بنیادی مسائل کے جوابات (قسط ۸۵)
٭…نماز تراویح کی چار رکعت کے بعد وعظ و نصیحت کرنے کے بارے میں راہنمائی
٭… حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اعتکاف نہ کرنے کے بارے میں راہنمائی
٭… اپنے نام کے ساتھ اپنے والد کا نام نہ لگانے کا حکم؟
٭… ایک شخص اپنی نماز پڑھ رہا ہو تو کیا اس کی اقتدا میں نماز ادا کی جاسکتی ہے؟
٭… کیا نبی اور رسول میں کوئی فرق ہے؟
٭… عقیقہ کے گوشت سے دعوت ولیمہ کرنے، نیز وفات شدہ بچہ کا عقیقہ کرنے کے بارے میں راہنمائی
٭…گاڑی اقساط میں خریدنے کے بارے میں راہنمائی
سوال: صدر صاحب جماعت مصر نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ ہمارے ہاں مصر میں نماز تراویح کی چار رکعتیں پڑھنے کے بعد تھوڑا آرام کیا جاتا ہے، جس میں مختصر وعظ و نصیحت کی جاتی ہے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ کتاب فقہ المسیح میں آیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کبھی اعتکاف نہیں کیا، جس پر بعض غیر احمدی اعتراض کرتے ہیں۔ ہم نے اس کی توجیہہ کی ہے کہ آپ کی ساری زندگی ہی اعتکاف کی حالت میں تھی کیونکہ آپ کا سارا وقت خدمت دین میں مشغول رہا۔ کیا ہماری یہ توجیہ درست ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۶؍اپریل ۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات عطا فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب: رمضان المبارک میں پڑھی جانے والی نماز تراویح تہجد کی نماز ہی کی ایک آسان صورت ہے۔ حضورﷺ کی تہجد کی نماز کے متعلق حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ رات کو چار رکعات ادا کرتے اور پھر آرام کرتے، پھر نماز کو اتنا لمبا کرتے کہ مجھے آپ پر رحم آجاتا اور میں کہتی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف منسوب ہونے والی پرانی اور آئندہ کی تمام لغزشیں معاف کردی ہیں(پھر آپ اتنا مجاہدہ کیوں کرتے ہیں)۔اس پر آپ ﷺ فرماتے کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(السنن الکبریٰ للبیہقی کتاب الصلاۃ بابُ ما رُوِى في عَدَدِ رَكَعاتِ القيامِ في شَهرِ رَمَضانَ)
لفظ تراویح کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے صحیح بخاری کے شارح حضرت ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں کہ تراویح ’’تَرْوِيحَةٌ‘‘کی جمع ہے، اور ترویحہ ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں۔اور رمضان کی راتوں میں باجماعت پڑھی جانے والی نماز کا نام ’’تراویح‘‘رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جب صحابہ کرامؓ پہلی مرتبہ اس نماز کو ادا کرنے کے لیے جمع ہوئے تو وہ ہر دو سلام (چا ررکعتوں ) کے بعد ترویحہ یعنی آرام کے لیے وقفہ کرتے تھے۔ (فتح الباری کتاب صلاۃ التراویح)
پس نماز تراویح کے درمیان چار رکعات پڑھنے کے بعد کچھ دیر وقفہ کرنے کا ذکر تو ملتا ہے لیکن اس وفقہ کے درمیان وعظ و نصیحت کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اس وقفہ کا مقصد یہ ہے کہ ایک تو امام کو قرآن کریم کی لمبی قراءت کے بعد کچھ دیر آرام مل جائے، دوسرا مقتدیوں میں سے اگر کسی کو پانی پینے یا غسل خانہ جانے کی ضرورت ہو تو وہ بھی اس وقفہ سے فائدہ اٹھا لے۔
باقی جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعتکاف کرنے کی بات ہے تو اس بارے میں آپ کی توجیہ بالکل درست ہے۔ آپ علیہ السلام نے ایک طرف جہاں اسلام کے دفاع میں مخالفین کے چوطرفہ حملوں کا اپنے قلم سے منہ توڑ جواب تحریر فرمایا اور اس قلمی جہاد میں اس جانفشانی سے منہمک ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً خبر دی کہ تیری نمازوں سے تیرے کام افضل ہیں۔(تذکرہ صفحہ ۶۸۵، ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء) تو دوسری طرف آپ نے خاندان نبوت کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کئی مہینوں کے مسلسل روزے رکھے۔ نیز اسلام کی حقانیت ا ور آنحضرت ﷺ کی صداقت ثابت کرنے کے لیے چالیس دنوں کی چلہ کشی فرمائی۔ یہ سب عبادات ایک قسم کا اعتکاف ہی تھا۔
