسا۔ کیمرون۔ گنی کناکری۔ گنی بساؤ۔ یوگنڈا اور سیرالیون۔

جرمنی کی پہلی دس جماعتیں جو ہیں ان میں روڈگاؤ(Rodgau)۔ روئڈر مارک (Rodermark)۔ اوسنابروک(Osnabruck)۔ پنے برگ (Pinneberg)۔ نیڈا (Nidda)۔ کولون (Koln)۔مہدی آباد۔ فلورس ہائم (Florsheim)۔ نوئس (Neuss)۔ وائن گارٹن (Weingarten)۔

امارتیں جو ہیں ان میں ہیمبرگ(Hamburg)نمبر ایک پہ۔ پھر فرینکفرٹ(Frankfurt)۔ پھر ڈٹسن باخ (Dietzenbach)۔ گروس گیراؤ (Gross-Gerau)۔ ویزبادن (Wiesbaden)۔ مورفیلڈن وال ڈورف (Morfelden Walldorf)۔ ریڈشٹڈ(Riedstadt)۔ رُسلزہائم۔ ڈارمشٹڈ(Darmstadt)۔من ہائم (Mannheim)۔

برطانیہ کے پہلے پانچ ریجنز جو ہیں ان میں اسلام آباد نمبر ایک پہ۔ پھر بیت الفتوح۔ پھر مسجد فضل۔ پھر مڈلینڈز۔ بیت الاحسان

اور دس بڑی جماعتیں جو ہیں ان میں ووسٹرپارک(Worcester Park) نمبر ایک۔ فارنہم (Farnham)نمبر دو۔ اسلام آباد نمبر تین۔ ساؤتھ چیم (South Cheam)۔ والسال(Walsall)۔ ایش (Ash)۔ جلنگھم (Gillingham)۔ بریڈ فورڈ نارتھ۔ یول (Ewell)۔ آلڈر شاٹ ساؤتھ (Aldershot South)۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی جماعتیں میری لینڈ (Maryland) نمبر ایک۔ پھر نارتھ ورجینیا۔ پھر لاس اینجلیس (Los Angeles)۔ سیئٹل (Seattle)۔ شکاگو (Chicago)۔ ڈیٹرائٹ (Detroit)۔ ساؤتھ ورجینیا (South Virginia)۔ ڈیلس۔ سیلیکون ویلی (Silicon Valley)۔ اوش کوش(Oshkosh)۔پھر نارتھ جرسی۔ پھر ہیوسٹن۔ سینٹرل جرسی۔

کینیڈا کی وصولی کے لحاظ سے لوکل امارات ہیں نمبر ایک پہ وان (Vaughan)پھر کیلگری (Calgary)۔ پیس ولیج (Peace Village)۔بریمپٹن ویسٹ (Brampton West)۔ وینکوور (Vancouver)۔ ٹورانٹو ویسٹ۔ بریمپٹن ایسٹ۔ ٹورانٹو (Toronto)۔

قابل ذکر جماعتیں جو ہیں۔ پہلے امارات تھیں اب یہ جماعتیں ہیں۔ جماعتوں میں ہملٹن ماؤنٹین نمبر ایک۔ پھر ایڈمنٹن ویسٹ۔ پھر حدیقہ احمد۔ پھرہملٹن۔ بریڈ فورڈ ایسٹ۔ آٹوا ویسٹ۔ آٹوا ایسٹ۔ مونٹریال ویسٹ۔ رجائنا۔ مونٹریال ایسٹ۔ مارکھم (Markham)۔ لائیڈ منسٹر۔ سڈبری۔

پاکستان میں عمومی وصولی کے لحاظ سے

نمبر ایک پہ لاہور۔ پھر ربوہ۔ پھر کراچی۔ باوجود انتہائی نامساعد حالات کے یہاں ہم دیکھتے ہیں ترقی ہے۔ جماعتیں جس طرح قربانی کر رہی ہیں باوجود یہ کہ مخالفت اپنے عروج پر ہے۔ لوگوں کے کاروبار بھی متاثر ہیں۔ ملازمتیں بھی متاثر ہیں۔ لیکن ایمان کی مضبوطی ہے کہ قربانی میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بہت سارے لوگ جو ہیں جو اچھے کمانے والے تھے وہ نقل مکانی کر کے باہر بھی چلے گئے ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے کافی قربانیاں کی ہیں۔ بڑی قربانیاں کی ہیں۔

