امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے گلف ریجن کی ملاقات
مورخہ۱۷؍نومبر۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے گلف ریجن کے اکیس (۲۱)خدام کو بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ خدام نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا ۔یہ ملاقات اسلام آباد ٹلفورڈمیں منعقد ہوئی۔
حضورِ انور جب ملاقات کے لیے خدام میں رونق افروز ہوئے تو تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا۔
ملاقات کے دوران تمام خدام کو اپنا تعارف پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور انہیں حالاتِ حاضرہ کے مختلف مسائل پر راہنمائی حاصل کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا جو آج کل کی نوجوان نسل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس حوالے سےڈیلس(Dallas) جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک چھبیس سالہ نوجوان نے حضورِانور کی خدمت میں اپنا تعارف پیش کیا۔ حضورِانور کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ وہ وفاقی حکومت میں ملازم ہیں۔ جب حضورِانور نے ان سے اُن کی سیاسی وابستگی یا رجحان کے بارے میں دریافت فرمایا تو موصوف نے عرض کیا کہ پیارے حضور! فی الحال کسی بھی جماعت سے وابستگی نہیں ہے۔
حضورِانور نے مزید دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے ووٹ نہیں دیا تھا؟خادم نے عرض کیا کہ مَیں کسی بھی امیدوار سے خوش نہیں تھا۔یہ سماعت فرما کر حضورِانور مسکراتے ہوئے گویا ہوئےکہ اگر کسی سے خوش نہیں تھے تو پھر خود ہی آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہو جاتے۔
حضورِانور کے اس برجستہ تبصرے سے تمام حاضرینِ مجلس نے خوب حظّ اٹھایا۔
بعد ازاں حضورِانور نے فرمایاکہ کسی احمدی کو آئندہ انتخابات کے لیے بطور صدارتی امیدوار تیار کریں!
یہ سن کر نوجوان نے ان شاء اللہ عرض کرتے ہوئے اپنے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔
یقینی طور پر حضورِانور کا یہ بصیرت افروز ارشاد نوجوانوں کو قیادت اور خدمت کے میدان میں پُر عزم اندازقدم بڑھانے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
حضورِانور نے ایک خادم سے دریافت فرمایا کہ آپ یہاں بیت الاحسان میں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ خادم نے اثبات میں جواب دیا۔ حضورِانور کے انتظامات کی بابت استفسار فرمانے پر خادم نے عرض کیا کہ پیارے حضور! بہت اچھا انتظام ہے۔
یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ خدام کو تو ویسے ہی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بایں ہمہ ریجنل قائد صاحب بھی اس گفتگو میں شامل ہو گئے اور انہوں نے حضورِانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ الحمدللہ رہائش غیر معمولی طور پر عمدہ ہے۔اس پر حضورِانور نے موصوف سےاستفسارفرمایا کہ اگر آپ کویہاں کیمپنگ کے لیے کہا جائے تو وہ بھی ٹھیک ہوگا؟ تو انہوں نے انتہائی بشاشت کے ساتھ عرض کیا کہ ان شاءاللہ! ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔
اس مختصر مکالمے سے نہ صرف حاضرین لطف اندوز ہوئے بلکہ اس سے خدام میں موجزن خلافت کی اطاعت اور قربانی کے جذبات کی ایک جھلک بھی سامنے آئی۔
ایک نوجوان نے حضورِانور کے سامنے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ یونیورسٹی میں criminal justice کے مضمون میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اس پر حضورِانور نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ کرمنل جسٹس پڑھ رہے ہیں؟
نوجوان کے اثبات میں جواب دینے پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے حیرت بھرے انداز میں فرمایا کہ اوہو! یعنی اس شعبے میں زیرِ تعلیم ہونے کے باوجود آپ جرائم پر قابو نہیں پا سکے!