پھر رمضان کے مہینہ میں آپ دن رات کثرت کے ساتھ دعائیں کیا کرتے تھے۔ چنانچہ احباب جماعت جو آپ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کے لیے بیقرار رہتے تھے ان کے اطمینان کے لیے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں آج کل احباب کے پاس کم بیٹھتا ہوں اور زیادہ حصہ اکیلا رہتا ہوں۔ یہ احباب کے حق میں از بس مفید ہے۔ میں تنہائی میں بڑی فراغت سے دعائیں کرتا ہوں اور رات کا بہت سا حصہ بھی دعاؤں میں صرف ہوتا ہے۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ ۴۲۴، ایڈیشن۲۰۲۲ء)
اسی طرح پوری یکسوئی کے ساتھ دعائیں کرنے کے لیے آپ نے گھر کے ایک حصہ میں بیت الدعا بھی بنوایا جس میں آپ سارا سال ہی اسلام کی ترقی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور الحاح اور گریہ و زاری کیا کرتے تھے۔ آپ کے یہ سب کام دراصل زندگی بھر کا اعتکاف ہی تھا۔
سوال: کینیڈا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنے والد صاحب کی طرف سے اپنی والدہ پر ہونے والے ظلم و ستم اور اپنی والدہ کی قربانیوں کا ذکر کر کے لکھا کہ ان وجوہات کی بنا پر میں اپنے نام کے ساتھ اپنے والد کا نام نہ لگانے کی اجازت چاہتی ہوں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۶؍ اپریل ۲۰۲۳ء میں اس امر کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: بچہ کی پیدائش اور اس کی پرورش میں والد اور والدہ دونوں کا برابر کا حصہ ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے بچہ کو والد اور والدہ دونوں کی طرف منسوب کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوۡلُوۡدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ۔(البقرۃ:۲۳۴) کہ کسی ماں کو اس کے بچہ کے تعلق میں تکلیف نہ دی جائے اور نہ ہی باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے (دکھ دیا جائے)۔
اس آیت میں بچہ کو ماں اور باپ دونوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں بچہ کو کسی کے نام کے ساتھ پکارنے کی بات ہے تو اس بارے میں قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا کہ اُدۡعُوۡھُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ھُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ۔(الاحزاب:۶)یعنی ان (لے پالک بچوں ) کو ان کے باپوں کا بیٹا کہہ کر پکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ فعل ہے۔
پس بے شک آپ کے والد صاحب نے آپ کی پرورش میں کوئی حصہ نہیں لیا، آپ کے نزدیک انہوں نے آپ کی والدہ پر بہت زیادہ ظلم و ستم ڈھائے ہیں، ان کے اس فعل کی اگر ان کے پاس کوئی جائز وجہ نہ ہوئی تو وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کے حضور قصور وار ٹھہریں گے، لیکن جہاں تک دنیاوی امور کا تعلق ہے آپ ان کی ہی اولاد کہلائیں گی۔ اس لیے آپ کی دستاویزات میں شرعی لحاظ سے ولدیت کے طور پر آپ کے والد صاحب کا ہی نام درج ہو گا۔
لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی بچہ کے نام کے ساتھ سابقہ یا لاحقہ کے طور پر ماں یا باپ کا نام ضرور لکھا جائے۔ اگر آپ اپنا نام اس حد تک تبدیل کرنا چاہتی ہیں کہ آپ کے نام میں پہلے یا بعد آپ کے والد صاحب کا نام نہ آئے تو اس میں شرعاً کوئی روک نہیں، آپ ایسا کر سکتی ہیں۔ لیکن جہاں آپ کی ولدیت کا ذکر ہو گا یا کاغذات میں آپ کی ولدیت لکھنے کی بات ہو گی تو وہاں آپ کے والد صاحب کا نام ہی لکھا اور بولا جائے گا۔ کسی اور نام کی طرف آپ کی ولدیت منسوب نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس بارے میں حضور ﷺ نے بڑا سخت انذار فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت واثلہ بن اسقعؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو اپنےباپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے وہ نہیں ہے تو اس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا یا۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب بَاب نِسْبَةِ الْيَمَنِ إِلَى إِسْمَاعِيلَ)