اللہ تعالیٰ جماعت کو وہاں بھی مخالفین کے شر سے بچائے اور اپنی حفاظت میں رکھے۔ پاکستان کی شہری جماعتوں میں ضلعی سطح پر

جو قربانی کرنے والے اضلاع ہیں وہ فیصل آباد۔ گجرات۔ گوجرانوالہ۔ سرگودھا۔ عمر کوٹ۔ حیدرآباد۔ سیالکوٹ۔ حافظ آباد۔ کوٹلی آزاد کشمیر۔ خوشاب۔

اور وصولی کے اعتبار سے زیادہ قربانی کرنے والی پاکستان کی شہری جماعتیں دارالذکر لاہور۔ علامہ اقبال ٹاؤن لاہور۔ بیت الفضل فیصل آباد۔ عزیز آباد کراچی۔ مغل پورہ لاہور۔ گوجرانوالہ شہر۔ کوئٹہ۔ لودھراں۔ رحیم یار خان۔ کریم نگر فیصل آباد۔

چھوٹی جماعتیں

جو ہیں ان میں کھوکھر غربی۔ گوٹھ شریف آباد۔ چونڈہ۔ سانگھڑ۔ کھاریاں۔ بدین۔ پنڈی بھاگو۔ دارالفضل کنری۔ خیر پور اور چکوال۔

انڈیا کے دس بڑے صوبہ جات

جو ہیں ان میں کیرالہ نمبر ایک پہ۔ پھر تامل ناڈو۔ پھر تلنگانہ۔اُڈیشہ ۔کرناٹک۔ جموں و کشمیر۔ پنجاب۔ بنگال۔ مہاراشٹرا۔ دہلی۔ اور

دس جماعتیں

جو ہیں ان میں حیدرآباد نمبر ایک۔ پھر نمبر دو پہ قادیان۔ پھر کالی کٹ۔ کوئمبی ٹور۔ مینجری۔ میلا پالم۔ بنگلور۔ کلکتہ۔ کیرنگ۔ کیرولائی

آسٹریلیا کی جماعتیں

ہیں میلبرن لانگ وارِن(Melbourne Lang warrin)۔ مارسڈن۔ میلبرن بیروِک (Melbourne Berwick)۔ پرتھ (Perth)۔ پین رتھ(Penrith)۔ ایڈیلیڈ ویسٹ(Adelaide West)۔ میلبرن کلائیڈ۔ میلبرن ایسٹ اور کیمبل (Campbell) ٹاؤن۔ کینبرا۔

اللہ تعالیٰ ان کی قربانیاں قبول فرمائے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’چندے کی ابتدا اس سلسلہ سے ہی نہیں ہے‘‘یعنی صرف میں نے چندوں کی ابتدا نہیں کی ’’بلکہ مالی ضرورتوں کے وقت نبیوں کے زمانہ میں بھی چندے جمع کیے گئے تھے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ ذرا چندے کا اشارہ ہوا تو تمام گھر کا مال لا کر سامنے رکھ دیا۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسبِ مقدورکچھ دینا چاہیے اور آپ کی منشاء تھی کہ دیکھا جاوے کہ کون کس قدر لاتا ہے۔ ابوبکرؓ نے سارا مال لا کر سامنے رکھ دیا اور حضرت عمرؓ نے نصف مال۔ آپ نے فرمایا کہ یہی فرق تمہارے مدارج میں ہے۔‘‘

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ کرامؓ کو پہلے ہی سکھایا گیا تھا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران: 93) اس میں چندہ دینے اور مال صرف کرنے کی تاکید اور اشارہ ہے۔ یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ ہوتا ہے اس کو نبھانا چاہیے۔ اس کے بر خلاف کرنے میں خیانت ہوا کرتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 6صفحہ 42۔ایڈیشن 1984ء)

پھر ایک جگہ آپؑ نے فرمایا۔ ’’ایک آدمی سے کچھ نہیں ہوتا۔ جمہوری امداد میں برکت ہوا کرتی ہے۔

بڑی بڑی سلطنتیں بھی آخر چندوں پر ہی چلتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیاوی سلطنتیں زور سے ٹیکس وغیرہ لگا کر وصول کرتے ہیں اور یہاں ہم رضا اور ارادہ پر چھوڑتے ہیں۔ چندہ دینے سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ محبت اور ایک خلوص کا کام ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 42-43۔ایڈیشن 1984ء)

