حضرت مسیح موعودؑ:ضرورةُ الامام
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۶؍مارچ ۲۰۲۱ء)
اپنے دعوے کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں:’’میں وہ شخص ہوں جو عین وقت پر ظاہر ہوا جس کے لئے آسمان پر رمضان کے مہینہ میں چاند اور سورج کو قرآن اور حدیث اور انجیل اور دوسرے نبیوں کی خبروں کے مطابق گرہن لگا اور میں وہ شخص ہوں (کہ) جس کے زمانہ میں تمام نبیوں کی خبر اور قرآن شریف کی خبر کے موافق اس ملک میں خارق عادت طور پر طاعون پھیل گئی اور میں وہ شخص ہوں جو حدیث صحیح کے مطابق اس کے زمانہ میں حج روکا گیا اور میں وہ شخص ہوں جس کے عہد میں وہ ستارہ نکلا جو مسیح ابن مریمؑ کے وقت میں نکلا تھا اور میں وہ شخص ہوں جس کے زمانہ میں اس ملک میں ریل جاری ہوکر اونٹ بیکار کئے گئے اور عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ بہت نزدیک ہے جبکہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل جاری ہو کر وہ تمام اونٹ بیکار ہو جائیں گے۔‘‘ پہلے تو سڑکوں کے ذریعہ سے رابطہ تھا۔ اب وہاں بھی ریل کے ذریعہ سے ہو چکا ہے۔ ’’وہ تمام اونٹ بیکار ہو جائیں گے جو تیرہ سو برس سے یہ سفر مبارک کرتے تھے۔ تب اس وقت ان اونٹوں کی نسبت وہ حدیث جو صحیح مسلم میں موجود ہے صادق آئے گی یعنی یہ کہ لَیُتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا یعنی مسیح کے وقت میں اونٹ بیکار کئے جائیں گے اور کوئی ان پر سفر نہیں کرے گا۔ ایسا ہی میں وہ شخص ہوں جس کے ہاتھ پر صدہا نشان ظاہر ہوئے۔ کیا زمین پر کوئی ایسا انسان زندہ ہے کہ جو نشان نمائی میں میرا مقابلہ کر کے مجھ پر غالب آ سکے۔ مجھے اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اب تک دو لاکھ سے زیادہ میرے ہاتھ پر نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور شاید دس ہزار کے قریب یا اس سے زیادہ لوگوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپؐ نے میری تصدیق کی اور اس ملک میں جو بعض نامی اہل کشف تھے جن کا تین تین چار چار لاکھ مرید تھا ان کو خواب میں دکھلایا گیا کہ یہ انسان خدا کی طرف سے ہے اور بعض ان میں سے ایسے تھے کہ میرے ظہور سے تیس برس پہلے دنیا سے گزر چکے تھے جیسا کہ ایک بزرگ گلاب شاہ نام‘‘گلاب شاہ جس کا نام تھا ’’ضلع لدھانہ میں تھا جس نے میاں کریم بخش مرحوم ساکن جمال پور کو خبر دی تھی کہ عیسیٰ قادیان میں پیدا ہو گیا اور وہ لدھانہ میں آئے گا۔ میاں کریم بخش ایک صالح موحد اور بڈھا آدمی تھا اس نے مجھ سے لدھانہ میں ملاقات کی اور یہ تمام پیشگوئی مجھے سنائی۔ اس لئے مولویوں نے اس کو بہت تکلیف دی مگر اس نے کچھ پروا نہ کی۔ اس نے مجھے کہا کہ گلاب شاہ مجھے کہتا تھا کہ عیسیٰ بن مریم زندہ نہیں وہ مر گیا ہے وہ دنیا میں واپس نہیں آئے گا۔ اس امت کے لئے مرزا غلام احمد عیسیٰ ہے جس کو خدا کی قدرت اور مصلحت نے پہلے عیسیٰ سے مشابہ بنایا ہے اور آسمان پر اس کا نام عیسیٰ رکھا ہے اور فرمایا کہ اے کریم بخش! یعنی اپنے اس مرید کو’’ فرمایا کہ اے کریم بخش! جب وہ عیسیٰ ظاہر ہو گا تو تُو دیکھے گاکہ مولوی لوگ کس قدر اس کی مخالفت کریں گے۔ وہ سخت مخالفت کریں گے لیکن نامراد رہیں گے‘‘ اور آج تک نامراد رہ رہے ہیں۔ ’’وہ اس لئے دنیا میں ظاہر ہوگا کہ تا وہ جھوٹے حاشیے جو قرآن پر چڑھائے گئے ہیں ان کو دُور کرے اور قرآن کا اصل چہرہ دنیا کو دکھا وے۔ اس پیشگوئی میں اس بزرگ نے صاف طور پر یہ اشارہ کیا تھا کہ تُو اس قدر عمر پائے گا کہ اس عیسیٰ کو دیکھ لے گا۔‘‘ (تذکرۃالشہادتین، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۵-۳۷)
یعنی یہ پیشگوئی اپنے اس مرید کی عمر کے بارے میں بھی تھی۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو خدا تعالیٰ کا نام غفور ہے۔ پھر کیوں وہ رجوع کرنے والوں کو معاف نہ کرے؟ اِس قسم کی غلطیاں ہیں جو قوم میں واقع ہوگئی ہیں۔ انہیں غلطیوں (میں ) سے جہاد کی غلطی بھی ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ جب میں کہتا ہوں کہ جہاد حرام ہے تو کالی پیلی آنکھیں نکال لیتے ہیں حالانکہ خود ہی مانتے ہیں کہ جو حدیثیں خونی مہدی کی ہیں وہ مخدوش ہیں۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس باب میں رسالے لکھے ہیں۔