سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی صداقت کے متعلق پیر رشیدالدینؒ صاحبِ العَلم الثالث (عرف پیرجھنڈے والے) کی گواہی (قسط دوم۔آخری)
(گذشتہ سے پیوستہ)حضرت پیر رشیدالدین صاحبؒ کی مامورِ زمانہ حضرت مسیح موعودؑ کے صادق ہونے سے متعلق شہادت کےبارے میں حضرت سیٹھ محمد اسماعیل آدم صاحبؓ نے ۱۹۳۱ء کے الفضل میں ایک تحریر شائع کروائی جو ذیل میں درج ہے۔ حضرت سیٹھ صاحبؓ نے لکھا:’’ مَیں ۱۸۹۳ء میں پنجاب کے اردو اخبارات میں حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف مضامین دیکھ کر اس طرف متوجہ ہواکہ یہ صاحب مدعی مہدویت و مسیحیت کون ہیں اور ان کی تعلیم کیا ہے۔ان کا دعویٰ کیا ہےکہ سچ مچ وہ مہدی آخرالزمان اور مسیح ابن مریم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یا اخبارات محض دشمنی سے ایسے مضامین لکھ رہے ہیں۔پہلے میں نے زبانی طور سے اپنے حلقہ احباب میں تحقیق اور تفتیش شروع کی۔مگر پھر خیال کیاکہ زبانی باتوں سے تسلی نہیں ہو گی۔بہتر ہے کہ ان کی تصنیفات دیکھوں۔اس لئے براہینِ احمدیہ سے لے کر آئینہ کمالات اسلام تک کی تمام تصنیفات بذریعہ وی پی منگوا کر پڑھیں۔لیکن ان کتابوں کے پڑھنے میں سستی اور غفلت کی وجہ سے ڈیڑھ دو سال کا عرصہ گزر گیا۔آخر دل نے گواہی دی کہ یہ شخص سچا ہے۔
اس کے بعد اپنی قوم کچھی میمن کے ایک پیشوا جن کے سلسلہ بیعت میں میرے والد صاحب اور میرے دوسرے بزرگ رشتہ دار بھی منسلک تھے۔علاوہ اس کے کچھ کاٹھیاواڑ،سندھ، بمبئی وغیرہ کے دوسرے مسلمان بھی قریباً دو لاکھ اشخاص ان کے مرید تھے اور میں بھی اپنی پندرہ سولہ سال عمر میں ان کو مل چکا تھا۔وہ بمبئی میں ہر سال قریباً آیاکرتے تھے اور پیر سائیں جھنڈے والے کے نام سے مشہور تھے۔۱۸۹۵ء کے آخر یا ۱۸۹۶ء کے اوائل میں مَیں نے ایک خط بزبان فارسی ان کو لکھا کہ ہم تو دنیادار ہیں اور روحانی آنکھوں سے اندھے ہیں اور آپ لاکھوں انسانوں کے پیشوا اور راہنما ہیں،صاحبِ بصیرت ہیں۔لہٰذا آپ حلفاً جواب دیں کہ یہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مدعی مہدویت و مسیحیت اپنے دعویٰ میں صادق ہیں یا کاذب۔اگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ سچے ہیں اور ہم ہدایت سے محروم ہو گئے تو آپ خداتعالیٰ کے نزدیک اس کے ذمہ دار ہیں۔اور اگر وہ جھوٹے ہیں اور ہم نے نادانی سے ان کو مان لیا تو ہماری گمراہی کا وبال بھی آپ کے سر پر ہے۔اس کا جواب بصد القاب آداب سوال متفسرہ کے بارے میں انہوں نے مجھے لکھا کہ
شہادت اول:ہمارے سلسلہ کا دستور ہے کہ مابین نماز مغرب وعشاء ہم اپنے مریدوں کے ساتھ حلقہ کر کے ذکراللہ کیا کرتے ہیں ایک روز اس حلقہ میں بحالت کشف آنحضرتﷺ کو ہم نے دیکھا تو ہم نے آپؐ سے سوال کیا کہ یا حضرت یہ شخص مرزا غلام احمد کون ہے تو آپ نے جواب دیا ’از ماست‘(یعنی ہم میں سے ہے۔ناقل)
