ایشیا (رپورٹس)پرسیکیوشن رپورٹس

بنگلہ دیش میں جماعت احمدیہ کے خلاف ظلم و بربریت کی ایک نئی داستان: احمد نگر، رنگٹیا، بام نائل چڑائی کھولا اور تاراگنج کی جماعتوں پر بلوائیوں کا حملہ جلاؤ گھیراؤ میں ایک احمدی شہید جبکہ ذاتی اور جماعتی املاک کو نقصان

(نوید الرحمٰن۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)

الٰہی جماعتوں کو ہمیشہ اپنے ایمانوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے مخالفت اور مشکلات کے راستہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی حال اہلِ بنگال کے احمدیوں کا ہے جنہیں ابتدا سے ہی امتحانوں اور ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مورخہ ۵و۶؍اگست کو ملک میں سیاسی کشمکش اور حکومت کا تختہ الٹنے کی وجہ سے لاقانونیت کی جو حالت ہوئی اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت کے ایک مخالف گروہ نے ملک کے مختلف علاقوں میں جماعت احمدیہ کی مساجد اور احمدی گھروں کو حملے کا نشانہ بنایا۔ چار مساجد اور ایک نماز سینٹر پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی اور آگ لگائی گئی۔ بعض جگہ امام کوارٹرز کو بھی آگ لگائی گئی۔ کُل پانچ جگہوں پر یہ حملے ہوئے:

۱۔ احمد نگر جماعت – مسجد، جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش، جلسہ گاہ اور ۸۰؍سے زائد گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا۔

۲۔ رنگٹیا جماعت – مسجد، امام کوارٹرز اور گیارہ گھروں کو جلا دیا گیا اور لوٹ مار کی گئی۔

۳۔ بام نائل جو راجشاہی جماعت کا ایک حلقہ ہے – مسجد میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گئی۔

۴۔ چڑائی کھولا جماعت – مسجد جلائی گئی۔

۵۔ تاراگنج جماعت – نماز سینٹر اور امام کوارٹرز جلائے گئے۔

ہرایک واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے:

۱۔ جماعت احمد نگر – ضلع پنچ گڑھ: ۲۰۱۹ء تا ۲۰۲۴ء یہاں کُل پانچ مرتبہ جلسہ سالانہ منعقد ہوئے۔ یہاں احمدنگر اور شالشیڑی دو جماعتیں ہیں جن میں ساڑھے چھ سو سے زائد گھرانے احمدیوں کے ہیں۔ یاد رہے کہ ۲۰۲۳ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر شدت پسندوں نے جلسہ گاہ پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت ان دو جماعتوں کے دو سو سے زائد گھر جلائے گئے تھے۔ اس حملہ کی وجہ سے جلسہ بند کرنا پڑا اور ہمارے ایک احمدی نوجوان زاہد حسن صاحب نے جامِ شہادت نوش کیا۔ اس مرتبہ پھر اسی علاقہ کو خاص طورپر نشانہ بنایا گیا۔ احمد نگر کی مسجد جلائی گئی، جامعہ احمدیہ کی عمارت اور جلسہ گاہ پر حملہ کیا گیا اور اسّی سے زائد گھر مکمل طور پر جل گئے۔ ۱۱۷؍گھرانوں کا جزوی جلا دیے گئےنقصان ہوا اور بائیس احباب زخمی ہوئے جن میں ایک لڑکی بھی شامل ہے۔

