حضرت موسیٰؑ کا بچپن
دادی جان : آج کی کہانی میں شروع کرتی ہوں۔ آپ نے بوجھنا ہوگا کہ کس کی کہانی ہے؟
محمود: میں کوشش کروں گا کہ سب سے پہلے بوجھ لوں۔
دادی جان: ان شاء اللہ بھی کہتے ہیں ناں ساتھ!
محمود : ان شاء اللہ
دادی جان: تو بچو! ایسا ہے کہ ملک مصر پر انتہائی متکبّر بادشاہ رعمسیس دوم کی حکومت تھی جسے اپنی رعایا کی ذرہ برابر بھی پروا نہ تھی۔ اس زمانے میں بادشاہ وقت کے لیے فرعون کا لقب استعمال کیا جا تا تھا۔ وہ ڈر تا تھا کہ کہیں لوگ اکٹھے ہو کر اس کی حکومت کو نقصان نہ پہنچا دیں یہی وجہ تھی کہ اس کے مظالم کا نشانہ خصوصی طور پر بنی اسرائیل تھے۔
آپ کو یاد ہے میں نے حضرت یوسفؑ کی کہانی میں بتایا تھا کہ قحط کے زمانہ میں ان کا خاندان ارضِ مقدسہ کے علاقے کنعان سے ہجرت کر کے مصر آ گیا تھا۔
احمد: جی ہاں! اور اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا لقب تھا۔
گڑیا: اور بنی اسرائیل سے ان کے بارہ بیٹوں کی اولاد مراد ہے۔
دادی جان: شاباش! طرح طرح کے ظلم کرنے کے بعد فرعون نے آخر اس قوم کو تباہ کرنے کی غرض سے یہ سلسلہ شروع کر دیا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے تمام لڑکوں کو مار دیا جائے تاکہ یہ نسل بڑھ ہی نہ سکے۔ بنی اسرائیل مجبور اور کمزور تھے۔ اس ظلم کے خلاف کچھ کر نہیں سکتے تھے۔
ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی حالت پررحم فرماتے ہوتے انہیں فرعون سے نجات دلوانے کےلیے ان کی قوم کے ایک گھرانے میں ایک نبی پیدا کیا اور جیسا کہ بادشاہ کا حکم تھا اس بچے کو بھی فوراً ہی قتل کر دیا جانا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بچے کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ اس بچے کو دریائے نیل میں ڈال دو۔ ہم خود اس کی حفاظت کریں گے اوردوبارہ تم سے ملوائیں گے اور جب یہ بڑا ہو جائے گا تو اسے اپنے نبیوں میں شامل کریں گے۔اس الہام نے ان کی والدہ کے دل کو مطمئن کر دیا۔انہوں نے الہام کے مطابق اپنے بچے کو لکڑی کے ایک صندوق میں ڈالا۔ اور دریا میں بہا دیا۔ لیکن ساتھ ہی احتیاطاً اس بچے کی بڑی بہن سے کہا کہ وہ نظر رکھے اور دیکھے کہ یہ صندوق کہاں جا تا ہے؟ یہ صندوق کچھ دُور ہی گیا تھاکہ دریا کے کنارے کچھ عورتوں کی نظر اس پر پڑی۔ ان عورتوں میں ایک شہزادی بھی تھی جو اپنی سہیلیوں کے ساتھ دریا پر آئی ہوئی تھی چنانچہ اس کے حکم پروہ صندوق دریا سے نکالا گیا اور اس کے سامنے کھولا گیا تو دیکھا کہ صندوق میں ایک نہایت خوبصورت معصوم سا بچہ لیٹا ہوا تھا۔ ’’موسیٰ، موسیٰ، موسیٰ‘‘ شہزادی کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بچہ میں نے پانی سے نکالا ہے۔
محمود : مجھے پتا چل گیا کہ یہ حضرت موسیٰ ؑ کی کہانی ہے۔
دادی جان :بالکل ٹھیک سمجھے ! یہ اللہ تعالیٰ کے بزرگ نبی حضرت موسیٰؑ تھے جن کا ذکر قرآن کریم میں سب انبیاء سے زیادہ آیا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کس وجہ سے؟
گڑیا : نہیں دادی جان ہمیں تو نہیں پتا۔