شہادت دوم:ہمارے خاندان کاوطیرہ ہے کہ بعد از نمازِ عشاء ہم کسی سے کلام نہیں کرتے اور سو جاتے ہیں۔یہی سنتِ رسولؐ ہے۔ایک دن خواب میں ہم نے آنحضرتﷺ کو دیکھا تو ہم نے سوال کیا کہ حضور مولویوں نے اس شخص پر کفر کے فتوے لگا دیئے ہیں اور ا س کو جھٹلاتے ہیں تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا’در عشقِ ما دیوانہ شدہ است‘(یعنی ہمارے عشق میں دیوانہ ہو چکا ہے۔ناقل)
شہادت سوم:ہمارا سلسلہ اور خاندان تہجد گزار ہے اس لئے ہم روزانہ رات کو ۳بجے اٹھتے ہیں اور بعد از نماز تہجد کروٹ پر لیٹے رہتے ہیں اور اسی وضو سے صبح کی نما زپڑھتے ہیں کہ یہ بھی سنت رسول صلعم ہے۔ایک دن اسی کروٹ لیٹنے کی حالت میں کچھ غنودگی طاری ہوئی اور آنحضرت صلعم تشریف فرما ہوئے،اس وقت ہماری حالت نیند اور بیداری کے درمیان تھی تو ہم نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کی یا رسولؐ اب تو سارا ہندوستان چھوڑ عرب کے علماء نے بھی کفر کے فتوے دے دیئے۔تو آپﷺ نے بڑے جلا ل میں تین بار فرمایا’ھو صادقٌ ھو صادقٌ ھو صادقٌ‘(یعنی وہ سچا ہے،وہ سچا ہے، وہ سچا ہے۔ناقل)یہ ہے سچی گواہی جو ہمارے پا س ہے۔ہم آپ کی قَسم سے سبکدوش ہو گئے۔ماننا نہ ماننا آپ کا کام ہے۔راقم رشیدالدین پیر صاحب العلم
اس کے بعد جولائی یا اگست ۱۸۹۶ء میں مَیں نے حضرت اقدس کی تحریری بیعت کر لی۔خاکسار اسمٰعیل آدم از بمبئی‘‘(الفضل یکم دسمبر۱۹۳۱ء صفحہ۶)
حضرت مرزا خدا بخش صاحبؓ کی شہادت
حضرت مرزا خدا بخش صاحبؓ جھنگ شہر سے تعلق رکھتے تھے۔ ۲۴؍مارچ ۱۸۸۹ء کو آپ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد بدقسمتی سےجماعت مبائعین خلافت سے وابستہ نہ رہے اور اہلِ پیغام کے ساتھ شامل ہوگئے۔۴؍اپریل ۱۹۳۸ءکو بعمر ۷۸؍سال وفات پائی۔
آپ نے ایک ضخیم کتاب ’’عسلِ مصفیٰ‘‘تحریر کی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین ماہ تک مغرب سے عشاء تک سنا اور اظہار خوشنودی فرمایا۔یہ کتاب دو حصص پر ہے۔ ہر دوحصص کے کُل چودہ سو صفحات ہیں۔دوسرا حصہ آپ نے ۱۹۱۴ء میں تحریر کیاجس میں آپ نے حضرت پیر رشید الدین صاحب کے اظہارِ ارادت سے متعلق گواہی تحریر کی ہے۔چنانچہ آپ نے لکھا:’’چوتھے صاحب ایک صوفی حضرت پیر صاحب العلم ہیں جو پیر صاحب جھنڈے والے کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ بزرگ بلاد سندھ کے مشاہیر مشائخ میں سے ہیں جن کے مرید ایک لاکھ سے زیادہ ہیں اور جو علوم عربیہ میں مہارت تامہ رکھتے ہیں اور علماء راسخین میں سے ہیں۔حضرت مرزا صاحب مسیح موعود و مہدی معہود کی نسبت جب کہ عبد اللہ عرب نے ان سے حضرت اقدس موصوف کے بارہ میں دریافت کیا تو دوسرے روز قسم کھا کر بیان کیا اور پھر بجنسہٖ زبان عربی میں ایک خط لکھ کر عبد اللہ عرب و عبد اللطیف اپنے مرید ان خاص کے ہاتھ بھیجا۔ وہ بزرگ اس عاجز سے بھی لاہور میں منشی عبد الحق صاحب اکاؤنٹنٹ کے مکان پر ملے تھے اور میں نے ان کی زبان سے بھی یہی واقعہ جو آگے درج کرتا ہوں سنا تھا۔