جلسہ گاہ احمد نگر

مکرم صلاح الدین صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیںکہ مورخہ ۵؍اگست شام چار بجے حکومت کی تبدیلی اور فوج کے حکومت پر قبضہ کرنے کی خبر شائع ہوئی۔ ساڑھے چار بجے شریروں کی ایک بڑی جمعیت ہمارے گھروں، مسجد، جلسہ گاہ اور جامعہ پر حملہ آور ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تیار بیٹھے تھے۔ انہوں نے گھروں کی لوٹ مار کی اور ایک اَور گروہ نے جلاؤ گھیراؤ کیا۔ جلسہ گاہ کے سٹور روم جہاں جلسہ کا سامان رکھا جاتا ہے اس کو آگ لگائی اور بالکل راکھ کر دیا۔ احمدی احباب و خواتین اور بچے جامعہ کی عمارت میں پناہ گزین ہوگئے۔ اس حملے کے نتیجہ میں بائیس احبابِ جماعت زخمی ہوئے جن میں مکرم شہریار رکین صاحب شدید زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ڈھاکہ میں مورخہ ۸؍نومبر کو جام شہادت نوش کیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مکرم مطلب خان صاحب صدر جماعت احمدیہ احمد نگر کا گھر بھی جلایا گیا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب حملہ شروع ہوا تو خاکسار اور چند احباب مسجد میں تھے۔ بہت سارے نقاب پوش لوگ تھے۔ مسجد، جماعتی دفاتر، مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس انصاراللہ کے دفاتر بھی جلا دیے گئے۔ پھرگیسٹ ہاؤس کے پرانے حصہ کوآگ لگا کر اس کے نئے حصہ میں بھی آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن جو احباب ڈیوٹی پر موجود تھے انہوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا تو وہ بھاگ گئے۔

اس حملے کا نقشہ کھینچتے ہوئے مکرم نجم الثاقب صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ احمد نگر و معاون صدر بیان کرتے ہیں کہ حالات کے پیش نظر گو ہم نے حفاظتی انتظام کے تحت مسجد اور جلسہ گاہ میں ڈیوٹی کا انتظام کیا تھا۔ لیکن حملہ اتنا اچانک ہوا اور اتنی بڑی تعداد میں لوگ حملہ کرنے آئے کہ ہمارے معمولی سے انتظام سےکیا ہو سکتا تھا۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم بچ گئے۔ خاکسار جلسہ گاہ میں ڈیوٹی دے رہا تھا۔ ایک ٹیم مسجد میں اور جامعہ میں جامعہ کے طلبہ تھے۔

مکرم بشیر الرحمٰن صاحب مربی سلسلہ، وائس پرنسپل جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش بیان کرتے ہیں کہ حملہ آوروں کا ایک گروہ مسجد پر حملہ کر رہا تھا تو دوسری طرف ایک اور گروہ نے خاکسار کے گھر پر حملہ کر دیا جو مسجد کے بالکل قریب ہے۔ انہوں نے مجھے اور میری اہلیہ کو ضروری سامان وغیرہ لے کے باہر جانے کا موقع دیا اور پھرگھر کو آگ لگا دی۔ خاکسار کی زندگی میں جمع شدہ تمام کتب جل گئیں۔ اَور چیزوں کی تو تلافی ممکن ہے لیکن اس قیمتی اثاثے کی تلافی ناممکن ہے۔

مکرم صالح احمد صاحب مربی سلسلہ، استاد جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش بیان کرتے ہیں کہ خاکسار اور اہلیہ جامعہ میں تھے۔ اچانک حملہ آور جلوس کی شکل میں داخل ہوئےاور انہوں نے جلسہ گاہ اور جامعہ پر حملہ کرتے ہوئے خاکسار کے گھر پر بھی حملہ کر دیا۔ ہمارا گھر جل کر بالکل راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ خاکسار کی تمام کتب بھی جل گئیں۔

ہمایوں کبیر صاحب جو اس روز کے حملہ سے نقصان اٹھانے والوں میں سے ہیں بیان کرتے ہیں کہ اس روز شام کو خاکسار گھر پر ہی تھا جب حملہ شروع ہوا۔ چاروں طرف شور اور ہنگامہ کی آواز سن کر خاکسار نے اپنے اہل و عیال سمیت جامعہ میں پناہ لی۔ جب حملہ آور چلے گئے تو گھر پر جا کے دیکھا کہ میرے اورآس پاس کے تمام گھر جل گئے تھے ۔