سوال: انڈونیشیا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگر ایک شخص اپنی نماز پڑھ رہا ہو اور دوسرا شخص بھی آ جائے تو وہ اس کے کندھے پر تھپکا کر اسے امام بنا کر باجماعت نماز پڑھ سکتا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۶؍اپریل ۲۰۲۳ء میں اس مسئلہ کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: کندھاتھپکانے کی تو ضرورت نہیں ہے،کیونکہ اس طرح بلا وجہ ایک نمازی کی نماز میں خلل ڈالنے والی بات ہے۔ ہاں اگر بعد میں آنے والا شخص پہلے والے نمازی کے دائیں طرف کھڑا ہو کر اس کی حرکات و سکنات کی پیروی شروع کر دیتا ہے تو پہلے والا نمازی خود ہی سمجھ جائے گا کہ دوسرے شخص نے اسے اپنا امام بنا لیا ہے اور اس طرح دونوں کی باجماعت نماز ہو جائے گی۔ حدیث میں بھی اس طرح کا ایک واقعہ ملتا ہے جس سے اس طریق کا جواز نکلتا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات انہوں نے اپنی خالہ حضرت میمونہؓ زوج النبی ﷺ کے گھر میں گزاری۔ حضور ﷺ بھی اس رات اسی گھر میں تھے۔ جب رات کا ایک حصہ گزر گیا تو حضور ﷺ نے اٹھ کر وضو فرمایا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے بھی حضور ﷺ کے وضو کرنے کی طرح وضو کیا اور حضور ﷺ کے بائیں طرف حضور کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا۔لیکن حضور ﷺ نے مجھے پکڑ کر اپنے دائیں طرف کر لیا اور پھر حضور ﷺ نے جس قدر اللہ کو منظور تھا، نماز پڑھی۔(صحیح بخاری کتاب الوضوء بَاب التَّخْفِيفِ فِي الْوُضُوءِ)
ایسی صورت میں فقہاء نے امام اور مقتدی کی نیت کے بارے میں بحثیں کی ہیں۔ لیکن میرے نزدیک جو نیت پہلے نمازی کی ہو گی۔ اسی کے تابع بعد میں آنے والے شخص کی نماز بھی شمار ہو گی۔ کیونکہ دو مختلف نیتوں کے ساتھ ایک نماز نہیں ہو سکتی۔
سوال: کینیڈا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ ہم تمام نبیوں کا ذکر کرتے ہوئے’’ نبی‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور آنحضورﷺ کے نام کے ساتھ ’’رسول‘‘ کا لفظ ذہن میں آتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۶؍اپریل ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: آپ کے ذہن میں اگر آتا ہے تو آپ کو خود اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔ ہمیں تو ایسا خیال نہیں آتا کیونکہ ہمارے نزدیک رسول اور نبی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ دونوں القاب ایک ہی وجود کو اس کے دو الگ الگ کاموں کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا ہوتے ہیں۔ نبی اس وجود کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے خبریں پا کر لوگوں تک انہیں پہنچاتا ہے اور رسول کا لفظ اس وجود کے لیے استعمال ہوتاہے جسے اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے بھیجتا ہے۔ اور یہ دونوں کام اور منصب ہر نبی اور رسول کو عطا ہوتے ہیں۔چنانچہ حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت موسیٰ، حضرت ہارون اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ کے لیے بھی قرآن کریم میں رسول کا لقب استعمال ہوا ہے اور حضور ﷺ کے لیے قرآن کریم میں بعض جگہوں پر نبی کا لفظ، بعض جگہوں پر رسول کا لفظ اور بعض جگہوں پر رسول اور نبی دونوں لقب اکٹھے بھی آئے ہیں۔