حضورِانور کے اس تبصرے پر مجلس میں موجود احباب بھی مسکرا دیے۔
ایک ریڈیالوجسٹ خادم نے حضورِانور کے سامنے اپنی خدمت کے حوالے سے عرض کیا کہ انہیں فضل عمر ہسپتال میں خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے۔اپنی خدمت کے دائرۂ عمل کی بابت بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر رات مجھے سی ٹی سکینز (C T scans)بھیجتے ہیں اورمَیں ان کا جائزہ لیتا ہوں۔ الحمد للہ! یہ میرے لیے بڑی برکت کی بات ہے۔ دعا کیجیے کہ خدا تعالیٰ میری اس خدمت کو قبول فرمائے۔
حضورِانور نے اس پر فرمایا کہ آپ کے کام میں زیادہ برکت پڑے گی اگر آپ وہاں خود جائیں گے۔
اس پر موصوف نے انتہائی عاجزی سے اس مضبوط عزم کا اظہار کیا کہ ان شاء اللہ! مَیں ضرور جاؤں گا۔
ایک خادم نے حضورِانور سے سوال کیا کہ پیارے حضور!کیا جہنّم کے مختلف مدارج ہیں جیسا کہ جنّت کے مختلف مدارج ہیں؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں جنّت اور جہنّم کے مدارج کی حقیقت اور ان کے مطابق ہر فرد کے اعمال پر مبنی سزاو جزا کی تفصیل بیان فرمائی کہ جی! جنّت کے مختلف مدارج ہیں۔ بعض لوگوں کو کم سزا ملے گی اور بعض دوسروں کو زیادہ سخت سزا ملے گی۔ قرآن کریم میں ذکر ہے کہ بعض لوگ جہنّم کی سب سے نچلی تہ میں دھکیل دیے جائیں گے، جہاں ہر طرف صرف آگ ہی آگ ہوگی۔ بعض لوگ ایسے ہوں گے جو صرف جلنے کی حرارت محسوس کریں گے، ان کے پاؤں، ٹخنے اور ٹانگیں جلیں گی یا وہ اس حدّ تک جلن کا سامنا کریں گے۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ وہ لوگ جو بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہیں جہنّم کی سب سے نچلی تہ میں پھینک دیا جائے گا۔ اس لیے جہنّم کے مختلف مدارج ہیں اور لوگوں کو ان کے گناہوں کے مطابق سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک سے یکساں سلوک نہیں کرے گا، بلکہ ہر شخص کو اس کے اعمال یا گناہ کے مطابق سزا ملے گی۔
ایک واقفِ نَو خادم نے حضورِانور سے راہنمائی طلب کرتے ہوئے عرض کیا کہ پیارے حضور! بحیثیت واقفِ نَوآپ کی رائے میں مجھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کون سی کتب پڑھنی چاہئیں؟
حضورِانور نے جواب میں فرمایا کہ آپ اَب بالغ ہوچکے ہیں اور خادم بھی ہیں، اس لیے آپ کو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پڑھنی چاہیے۔
خادم کے عرض کرنے پر کہ وہ یہ کتاب پڑھ چکے ہیں، حضورِانور نے اس پراظہارِ تبسم کرتے ہوئے تلقین فرمائی کہ اچھا! آپ نے پڑھی ہوئی ہے تو اسے دوبارہ پڑھیں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ساتھ ہی ’’کشتی نوح ‘‘بھی پڑھیں۔
جب حضورِانور نے کشتی نوح کے مطالعے کی بابت دریافت فرمایا تو خادم نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر حضورِانور نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بھی ضرور پڑھیں۔
حضورِانور نے مزید راہنمائی فرمائی کہ رسالہ الوصیّت ایک چھوٹی سی کتاب ہے، آپ خواہ موصی ہیں یا نہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ وہ کتاب بھی پڑھیں۔
حضورِانور نے ’’رسالہ الوصیّت ‘‘کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے آپ کو خلافت کی اہمیت کا پتا چلے گا اور حضرت مسیح موعودؑ کے دعوے کا علم ہو گا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہم احمدیت اور اسلام میں اپنے ایمان و ایقان کو مزید مضبوط کیسے بنا سکتے ہیں۔
بلا شبہ یہ نصائح نہ صرف ہر واقف نو بلکہ ہر فردِ جماعت کی علمی و روحانی ترقی کے لیے قیمتی راہنمائی ہیں۔
اگلا سوال جو حضورانور کی خدمت میں پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ ہمیں قدیم اقوام، جیسے ایزٹیک (Aztec)، مایا (Maya) اور ایبورجین (Aborigines) میں انبیاء کے مبعوث ہونے کا ذکر کیوں نہیں ملتا، جبکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قومیں بھی ایک خدا پر ایمان رکھتی تھیں؟
حضورِانور نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو! قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نے ہر قوم میں رسول بھیجےاور دنیا کے تمام لوگوں میں مختلف وقتوں میں بھیجے ۔ لہٰذا یہ وہ معلومات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآنِ پاک میں عطا فرمائی ہیں کہ ہر قوم کی طرف مختلف اوقات میں رسول بھیجے گئے اور صرف چند انبیاء کے نام قرآنِ پاک میں مذکور ہیں ، جن کی تعداد تقریباً پچیس ہے مگر ہر نبی نے ایک ہی بنیادی تعلیم سکھائی ہے۔
حضورِانور نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ چاہے وہ انبیاءآسٹریلیا کے ہوں، کینیڈا، امریکہ، ایشیا یا کہیں اَور سے ہوں ، خواہ وہ چین یا انڈیا سے ہوں، ان سب نے ایک ہی بنیادی تعلیم سکھائی ہے کہ اللہ کے حضور جھکو اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرو۔ سو یہ بنیادی تعلیمات ہیں ۔ اگرچہ اللہ نے قرآنِ پاک میں معیّن طور پر تو تمام انبیاء کے نام بیان نہیں فرمائے مگر اس نے یہ فرمایا ہے کہ مَیں نے اپنے انبیاء کو ہر ایک قوم میں اور تمام لوگوں میں مبعوث کیا ہے۔