احمد نگر میں ایک احمدی گھر

ایک ممبر لجنہ اماء اللہ مکرمہ میلا احمد صاحبہ اپنا تجربہ بیان کرتی ہیں کہ میرا گھر مسجد کے بالکل قریب واقع ہے۔ جب حملہ آوروں نے مسجد پر حملہ کیا تو میرے گھر پر بھی حملہ کردیا۔ میں اس وقت گھر پراکیلی تھی۔ میرا اکلوتا بیٹا عزیزم احسان احمد عمر چودہ سال مسجد میں ڈیوٹی پر موجود تھا۔ حملہ آوروں نے گھر کے بیرونی دروازے کو توڑنے کی کوشش کی۔ میں اندرون خانہ ایک کمرے میں دروازہ لگا کے بیٹھی رہی۔ وہ لوگ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور یکے بعد دیگرے سب کمروں سے سامان لوٹ لیا اور پھر آگ لگا دی۔ میں جس کمرہ میں تھی اس کے دروازےکو بھی انہوں نے توڑنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کے بعد انہوں نے گھر کی چھت پر چڑھ کر میرے کمرے میں آگ کا ٹکڑا ڈالنے کی کوشش کی۔ جب آگ بہت پھیل گئی تو میرے ليے کمرہ میں رہنا ناممکن ہوگیا۔ میں بیرونی دروازے میں آکر کیا دیکھتی ہوں کہ باہر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہیں اور مسجد پر حملہ کر رہے ہیں۔ مَیں نے جلدی سے ایک پڑوسی کے گھر میں پناہ لی جو کہ غیر از جماعت تھی۔ اس حملے سے میرا پورا گھر جل گیا اور سامان لوٹ لیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کےفضل سے ہماری جانیں بچ گئیں۔

اس پورے واقعہ کا ایک حصہ جامعہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ عزیزم راشدالحسن طالب علم درجہ رابعہ جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش بیان کرتے ہیں کہ اس حملہ کے دوران ہم جلسہ گاہ میں ڈیوٹی دے رہے تھے۔ جلسہ گاہ کے دو گیٹ ہیں۔ ایک گیٹ مسجد کی طرف سے کھلتا ہے اور دوسرا گیٹ جامعہ کی طرف ہے۔ ہم دوسرے گیٹ پر ڈیوٹی دے رہے تھے۔ مسجد کی طرف جو گیٹ ہے اس طرف سے سینکڑوںحملہ آور داخل ہوئے۔ ہم تعداد میں پندرہ، بیس تھے۔ انہوں نے ہمیں بہت مارا پیٹا اور ہمیں کلمہ پڑھنے کو کہا۔ ہم تو پہلے ہی سے کلمہ گو ہیں۔ ہم نے جب کلمہ پڑھا تو انہوں نے کہا اب سے تم مسلمان ہو قادیانی نہیں! حالانکہ ہمارا تو پہلے سے ہی ایک ہی کلمہ ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں اغوا کر کے لے جانا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ فوجی آ گئے تو یہ لوگ بھی بھاگ گئے۔

مکرم سید مظفر احمد صاحب مربی سلسلہ، استاد جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش اس ہولناک حملے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حملہ آوروں کے ہاتھوں میں دیسی اسلحہ تھا جس میں مختلف قسم کے چاقو اور چھریاں تھیں اور وہ باہر سے ہی ہمیں دکھا رہے تھے کہ اگر اندر آ سکیں تو ہمیں ذبح کر ڈالیں گے۔ وہ موسلا دھار بارش کی طرح اینٹیں پھینک رہے تھے۔ جامعہ کا بیرونی دروازہ توڑنے کی انہوں نے بڑی کوشش کی۔ ایک گیس سلینڈر (Gas Cylinder) لا کر دروازہ پر رکھ کر آگ لگا دی تا کہ دھماکا سے دروازہ توڑ دیں۔ اگر وہ داخل ہوجاتے تو بہت ہی خطرناک صورت حال بننے کا اندیشہ تھا۔ دروازہ توڑنے کی ناکام کوشش کے بعد یہ لوگ دیوار توڑنے لگ گئے۔ کئی جگہوں سے ہتھوڑے وغیرہ کی مدد سے دیوار توڑنے کی کوشش کرتے رہے اور تین جگہوں پر وہ دیوار توڑنے میں کامیاب ہوئے۔ ہماری بچاؤ کی کوششوں کے نتیجہ میں وہ اندر داخل نہ ہو پائے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ کابےحد فضل و کرم ہے کہ اتنے عرصہ میں فوجی آگئے۔