پھر حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت ادریس، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ کے لیے بھی نبی کا لفظ آیا ہے اور ان انبیاء میں سے بعض کے ساتھ رسول اور نبی دونوں القاب بھی آئے ہیں۔
آنحضور ﷺ کے نام کے ساتھ آپ کے ذہن میں جو رسول کا لفظ آتا ہے شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ کلمہ طیبہ میں مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ کے الفاظ جسے ہم کثرت سے سنتے اور پڑھتے ہیں، اورقرآن کریم کی آیت وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ میں جسے ہم کثرت سے اپنے علم کلام میں استعمال کرتے ہیں، حضورﷺ کے نام کے ساتھ رسول کا لفظ آیا ہے۔ ورنہ حضور ﷺ کی ذات بابرکات کے لیے رسول اور نبی دونوں ہی القاب قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ میں استعمال ہوئے ہیں۔ نیز دیگر انبیاء کے لیے بھی نبی کے ساتھ رسول کا لفظ قرآن و حدیث میں آیا ہے۔
سوال: عقیقہ کے گوشت سے دعوت ولیمہ کرنے، نیز وفات شدہ بچہ کا عقیقہ کرنے کے بارے میں محترم مفتی سلسلہ صاحب نے دو فتاویٰ جاری کرتے ہوئے لکھا کہ انہیں تا حال ان کے بارے میں کوئی حدیث نہیں مل سکی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۹؍اپریل ۲۰۲۳ء میں فتاویٰ اور فقہ احمدیہ کے بنیادی ماخذ کے بارے میں اصولی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فقہ کے ماخذ میں تو یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ اگر قرآن سنت اور احادیث سے کوئی مسئلہ نہ ملے تو فقہ حنفی کو دیکھ لیا جائے۔ اس لئے اگر کسی معاملہ میں احادیث میں کوئی راہنمائی نہیں ملتی، اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے لٹریچر سے بھی کوئی معین حوالہ نہیں ملتا تو فقہاء کی آرا کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، اگر انہوں نے اس بارے میں کوئی اچھی بات لکھی ہو تو اس کے مطابق بھی آپ فتویٰ جاری کر سکتے ہیں۔ البتہ ایسی صورت میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح نظر انداز نہ ہونے پائے۔
عقیقہ کے گوشت سے ولیمہ کرنے میں میرے خیال میں تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ عقیقہ کا گوشت انسان خود بھی تو کھا سکتا ہے۔
وفات شدہ بچہ کے لیے عقیقہ کے بارے میں آپ کا فتویٰ تو درست ہے کیونکہ عقیقہ زندگی کے بدلہ کا صدقہ ہے، جس کا مرنے کے بعد تصور ممکن نہیں۔ باقی اگر کوئی نیکی کے طور پریا وفات شدہ کوثواب پہنچانے کے لیے ایسا عقیقہ طوعی طور پر کرتا ہے اور غریبوں اور ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتا یا انہیں اس عقیقہ کا گوشت بھجواتا ہے تو اس کی اس نیکی کے عنداللہ ماجور ہونے سے تو انکار بہرحال نہیں کیا جا سکتا۔
سوال: جرمنی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ میں اپنی پہلی گاڑی خریدنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اور پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا گاڑی سود پر خریدی جا سکتی ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۵؍اپریل ۲۰۲۳ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے سود کے لینے اور دینے کی سخت ممانعت فرمائی ہے۔ جیسا کہ فرمایا یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْامَابَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ۔ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ۔