ایک خادم نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ پیارے حضور! مَیں وقفِ نو ہوں اور پولیس فورس میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ نیز راہنمائی طلب کی کہ مَیں اس پیشے میں شامل ہو کر جماعت کی خدمت کس طرح کر سکتا ہوں؟
حضورِانور نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ مَیں نے خدام الاحمدیہ اور نوجوانوں سے کہا تھا کہ وہ پبلک سروس اور پولیس فورس میں شامل ہوں۔ اس طرح آپ پولیس کے محکمہ کے معیار اور ان کے طرزِ عمل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ حضورِانور نے امریکی پولیس کے رویے کے بارے میں پائے جانے والے عمومی رجحان کی بابت بیان فرمایا کہ آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا رویہ بہت غیر معقول ہے، وہ لوگوں کی پروا نہیں کرتے اور بعض اوقات وہ بہت بے رحم ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد حضورِانور نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ پولیس فورس میں شامل ہوتے ہیں تومَیں امید کرتا ہوں کہ آپ ان لوگوں کے رویے میں بہتری لانے کی کوشش کریں گے یا اگر آپ کو پولیس فورس میں کوئی اعلیٰ عہدہ ملتا ہے تو آپ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اصلاحات کریں گے۔
اسی تناظرمیں بطور احمدی مسلمان اپنے اخلاقی معیار کو بلند کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی خدمت کرنے کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ پہلے اپنا اچھا نمونہ قائم کریں تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ آپ ایک احمدی مسلمان ہیں۔ پھر انہیں اس بات کا ادراک بھی ہو جائے گا کہ یہ اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں اور اس طرح سے ایک پولیس افسر کو رویہ اپنانا چاہیے اور اس طرح وہ معاشرے کی اخلاقی حالت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اگر ایسا کریں گے تو بلاشبہ لوگوں پر جماعت کا اچھا تاثر بیٹھے گا۔
اس ملاقات میں کیا جانے والا ایک سوال یہ تھا کہ امریکہ میں ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد آپ امریکہ اور دنیا کے مستقبل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
حضورِانور نے اس پر فرمایا کہ اس کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے؟مَیں یہ تو نہیں جانتا کہ امریکہ کے لیے وہ کیا کرے گا، مگر میرا خیال ہے کہ دنیا کے حالات بہتر ہو جائیں گے، کم از کم وہ جنگوں سے بچنے کی کوشش کرے گا۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ کچھ لوگ اس سے کافی ناامید ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی معیشت اور امریکی عوام کو تباہ کر دے گا اور تارکینِ وطن، مہاجرین اور پناہ گزینوں کے خلاف کچھ ظالمانہ اقدامات کرے گا، خصوصاً غیر قانونی پناہ گزینوں کے خلاف۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اگر ہجرت کرنی ہے تو بہتر ہے کہ قانون کے مطابق ہو، لیکن جہاں تک انسانی حقوق کی بات ہے تو اسے لوگوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا چاہیے۔
حضورِانور نے اس کے بعد عالمی سطح پر مختلف آرا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کل لوگ مختلف رائے دے رہے ہیں۔ کچھ بین الاقوامی راہنما کہتے ہیں کہ دنیا کے موجودہ حالات بہتر ہو جائیں گے اور بعض کہتے ہیں کہ وہ دنیا کے امن کو برباد کر دے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔
حضورِانور نے ٹرمپ کی ممکنہ کابینہ کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہارفرمایا کہ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ جو کابینہ وہ تشکیل دے رہا ہے، وہ کٹر ذہنیت کے لوگوں پر مشتمل ہے اور وہ مسلمانوں کے خلاف ہیں اس لیے مَیں نہیں جانتا کہ مسلمان ممالک کا کیا ہو گا۔
حضورِانور نے ٹرمپ کے سعودی عرب اور دیگر مسلم حکمرانوں کے ساتھ تعلقات کا بھی ذکر فرمایا کہ ٹرمپ خود کہتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، نیز بعض اَور مسلمان حکمرانوں کے ساتھ بھی، یہاں تک کہ چین کے صدر بھی کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر ہوں گے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اب دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ ٹرمپ ایک ایسا شخص ہے جس کے بارے میں پہلے سے کچھ کہنا مشکل ہے۔
ملاقات کے اختتام پر شاملین کو حضورِانور کے ہمراہ گروپ تصویر بنوانے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔
آخر پر حضورِانور نے سب شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ پیش کیا اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی۔