الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترمہ صاحبزادی امۃالحکیم صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں محترمہ زینت حمید صاحبہ نے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کے حوالے سے محترمہ صاحبزادی امۃالحکیم صاحبہ کی سیرت پر روشنی ڈالی ہے۔
مضمون نگار لکھتی ہیں کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر محترمہ صاحبزادی امۃالحکیم صاحبہ کے ساتھ ایک لجنہ ممبر مقرر ہوتی تاکہ آپ کی ضروریات کا خیال رکھا جاسکے اور سہولت سے جلسہ گاہ جاسکیں۔ لیکن آپ ہمیشہ خواتین میں گھری رہتیں، جو بھی سلام کرتا کھڑے ہو کر احوال پوچھنا اور ہلکی پھلکی گفتگو کرنا اور دعائیں دینا ان کا شیوہ تھا۔ہمیشہ نسبتاً ہلکی آواز لیکن ٹھوس لہجے اور دل کو موہ لینے والے انداز میں بات کرتی تھیں۔
یہ تو ہم سب کے علم میں ہے کہ خطبہ کے دوران بات نہیں کرنی چاہیے۔ ایک مرتبہ خاکسارآپ کے قریب بیٹھی تھی۔ جلسہ سالانہ جرمنی کا پہلا دن تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒخطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اس دوران ایک ڈیوٹی ممبرخاکسار سے کچھ پوچھنے کے لیے آئی تو خاکسار نے اشارہ کیا کہ لکھ کر دے دیں۔ انہوں نے لکھ دیا اور خاکسار نے جواب لکھ کر دے دیا ۔ نماز کے اختتام پر آپ نے فرمایا کہ خطبہ کے دوران کسی بھی قسم کی حرکت نا پسندیدہ اور معیوب ہے۔ خطبہ نماز کا حصہ ہے اس دوران مکمل خاموشی اور سکون ہونا چاہیے، جو بھی بات کرنی ہو نماز کے بعد کریں۔
ایک مرتبہ آپ خاکسار کے گھر تشریف لائیں تو مقامی جماعت سے کئی بہنیں بھی حاضر ہوگئیں۔ ایک بہن ایسی بھی تھیں جو اپنے شوہر کی وفات کے بعد عدّت میں تھیں۔ جب آپ کو اس کا علم ہوا تو ناراضگی سے فرمایا کہ عدّت میں باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا ، یہ قرآن کریم کا حکم ہے اس پر سختی سے عمل ہونا چاہیے۔ پھر آپ کہنے لگیں کہ جرمنی سے مجھے ایک خاتون نے خطوں میں بڑی پریشانی میں لکھا کہ اُن کا بیٹا بد صحبت میں پڑکر خراب ہوگیا ہے اور شراب پینے لگ گیا ہے۔ پھر جب میں اس خاتون سے ملی تو اس کو بےپردہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا اورمَیں نے اس سے کہا کہ تم نے قرآن کریم کے ایک حکم کی نافرمانی کی ہے تو تمہارے بیٹے نے بھی اپنی مرضی کے مطابق ایک حکم کو چھوڑاہے۔ جوتم نے کیا ہے وہی اس نے بھی کیا ہے پھر تمہاری پریشانی کی سمجھ نہیں آتی۔ آپ کی اس پُرحکمت بات میں ہم سب کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے کہ اپنے بچوں کو برائیوں سے بچانے کے لیے اپنی حالت کی درستگی کا بھی خیال رکھیں۔
ایک بار آپ نے فرمایا کہ اگرکوئی چیز اللہ تعالیٰ کو منظور نہ ہو تو اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور رکاوٹ پڑ جاتی ہے خواہ کپڑے کی خریداری ہو یا کوئی اَور بات ہو۔
