حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فحشاء کے قریب بھی نہ جاؤ

وَلَا تَقْرَبُوْا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ۔ (الانعام: 152) اور فحشاء کے قریب بھی نہ جاؤ، نہ ظاہری فحشاء اور بے حیائیوں کے، نہ چھپی ہوئی بے حیائیوں کے۔ اس ایک حکم میں مختلف قسم کی بے حیائیوں اور برائیوں سے روکا گیا ہے۔ الْفَوَاحِشَ کے مختلف معنی ہیں۔ اس کے معنی زنا بھی ہیں۔ اس کے معنی زیادتیوں میں بڑھنے کے بھی ہیں۔ اس کے معنی اخلاق سے گری ہوئی اور اخلاق کو پامال کرنے والی حرکات کے بھی ہیں۔ اس کے معنی قبیح گناہ اور شیطانی حرکتوں کے بھی ہیں۔ ہر بری بات کہنے اور کرنے کے بھی ہیں۔ اس کے معنی بہت بخیل ہونے کے بھی ہیں۔ پس اس حکم میں ذاتی اور معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کیا گیا ہے، یا وہ باتیں جن سے گھر، ماحول اور معاشرے میں بے حیائیاں پھیلتی ہیں اُن کا سدّ باب کیا گیا ہے۔

اگر زنا کے حوالے سے اس کی بات کریں تو یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کی قرآنِ کریم میں دوسری جگہ پر معین سزا بھی ہے۔ بہر حال یہ ایک ایسا گناہ اور بے حیائی ہے جس میں ملوّث انسان اگر شادی شدہ ہے تو اپنے بیوی بچوں کے حقوق بھول جاتا ہے۔ اس کو اس بے حیائی میں پڑ کرخیال ہی نہیں رہتا کہ میرے کیا حقوق ہیں۔ اگر عورت ہے تو اپنے بچوں اور خاوند کے حق اور ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہی ہوتی، اُن کو بھول جاتی ہے۔ اگر غیرشادی شدہ ہے تو معاشرے میں غلاظت اور بے حیائی پھیلانے کا مرتکب ہے۔ غلط وعدے کر کے بعض لوگ ناجائز طور پر تعلقات قائم کرتے ہیں اور جب گھریلو اور خاندانی دباؤ یا معاشرے کے دباؤ یا خود جھوٹے وعدے کی وجہ سے وہ تعلقات بیچ میں ٹوٹ جاتے ہیں تو مَردوں کو تو زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہمارا معاشرہ خاص طور پر جو ایشین معاشرہ ہے، وہ مَردوں کی زیادہ پردہ پوشی کرتا ہے لیکن عورت کی زندگی برباد ہو جاتی ہیں۔ اور اس کی مثالیں اخباروں میں عام آتی ہیں۔

(خطبہ جمعہ ۲؍اگست ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍اگست ۲۰۱۳ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button