اس وقت جو حالت تھی وہ نا قابلِ بیان ہے۔ پولیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کی طرف سے جواب آیا کہ ابھی ملک میں لاقانونیت ہے۔ ابھی ہم کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ مسجد، جلسہ گاہ اور گھروں میں جوآگ لگی تھی اس کو بجھانے کا جوانتظام ہمارے پاس تھا اس کو حملہ آوروں نے توڑ دیا تھا۔ فوج نے فائر سروس کو بلایا جنہوں نے آگ بجھانے کا انتظام کیا۔

واقعہ یہاں ہی ختم نہیں ہوتا۔ فوجی افسر نے ہمیں کہا کہ آپ کے جو افراد زخمی ہوئے ہیں ان کو ہمیں دیں ہم اپنے انتظام کے تحت ان کو ہسپتال پہنچا دیتے ہیں۔ ہم نے مریضان کو ان کے سپرد کر دیا اور بعض صحت یاب لوگ ان کے ہمراہ ہسپتال گئے۔ لیکن ہسپتال میں بھی مخالفین موجود تھے جنہوں نے کہا کہ ہم قادیانیوں کو یہاں علاج نہیں کروانے دیں گے۔ راستوں میں مختلف جگہ لوگ جتھوں کی صورت میں موجود تھے جس وجہ سے ہمارے ليے بھی ہسپتال جانے میں خطرہ تھا۔ اس حالت میں رات ساڑھے گیارہ بجے خاکسار ایک آدمی کو ساتھ لے کر موٹر سائیکل پر ہسپتال پہنچا۔ خوف و ہراس کا یہ عالَم تھا کہ کوئی رکشہ، گاڑی حتیٰ کہ ایمبولینس بھی ہمیں سوار کرنے کے ليے تیار نہیں تھی۔

اللہ تعالیٰ ہمارا حافظ و ناصر ہو۔ ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے۔ آمین

۲۔ تاراگنج جماعت (ضلع رانگ پور کا ایک گاؤں): مکرم زاہد الاسلام صاحب معلم وقف جدید بیان کرتے ہیں کہ مورخہ ۵؍اگست رات کو بعد نماز عشاء شریروں کے ایک گروہ نے ہمارے نماز سنٹر اور امام کوارٹرز پر حملہ کیا اور لوٹ مار کے بعد آگ لگا دی۔ آگ سے مسجد اور کوارٹرز جل گئے۔ خاکسار نے اپنے گھر والوں کے ساتھ صدر جماعت کے گھر میں پناہ لی۔

احمد نگر میں ایک احمدی گھر

۳۔ بام نائل حلقہ، راجشاہی جماعت۔ ضلع راج شاہی: یہ ایک نئی جماعت ہے جس میں تمام افراد نو مبائع ہیں۔ یہاں کے مربی سلسلہ مکرم معصوم احمد صاحب نے بیان کیا کہ ۵؍اگست کی شام کو بعض لوگوں نے ان کو ڈرایا دھمکایا تا کہ وہ یہ جگہ چھوڑ کر چلے جائیں۔ پھر اگلے روز چند شدت پسندوں نے مسجد پر حملہ کرکے مسجد کی دیواروں کو مسمار کر دیا اور لوٹ مار کی۔ مقامی لوگوں نے مربی صاحب کو پناہ دی۔ لیکن پھر صدر جماعت احمدیہ کے مشورہ سے موجودہ حالت کے پیش نظر آپ راجشاہی شہر چلے گئے۔ اس کے بعد ۹؍اگست کو جب جمعہ پڑھانے کے ليے مربی صاحب بام نائل واپس آئے تو مخالفین نے جمعہ نہیں پڑھانے دیا اور باقی احمدیوں کو بھی دھمکی دی کہ وہ مسجد کے قریب بھی نہ آئیں۔ لہٰذا کسی دوسری جگہ نماز جمعہ ادا کی گئی۔ گو بعد میں ۱۶؍اگست کو حکومتی اہل کاروں کے تعاون سے نماز جمعہ مسجد میں ہی ادا کی گئی۔

