صلح حدیبیہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹؍ نومبر۲۰۲۴ء
٭… آج رات مجھ پر ایک سورت(سورۂ فتح) نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا کی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے (رسول کریمﷺ)
٭…غور کیا جائے توواقعی حدیبیہ کی صلح ہمارے لیے ایک بڑی بھاری فتح ہے
٭… مَیں نے تم میں سے مخلص ترین لوگوں کے اندر بھی بعض دفعہ احتجاج کی روح دیکھی، مگر ابوبکرکے اندر مَیں نے یہ روح کبھی نہیں دیکھی (رسول کریمﷺ)
٭… صلح حدیبیہ کے مبارک ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو آپؐ کے پاس آنے کا موقع ملا
اور اُنہوں نے آنحضرتؐ کی باتیں سنیں تو اِن میں صدہا مسلمان ہو گئے (حضرت مسیح موعودؑ)
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۹؍ نومبر۲۰۲۴ء بمطابق ۲۹؍نبوت۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۹؍ نومبر۲۰۲۴ء مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایاکہ
صلح حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے۔اِس کی مزید تفصیل بیان کروں گا۔
اِس موقع پر صحابہؓ کی پہرہ پر ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔اِس بارے میں ذکر ملتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کو رات کے وقت پہرے کا حکم دیا ہوا تھا، روزانہ تین آدمی باری باری پہرہ دیا کرتے تھے۔
یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ مسلمانوں میں سے چند آدمی رسول اللهؐ کی اجازت کے ساتھ مکّہ میں داخل ہوئے تھے، یہ حضرت عثمانؓ کی امان میں مکّہ میں داخل ہوئے تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چھپ کر داخل ہوئے تھے۔
جب اِن مسلمانوں کی خبر قریش کو ہوئی تو اِن کو پکڑ لیا گیا اور قریش کو اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کی خبر بھی مل گئی تھی، جن کو حضرت محمدبن مَسْلَمَہ ؓنے روک لیا تھا، تو قریش کا ایک اور مسلح دستہ نبی کریمؐ اور آپؐ کے اصحابؓ کی طرف آیا اور مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔وہ تیر اور پتھر پھینکنے لگے، مشرکین کے بارہ شَہ سواروں کو مسلمانوں نے گرفتار کر لیا اور مسلمانوں میں سے
حضرت ابنِ زُنَیْمؓ شہید ہو گئے، قریش نے اُن کو تیر مار کر قتل کر دیا تھا۔
پھر قریش نے ایک جماعت آنحضرتؐ کے پاس بھیجی،جن میں سُہَیْل بن عَمرو بھی تھا، آنحضرتؐ نے جیسے ہی دُور سے اُس کو دیکھا تو صحابہؓ سے فرمایا کہ سُہَیْل کے ذریعہ تمہارا معاملہ سہل یعنی آسان ہو گیا۔اُس نے رسول اللهؐ کے پاس پہنچ کر کہا کہ آپؐ کے ساتھیوں یعنی حضرت عثمانؓ اور دوسرے دس صحابہؓ کو قید کرنے اور ہمارے کچھ لوگوں کےآپؐ سے مقابلہ کرنے کا جو معاملہ ہے، اِس میں ہمارا کوئی ذِی رائے آدمی شریک نہیں ہے، ہمیں جب اِس بات کا پتا چلا تو ہمیں بہت ناگواری ہوئی، ہمیں اِس بارے میں کچھ خبر نہیں ہے۔وہ ہم میں سے اوباش لوگوں کا کام تھا، اِس لیے ہمارے جو آدمی آپؐ نے دونوں مرتبہ پکڑے ہیں، اُنہیں ہمارے پاس واپس بھیج دیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں اُن کو اُس وقت تک نہیں بھیجوں گا، جب تک تم میرے ساتھیوں کو نہیں چھوڑو گے۔ اِس پر اُن سب لوگوں نے کہا کہ اچھا ہم اُنہیں چھوڑ دیتے ہیں، جس پر قریش نے حضرت عثمانؓ اور باقی دس صحابہؓ کو واپس بھیج دیا، اُس وقت آنحضرتؐ نے بھی اُن کے آدمیوں کو چھوڑ دیا۔
