حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

جنگِ بدر کے اسباب (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲؍جون ۲۰۲۳ء)

جنگِ بدر کے اسباب بیان کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں جو جو مظالم قریش نے مسلمانوں پر کئے اور جو جو تدابیر اسلام کو مٹانے کی انہوں نے اختیار کیں وہ ہر زمانہ میں ہر قسم کے حالات کے ماتحت کسی دو قوموں میں جنگ چھڑ جانے کا کافی باعث ہیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ سخت تحقیر آمیز استہزا اور نہایت دلآزار طعن وتشنیع کے علاوہ کفارِ مکہ نے مسلمانوں کو خدائے واحد کی عبادت اور توحید کے اعلان سے جبراً روکا۔ ان کو نہایت بے دردانہ طورپر مارا اور پیٹا۔ ان کے اموال کو ناجائز طور پر غصب کیا۔ ان کا بائیکاٹ کر کے ان کو ہلاک وبرباد کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سے بعض کو ظالمانہ طور پر قتل کیا۔ ان کی عورتوں کی بےحرمتی کی۔ حتی ٰکہ ان مظالم سے تنگ آ کر بہت سے مسلمان مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے لیکن قریش نے اس پر بھی صبر نہ کیا اورنجاشی کے دربار میں اپنا ایک وفد بھیج کر یہ کوشش کی کہ کسی طرح یہ مہاجرین پھر مکہ میں واپس آ جائیں اور قریش انہیں اسلام سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور یا ان کا خاتمہ کر دیا جاوے۔ پھر مسلمانوں کے آقا اور سردارؐ کو جسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے سخت تکالیف پہنچائی گئیں اور ہر قسم کے دکھوں میں مبتلا کیا گیا اور قریش کے بھائی بندوں نے طائف میں خدا کا نام لینے پر آپؐ پر پتھر برسا دئیے حتیٰ کہ آپؐ کابدن خون سے تربتر ہو گیا اور بالآخر مکہ کی قومی پارلیمنٹ میں سارے قبائلِ قریش کے نمائندوں کے اتفاق سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ محمد رسول اللہﷺکوقتل کر دیا جاوے تاکہ اسلام کا نام ونشان مٹ جائے اور توحید کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو اورپھر اس خونی قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نوجوانانِ مکہ جو مختلف قبائل قریش سے تعلق رکھتے تھے رات کے وقت ایک جتھہ بنا کر آپؐ کے مکان پر حملہ آور ہوئے لیکن خدا نے آپؐ کی حفاظت فرمائی اور آپؐ ان کی آنکھوں پرخاک ڈالتے ہوئے اپنے مکان سے نکل آئے اور غارِثور میں پناہ لی۔ کیا یہ مظالم اور یہ خونی قراردادیں قریش کی طرف سے اعلانِ جنگ کا حکم نہیں رکھتیں؟ کیا ان مناظرکے ہوتے ہوئے کوئی عقل مند یہ خیال کرسکتا ہے کہ قریش مکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار نہ تھے؟ پھر کیا قریش کے یہ مظالم مسلمانوں کی طرف سے دفاعی جنگ کی کافی بنیاد نہیں ہوسکتے تھے؟ کیا دنیا میں کوئی باغیرت قوم جو خودکشی کا ارادہ نہ کر چکی ہو ان حالات کے ہوتے ہوئے اس قسم کے الٹی میٹم کے قبول کرنے سے پیچھے رہ سکتی ہے جو قریش نے مسلمانوں کو دیا؟ یقیناً یقیناً اگر مسلمانوں کی جگہ کوئی اَور قوم ہوتی تووہ اس سے بہت پہلے قریش کے خلاف میدانِ جنگ میں اتر آتی مگر مسلمانوں کو ان کے آقا کی طرف سے صبر اور عفو کاحکم تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جب مکہ میں قریش کے مظالم بہت بڑھ گئے تو عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور دوسرے صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قریش کے مقابلہ کی اجازت چاہی مگر آپؐ نے فرمایا اِنِّیْ اُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوْا یعنی مجھے ابھی تک عفو کا حکم ہے اس لئے میں تمہیں لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ چنانچہ صحابہؓ نے دین کی راہ میں ہرقسم کی تکلیف اورذلت برداشت کی مگر صبر کے دامن کو نہ چھوڑا حتیٰ کہ قریش کے مظالم کاپیالہ لبریز ہوکر چھلکنے لگ گیا اور خداوند عالم کی نظر میں اتمام حجت کی میعاد پوری ہو گئی۔ تب خدا نے اپنے بندے کو حکم دیا کہ تُو اِس بستی سے نکل جاکہ اب معاملہ عفو کی حد سے گزر چکا ہے اوروقت آگیا ہے کہ ظالم اپنے کیفرکردار کو پہنچے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہجرت قریش کے الٹی میٹم کے قبول کئے جانے کی علامت تھی اور اس میں خدا کی طرف سے اعلانِ جنگ کا ایک مخفی اشارہ تھا جسے مسلمان اور کفار دونوں سمجھتے تھے چنانچہ دارالندوہ‘‘ جو خانہ کعبہ کے قریب قریش کے مشورہ کی جگہ تھی ’’کے مشورہ کے وقت جب کسی شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ سے نکال دیا جاوے تو رؤسائے قریش نے اس تجویز کو اسی بنا پر رد کردیا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ سے نکل گیا تو پھر ضرور مسلمان ہمارے الٹی میٹم کوقبول کرکے ہمارے خلاف میدان میں نکل آئیں گے اور مدینہ کے انصار کے سامنے بھی جب بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا سوال آیا تو انہوں نے فوراً کہا کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں تمام عرب کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہو جانا چاہئے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے نکلے اور آپؐ نے مکہ کے درودیوار پرحسرت بھری نگاہیں ڈال کر فرمایا کہ اے مکہ! تومجھے ساری بستیوں سے زیادہ عزیز تھا مگر تیرے باشندے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے تواس پر حضرت ابوبکرؓ نے بھی یہی کہا کہ انہوں نے خدا کے رسولؐ کو اس کے وطن سے نکالا ہے۔اب یہ لوگ ضرور ہلاک ہوں گے۔