‘‘ تسلیم کیا ہے حدیثوں کے مخدوش ہونے کے بارے میں۔ ’’اور یہی مذہب میاں نذیر حسین دہلوی کا تھا۔‘‘ آجکل بھی بعض علماء اب یہی کہنے لگ گئے ہیں۔ ’’وہ ان کوقطعی صحیح نہیں سمجھتے۔ پھر مجھے کیوں کاذب کہا جاتا ہے۔ سچی بات یہی ہے کہ مسیح موعود اور مہدی کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلہ کو بند کرے گا اور قلم، دعا، توجہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا۔‘‘ پس یہ قلم اور دعا اور توجہ یہی کام اب آج آپ کے ماننے والوں کا بھی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اور افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس لئے کہ جس قدر توجہ دنیا کی طرف ہے دین کی طرف نہیں۔‘‘ ہمیں بھی اپنی حالتوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ماننے کے بعد کہیں ہماری توجہ دوبارہ دنیا کی طرف تو بہت زیادہ نہیں ہو گئی۔ فرمایا ’’دنیا کی آلودگیوں اور ناپاکیوں میں مبتلا ہو کر یہ امید کیونکر کر سکتے ہیں کہ ان پر قرآنِ کریم کے معارف کھلیں۔ وہاں تو صاف لکھا ہے۔ لَا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (الواقعۃ: ۸۰)اس بات کو بھی دل سے سنوکہ میرے مبعوث ہونے کی علتِ غائی کیا ہے؟‘‘ کیا بنیادی مقصد ہے میرے مبعوث ہونے کا۔ ’’میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت سکھاؤں یا نئے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہوگی۔ ہرگز نہیں اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو میرے نزدیک وہ سخت گمراہ اور بے دین ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب کوئی شریعت نہیں آسکتی۔ قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔ اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہوگیا۔ وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود ہیں اور انہیں فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے۔ اسلام کی جو حالت اس وقت ہے وہ پوشیدہ نہیں۔ بالاتفاق مان لیا گیا ہے کہ ہر قسم کی کمزوریوں اور تنزل کا نشانہ مسلمان ہورہے ہیں ہر پہلو سے وہ گر رہے ہیں۔‘‘ اور آج کل تو اَور بھی زیادہ بُری حالت ہم دیکھ رہے ہیں ’’ان کی زبان ساتھ ہے تو دل نہیں ہے اور اسلام یتیم ہوگیا ہے۔ ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کی حمایت اور سرپرستی کروں اور اپنے وعدہ کے موافق بھیجا ہے کیونکہ اس نے فرمایا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۱۰) اگر اس وقت حمایت اور نصرت اور حفاظت نہ کی جاتی تو وہ اور کونسا وقت آئے گا؟ اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہورہی ہے جو بدر کے موقعہ پر ہوگئی تھی۔ جس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ (اٰل عمران: ۱۲۴) اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا۔ پھر تم کیوں تعجب کرتے ہو کہ اس نے اسلام کی نصرت کی؟‘‘
پھر اپنے خلاف مخالفین کی دریدہ دہنی کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’مجھے اِس بات کا افسوس نہیں کہ میرا نام دجّال اور کذّاب رکھا جاتا ہے اور مجھ پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ یہ ضرور تھا کہ میرے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو مجھ سے پہلے فرستادوں کے ساتھ ہوا تا میں بھی ایک قدیم سنت سے حصہ پاتا۔ میں نے تو ان مصائب اور شدائد کا کچھ بھی حصہ نہیں پایا لیکن جو مصیبتیں اور مشکلات ہمارے سید ومولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں آئیں اس کی نظیر انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ میں کسی کے لئے نہیں پائی جاتی۔ آپؐ نے اسلام کی خاطر وہ دکھ اٹھائے کہ قلم ان کے لکھنے اور زبان ان کے بیان سے عاجز ہے۔ اور اِسی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کیسے جلیل الشان اور اولو العزم نبی تھے۔ اگر خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت آپؐ کے ساتھ نہ ہوتی تو ان مشکلات کے پہاڑ کو اٹھانا ناممکن ہو جاتا اور اگر کوئی اور نبی ہوتا تو وہ بھی رہ جاتا۔ مگر جس اسلام کو ایسی مصیبتوں اور دکھوں کے ساتھ آپ نے پھیلایا تھا آج اس کا جو حال ہوگیا ہے وہ میں کیونکر کہوں؟‘‘ (لیکچرلدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۲۷۹-۲۸۰)