۴۔چڑائی کھولا(ضلع نیل فاماری کا ایک گاؤں): اس گاؤں کی آبادی ایک سو افرادپر مشتمل ہے۔ ۶؍اگست کو دوپہر گیارہ بجے کے بعد نام نہاد مولوی اور ان کے ہم خیال لوگ جو ڈیڑھ ہزار کے قریب تعداد پر مشتمل تھے نے مسجد پر حملہ کر دیا۔ لوٹ مار کی، آگ لگائی اور آگ سے جل جانے کے بعد مسجد کی دیوار توڑ دی۔ دوپہر تین بجے کے بعد جب فوجی آئے تو یہ لوگ بھاگ گئے۔

۵۔ رانگٹیا۔ ضلع شیر پور: مکرم سلیم احمد صاحب معلم وقف جدید بیان کرتے ہیں کہ ۶؍اگست کی دوپہر اڑھائی بجے پانچ سو سےزائد افراد جماعت احمدیہ کی مسجد ناصر پر حملہ آور ہوئے۔ ان کے ہاتھ میں مختلف قسم کا دیسی اسلحہ تھا۔ انہوں نے مسجد اور مسجد سے ملحق امام کوارٹرز کی توڑ پھوڑ، لوٹ مار کی اور پھر آگ لگادی۔ معلم صاحب کواپنی فیملی کے ساتھ گھر چھوڑ کر باہر جانا پڑا۔ اس کے بعد وہاں گیارہ گھروں پرحملہ کرکے آگ لگادی۔ جماعت کے جنرل سیکرٹری مکرم ہاشم صاحب کی دکان کو بھی لوٹاگیا۔ حملہ کرکے آگ لگانے کا یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔

نمائندہ حضور انور کی متاثرہ احمدی احباب سے ملاقات اور ان کی حوصلہ افزائی

مورخہ ۲۰؍ستمبر کو مولانا فیروز عالم صاحب انچارج مرکزی بنگلہ ڈیسک یوکے نے بطور نمائندہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بنگلہ دیش کا دورہ کیا جس میں آپ نے مخالفین کے حملوں سے متاثر احمدی احباب سے ملاقات کی اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ آپ جامعہ احمدیہ بنگلہ دیش کے زخمی طلبہ سے بھی ملے اور ان کے تجربات سننے کے بعد حوصلہ افزائی کی۔ نیز آپ نے جامعہ کے باقی طلبہ کو بھی چند اہم اور روح پرور نصائح کیں۔

مرکزی نمائندہ جامعہ کے طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے

محترم مولانا صاحب نے موجودہ حالات کے پیش نظر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کی تحریک کی روشنی میں احباب جماعت کو دعاؤں ،صدقات اور نوافل ادا کرنے کی یاددیانی کروائی۔

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے حالیہ خطبات جمعہ میں موجودہ حالات کے پیش نظر بنگلہ دیش کے احمدیوں کے ليے دعا کی تحریک فرمائی ہے۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ مخالفت بنگلہ دیش کے احمدیوں کے ليے ایمان و ایقان میں مضبوطی کا باعث بنے، جماعت کی ترقی کے راستے مزید کھلیں اور ہم خلیفہ وقت کی توقعات پر پورا اترنے والے بنیں۔ آمین

(رپورٹ: نوید الرحمٰن۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button