آپ نہایت درویش صفت اور مہربان ہستی تھیں۔ جب بھی کوئی کسی موقع پر مدعو کرتا تو خوشی سے شریک ہوتیں۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک بچی کی شادی میں شرکت فرمائی، تلاوت دعا وغیرہ ہوئی مگر انتظام ایسا نہ تھا کہ مردانہ ہال سے آواز عورتوں کی طرف سنی جاتی۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ ایسے بابرکت پروگرام سننے کا انتظام عورتوں کی طرف بھی ضرورہونا چاہیے۔ پھر آپ کے اس ارشاد کو سن کر اہل خانہ کی طرف سے ایک خاتون نے چند دعائیہ اشعار پڑھے۔
جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی حرم محترم حضرت آپا جان پہلی بار جرمنی تشریف لائیں تو نیشنل عاملہ لجنہ نے آپ کی خدمت میںتحفہ پیش کیا۔ اس پر آپ نے پوچھا کہ یہ لجنہ کے فنڈ سے ہے یا ذاتی پیسوںسے؟ اور کیا وفد میں شامل دیگر خواتین کو بھی ایسا ہی تحفہ دیا گیا ہے؟ الحمدللہ کہ تحائف عاملہ ممبرات نے بخوشی مل کر لیے تھے اور سب کے لیے ایک جیسے تحفے خریدے گئے تھے۔ اس پر مجھے یاد آیا کہ حضرت آپا جان کی والدہ محترمہ صاحبزادی امۃالحکیم صاحبہ کا بھی یہی وصف تھا، چنانچہ ایک مرتبہ نیشنل عاملہ جرمنی نے اُن کو تحفہ پیش کیا لیکن رقم لجنہ کے اکائونٹ سے لی گئی۔ انہیں جب پتا چلا تو وہ تحفہ واپس کر دیا۔ ہمیں بہت شرمندگی ہوئی ا ورعرض کیا کہ اس کی رقم ہم خود ادا کر دیتے ہیں آپ قبول فرمالیں لیکن انہوں نے پھر وہ تحفہ نہیں لیا۔
………٭………٭………٭………
محترمہ صاحبزادی امۃالنصیر بیگم صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ رضیہ ناصر صاحبہ نے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کے حوالے سے محترمہ صاحبزادی امۃالنصیر بیگم صاحبہ کی سیرت تحریر کی ہے۔
محترمہ صاحبزادی امۃالنصیربیگم صاحبہ(بی بی چھیرو) ہمارے محلّے کی ایک شفیق صدر لجنہ اماءاللہ تھیں۔ آپ کی زیرِصدارت ہمارا محلّہ ربوہ میں بارہا اوّل آتا رہا۔ آپ کا اجلاس منعقد کروانے کا انداز اتنا دلچسپ ہوتا تھا کہ وقت گزرنے کا پتا بھی نہ چلتا۔ تلاوت اور حدیث کا ترجمہ باری باری کئی ممبرات سے سنتیں تاکہ ممبرات غور سے سنیںاور جن کو سمجھ نہیں آئی ان کو بھی سمجھ آجائے۔ پھر جو ممبرات تعلیم یافتہ نہ ہوتیں ان سے کہتیں کہ چاہے وہ پنجابی میں ہی مفہوم بتائیں لیکن بتائیں ضرور تاکہ ایک تو ان کو بات بیان کرنی آجائے اوردوسرے ان میں خوداعتمادی پیدا ہو۔ جو مضامین پڑھے جاتے وہ بھی باری باری پوچھتیں اور ساتھ ساتھ خود بھی وضاحت کرتی جاتیں۔ اس طرح اجلاس کے دوران ہی سب چیزیں خاص طور پر احادیث زبانی یاد ہو جاتیں۔