جیسا کہ ابھی ذکر بھی ہوا ہے اور پہلےگذشتہ خطبہ میں بھی بتا چکا ہوں کہ
حضرت عثمانؓ کو کافروں نے پکڑ لیا تھا اور جب یہ خبر آنحضرتؐ کو پہنچی تو آپؐ نے صحابہؓ سے ایک بیعت، عہد، لیا تھا، جسے بیعتِ رضوان کہتے ہیں۔
جب قریش کوحدیبیہ کی اِس بیعت کا حال معلوم ہوا تو وہ لوگ بہت خوفزدہ ہوئے اور اُن کے ذِی رائے لوگوں نے مشورہ دیا کہ صلح کرنا مناسب ہو گی یعنی اِس طرح صلح کی جائے، یہ کہا جائے کہ اِس سال آپ واپس لَوٹ جائیں اور آئندہ سال آ کر تین روز مکّہ میں ٹھہر سکتے ہیں مگر آپ کےساتھ صرف جو ایک سوار کےضروری ہتھیار ہوتے ہیں یعنی میانوں میں پڑی تلوار اور کمانیں ہوں۔
حدیبیہ کے موقع پر صلح حدیبیہ کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اِس طرح لکھا ہے کہ بہرحال سُہَیْل آیا اور آتے ہی آنحضرتؐ سے کہنے لگا کہ آؤ جی، اب لمبی بحث جانے دو، ہم معاہدے کے لیے تیار ہیں۔
آنحضرتؐ نے فرمایا!ہم بھی تیار ہیں اور اِس ارشاد کے ساتھ ہی آپؐ نے اپنے سیکرٹری حضرت علیؓ کو بلوایا۔ اور چونکہ شرائط پر ایک عمومی بحث پہلے ہو چکی تھی اور تفاصیل نے ساتھ ساتھ طے پانا تھا، اِس لیے کاتب کے آتے ہی آپؐ نے فرمایا کہ لکھو!اور بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے شروع کیا۔ سُہَیْل صلح کے لیے تو تیار تھا، مگر قریش کے حقوق کی حفاظت اور اہلِ مکّہ کے اکرام کے لیے بھی بہت چوکس رہنا چاہتا تھا، فوراً بولا کہ یہ رحمٰن کا لفظ کیسا ہے؟ ہم اُسے نہیں جانتے، جس طرح عرب لوگ ہمیشہ سے لکھتے آئے ہیں، اِس طرح لکھو یعنی بِاِسْمِكَ اَللّٰھُمَّ۔ دوسری طرف مسلمانوں کے لیے بھی قومی عزت اور مذہبی غیرت کا سوال تھا، وہ بھی اِس تبدیلی پر فوراً چونک پڑے اور کہنے لگے کہ ہم تو ضروربِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہی لکھیں گے۔ مگر آنحضرتؐ نے یہ کہہ کر مسلمانوں کو خاموش کرا دیا کہ نہیں، اِس میں کوئی ہرج نہیں، جس طرح سُہَیْل کہتا ہے اِسی طرح لکھ لو۔
اِس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ لکھو کہ یہ معاہدہ ہے جو محمد رسول الله(صلی الله علیہ وسلم) نے کیا ہے، سُہَیْل نے پھر ٹوکا کہ یہ ’رسول الله ‘کا لفظ ہم نہیں لکھنے دیں گے۔ اگر ہم یہ بات مان لیں کہ آپؐ خدا کے رسول ہیں تو پھر تو یہ سارا جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے اور ہمیں آپؐ کو روکنے اور آپؐ کا مقابلہ کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔ بس جس طرح ہمارے ہاں طریق ہےصرف یہ الفاظ لکھو کہ محمد بن عبدالله نے یہ معاہدہ کیا ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ آپؐ لوگ مانیں یا نہ مانیں، مَیں خدا کا رسول تو ہوں، مگر چونکہ مَیں محمد بن عبدالله بھی ہوں، اِس لیے چلو یونہی سہی۔