اس وقت حضرت اقدس ریاست پٹیالہ میں تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ اس لئے وہ دونوں بزرگ بہمراہی منشی عبد الحق صاحب اکا ؤنٹنٹ جو کچھ وقت پہلے حضرت مرزا صاحب سے بڑا اخلاص رکھتے تھے،پٹیالہ میں حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئےاور پیر صاحب العلم کا خط پیش کیا جو حسب ذیل ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ نے حضرت پیر رشید الدین صاحبؒ کا بھجوایاہوا عربی خط اور اس کا ترجمہ شامل کیا ہے۔یہ خط بعینہٖ ان الفاظ پر مشتمل ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی تصنیف حمامۃ البشریٰ میں شائع فرمایا۔بعدازاں آپ لکھتے ہیں:پھر دوسرے موقعہ پر سیٹھ صالح محمد صاحب نے جوان کے مرید تھے اور جو مدر اس سے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ان سے دریافت کیا کہ حضور والا کی جناب مرزا غلام احمد صاحب کی نسبت کیا رائے ہے ؟تو حضرت پیر صاحب العلم نے ایک عام مجلس میں کھڑے ہو کر اور ہاتھ میں عصا لے کر تمام حاضرین کے سامنے بلند آواز سے فرمایا کہ میں ان کو یعنی حضرت مرزا صاحب کو اپنے دعویٰ میں حق پر جانتا ہوں اور ایسا ہی مجھے کشف کی رو سے معلوم ہوا ہے۔ یہ سیٹھ صالح محمد صاحب ایک نوجوان صالح اور معزز آدمی تھے اور مشہور سیٹھ عبدالرحمٰن مدراسی کے برادرِ حقیقی تھے۔ مدر اس سے چل کرسندھ میں اتنادُور دراز کا سفر کر کے پیر صاحب کی خدمت میں گئے اور ان سے حال دریافت کر کے بجنسہ ٖجو پیر صاحب العَلم نے فرمایا تھا وہ بلا کم و کاست قادیان میں لکھ دیا۔ یہ شہادت خود پیر صاحب موصوف کی حیات میں چند بار چھپ کر شائع بھی ہو چکی ہے اور ان کا خط بجنسہٖ موجود بھی ہے۔ عبد اللہ عرب اور عبد اللطیف اور سیٹھ صالح محمد صاحب اب تک موجود ہیں جن کو شک ہو ان سے دریافت کر سکتے ہیں۔ افسوس کہ اب سیٹھ صاحب تو فوت ہوگئے ہیں اور عبداللہ عرب کا پتہ نہیں۔(عسلِ مصفیٰ حصہ دوم صفحہ ۴۶۴ تا۴۶۶سنہ اشاعت۱۹۱۴ء)
اس خط میں مرزا خدا بخش صاحب نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ عرب و عبد اللطیف صاحبان منشی عبد الحق اکاؤنٹنٹ کے ہمراہ پٹیالہ میں حضور اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور حضرت پیر رشید الدین صاحب کا خط اور پیغام پہنچایا۔غالباً مرزا خدابخش صاحب نے سہواً پٹیالہ کا ذکر کر دیا ہے کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے حمامۃ البشریٰ میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’وہ میرے پاس فیروز پور مقام میں آئے‘‘۔چنانچہ اس امر کی تائید ۲۸؍نومبر۱۸۹۳ء کو حضرت منشی رستم علی صاحبؓ کو تحریر فرمودہ خط سے ہوتی ہے جوآپؑ نے ان ایام میں فیروز پور سے تحریر فرمایا۔جس میں آپ نے آگاہ فرمایا کہ مَیں اس وقت فیروز پور چھاؤنی میں ہوں۔فیروز پورسفر کی وجہ یہ ٹھہری کہ اول حضرت ام المومنینؓ اپنے والدماجدحضرت میر ناصر نواب صاحبؓ(جو محکمہ نہر میں ملازم تھے اور ان کا قیام ان دنوں فیروز پور میں تھا)سے ملنے کے لئے فیروز پور گئیں۔بعدازاں حضرت مسیح موعودؑ کو جب یہ خبر پہنچی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیمار ہو گئے ہیں تو آپؑ بھی فیروز پور تشریف لے گئے۔آپؑ وہاں پچیس روز کے قریب رہے اور ۱۴؍دسمبر۱۸۹۳ء کوواپسی ہوئی۔(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ۵۹۶، ۵۹۷)
