حقیقی عالم خوفِ خدا رکھتا ہے
عَالم ربّانی سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ صرف و نحو یا منطق میں بے مثل ہو بلکہ عالم ربّانی سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اس کی زبان بے ہودہ نہ چلے، مگر آج یہ زمانہ ایسا آگیا ہے کہ مردہ شو تک بھی اپنے آپ کو علماء کہلاتے ہیں اور اس لفظ کو ذات میں داخل کر لیا ہے۔ اس طرح پر اس لفظ کی بڑی تحقیر ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے منشا اور مقصد کے خلاف اس کا مفہوم لیا گیا ہے ورنہ قرآن شریف میں تو علماء کی یہ صفت بیان کی گئی ہے اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓـؤُا (فاطر:۲۹) یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اللہ تعالیٰ کے وہ بندے ہیں جو علماء ہیں۔اب یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ جن لوگوں میں یہ صفات خوف و خشیت اور تقویٰ اللہ کی نہ پائی جاویں وہ ہرگز ہرگز اس خطاب سے پکارے جانے کے قابل نہیں ہیں۔اصل میں علماء عالِم کی جمع ہے اور اس چیز کو کہتے ہیں جو یقینی اور قطعی ہو اور سچا علم قرآن کریم سے ملتا ہے۔یہ نہ یونانیوں کے فلسفہ سے ملتا ہے، نہ حال کے انگلستانی فلسفہ سے، بلکہ یہ سچا ایمانی فلسفہ سے حاصل ہوتا ہے اور مومن کا معراج اور کمال یہی ہے کہ وہ علماء کے درجہ پر پہنچے اور وہ حق الیقین کا مقام اسے حاصل ہو جو علم کا انتہائی درجہ ہے لیکن جو شخص علومِ حَقّہ سے بہرہ ور نہیں ہیں اور معرفت اور بصیرت کی راہیں ان پر کھلی ہوئی نہیں ہیں وہ خود عالم کہلائیں مگر علم کی خوبیوں اور صفات سے بالکل بے بہرہ ہیں اور وہ روشنی اور نور جو حقیقی علم سے ملتا ہے ان میں پایا نہیں جاتا بلکہ ایسے لوگ سراسر خسارہ اور نقصان میں ہیں۔یہ اپنی آخرت دُخان اور تاریکی سے بھر لیتے ہیں۔انہیں کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسرائیل:۷۳) جو اس دنیا میں اندھا ہوتا ہے، وہ آخرت میں بھی اندھا اٹھایا جاوے گا۔جس کو یہاں علم و بصیرت اور معرفت نہیں دی گئی اسے وہاں کیا علم ملے گا۔اللہ تعالیٰ کو دیکھنے والی آنکھ اسی دنیا سے لے جانی پڑتی ہے جو یہاں ایسی آنکھ پیدا نہیں کرتا اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھے گا لیکن جن لوگوں کو سچی معرفت اور بصیرت دی جاتی ہے اور وہ علم جس کا نتیجہ خشیت اللہ ہے عطا کیا جاتا ہے وہ وہ ہیں جن کو اس حدیث میں انبیاء بنی اسرائیل سے تشبیہ دی گئی ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۱۷-۳۱۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)