مگر اِس اثنا میں آپؐ کے کاتب حضرت علیؓ تحریر میں محمد رسول الله کے الفاظ لکھ چکے تھے۔آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ الفاظ مٹا دو اور اُن کی جگہ محمد بن عبدالله کے الفاظ لکھ دو۔ مگر اُس وقت جوش کا عالَم تھا، آپؓ نے غیرت میں آ کر عرض کیا، یا رسول اللهؐ !مَیں تو آپؐ کے نام کے ساتھ سے رسول الله کے الفاظ کبھی نہیں مٹاؤں گا۔آپؐ نے اُن کی اَز خودرفتہ حالت کو دیکھ کر فرمایا کہ اچھا! تم نہیں مٹاتے تو مجھے دو، مَیں خود مٹا دیتا ہوں۔ پھر آپؐ نے معاہدہ کا کاغذ یا جو کچھ بھی وہ تھا، ہاتھ میں لے کر، آپؓ سے اِن الفاظ کی جگہ پوچھ کر رسول الله کے الفاظ اپنے ہاتھ سے کاٹ دیے اور اُن کی جگہ ابنِ عبدالله کے الفاظ لکھ دیے۔
اِس موقع پر حضرت عمرؓ کے جوش و خروش کا بھی ذکر ملتا ہے۔
لکھا ہے کہ مسلمانوں نے اِن شرائط کو ناپسند کیا اور غضبناک ہو گئے۔ سُہَیْل نے اِن شرائط کے علاوہ صلح سے انکار کر دیا۔ جب اُنہوں نےصلح طے کر لی تو صرف لکھنا باقی تھا کہ عمربن خطابؓ رسول اللهؐ کی طرف آئے اور کہا کہ یا رسول اللهؐ! کیا ہم حق اور وہ کافر باطل پر نہیں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ کیوں نہیں! تو اُنہوں نے کہا کہ کیا ہمارے مقتول جنّت اور اِن کے آگ میں نہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ کیوں نہیں! تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہم حدیبیہ کے دن جو صلح کر رہے ہیں تو اپنے دین سے متعلق ایسی ذلّت کیوں برداشت کریں؟ کیا ہم یہاں سے یونہی لَوٹ جائیں، یہاں تک کہ الله اِن کے اور ہمارے درمیان فیصلہ نہ کر دے؟ رسول اللهؐ نے فرمایا کہ
مَیں الله کا بندہ اور اُس کا رسول ہوں اور مَیں اُس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا اور وہ میری مدد کرنے والا ہے۔
تو آپؓ نے کہا کہ کیا آپؐ نے ہمیں نہیں بتایا کہ ہم بیت الله میں عنقریب آئیں گے اور بیت الله کا طواف کریں گے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ کیوں نہیں، کیا مَیں نے تمہیں یہ بتایا تھا کہ تم اِس سال آؤ گے؟آپؓ نے کہا کہ نہیں، تو پھر فرمایا کہ بے شک تم بیت الله آؤ گےاور اِس کا طواف کرو گے۔
پھر آپؓ غصّہ کی حالت میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور صبر نہیں کیا اور آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش کی جانے والی باتیں دُہرائیں تو حضرت ابوبکرؓ نے آپؓ کو نصیحت فرمائی کہ
تُو اپنے آپ کو آنحضرتؐ کی اطاعت کے ساتھ مَرتے دَم تک منسلک رکھ۔ الله کی قسم! وہ حق پر ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اِس واقعہ کو حضرت ابوبکرؓ کی صفت کے رنگ میں اِس طرح بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ رسولِ کریمؐ نے صحابہؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں نے تم کو بہت حکم دیے، مگر مَیں نے تم میں سے مخلص ترین لوگوں کے اندر بھی بعض دفعہ احتجاج کی روح دیکھی، مگر ابوبکرکے اندر مَیں نے یہ روح کبھی نہیں دیکھی۔
