حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آخرت میں بھی ہمیں ہر وہ چیز دے جو حَسَنَہ ہو

حَسَنَہ کو جتنی وسعت دیتے جائیں اُتنا ہی یہ کھلتا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس دنیاوی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہونے کے لئے اُس کے جتنے فضل اور بہتر انجام والی چیزیں مانگتے جائیں یہ سب حَسَنَہ میں آتے چلے جاتے ہیں۔ ذاتی زندگی میں اچھی بیوی ہے، اچھا خاوند ہے، نیک بچے ہیں، بیماریوں سے محفوظ زندگی ہے۔ غرض کہ ہر چیز جس میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارے لئے بہتری اور فائدہ ہے، وہی دنیا کی حَسَنَہ ہے۔ اور یہی ایک مومن کا منشاء اور خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے ہر وہ چیز دے جو اُس کی ضرورت ہے۔ ہر لحاظ سے اچھی ہو، ظاہری بھی اور باطنی لحاظ سے بھی۔ کیونکہ غیب اور حاضر کا تمام علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اس لئے وہی بہتر فیصلہ کرسکتا ہے کہ ہمارے لئے ظاہری اور باطنی لحاظ سے کیا چیز بہتر ہے۔ ہم تو کسی چیز کے چناؤ میں غلطی کھا سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ تو کسی قسم کی غلطی نہیں کھا سکتا۔ ظاہر طور پر ہم کسی کو اچھا دوست سمجھتے ہیں لیکن وہی نقصان پہنچانے والا بن جاتا ہے۔ کئی ایسے معاملات آتے ہیں جہاں لوگوں نے اپنے دوستوں پر بڑا اعتبار کیا، کاروباروں میں شریک بنایا، لیکن وہی اُن کو نقصان پہنچانے والے بن گئے۔ ہم کسی کو حاکم بنا دیتے ہیں وہی نقصان پہنچانے والا بن جاتا ہے۔ علاوہ جماعتی رنگ کی پریشانیوں کے روزمرّہ کے معاملات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ بعض باتیں ایسی کرتے ہیں جو پریشانی اور مشکل کا باعث بن جاتی ہیں۔ پس صحیح رنگ میں رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً کی دعا ہے جو اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو جماعتی بھی اور ذاتی پریشانیوں سے بھی انسان بچ سکتا ہے۔ نہ صرف بچ سکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا بھی وارث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بھی بن سکتا ہے۔

پھر فرمایا کہ وَفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً کہ آخرت میں بھی ہمیں ہر وہ چیز دے جو حَسَنَہ ہو۔ یعنی وہاں بھی ظاہرو باطن کی اچھی چیز دے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی وضاحت ایک جگہ اس طرح فرمائی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آخرت میں تو حَسَنَہ ہی ہے۔ جب انسان آخرت کی دعا مانگ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اگر قبول کر لی تو حَسَنَہ ہے۔ تو وہاں کی ظاہر و باطن کی اچھائی سے کیا مراد ہے۔ اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ آخرت میں تو سب چیزیں گو اچھی ہیں لیکن آخرت میں بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جو باطن میں اچھی ہیں مگر ظاہر میں بری ہیں۔ مثلاً دوزخ ہے۔ قرآنِ کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ انسان کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ ایک لحاظ سے وہ بری چیز بھی ہے۔ پس جب آخرت کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے حَسَنَہ کا لفظ رکھا تو اس لئے کہ تم یہ دعا کرو کہ الٰہی! ہماری اصلاح دوزخ سے نہ ہو بلکہ تیرے فضل سے ہو۔ اور آخرت میں ہمیں وہ چیز نہ دے جو صرف باطن میں ہی اچھی ہے۔ جیسے دوزخ باطن میں اچھا ہے کہ اس سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ مگر ظاہر میں برا ہے کیونکہ وہ عذاب ہے۔ آخرت میں حَسَنَہ صرف جنت ہے جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور باطن بھی اچھا ہے۔ (ماخوذازتفسیر کبیر جلد ۲صفحہ ۴۴۶)

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍مارچ ۲۰۱۳ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۹؍مارچ ۲۰۱۳ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button