پھر ایک جگہ آپؑ نے خوشخبری دیتے ہوئے جماعت کو فرمایا کہ ’’تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کررہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس بات کی طرف دنیا کو توجہ نہیں وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کےلیے موقع ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں۔ یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کردےگا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائیگا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308-309)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کو لوگوں نے سمجھا اور قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں اور اس کا فضل حاصل کرنے والے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خواہشات کے مطابق قربانیوں میں بڑھنے والے ہوں۔

مالی قربانیوں میں بھی اور اپنی روحانی حالتوں کو بہتر کرتے چلے جانے والے بھی ہوں۔ اپنے تعلق کو اللہ تعالیٰ سے بڑھانے والے بھی ہوں اور صرف مالی قربانیوں میں نہیں بلکہ ہر حالت میں ہم اپنا وہ عملی نمونہ پیش کریں جو ایک حقیقی مسلمان کا نمونہ ہے اور جب یہ ہو گا تو

انشاء اللہ تعالیٰ ہم جماعت کی ترقیات کو بھی دیکھیں گے اور پہلے سے بڑھ کر ہم کامیابیاں دیکھتے چلے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے چلے جائیں گے اور دشمن کو ناکام و نامراد ہوتا دیکھتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ وہ دن بھی جلدلائے کہ ہم یہ دن دیکھیں۔

اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو جزا دے جنہوں نے مالی قربانیاں کی ہیں۔ ان کے اموال و نفوس میں برکت ڈالے اور آئندہ ہمیشہ وہ بہتر سے بہتر رنگ میں اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ اپنی اولادوں سے، اپنی نسلوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک پانے والے ہوں اور خود بھی اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔

نماز کے بعد میں

دو جنازے

پڑھاؤں گا ایک

جنازہ حاضر

مکرمہ امینہ چقماق ساہی صاحبہ

کا ہے۔ مبارک ساہی صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں۔ ترکی نژاد تھیں۔ گذشتہ دنوں پچھتر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ استنبول ترکی سے ان کا تعلق تھا۔ جلال شمس صاحب کے ذریعہ سے جب وہ وہاں تعلیم حاصل کر رہے تھے انہوں نے احمدیت قبول کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی صداقت پر ان کو کامل یقین تھا اور اس وجہ سے انہوں نے احمدیت کو قبول کیا۔ بڑی نیک خاتون تھیں۔ انہوں نے خود اپنے حالات میں لکھا ہے کہ میں استنبول میں پہلی احمدی خاتون تھی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے خط و کتابت کا سلسلہ انہوں نے شروع کیا اور ایمان و وفا میں بڑھتی چلی گئیں۔ ایم ٹی اے کی نشریات شروع ہوئیں تو انہوں نے موقع پا کر اپنی والدہ محترمہ کو اپنی قبولِ احمدیت کا بتایا اور انہیں دعوت دی تو انہوں نے بھی احمدیت قبول کر لی۔ پھر اپنی بہن محترمہ سماء صاحبہ اہلیہ محمت اوندر صاحب کو بھی دعوت دی، انہوں نے بھی بیعت کر لی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر اس خاندان میں احمدیت پھیل گئی۔

مرحومہ نے 1990ء میں وصیت کی اور اس طرح نظامِ وصیت میں شامل ہونے والی پہلی ٹرکش خاتون کہلائیں۔ بعد ازاں جب حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان کو صدر لجنہ ترکی مقرر فرمایا تو آپ کو ترکی کی پہلی صدر لجنہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ ایم ٹی اے دیکھتے وقت آپ کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کا ترجمہ خودکریں اور پھر انہوں نے اس بات کا اظہار کیا اور 1995ء میں ان کو حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے یوکے بلایا اور یہ کام ان کے سپردہو گیا۔ پھر انہوں نے ٹرکش زبان میں ترجمہ شروع کردیا۔ 1996ء میں انہوں نے زندگی وقف کردی۔ اس طرح آپ اسلام اور احمدیت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والی پہلی ٹرکش خاتون بھی بنیں۔ ان کی ایک تحریر ملی ہے جس میں وہ لکھتی ہیں کہ میں نے عہد کیا کہ اپنی آخری سانس تک اسلام احمدیت کے لیے کام کروں گی جسے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے احسن رنگ میں احسن طور پر نبھایا اور وفات کے دن تک یہ جماعت کی خدمت ہی کر رہی تھیں۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اپنے ایک حفاظتِ خاص کے ممبر مبارک ساہی صاحب کی پہلی اہلیہ کے فوت ہونے کے بعد امینہ صاحبہ سے مبارک صاحب کی شادی کر دی اور اس بندھن کو بھی انہوں نے بڑے احسن رنگ میں نبھایا۔ ان کے بچوں کا بھی خیال رکھا۔ ٹرکش زبان میں انہوں نے ترجمہ قرآن بھی کیا اور اس کے علاوہ دیگر کتب اور خلفاء کے خطبات کا ترجمہ بھی کرتی رہیں۔

