کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

مومن کو دنیا کے حصول میں حسنات الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہیے

انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر۔اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ: ۲۰۲) اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے لیکن کس دنیا کو؟ حسنۃ الدّنیا کو جو آخرت میں حسنات کی موجب ہوجاوے۔اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حسنات الآخرۃ کا خیال رکھنا چاہیے اور ساتھ ہی حسنۃ الدّنیا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آگیا ہے جو ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کے لئے اختیار کرنے چاہئیں۔دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔نہ وہ طریق کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسانی کا موجب ہو۔نہ ہم جنسوں میں کسی عاروشرم کا باعث۔ایسی دنیا بے شک حسنۃ الاٰخرۃ کا موجب ہوگی۔ پس یاد رکھو کہ جو شخص خدا کے لئے زندگی وقف کردیتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ بےدست و پا ہو جاتا ہے۔نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ دین اور للّٰہی وقف انسان کو ہوشیار اور چابکدست بنا دیتا ہے۔سُستی اور کسل اُس کے پاس نہیں آتا۔حدیث میں عمار بن خزیمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے میرے باپ کو فرمایا کہ تجھے کس چیز نے اپنی زمین میں درخت لگانے سے منع کیا تو میرے باپ نے جواب دیا کہ مَیں بڈھا ہوں۔کل مَرجاؤں گا۔پس اُس کو حضرت عمرؓ نے فرمایا تجھ پر ضرور ہے کہ درخت لگاوے۔پھر میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ خود میرے باپ کے ساتھ مل کر ہماری زمین میں درخت لگاتے تھے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عجز اور کسل سے پناہ مانگا کرتے تھے۔مَیں پھر کہتا ہوں کہ سُست نہ بنو۔اللہ تعالیٰ حصولِ دنیا سے منع نہیں فرماتا، بلکہ حسنۃ الدّ نیا کی دعا تعلیم فرماتا ہے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۹۴-۴۹۵، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button