ہمارے حلقے میں آدھی تعداد خا ندانِ مسیح مو عودؑ کی خواتین کی اور آدھی دو سر ی خواتین کی ہے لیکن اجلاس کے دوران وہ اپنے خاندان کی بجائے دوسری ممبرات سے زیادہ توجہ اور پیار کا سلوک فرماتیں۔ عاملہ میں بھی خاندان کی خواتین کی بجائے زیادہ تعداددوسری خواتین کی تھی۔ آپ جہاں ضرورت محسوس کرتیں عملی طور پر بھی بات کو سمجھادیتیں مثلاً پردہ کرنے کی طرف توجہ دلاتے وقت باقاعدہ پردہ کرکے دکھاتیں۔ آپ دوہر ے نقاب والی ابری استعمال کرتی تھیں۔ ایک نقاب سے چہرہ ڈ ھانپ کر دوسرا نقاب چہرے پر گرالیتیں۔ یہ پردہ آپ کی آخری عمر تک قائم رہا۔ باریک اور چھوٹی آستین والے لباس کو ناپسند فرماتیں۔ اس حوالے سے اپنے ابّا یعنی حضرت مصلح موعودؓ کے کئی واقعات سنایا کرتیں مثلاً آپ نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضورؓ کی کسی بچی نے با ریک کپڑے کی قمیص سی کر پہنی تو حضورؓ نے وہ قمیص لے کر اسے قینچی سے کاٹ کر کوڑےدان میں پھینک دیا۔
ایک دفعہ مَیں آپ کے ہاں گئی تو اُن دنوں مَیں نے نیا نیا کوٹ پہننا شروع کیا تھا جو کہ بمشکل گھٹنوں تک آتا تھا۔ آپ نے پوچھا کہ تم نے اتنا چھوٹا کوٹ کیوں پہنا ہوا ہے؟ میں نے اپنی کم عقلی کی وجہ سے خاندان کی کسی لڑکی کا نام لے دیاکہ وہ بھی تو اتنا چھوٹا کوٹ پہنتی ہے۔ میری بات سن کر ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگئیں، پھر بڑے دُکھی انداز میں کہنے لگیں کہ اگر خاندان کے لوگ کوئی غلط کام کریں گے تو عام لوگوں کی نسبت وہ گناہ کے زیادہ مرتکب ہوں گے کیونکہ وہ ایک نبی کے خاندان سے ہیں۔ پھر کہنے لگیں کہ بٹیا!آپ نے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے، نہ کہ اُن کے خاندان کی۔ انہوں نے اتنے پیار اور دلیل سے مجھے سمجھایاکہ دوبارہ اس طرح کی بات میرے دماغ میں نہیں آئی۔
جب کبھی ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوتا تو بہت پیار سے ملتیں، خیریت دریافت کرتیں اور موسم کے مطابق شربت وغیرہ پلواتیں۔ یہ کبھی نہ سوچتیں کہ یہ تو اپنے کسی کام کے لیے آئی ہے۔ خدا نے جتنا خوبصورت چہرہ دیا تھا اس سے کہیں زیادہ خوبصورت سیرت کی مالک تھیں۔ اتنی عاجزی اور انکساری تھی کہ حیرانی ہوتی تھی۔ اکثر اپنے لیے عاجزہ کا لفظ استعمال کرتیں۔ اپنے گھر کی خادم بچیوں کی تعلیم کا بہت خیال رکھتیں۔ ان کو اچھا کھلاتیں پلاتیں۔ کئی بچیوں کے لیے جہیز تیار کروایا اور پھر اچھے رشتے تلاش کرکے ان کو رخصت کیا۔
میری بڑی بہن جب لجنہ میں آئیں تو آپ نے امی سے کہا کہ بچی بڑی ہو گئی ہے، اب اس کو برقع پہنائیں۔ امی نے کہا کہ بی بی دعا کریں۔ اس وقت ہماری زمینوں پر غیراحمدی قابض تھے اور ہمارے مالی حالات اتنے کمزور تھے کہ برقع خریدنے کی گنجائش نہیں تھی۔ آپ نے صرف دعا کا کہنے سے ہی بات سمجھ لی اور اگلے ہی روز خاد مہ کے ہاتھ برقع کا خوبصورت اور نیا کپڑا تحفۃً بھجوادیا۔ یہ احساس تو کوئی اپنا ہی کر سکتا ہے۔