(البقرہ:۲۸۰،۲۷۹)یعنی اے ایمان دارو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اگر تم مومن ہو تو سود (کے حساب) میں سے جو کچھ باقی ہو اسے چھوڑ دو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے (برپا ہونے والی) جنگ کا یقین کر لو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سود کی ممانعت کی شدت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:انسان اگر کفایت شعاری سے کام لے تو اس کا کوئی بھی نقصان نہیں ہوتا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ اپنی نفسانی خواہشوں اور عارضی خوشیوں کے لیے خدا تعالیٰ کو ناراض کر لیتے ہیں جو ان کی تباہی کا موجب ہے۔ دیکھو! سود کا کس قدر سنگین گناہ ہے کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں۔ سؤر کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ یعنی جو شخص باغی نہ ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا۔ تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اللہ غفور رحیم ہے۔ مگر سود کے لیے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کے لیے تو ارشاد ہے یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْامَابَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ۔ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ۔ اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤگے۔ تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے۔ ہمارا تو یہ مذہب ہے کہ جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اسے حاجت ہی نہیں پڑتی۔ مسلمان اگر اس ابتلا ء میں ہیں تو یہ ان کی اپنی ہی بدعملیوں کا نتیجہ ہے۔(اخبار بدر نمبر ۵، جلد ۷، مورخہ ۶ فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۶)
پس کوئی بھی خرید و فروخت یا مالی لین دین جس میں سود کی ملونی ہو تو وہ بہرحال حرام ہے۔ البتہ دنیا میں Hire Purchase اور Personal Contract Purchase وغیرہ کے نام سے اقساط میں اشیاء کی خرید و فروخت کے کئی طریق رائج ہیں، جن میں یکمشت قیمت کی ادائیگی کے مقابلہ پر اقساط میں کچھ زائد رقم ادا کر کے اشیاء خریدی جا سکتی ہیں۔ یہ طریق کار سود کے زمرہ میں نہیں آتا۔ چنانچہ اخبار بدرقادیان میں اسی قسم کے ایک مسئلہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہونے والا سوال اور اس کا جواب درج ذیل الفاظ میں شائع ہوا:اخبار کی قیمت اگر پیشگی وصول کی جاوے تواخبار کے چلانے میں سہولت ہوتی ہے۔جو لوگ پیشگی قیمت نہیں دیتے اور بعد کے وعدے کرتے ہیں ان میں سے بعض توصرف وعدوں پر ہی ٹال دیتے ہیں اوربعض کی قیمتوں کی وصولی کے لیے بار بار کی خط و کتابت میں اوران سے قیمتیں لینے کے واسطے یادداشتوں کے رکھنے میں اس قدر دقت ہوتی ہے کہ اس زائد محنت اور نقصان کو کسی حد تک کم کرنے کے واسطے اورنیزاس کا معاوضہ وصول کرنے کے واسطے اخبار بدر کی قیمت ما بعد کے نرخ میں ایک روپیہ زائد کیا گیا ہے۔ یعنی مابعد دینے والوں سے قیمت اخبار بجائے تین روپے کے چار روپے وصول کئے جائیں گے۔ اس پر ایک دوست لائل پور نے دریافت کیا ہے کہ کیا یہ صورت سود کی تو نہیں ہے؟ چونکہ یہ مسئلہ شرعی تھا۔ اس واسطے مندرجہ بالا وجوہات کے ساتھ حضرت اقدس ؑکی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس کا جواب جو حضرت نے لکھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
السلام علیکم۔میرے نزدیک اس سے سودکو کچھ تعلق نہیں۔ مالک کا اختیار ہے کہ جو چاہے قیمت طلب کرے خاص کر بعد کی وصولی میں ہرج بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اخبار لینا چاہتا ہے۔ تو وہ پہلے بھی دے سکتا ہے۔ یہ امر خود اس کے اختیار میں ہے۔ والسلام مرزا غلام احمدؐ
(اخباربدرقادیان نمبر۷ جلد ۶، مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۴)
پس اگر اس طریق پر اقساط میں آپ گاڑی خریدنا چاہتی ہیں، جس میں آپ کو یکمشت قیمت سے کچھ زائد رقم دینی پڑے تو یہ سود میں شامل نہیں اور یہ جائز ہے۔ سوائے اس کے کہ رقم لینے والے نے اس کا نام سود رکھا ہو۔