آپؑ نومبر کے آخری عشرہ کی ابتدا میں فیروز پور تشریف لے گئے تھے۔چنانچہ آپؑ نےحضرت خلیفہ رشید الدین صاحبؓ کو۲۸؍نومبر۱۸۹۳ء کو ایک مکتوب مبارک تحریر فرمایا جس میں آپؑ نے یہ ذکر فرمایاکہ ’’یہ عاجز ایک ہفتہ سے فیروز پور چھاؤنی میں ہے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد چہارم صفحہ۱۸۳)
معلوم ہوتا ہے کہ فیروز پورچھاؤنی میں سکونت کے انہی ایام ۲۱؍نومبرتا۱۴؍دسمبر کے درمیانی عرصہ میں مذکورہ بالا ہردو احباب حضرت پیر رشید الدین صاحب کا خط لے کر حاضر خدمت اقد س ہوئے ہوں گے۔
سندھ کے ایک عمر رسیدہ شخص کی تائیدی گواہی
۶؍جنوری ۱۹۵۶ء کے الفضل میں نوابشاہ میں منعقدہ ایک جلسہ کی رُوداد شائع ہوئی۔اس جلسہ کا۱۱؍دسمبر۱۹۵۵ء کو محمد نگر ضلع نوابشاہ میں انعقاد ہواتھا۔(نوابشاہ سے گوٹھ پیر جھنڈو شریف کا فاصلہ قریباً تیس میل ہے)رپورٹ میں ذکر ہے کہ اس جلسہ میں مولانا غلام احمدفرخ صاحب مبلغِ سلسلہ نے دورانِ تقریر جب یہ ذکر کیا کہ پیر رشید الدین صاحب العَلَم نے حضرت مسیح موعودؑ کی بذریعہ کشف تصدیق فرمائی ہوئی ہے۔توآپ کی تقریر کے دوران ایک ستر سالہ دوست جن کا نام قاضی شیر محمد صاحب قوم سٹھیو سکنہ گوٹھ منگی تعلقہ سکرنڈ ضلع نوابشاہ (سکرنڈ سے گوٹھ پیر جھنڈوپندرہ میل پر واقع ہے)کھڑے ہو گئے۔آپ نےبھرے اجلاس میں حلفیہ شہادت دی کہ پیر رشیدالدین صاحب والے کشف کا واقعہ بالکل درست ہے۔اور میں خود شاہد ہوں کہ پیر صاحب کے خلیفہ نے ہمارے اسکول واقع چھتن شاہ میں خود یہ واقعہ بیان کیا تھا۔جھوٹ بولنے والے پر خد اکی لعنت ہو۔میں یہ سچی شہادت ہر جگہ دینے کو تیار ہوں۔جلسہ کی رپورٹ میں ذکرہے کہ یہ شہادت سن کر حاضرین پر گہرا اثر ہوا۔(الفضل ۶؍جنوری ۱۹۵۶ءصفحہ۴)
ازاں بعدمکرم مولانا غلام احمد فرخ صاحب نے مذکورہ دوست کی مفصل تحریری گواہی بھی اخبارالفضل میں شائع کروائی۔چنانچہ ۱۸؍جنوری۱۹۵۷ء کو زیرِ عنوان’’سندھ کے مشہور بزرگ سید رشید الدین صاحب کی شہادت کی مزید تصدیق‘‘یہ گواہی کچھ یوں شائع ہوئی۔
’’میں قاضی شیرمحمد ولد عثمان قوم سٹھیو ساکن شیخو منگیو کہتا ہوں کہ تقریباً ساٹھ سال پہلے کی بات ہے میں موضع چھتن شاہ تحصیل سکرنڈ ضلع نوابشاہ میں میاں علی خان صاحب قوم لاکھا کے پاس تعلیم حاصل کرتا تھا۔کہ ایک دن اُن کے پاس سکھر سے ’الحق‘ اخبار آیا۔جس میں لکھا تھاکہ قادیان پنجاب میں ایک شخص مرزا غلام احمد، قادیانی امام مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر رہاہے۔اس وقت وہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔اخبار پڑھ کر حاجی ابوالخیر منگی جو سید رشید الدین صاحب العَلم کے خلیفہ تھے۔بھری مجلس میں کہا کہ مجھے اپنے مرشد سے معلوم ہوا ہے کہ مرزا صاحب قادیانیؑ بے شک حق پر ہیں۔