صلح کے معاہدہ کی تحریر کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ بہرحال بڑی ردّ و کد کے بعد یہ معاہدہ تکمیل کو پہنچا اور قریباً ہر اَمر میں آنحضرتؐ نے اپنی بات کو چھوڑ کر قریش کا مطالبہ مان لیا اور خدائی منشاء کے ماتحت اپنے اِس عہد کو پوری وفاداری کے ساتھ پورا کیا کہ بیت الله کے اکرام کی خاطر قریش کی طرف سے جو مطالبہ بھی ہو گا، اُسے مان لیا جائے گا اور بہر صورت حرم کے احترام کو قائم رکھا جائے گا۔
اِس معاہدہ کی دو نقلیں کی گئیں اور بطورگواہ کے فریقین کے متعدّد معززین نے اِن پر دستخط ثبت کیے۔
معاہدہ کی تکمیل کے بعد سُہَیْل بن عَمرو معاہدہ کی ایک نقل لے کر مکّہ کی طرف واپس لَوٹ گیا اور دوسری نقل آنحضرتؐ کے پاس رہی۔
صحابہؓ کے اضطراب کا بھی ذکر ملتا ہے، جب آپؐ اِس قضیّہ سے فارغ ہوئے تو رسول اللهؐ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ اُٹھو! اپنے اونٹوں کو ذبح کرو، پھر سر منڈواؤ۔ تو اِن میں سے ایک بھی کھڑا نہ ہوا، یہاں تک کہ آپؐ نے یہی بات تین دفعہ کہی۔ آنحضرتؐ کو اِس کا صدمہ ہوا، آپؐ خاموش ہو کر اپنے خیمہ کے اندر تشریف لے گئے، اندرونِ خیمہ آپؐ کی حرمِ محترم حضرت اُمِّ سلمہ رضی الله عنہا، جو ایک نہایت زیرک خاتون تھیں، یہ نظارہ دیکھ رہی تھیں۔ اُنہوں نے اپنے مؤقّر اور محبوب خاوند کو فکر مند حالت میں اندر آتے دیکھا اور آپؐ کے منہ سے آپؐ کی فکر و تشویش معلوم کی تو ہمدردی اور محبّت کے انداز میں عرض کیا کہ یارسول اللهؐ! آپؐ رنج نہ فرمائیں، آپؐ کے صحابہؓ خدا کے فضل سے نافرمان نہیں، مگر اِس صلح کی شرائط نے اُنہیں غمّ سے دیوانہ بنا رکھا ہے۔ پس میرا مشورہ یہ ہے کہ آپؐ اُن سے کچھ نہ فرمائیں بلکہ خاموشی کے ساتھ باہر جا کر اپنی قربانی کے جانور کو ذبح فرما دیں اور اپنے سر کے بالوں کر منڈوا دیں، پھر آپؐ کے صحابہؓ خود بخود آپؐ کے پیچھے ہو لیں گے۔ آنحضرتؐ کو آپؐ کی تجویز پسند آئی اور آپؐ نے اِس پر عمل کیا۔
جب صحابہؓ نے یہ منظر دیکھا تو وہ چونک کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور دیوانہ وار اپنے جانوروں کو ذبح کرنا شروع کر دیا اور ایک دوسرے کے سر کے بال مونڈنے لگے
مگر غمّ نے اِس قدر بے چین کر رکھا تھا کہ راوی بیان کرتا ہے کہ اُس وقت ایسا عالَم تھا کہ ڈر تھا کہ مسلمان کہیں ایک دوسرے کے بال مونڈتے مونڈتے ایک دوسرے کا گلا ہی نہ کاٹ دیں۔
صحابہؓ میں سے بعض بعض کا سر مونڈنے لگے، مسلمانوں میں سے بعض نے سر منڈوائےاور بعض نے بال کُتروائے، رسول اللهؐ نے اپنا سر خیمہ سے باہر نکالا اور آپؐ کہہ رہے تھے کہ الله تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللهؐ! اور قصرکروانے والے تو تین دفعہ آپؐ نے فرمایا کہ الله سر منڈوانے والوں پر رحم کرے اور چوتھی دفعہ فرمایا کہ قصر کرنے یعنی بال کُتروانے والوں پر بھی رحم کرے۔
روایت ہے کہ رسول اللهؐ حدیبیہ میں اُنیس دن مقیم رہے اور کہا جاتا ہے کہ بیس راتیں قیام کیا۔ جب آپؐ واپسی سفر میں عُسْفَان کے قریب کُرَاعُ الْغَمِیْم میں پہنچےاور یہ رات کا وقت تھا تو اعلان کرا کے صحابہؓ کو جمع کروایا اور فرمایا کہ