ان کے بہنوئی ہیں محمت اوندر صاحب۔ وہ ان کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انتہائی سخی دل خاتون تھیں۔ آپ کا علم، خوش مزاجی اور روحانیت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسلام احمدیت کی خدمت میں بہت آگے تھیں۔ جیب میں جتنے پیسے بھی ہوتے وہ جماعت کی راہ میں خرچ کر دیتیں۔ استنبول میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہوئے اپنے گھر کو جماعتی پروگرام کے لیے استعمال کیا۔ والدہ کی وفات کے بعد یہ گھر بطور مسجد استعمال ہونے لگا اور انہوں نے جماعت کو عطیہ کر دیا۔ باقاعدگی سے تہجد ادا کرتیں۔ نماز فجر تک قرآن کریم کی تلاوت کرتیں۔ صحت کی خرابی کے باوجود آخر دم تک اپنے وقف کو نبھایا اور ہمیشہ کہتی تھیں کہ ہم نے امام مہدی کو بہت دیر بعد پہچانا ہے اور مانا ہے اس لیے ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، ہمیں بہت زیادہ محنت کرنی ہو گی۔ خلافت کے ساتھ ہمیشہ وفا کا تعلق رکھا تھا اور کہتی تھیں کہ اپنے ذاتی مسائل خلیفہ وقت کو پیش کر کے پریشان کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ خود ان کا حل نکالنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔

دوسرا جنازہ

غائب ہے۔ وہ

محمود احمد ایاز صاحب ناروے

کا ہے جو خالد مسعودصاحب ناظر اشاعت ربوہ کے بڑے بھائی تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحوم موصی تھے اور پسماندگان میں اہلیہ اور ایک بیٹاہیں۔

مختلف وقتوں میں ان کو جماعت کی خدمت کی توفیق ملی۔ لمبے عرصہ تک ناروے کے سیکرٹری امورِ خارجہ کے طور پہ کام کیا۔ مختلف وقتوں میں قائم مقام امیر ناروے کے طور پر بھی ان کو خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ کچھ عرصہ ان کو ربوہ میں وقف کرنے کی توفیق ملی۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان کو ناروے کے حالات کے لحاظ سے ان کو واپس بھجوا دیا کہ وہاں جا کےکام کریں۔ جماعتی لٹریچر پر دسترس رکھتے تھے۔ کالج کے ابتدائی سالوں میں علاوہ دیگر کتب کے تفسیر کبیر کا دور مکمل کر لیا تھا یعنی جوانی میں پڑھ لیا تھا۔ دینی کتب اور جماعتی اخبار و رسائل کو باقاعدگی سے پڑھنے والے تھے۔ خلافت کے ساتھ عقیدت اور محبت ان کی روح میں رچی بسی تھی۔ بہت سادہ مزاج اور نرم دل اور باوفا انسان تھے۔ چندوں کی ہمیشہ بروقت اور باشرح ادائیگی کو یقینی بناتے تھے۔ طالبعلمی میں ہی نظامِ وصیت میں شامل ہونے کی سعادت پائی۔ پابندِ صوم و صلوٰة تھے۔ نوافل کا التزام کرنے والے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے تھے۔ عاجزی اور انکساری والی ان کی طبیعت تھی۔ وقار اور متانت نمایاں وصف تھا۔ ظاہر اور باطن صاف اور پاک تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ یہ جنازہ بھی حاضر جنازےکے ساتھ ہو گا۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۲۹؍ نومبر ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button