چنانچہ ایک دفعہ پیر صاحب جب بمبئی تشریف لے گئے تو آپ کا ایک مرید آدم جی اپنے بیٹے اسماعیل کو پیر صاحب کے پا س لایا اور کہا کہ اس کو اپنامرید بنائیں۔پیر صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ گھما کر کہا کہ یہ ایسے شخص کا مرید ہو گا جو ہم سے درجہ اور منزلت میں بڑھ کر ہوگا۔غرض پیر صاحب نے اس کو مرید نہیں بنایا۔اس کے کچھ عرصہ بعد اسماعیل آدم نے پیر صاحب کو خط لکھا کہ قادیان میں پنجاب میں ایک شخص مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر رہاہے۔اس کی نسبت آپ بتائیں کہ وہ حق پر ہے کہ نہیں۔پیرصاحب نے اس کو جواب میں لکھا کہ وہ بالکل سچا ہے۔
مندرجہ بالا بیان جو میں نے تحریر کیا ہےبالکل سچا ہے اور میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ شہادت دیتا ہوں کہ جھوٹے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غضب نازل ہو۔خاکسار شیر محمد ولد محمد عثمان سٹھیو سکنہ شیخو منگیو تعلقہ سکرنڈ ضلع نوابشاہ۔۱۲؍دسمبر۱۹۵۵ء‘‘(الفضل۱۸؍جنوری۱۹۵۷ء صفحہ۵)
حضرت سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراسی ؓکی گواہی
حضرت سیٹھ عبدالرحمان صاحبؓ مدراس کے ایک مشہور تاجر خاندان کے چشم وچراغ تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’فتح اسلام‘‘کے ذریعہ حضورؑ کے دعویٰ کا علم ہوا۔ چنانچہ آپؓ حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوریؓ کی رفاقت میں عازم قادیان ہوئے اور۱۱؍جنوری۱۸۹۴ء کو بیعت کی سعادت پائی۔
ابھی چند سطور قبل سندھ کے ایک معمر شخص قاضی شیرمحمدصاحب کی گواہی میں یہ ذکر آیا کہ اُن کے استاد کے پاس ’الحق‘ نامی رسالہ آیا جس میں پیرصاحب جھنڈے شریف والوں کی تصدیق کا ذکر تھا۔چنانچہ اسی رسالہ’الحق‘کا ذکر حضرت سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراسیؓ نے بھی اپنی ایک تحریر میں کیا ہے کہ اس رسالہ میں مذکورپیر صاحب العَلم کی تصدیق بھی ان کی قبولیتِ حق کا سبب بنی۔چنانچہ آپؓ قبولیتِ احمدیت کی رُوداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’رات کو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میں ارادہ کر چکا ہوں اب تُو عالم الغیب اور بہتر جانتا ہےمیرے لئے جو بہتر ہے وہ مہیا کر۔صبح کو حسبِ معمول ناشتہ کر کے گھر سے باہر چبوترہ پرآ کر بیٹھاکہ اسی وقت ڈاک والا آگیا اور اس نے ایک چٹھی اور اس کے ساتھ ایک رسالہ الحق دیا۔میں نے اس رسالہ کو کھولا تو میری نظر سب سے پہلے اس ہیڈنگ پر پڑی جو’بھاری بشارت‘ سے موسوم تھا اور مضمون اس کا جھنڈے والے پیر صاحب کاواقعہ اور خلیفہ عبداللطیف اور عبداللہ عرب کا حضورِ اقدس میں حاضر ہونے کاتھا۔غرض اس کے بعد میرا عزم مصمم ہو گیا۔‘‘(مکتوبات احمدیہ جلد ۵حصہ اول صفحہ۴۸،روزنامہ الفضل ۱۹؍دسمبر۲۰۰۵ء صفحہ۴کالم۲،۱)
مخالفین سلسلہ کا اعتراض اور اس کا جواب
مخالفینِ سلسلہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں اس امر کاذکر کہ حضرت پیر رشیدالدین صاحبؒ نے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی گواہی دی تھی،سراسر بہتان اور من گھڑت بات ہے۔آئیے اس کوپرکھنے کے لیے باعتبار زمانی جائزہ لیتے ہیں۔