آج رات مجھ پر ایک سورت(سورۂ فتح) نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا کی سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔
جب آپؐ نے یہ آیات(سورۂ فتح کی دو سے چار اور اَٹھائیسویں آیت) صحابہؓ کو سنائیں توچونکہ بعض صحابہ ؓکے دل میں ابھی تک صلح حدیبیہ کی تلخی باقی تھی وہ حیران ہوئے کہ ہم تو بظاہر ناکام ہوکر واپس جارہے ہیں اور خدا ہمیں فتح کی مبارک باد دے رہا ہے حتّی کہ بعض جلد باز صحابہؓ نے اِس قسم کے الفاظ بھی کہے کہ کیا یہ فتح ہے کہ ہم طواف بیت اللہ سے محروم ہوکر واپس جارہے ہیں؟ آنحضرتؐ تک یہ بات پہنچی تو آپؐ نے بہت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ایک مختصر سی تقریر میں جوش کے ساتھ فرمایا کہ یہ بہت بیہودہ اعتراض ہے کیونکہ
غور کیا جائے توواقعی حدیبیہ کی صلح ہمارے لیے ایک بڑی بھاری فتح ہے۔
قریش جو ہمارے خلاف میدان جنگ میں اُترے ہوئے تھے، اُنہوں نے خود جنگ کوترک کرکے امن کا معاہدہ کرلیا ہے اور آئندہ سال ہمارے لیےمکہ کے دروازے کھول دینے کا وعدہ کیا ہے اور ہم امن و سلامتی کے ساتھ اہل ِمکہ کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ ہو کر اور آئندہ فتوحات کی خوشبو پاتے ہوئے واپس جارہے ہیں۔ پس
یقیناً یہ ایک عظیم الشان فتح ہے۔ کیا تم لوگ اِن نظاروں کو بھول گئے کہ یہی قریش اُحد اور احزاب کی جنگوں میں کس طرح تمہارے خلاف چڑھائیاں کر کر کے آئے تھے اور یہ زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی تھی اور تمہاری آنکھیں پتھراگئی تھیں اور کلیجے منہ کو آتے تھے مگرآج یہی قریش تمہارے ساتھ
امن و امان کا معاہدہ کررہے ہیں۔
صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! ہم سمجھ گئے، ہم سمجھ گئے۔ جہاں تک آپؐ کی نظر پہنچی ہے وہاں تک ہماری نظر نہیں پہنچتی، مگراب ہم نے سمجھ لیا ہے کہ واقعی یہ معاہدہ ہمارے لیے ایک بھاری فتح ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ
حدیبیہ کے قصّے کو خدا تعالیٰ نے فتح مبین کے نام سے موسوم کیا ہے اور فرمایا کہ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا۔
وہ فتح اکثر صحابہؓ پر بھی مخفی تھی بلکہ بعض منافقین کے ارتداد کا موجب ہوئی مگر دراصل وہ فتح مبین تھی، گو اِس کے مقدمات نظری اور عمیق تھے۔
علّامہ بلاذریؒ نے لکھا ہے کہ صلح کے بہت سے نتائج اور ثمرات ظاہر ہوئے، بالآخر مکّہ مکرمہ فتح ہوا، سارے مکّہ والے اسلام میں داخل ہو گئے، لوگ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ حضرت مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے مبارک ثمرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کو آپؐ کے پاس آنے کا موقع ملا اور اُنہوں نے آنحضرتؐ کی باتیں سنیں تو اِن میں صدہا مسلمان ہو گئے۔
آخر پر حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ باقی ان شاء الله آئندہ۔
٭…٭…٭