خلاصہ کلام یہ کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں مقیم رہے آپؐ نے ہرقسم کے مظالم برداشت کئے لیکن قریش کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی کیونکہ اوّل تو پیشتر اس کے کہ قریش کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی سنت اللہ کے مطابق ان پر اتمامِ حجت ضروری تھا اور اس کے لئے مہلت درکار تھی۔ دوسرے خدا کایہ بھی منشاء تھا کہ مسلمان اس آخری حد تک عفو اور صبر کانمونہ دکھلائیں کہ جس کے بعد خاموش رہنا خودکشی کے ہم معنی ہو جاوے جو کسی عقل مند کے نزدیک مستحسن فعل نہیں سمجھا جا سکتا۔ تیسرے مکہ میں قریش کی ایک قسم کی جمہوری حکومت قائم تھی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے شہریوں میں سے ایک شہری تھے۔ پس حسنِ سیاست کاتقاضا تھا کہ جب تک آپؐ مکہ میں رہیں آپؐ اس حکومت کا احترام فرمائیں اور خود کوئی امن شکن بات نہ ہونے دیں اورجب معاملہ عفو کی حد سے گزر جاوے تو آپؐ وہاں سے ہجرت کر جائیں۔ چوتھے یہ بھی ضروری تھا کہ جب تک خدا کی نظر میں آپؐ کی قوم اپنی کارروائیوں کی وجہ سے عذاب کی مستحق نہ ہو جاوے اوران کو ہلاک کرنے کا وقت نہ آ جاوے آپؐ ان میں مقیم رہیں اورجب وہ وقت آ جاوے توآپؐ وہاں سے ہجرت فرما جائیں کیونکہ سنت اللہ کے مطابق نبی جب تک اپنی قوم میں موجود ہو ان پر ہلاک کر دینے والا عذاب نہیں آتا۔ اورجب ہلاکت کاعذاب آنے والا ہو تو نبی کووہاں سے چلے جانے کا حکم ہوتا ہے۔ ان وجوہات سے آپؐ کی ہجرت اپنے اندر خاص اشارات رکھتی تھی مگر افسوس کہ ظالم قوم نے نہ پہچانا اور ظلم وتعدّی میں بڑھتی گئی ورنہ اگراب بھی قریش باز آ جاتے اوردین کے معاملہ میں جبر سے کام لینا چھوڑ دیتے اور مسلمانوں کو امن کی زندگی بسر کرنے دیتے تو خدا ارحم الراحمین ہے اوراس کا رسولؐ بھی رحمۃ ٌللعالمین تھا یقیناً اب بھی انہیں معاف کردیا جاتا اور عرب کو وہ کشت وخون کے نظارے نہ دیکھنے پڑتے جواس نے دیکھے مگر تقدیر کے نوشتے پورے ہونے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت نے قریش کی عداوت کی آگ پر تیل کا کام دیا اور وہ آگے سے بھی زیادہ جوش وخروش کے ساتھ اسلام کو مٹانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

ان غریب اور کمزور مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے کے علاوہ جو ابھی تک مکہ میں ہی تھے سب سے پہلا کام جو قریش نے کیا وہ یہ تھا کہ جونہی کہ ان کو یہ علم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے بچ کر نکل گئے ہیں وہ آپؐ کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور وادی بکہ کی چپہ چپہ زمین آپؐ کی تلاش میں چھان ماری اور خاص غارِثور کے منہ تک بھی جا پہنچے مگر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی نصرت فرمائی اورقریش کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ وہ عین منزلِ مقصود تک پہنچ کر خائب وخاسر واپس لوٹ گئے۔ جب وہ اس تلاش میں مایوس ہوئے توانہوں نے عام اعلان کیا کہ جو شخص بھی محمد (صلعم) کوزندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اسے ایک سو اونٹ جو آج کل کی قیمت کے حساب سے قریباًبیس ہزار روپیہ بنتا ہے انعام دیا جائے گا۔‘‘ اس زمانے میں جب حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا یہ ۱۹۳۱ء کی بات ہے۔ آج کل تو یہ کروڑوں کی بات ہے۔ اس کو ایک سو اونٹ دیے جائیں گے۔ کروڑوں کے انعام کا لالچ تھا۔ ’’اور اس انعام کے لالچ میں مختلف قبائل کے بیسیوں نوجوان آپؐ کی تلاش میں چاروں طرف نکل کھڑے ہوئے۔ چنانچہ سراقہ بن مالک کا تعاقب … اسی انعامی اعلان کا نتیجہ تھا مگر اس تدبیر میں بھی قریش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ غور کیا جاوے تو دوقوموں میں جنگ چھڑ جانے کے لئے صرف یہی ایک وجہ کافی ہے کہ کسی قوم کے آقا وسردار کے متعلق دوسری قوم اس طرح کا انعام مقرر کرے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ ۲۹۸تا ۳۰۰)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button