۱۸۹۴ء:’’حمامۃ البشریٰ‘‘ کی اشاعت ہوئی جس میں سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام نے پیر صاحب کی گواہی کا ذکر فرمایا۔
۱۸۹۴ء: ’’الحق‘‘ نامی رسالہ میں پیر رشیدالدین صاحب کی تصدیق کا ذکر شائع ہوا جس کے متعلق قبل ازیں مذکور دو بزرگان کی گواہی موجود ہے۔
۱۸۹۶ء: حضرت مسیحِ موعودؑ نےپیرصاحب العَلم کی تصدیق کے بارے میں اپنی تصنیف ’’انجامِ آتھم‘‘ کے ضمیمہ میں تحریرفرمایا۔
۱۸۹۷ء:حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوریؓ نے اپنی کتاب ’’تائیدِ حق‘‘ میں پیر رشیدالدین صاحب کے کشف اور نتیجۃً خداتعالیٰ کی جانب سے خبر بابت حضرت مسیح موعودؑ نیز حاجی عبداللہ عرب صاحب کے قادیان آ کر پیرصاحب کے پیغام پہنچانے کا ذکر کیا۔
مئی۱۸۹۹ء: ’’سراجِ منیر ‘‘شائع ہوئی جس میں حضرت مسیح موعودؑ نے پیر صاحب العَلم کے تحریر کردہ خط کا ذکرفرمایا۔
۱۰؍مارچ۱۹۰۰ء: ’’اخبار الحکم‘‘ میں پیر صاحب العلم کے خط اور کشف کے متعلق اعلان کی اشاعت ہوئی۔
۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء: حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب ’’اربعین‘‘ میں پیرصاحب العَلم کی خواب کا ذکر فرمایا۔
۳۰؍اپریل ۱۹۰۷ء: حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے پیرصاحب العَلم کے کشف کا ذکر’’ حقیقۃ الوحی‘‘ میں شامل فرمایا۔
۱۹۱۴ء:حضرت مرزا خدا بخش صاحبؓ نے اپنی کتاب ’’عسلِ مصفیٰ (حصہ دوم)‘‘میں پیر رشید الدین صاحب کے خط اور عبداللہ عرب صاحب و حاجی عبداللطیف صاحب سے ملاقات کا ذکر تحریر کیا۔
الف:پیر رشید الدین صاحب نے ۱۳۱۷ھ(۱۸۹۹ء)میں بعمر ۶۱سال وفات پائی۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ آپ کی زندگی میں اپنی تین کتب میں واضح طور پر پیر صاحب کے کشف اور گواہی کا ذکر فرما چکے تھے۔نیز حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری ؓکی کتاب ’تائیدِ حق‘بھی آپ کی حیات میں ہی شائع ہو چکی تھی۔اسی طرح رسالہ الحق میں بھی پیر رشیدالدین صاحب کے خط اور کشف سے متعلق اعلان شائع ہو چکا تھا اور حضرت پیر صاحب اس وقت بقیدِ حیات تھے۔
جہاں ایک طرف حضورؑ کی کتب ہندوستان بھر میں پڑھی جاتی تھیں تو وہیں دوسری طرف پیر صاحب کے مریدین بھی تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے۔چنانچہ نہ صرف پیر صاحب العَلم بلکہ ان کے کسی مرید نے بھی کسی اخبار یا رسالہ میں یہ تردید نہ کی کہ حضرت مسیح موعودؑ کا پیر صاحب کی نسبت مذکورہ دعویٰ بہتان پر مبنی ہے۔
مزید یہ کہ حضرت پیر صاحب کی تصدیق کی پے در پے اشاعت کے بعد یقیناً مخالف علماء پیر صاحب کی خدمت میں پہنچے ہوں گے اور انہیں اس امر پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہو گی کہ اگر لکھے گئے خط کا انکار نہ کر سکتے ہوں تو کم از کم کشف کے متعلق ہی شک و شبہ کا اظہار کر دیں لیکن حضرت پیر صاحب کی جانب سے انکار نہ کرنا اس بات کاقطعی ثبوت ہے کہ نہ صرف حضرت پیر صاحب کوبفضلہ تعالیٰ یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ السابقون الاولون میں شامل ہیں اور آپ خدائی خبر کے نتیجہ میں حضرت ا قدس مسیح موعودؑ کو صدقِ دل سے منجانب اللہ شمار کرتے تھےاور ا س بارے میں کسی بھی شک میں مبتلانہ تھے۔
