صداقت حضرت مسیح موعودؑ (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۲؍ دسمبر ۲۰۱۴ء)
حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ اپنی تقریر میں فرماتے ہیں۔ یہ تقریر کا موقع بھی اس طرح پیدا ہوا کہ قادیان میں مخالفین کے بعض بڑے بڑے مخالف علماء جمع ہوئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے خلاف بڑی دشنام طرازیاں کیں، بڑی تقاریر کیں اور بڑا منصوبہ کر کے وہ جلسہ انہوں نے منعقد کیا اور ارادہ ان کا یہ تھا کہ فساد پیدا کیا جائے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ وہ فساد تو نہ کر سکے لیکن انہوں نے جو بھی دریدہ دہنی کی جا سکتی تھی، گند بَکا جا سکتا تھا بَکا۔ اس کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک جلسہ منعقد کیا یا کہنا چاہئے کہ ایک اجلاس کی صورت تھی جہاں آپؓ نے ان اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات کے جواب بھی دئیے اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ثابت کی۔
بہر حال وہ ساری باتیں تو نہیں، ایک آدھ اقتباس مَیں اس میں سے لیتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا کہ ’’حضرت مرزا صاحب کی دعوے سے پہلے کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو آپ نے یہاں کے ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کو بار بار باعلان یہ فرمایا کہ کیا تم میری پہلی زندگی پر کوئی اعتراض کر سکتے ہو؟ مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی بلکہ آپ کی پاکیزگی کا اقرار کرنا پڑا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ۔ اس کے تحت ہر ایک نے یہ گواہی دی کہ آپ کی پہلی زندگی بالکل پاک تھی یا کم از کم اعتراض نہیں اٹھا سکے۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی جو بعد میں سخت ترین مخالف ہو گیا اس نے اپنے رسالے میں آپؑ کی زندگی کی پاکیزگی اور بے عیب ہونے کی گواہی دی اور مسٹر ظفر علی خان کے والدنے اپنے اخبار میں آپؑ کی ابتدائی زندگی کے متعلق گواہی دی کہ بہت پاکباز تھے۔ پس جو شخص چالیس سال تک بے عیب رہا اور اس کی زندگی پاکباز رہی وہ کس طرح راتوں رات کچھ کا کچھ ہو گیا اور بگڑ گیا۔ علمائے نفس نے مانا ہے کہ ہر عیب اور اخلاقی نقص آہستہ آہستہ پیدا ہوا کرتا ہے۔ (جو نفسیات کے ماہر ہیں وہ یہ یہی کہتے ہیں کہ جو اخلاقی برائیاں ہیں وہ آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہیں ) ایک دم کوئی تغیر اخلاقی نہیں ہوتا ہے۔ پس دیکھو کہ آپ کا ماضی کیسا بے عیب اور بے نقص اور روشن ہے‘‘ کہ کسی کو جرأت نہیں ہوئی۔ (معیار صداقت، انوار العلوم جلد۶صفحہ ۶۱)
پھر اللہ تعالیٰ سورۃ مومن میں فرماتا ہے کہ اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا(المومن: ۵۲) کہ ہم اپنے رسول کی مدد فرماتے ہیں۔ یہ مدد ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے کس طرح دیکھتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ’’آپ کو طرح طرح سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ لوگ مارنے پر متعین ہوئے جن کا علم ہو گیا اور وہ اپنے ارادے میں ناکام ہوئے۔ مقدمے آپ پر جھوٹے مقدمے اقدام قتل کے بنائے گئے۔ چنانچہ ڈاکٹر مارٹن کلارک نے جھوٹا مقدمہ اقدام قتل کا بنایا اور ایک شخص نے کہہ بھی دیا کہ مجھے حضرت مرزا صاحب نے متعین کیا تھا۔ مجسٹریٹ وہ جو اس دعوے کے ساتھ آیا تھا کہ اس مدعیٔ مہدویت و مسیحیت کو اب تک کسی نے پکڑا کیوں نہیں؟ مَیں پکڑوں گا مگر جب مقدمہ ہوتا ہے وہی مجسٹریٹ کہتا ہے کہ میرے نزدیک یہ جھوٹا مقدمہ ہے۔ بار بار اس نے یہی کہا اور آخر اس شخص کو عیسائیوں سے علیحدہ کرکے (جس نے الزام لگایا تھا) پولیس افسر کے ماتحت رکھا گیا اور وہ شخص رو پڑا اور اس نے بتا دیا کہ مجھے عیسائیوں نے سکھایا تھا اور خدا نے اس جھوٹے الزام کا قلع قمع کر دیا‘‘۔ اس کی باقی تفصیل بعد میں مَیں آگے بیان کروں گا۔
فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح ہماری جماعت کے پُرجوش مبلغ مولوی عمر دین صاحب شملوی اپنا واقعہ سنایا کرتے ہیں کہ وہ بھی اسی معیار پر پرکھ کر احمدی ہوئے ہیں۔ وہ سناتے ہیں کہ شملہ میں مولوی محمد حسین اور مولوی عبدالرحمن سیاح اور چند اور آدمی مشورہ کر رہے تھے کہ اب مرزا صاحب کے مقابلہ میں کیا طریق اختیار کرنا چاہئے۔ مولوی عبدالرحمن صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ مَیں اب مباحثہ نہیں کروں گا۔ ہم اشتہار مباحثہ دیتے ہیں اگر وہ مقابلے پر کھڑے ہو جائیں گے تو ہم کہیں گے کہ انہوں نے جھوٹ بولا کہ پہلے تو اشتہار دیا تھا کہ ہم مباحثہ کسی سے نہ کریں گے اور اب مباحثے کے لئے تیار ہو گئے اور اگر مباحثے پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم شور مچا دیں گے کہ دیکھو مرزا صاحب ہار گئے ہیں۔ اس پر مولوی عمر دین نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے۔ مَیں جاتا ہوں اور جا کر ان کو قتل کر دیتا ہوں۔ مولوی محمد حسین نے کہا کہ لڑکے! تجھے کیا معلوم یہ سب کچھ کیا جا چکا ہے۔ مولوی عمر دین صاحب کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جس کی خدا اتنی حفاظت کر رہا ہے وہ خدا ہی کی طرف سے ہو گا۔ انہوں نے جب بیعت کر لی تو واپس جاتے ہوئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالے کے سٹیشن پر ملے اور کہا تُو کدھر؟۔ انہوں نے کہا کہ قادیان بیعت کر کے آیا ہوں۔ … (مولوی صاحب کہنے لگے کہ) تُو بہت شریر ہے، تیرے باپ کو لکھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب! یہ تو آپ ہی کے ذریعہ ہوا ہے جو کچھ ہوا ہے۔‘‘ (معیار صداقت، انوار العلوم جلد۶صفحہ ۶۱-۶۲)
پس مخالف مارنا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو بچاتا ہے۔ بلکہ دشمنی کرنے والا اگر نیک فطرت ہے تو وہ خود گھائل ہو کر جاتا ہے، خود اپنے دل کو بیچ کر جاتا ہے۔
میں نے پہلے مقدمہ قتل کا جو بتایا تھا یہ مقدمہ قتل عیسائیوں کی طرف سے ہوا تھا۔ اس کی تفصیل حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کی ہے۔ یہ مارٹن کلارک کا مقدمہ تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی بھی اس میں گواہ کے طور پر پیش ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کی ذلت کا سامان کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ یہ لکھتے ہیں بلکہ خطبے میں ذکر کیا ہے کہ ’’مارٹن کلارک نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ میرے قتل کے لئے مرزا صاحب نے ایک آدمی بھیجا ہے۔ مسلمانوں میں علماء کہلانے والے بھی اس کے ساتھ اس شور میں شامل ہو گئے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو اس مقدمے میں آپ کے خلاف شہادت دینے کے لئے بھی آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ ایک مولوی مقابل پر پیش ہو گا مگر اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے گا لیکن باوجود اس کے کہ الہام میں اس کی ذلّت کے متعلق بتا دیا گیا تھا اور الہام کے پورا کرنے کے لئے خاص ظاہری طور پر جائز کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے‘‘ (لیکن ہوا کیا؟) حضرت مصلح موعود ؓکہتے ہیں۔ ’’مجھے خود مولوی فضل دین صاحب نے جو لاہور کے ایک وکیل اور اس مقدمے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیروی کر رہے تھے سنایا کہ جب میں نے ایک سوال کرنا چاہا جس سے مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت ہوتی تھی تو آپ علیہ السلام نے مجھے اس سوال کے پیش کرنے سے منع کر دیا۔ … مقدمات میں گواہوں پر ایسے سوالات کئے جاتے ہیں کہ جن سے ظاہر ہو کہ وہ بےحقیقت آدمی ہے۔ (کسی آدمی کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے بعض سوال کئے جاتے ہیں)۔ مولوی فضل دین صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ سوالات سنائے جو وہ مولوی محمد حسین (صاحب) پر کرنا چاہتے تھے تو ان میں ایک سوال … سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ایسے سوال کو برداشت نہیں کر سکتے۔ مولوی فضل دین صاحب نے کہا کہ اس سوال سے آپ کے خلاف مقدمہ کمزور ہو جائے گا اور اگر یہ نہ پوچھا جائے تو آپ کو مشکل پیش آئے گی اس لئے کہ گواہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا لیڈر ہونے کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اور ضروری ہے کہ ثابت کیا جائے کہ وہ ایسا معزز نہیں۔ مگرآپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ نہیں۔ ہم اس سوال کی اجازت نہیں دے سکتے۔ مولوی فضل دین صاحب احمدی نہیں تھے بلکہ حنفی تھے اور حنفیوں کے لیڈر تھے۔ انجمن لقمانیہ وغیرہ کے سرگرم رکن تھے۔ اس لئے مذہبی لحاظ سے تعصب رکھتے تھے۔ مگر جب کبھی غیر احمدیوں کی مجالس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر کوئی حملہ کیا جاتا تو وہ پر زور تردید کرتے اور کہتے کہ عقائد کا معاملہ الگ ہے لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ آپ کے اخلاق ایسے ہیں کہ ہمارے علماء میں سے کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اور اخلاق کے لحاظ سے مَیں نے بھی ایسے ایسے مواقع پر ان کی آزمائش کی ہے کہ کوئی مولوی وہاں نہیں کھڑا ہو سکتا تھا جس مقام پر آپ (علیہ السلام) کھڑے تھے۔ اب دیکھو اِدھر گواہ کے ذلیل ہونے کا الہام ہے۔ اُدھر اس کی گواہی آپ (علیہ السلام) کو مجرم بناتی ہے۔ مگر جو بات اس کی (مجرم کی یا گواہ کی) پوزیشن کو گرانے والی ہے۔ (گواہ کی پوزیشن کو گرانے والی تھی) وہ آپ پوچھنے ہی نہیں دیتے۔ لیکن جس خدا نے قبل از وقت مولوی محمد حسین کی ذلت کی خبر آپ کو دی تھی اس نے ایک طرف تو آپ کے اخلاق کو دکھا کر آپ کی عزت قائم کی (کہ غیر احمدی جو وکیل تھا اس کی نظر میں بھی آپ کا مقام بہت بلند ہو گیا) اور دوسری طرف غیر معمولی سامان پیدا کر کے مولوی صاحب کو بھی ذلیل کرا دیا۔ اور یہ اس طرح ہوا۔ (مولوی صاحب کی ذلت) کہ وہی ڈپٹی کمشنر جو پہلے سخت تھا اس نے جونہی آپ کی شکل دیکھی (ایک طرف تو کہہ رہا تھا میں پکڑوں گا جب شکل دیکھی، آپ کا چہرہ دیکھا) اس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور باوجود اس کے کہ آپ مقام ملزم کی حیثیت میں اس کے سامنے پیش ہوئے تھے اس نے کرسی منگوا کر اپنے ساتھ بچھوائی اور اس پر آپ کو بٹھایا۔ جب مولوی محمد حسین صاحب گواہی کے لئے آئے تو چونکہ وہ اس امید میں آئے تھے کہ شاید آپ کے ہتھکڑی لگی ہوئی ہو گی یا کم از کم آپ کو ذلت کے ساتھ کھڑا کیا گیا ہوگا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ کرسی پر بٹھایا ہوا ہے تو وہ غصے سے مغلوب ہو گئے اور جھٹ مطالبہ کیا کہ مجھے بھی کرسی ملے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میں معزز خاندان سے ہوں اور گورنر سے ملاقات کے وقت بھی مجھے کرسی ملتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ ملاقات کے وقت تو چوہڑے کو بھی کرسی ملتی ہے مگر یہ عدالت ہے۔ مرزا صاحب کا خاندان رئیس خاندان ہے۔ ان کا معاملہ اَور ہے‘‘۔ (خطبات محمود جلد۱۷صفحہ ۵۵۳تا۵۵۵)