دادی جان : چلیں میں بتاتی ہوں اس لیے کہ ہمارے پیارے آقا حضرت رسول کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کا مثیل قرار دیا ہے۔ یعنی جیسے حالات حضرت موسیٰؑ پر آئے اس سے ملتے جلتے حالات آنحضرت ﷺ کی زندگی میں بھی آنے تھے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت موسیٰؑ کے واقعات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا تاکہ حضور اکرمﷺ کی زندگی کے حالات کے بارے میں آپؐ کو پہلے سے آگاہ کیا جا سکے۔
بہرحال یہ بچہ شہزادی کو پہلی نظر میں ہی بے حد پیارا لگا تھا اور اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس کی پرورش کرے گی۔ اس نے ننھے موسیٰ کو اٹھا یا اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ محل کی جانب روانہ ہو گئی۔ موسیٰ کی بڑی بہن جو دُور کھڑی سب دیکھ رہی تھی واپس اپنی والدہ کے پاس پہنچی اور سارا قصہ بیان کیا۔موسیٰ کی والدہ یہ سب سن کربے انتہا خوش ہوئیں۔انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا اوربیٹی کو نصیحت کی کہ وہ محل کے آس پاس رہے اور وہاں پر موجود ملازموں سے معلومات لیتی رہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ موسی ٰکو ضرور ان سےملوائے گا۔ فرعون کو جب سے اس بات کی اطلاع ملی کہ شہزادی ایک لاوارث بچے کو محل میں لے کر آئی ہے تو وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی اسرائیلی لڑکا ہے اور شہزادی سے خفا ہونےلگا۔لیکن شہزادی نے اسے مناتے ہوئے کہا کہ اس بچے کو ہم پالیں گے اور ممکن ہے کہ یہ ہمارے لیے کسی لحاظ سے مفید ہو اور ہم اسے بیٹے کے طور پر ساتھ رکھ لیں۔فرعون کی بیوی جو یہ سب باتیں سن رہی تھی اور ایک نیک عورت تھی۔ اس نے بھی آگے بڑھ کربیٹی کا ساتھ دیا اور کہا کہ یہ لڑ کی ٹھیک کہہ رہی ہے۔ آپ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں جو کرتی ہے اسے کرنے دیں اور اس معصوم بچے کو مت ماریں۔ فرعون کو یہ بات پسند تو نہیں آئی مگر اس نے اپنا فیصلہ بدل لیا اور انہیں اجازت دے دی کہ وہ موسیٰ کو اپنے ساتھ محل میں رکھ لیں۔
احمد: یعنی حضرت موسیٰؑ محل میں ہی رہنے لگے؟
دادی جان: جی ہاں! محل میں موسیٰ کی پرورش شروع ہوئی لیکن پھر یوں ہوا کہ جو بھی دایہ آپ کو دودھ پلانے کی کوشش کرتی آپ رونے لگ جاتے اور دودھ قبول نہ کرتے۔ شہزادی نے جب دیکھا کہ موسیٰؑ کسی دایہ کا دودھ نہیں پی رہے تو وہ بہت پریشان ہوئی۔ اسی اثناء میں حضرت موسیٰؑ کی بڑی بہن جو محل کے اندر کی ساری خبریں لے رہی تھی شہزادی کے پاس پہنچی اور اسے کہا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ کو ایک خاتون سے ملوا سکتی ہوں وہ ضرور اس کو پال لیں گی۔ شہزادی نے یہ بات سن کر حضرت موسیٰؑ کی والدہ کو بلا بھیجا۔ وہ آئیں اور انہیں اپنا دودھ پلایا۔ انہوں نے بڑی خوشی کے ساتھ اپنی والدہ کا دودھ پیا۔ شہزادی کو بتایا گیا کہ یہ بنی اسرائیلی عورت موسیٰؑ کو دودھ پلا سکتی ہے۔ اس نے حضرت موسیٰؑ کی والدہ سے درخواست کی کہ آپ اس بچے کو دودھ پلا دیا کریں۔ حضرت موسیٰؑ کی والدہ کو اور کیا چاہیے تھا ؟ وہ تو پہلے ہی اپنے بچے کی جدائی میں بے قرار ہو رہی تھیں انہوں نے فورا ًحامی بھر لی اور یوں اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ پورا ہو گیا جو اس نے حضرت موسیٰؑ کی والدہ سے کیا تھا۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ سے ملا دیا تھا۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا اورحضرت موسیٰؑ فرعون کے گھر میں پرورش پاتے رہے۔ ان کی والدہ نے بڑے ہونے پر ان کو ساری سچائی بتا دی۔ حضرت موسیٰؑ جب اپنی جوانی کی عمر کو پہنچے تو ایک مضبوط جسم کے مالک بہادر اور طاقتور انسان بن گئے تھے اور اپنی قوم کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ بھی رکھتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ آپ رات کے وقت شہر میں کسی کام سے جا رہے تھے تودیکھا کہ دوآدمی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک ان میں سے فرعون کی قوم کا یعنی مصری تھا اور دوسرا موسیٰؑ کی قوم کا یعنی بنی اسرائیلی تھا۔ مصری شخص کافی طاقتور تھا اور وہ بنی اسرائیلی کو بری طرح پیٹ رہا تھا۔ بنی اسرائیلی نے جب حضرت موسیٰؑ کو دیکھا تو چلا کر ان سے مدد طلب کی۔ حضرت موسیٰؑ آگے بڑھے اور بھر پور طاقت کے ساتھ ایک مکّا اس مصری شخص کو مارا جو کافی دیر سے بنی اسرائیلی کو پیٹ رہا تھا آپ نے یہ مکّامحض اس مصری کو ہٹانے کےلیے مارا تھا لیکن یہ مکّا اس مصری کےلیے مہلک ثابت ہوا۔ وہ اس بھر پور مکے کو برداشت نہ کر سکا اور مرگیا۔ آپ نے ارادتاً اس مصری کو نہیں مارا تھا اس لیے فوراً خد ا تعالیٰ سے معافی مانگی توبہ کی اور اپنے اس فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور یہ بات وہیں ختم ہو گئی۔ کسی کو اس واقعے کا علم نہ ہوا۔اگلے روز حضرت موسیٰؑ شہر سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ وہی بنی اسرائیلی شخص جو گذشتہ رات ایک مصری سے لڑائی کر رہا تھا آج پھر ایک مصری سے جھگڑ رہا ہے اور آپؑ کو مدد کے لیے بلا رہا ہے۔ آپؑ کو سمجھ آگئی کہ یہ بنی اسرائیلی کوئی فسادی شخص ہے جو روزانہ ہی لوگوں سے جھگڑے کر تا ہے۔ آپؑ نے لڑائی ختم کروانے کے لیے جب ان دونوں کی طرف قدم بڑھائے تو وہ فسادی بنی اسرائیلی یہ سمجھا کہ موسیٰؑ اسے مارنے کے لیے آ رہے ہیں وہ چلایا۔ اے موسیٰؑ کیا تو مجھے مارنا چاہتا ہے جیسا کہ کل تو نے ایک آدمی کو مکّا مار کر قتل کر دیا ہے؟ یہ بولنا تھا کہ یہ خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ رات ایک مصری کو موسیٰؑ نے مکّا مار کر قتل کر دیا تھا۔ مصری قوم سخت جوش میں تھی کہ اس جرم کی سزا موسیٰؑ کو دی جائے۔ وہ موسیٰؑ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ بات بڑھتے بڑھتے سرداران مصر تک جاپہنچی اور انہوں نے مل کر موسیٰ کو قتل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔اس بات کی خبر آپ کو ایک دوست نے دی اور آپ نے اس کے مشورے کے مطابق فور اًمصر سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اور پوری احتیاط کے ساتھ شہر سے باہر جانے والے راستے کی طرف چل پڑے اور مدین شہر کی طرف ہجرت کر گئے۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 470 تا 540)
محموداونگھتے ہوئے بولا: اس کے بعد وہ واپس آئے؟
دادی جان: چلیں آج کے لیے اتنا کافی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑکی باقی کہانی پھر سہی! اب سونے کی تیاری کریں۔ صبح سکول بھی تو جانا ہے۔
گڑیا ، احمد اور محمود بولے : شب بخیر دادی جان
(درثمین احمد۔ جرمنی)