ب:۱۸۹۶ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے ضمیمہ انجامِ آتھم میں پیر صاحب کے صاحبزادےکابھی ذکرفرمایا کہ انہوں نے بھی کہا کہ ’’ جب میرے والد صاحب تصدیق کرتے ہیں تو مجھے بھی انکار نہیں‘‘۔پیر رشید الدین صاحب کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سید ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی پیرصاحب العَلم چہارم گدی نشین ہوئے اور انہوں نے ۲۳؍اپریل ۱۹۲۳ء کو وفات پائی۔ان کی گدی نشینی کے زمانہ میں حضورؑ نے’’ اربعین‘‘ اور ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں پیر رشید الدین صاحب کی گواہی کا ذکر فرما دیا۔سیدرشد اللہ شاہ راشدی صاحب نے ۱۹۰۷ء میں حقیقۃ الوحی میں مذکور آخری مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ کی جانب سےذکر کے بعد سولہ سال زندگی پائی لیکن والد کی طرح فرزند کی جانب سےبھی کسی ایک موقع پر بھی تردید کا ذکر نہیں ملتاکہ انہوں نے کہیں خفیف ساہی ذکر کیا ہو کہ کم از کم میری طرف یہ بات منسوب نہ کی جائے۔لہٰذا ان تمام امور کی بنا پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت پیر رشید الدین صاحبؒ کو زمانہ کے مامور کو ماننے اور نہایت جرأت کے ساتھ سچی گواہی دینے کی توفیق عطافرمائی۔فالحمدللہ تعالیٰ
حضرت پیر رشید الدین صاحب کے کلام میں امام مہدی کے متعلق ذکر
جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ پیر رشید الدین صاحب علوم عربیہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور علماء راسخین میں سے تھے۔ان کے آباء بھی عربی و علوم دینیہ میں دسترس رکھتے تھے۔ان کی تحریرات و ملفوظات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خاندان آنحضورﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اُس زمانہ میں کسی مامور کا منتظر تھا۔
پیر رشیدالدین صاحب کے دادا پیر محمد راشد صاحب روضے دھنی نےاپنے منظوم سندھی کلام میں لکھا:
ترجمہ:’’میرے مولا ملک میں کوئی ایسا ہادی بھیج جو اسلام کو عزت بخشے اور جس کے ذریعہ اندھیرے دور ہوں۔
اے نبی! یاجوج اور ماجوج کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔سب حیلے جاتے رہے اب کسی ایسے رہنما کو بھیج جو مردِ جری ہو۔
دنیا میں دجال آ چکاہے اسی کا شور ہے۔کاش دین کی رسی کو کوئی زور سے باندھے۔
تیری ساری امت دیر سے آسرے میں پیاسی ہے۔ اے میرے محب مجھے جام پلا دے۔(بحوالہ کتاب بزبان سندھی: حضرت پیر محمدراشد روضے دھنی اوران کی علمی ادبی اور روحانی خدمات،مصنف خان محمدلاڑک،طبع اول ۲۰۰۸ء،مطبع فائن کمیونیکیشن، ناشرروشنی پبلیکیشن حیدرآباد صفحہ۲۲۱)