میری بڑی بہن کا رشتہ طے پا رہا تھا اور امی نے دعا کے لیے کہا تو بڑی توجہ سے لڑکے اور ان کے خاندان کے متعلق پوچھا اور دعا کا وعدہ کیا۔ پھر جب شادی طے پائی تو شادی سے چند ہفتے قبل خادمہ کے ساتھ تشریف لائیں، کئی خوبصورت اَن سلے سوٹ امی کو دیے اور ہر سوٹ کا ڈیزائن بھی بتایا کہ اس کا کرتہ پاجامہ بنائیں اس کرتے پر یہ گلا بنائیں وغیرہ۔ ایک انتہائی خوبصورت کپڑا دیا کہ اس کالہنگا بنوائیں۔ پھر پوچھنے لگیں کہ بچی نے رخصت ہوکر کہاں جانا ہے؟ امی نے بتایا کہ گجرات جانا ہے۔ کہنے لگیں کہ وہ تو کافی دُور ہے، جون کا مہینہ ہے لڑکی تو گرمی سے گھبرا جائے گی۔ اس لیے رخصتی کے وقت بچی کے کپڑے بدلوا دیں۔ کوئی لان کا سوٹ پہنادیں لیکن کوشش کریں کہ لان کا سوٹ سرخ ہواور اس پر ہلکا سا گوٹا لگالیں تاکہ کپڑے بدل کر بھی لڑکی دلہن ہی لگے اوراس کی نند کو سمجھا دیں کہ گھر پہنچ کر بچی کو دلہن کی طرح دوبارہ سجا دیں۔
شادی والے دن خاندان کی خواتینِ مبارکہ ہمارے گھر تشریف لائیں۔ حضرت چھوٹی آپا نے اپنے کانوں سے بالیاں اتار کر تبرک کے طور پر میری بہن کو دیں۔ حضرت صاحبزادی امۃالنصیربیگم صاحبہ بارات کے ساتھ آئی ہوئی خواتین سے کہنے لگیں کہ مجھے اور سارے محلے کو ان بچیوں پر فخر ہے۔ وہ گھر خوش قسمت ہیں جن میں یہ بیاہ کر جائیں گی۔ ان کی یہ بات سن کر ہم سب کے تو آنسو نکل آئے کہ ہم کہاں اس قابل ہیں یہ تعریف کرنا تو ان کا بڑا پن ہے۔
حضرت صاحبزادی صاحبہ کا رویہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ماں کی طرح کا ہی رہا۔ ذرا سا کوئی اچھا کام کرتے تو بہت سراہتیں لیکن جب کوئی غلطی کرتے تو بہت حکمت سے بغیر نام لیے غلطی کی نشاندہی کر دیتیں تاکہ غلطی کرنے والے کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہو جائے اور ندامت بھی نہ ہو۔
آپ کی طبیعت میں سادگی تھی لیکن بہت پُروقار تھیں۔ ایک نظر میں ہی کسی کی ضرورت کا اندازہ لگالیتیں۔ ایک دفعہ ہمارے گھر بہت اچھی حالت کا بڑے سائز کا بہت خوبصورت قالین اس پیغام کے ساتھ بھجوایا کہ یہ بچیوں کے لیے ہے تاکہ وہ قالین پر بیٹھ کر سکول،کالج کا کام آسانی سے کرسکیں۔
میری فیملی جرمنی میں بیس سال سے رہ رہی ہے۔ اتنا وقت گزر جانے کے باوجود جب بھی ہم میںسے کسی کی اُن سے ملاقات ہوتی تو باقی سب بہنوں کے نام لےکر خیریت دریافت کرتیں اور پُرخلوص سلام اور دعاؤںکا تحفہ بھجو اتیں۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۰؍ستمبر۲۰۱۴ء میں حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
محبت کے نغمے سناتا چلا جا
رُبابِ صداقت بجاتا چلا جا
جو حق ہے اُسے تُو اُجاگر کیے جا
جو باطل ہے اُس کو مٹاتا چلا جا
تُو حُسنِ سلوک اور شیریں زباں سے
پرائے کو اپنا بناتا چلا جا
نمونے سے اپنے دلوں میں سما جا
نقوشِ محبت جماتا چلا جا
اگر زخم پہنچے کوئی راہِ حق میں
تُو شکوہ نہ کر ، مسکراتا چلا جا
تعلق ہے وحدت کے چشمے سے تیرا
معارف کی نہریں بہاتا چلا جا