پیر رشید الدین صاحب نہ صرف نثر بلکہ شعر گوئی میں بھی مقام رکھتے تھے۔آپ اپنی ایک سندھی رباعی میں لکھتے ہیں:
ترجمہ:تمام جہان کے سردار سید الکونینﷺ ہیں
جن کا نائب اور خلیفہ رہبر کامگار ہے
اگر انسان غور کرے تویہ اس دینے والے کی دین ہے
کہ تیرہ صدیاں بعد اس امت پر احسان ہوا ہے
(منظوم کلام پیررشید الدین بحوالہ سندھی کتاب پیررشیدالدین سائیں بیعت دھنی کی کافیاں،طبع اول۲۰۰۱ء ناشرپیر وہب اللہ شاہ راشدی، پرنٹنگ پریس سندھی ادبی بورڈجامشوروصفحہ۱۵ ،۱۶)
ان کے بیٹے سیدر شد اللہ صاحب نے بیان کیا کہ ’’میں نے مرشد کریم سید رشید الدین سے پوچھا آج کل کے علماء کہتے ہیں کہ اجتہاد اب بند ہو چکاہے اس کے بارہ میں آپ کی کیا رائے ہے۔آپ نے فرمایا کہ مجھے مالک کی طرف سے القاء ہوا ہے کہ جب تک اختلاف نہیں جائے گا تب تک اجتہاد بند نہیں ہو گا۔یہ کہہ کر فرمایا کہ امام مہدی کے ظہورسے قبل اختلاف نہیں جائے گا اور نہ ہی اجتہاد بند ہو گا امام صاحب سب مسائل کی صفائی کر کےاختلاف بند کر دیں گے۔‘‘(ملفوظات پیر سائیں بیعت دھنی پیررشیدالدین شاہ ثالث جھنڈے وارو،ناشر پیر وہب اللہ شاہ راشدی،یادگار پرنٹنگ پریس لین حیدرآباد،صفحہ۲۲۷)
اسی طرح پیر رشید الدین صاحب کے ملفوظات میں ذکر ملتاہے کہ ایک مرتبہ پیر رشیدالدین صاحب نےاپنے مریدوں کو کوئی کام کہا تو انہوں نے کام میں تاخیر کر دی۔آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا’’امام مہدی کی جنگ میں بھی ایسا ہی کرو گے۔‘‘(ملفوظات پیر سائیں بیعت دھنی پیررشیدالدین شاہ ثالث جھنڈے وارو،ناشر پیر وھب اللہ شاہ راشدی،یادگار پرنٹنگ پریس لین حیدرآباد،صفحہ۱۶۳)
مندرجہ بالا بعض حوالے اس امر پردال ہیں کہ حضرت پیر رشید الدین صاحب امام مہدی کے آنے کے لیے مضطرب تھےا سی وجہ سے اپنے مریدوں اور اولاد کو امام مہدی ؑکی بیعت کرنے اور ان کی فوج میں داخل ہونے کی بار بارتحریک کی۔امام مہدی کے انتظار کے بارے میں پیر رشید الدین صاحب کے ملفوظات میں کچھ مزیدبھی حوالہ جات ملتے ہیں۔
گذشتہ دنوں خاکسار کو حضرت پیر رشید الدین صاحب کے مقبرہ پر جانے اور دعا کا موقع ملا۔انتہائی خوشگوار حیرانی ہوئی کہ خداتعالیٰ نے وفات کے بعد بھی ان کی قبر کو کسی بھی طرح کی بدعت یا شرک سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ چھوٹی سی چار دیواری کے احاطہ میں کچھ قبریں بنی ہوئی ہیں۔اس خاندان کے رواج کے مطابق جتنی بھی قبور تھیں کسی ایک پر بھی کتبہ لگا اور نہ ہی قبروں کونمایاں کیا گیا ہے۔قبر پر محض ایک چپٹا سا ابھار ہے تامعلوم ہو سکے کہ یہ قبر ہے۔ اسی طرح آپ کی قبر کو کسی قسم کی کمائی کا ذریعہ نہیں بنایا گیااور نہ ہی وہاں عرس منعقد کروایا جاتا ہے۔ ظاہری اور روحانی ہر دو اعتبار سے صاف ستھرے ماحول میں پیر رشید الدین صاحبؒ آسودۂ خاک ہیں۔
گواہی دی صداقت کی امامِ وقت کو مانا
خطَر تھا کچھ نہ مسند کا، نہ ڈر تھا اہلِ دنیا کا
مریدِ پاک مہدی تھے علَم والے رشید الدیں
’’خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را‘‘