قیامِ نماز اور تعلق باللہ
میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق، حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کار بند ہو جاؤ اور ایسے کار بند ہو بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں(حضرت مسیح موعودؑ)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ۔(الذاریات:۵۷)ترجمہ:’’اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘ حضرت مسیح موعودؑ اس آیت قرآنی کی معرفت عطا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:انسان کی پیدائش کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ وہ نماز کی حقیقت سیکھے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ (الذاریات:۵۷)۔ (ملفوظات جلد دہم ایڈیشن ۲۰۱۸ءصفحہ۵۵)
نماز کی تعلق باللہ کے سلسلہ میں اہمیت آنحضرت ﷺ کے ایک فرمان سے بھی روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیںکہ آپؐ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنے ربّ سے ہم کلام ہوتاہے۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃباب المصلی بناجی)
حضرت مسیح موعودؑ نماز کو خدا تعالیٰ سے ملانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فَاِنَّ الصَّلَاۃَ مَرْکَبٌ یُّوْصِلُ الْعَبْدَ اِلَی رَبِّ الْعِبَادِ۔ نماز ایک ایسی سواری ہے جو بندہ کو پروردگار عالم تک پہنچاتی ہے۔ ( اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۱۶۶، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ ۵۹)
حضرت مسیح موعودؑ کے فرمان’’ نماز ایک ایسی سواری ہے جو بندہ کو پروردگار عالم تک پہنچاتی ہے‘‘ سے نماز کا تعلق باللہ کے متعلق جو بنیادی کردار ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے انسان کو لازما قیام نماز کرنا ہوگا۔ اسی قیام نماز کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح مو عو د علیہ السلام فرماتے ہیں: نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیے۔نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے۔اسی لیے کہا گیا نماز مومن کا مِعراج ہے۔اس دین میں ہزاروں لاکھوں اَولیاء اللہ،راست باز،اَبدال،قطب گزرے ہیں۔انہوں نے یہ مدارج اور مراتب کیونکر حاصل کیے؟ اسی نماز کے ذریعے سے۔خود آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں…۔ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور فی الحقیقت جب انسان اس مقام اور درجہ پر پہنچتا ہے تو اس کے لئے اکمل اتم لذّت نماز ہی ہوتی ہے۔ (ملفوظات جلد ۸ صفحہ۳۱۰،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
حضرت مسیح موعودؑ نے نماز کی تعلق باللہ کے سلسلے میں جو اہمیت ہے وہ ایک اور زاویہ سے بھی ہمارے سامنے رکھی۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں: میر ا تویہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نماز سنوار کر پڑھیں تو تنویرِ قلب ہو جاتی ہے مگر یہاں پچاس پچاس برس تک نماز پڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور رو بدنیا اور سفلی زندگی میں نگو نسار ہیں…صلوٰۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قُرب کا کوئی قریب ذریعہ نہیں۔یہ قرب کی کُنجی ہے۔اسی سے کشوف ہوتے ہیں۔اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں۔یہ دعاؤں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ ( الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخہ ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۱، ۱۲، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ ۶۰)اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی نماز ہے جو انسان دس دن بھی سنوار کر ادا کرے تو تنویر قلب ہو جاتی ہے۔ اور وہ کون سی نماز ہے جو پچاس پچاس برس بھی پڑھیں تو نمازی تنویر قلب سے محروم رہتا ہے۔ اس مضمون کو امام الزمان حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے مقدس الفاظ میں مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے۔ ان میں سے کچھ عرض کرتا ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت، کجی کو دُور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنا دے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے۔ عرب کہتے ہیں مَوْرٌ مُّعَبَّدٌ جیسے سرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر، پتھر، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گویا روح ہی روح ہو اس کا نام عبادۃ ہے۔ چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آ جاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اس میں پیدا ہو کر نشوو نما پائیں گے اور وہ اثمار شیریں و طیب ان میں لگیں گے جو اُکُلُھَا دَآئِمٌ ( الرعد: ۳۶) کے مصداق ہوں گے۔ یاد رکھو کہ یہ وہی مقام ہے جہاں صوفیوں کے سلوک کا خاتمہ ہے۔ جب سالک یہاں پہنچتا ہے تو خدا ہی خدا کا جلوہ دیکھتا ہے اس کا دل عرش الٰہی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر نزول فرماتا ہے۔ سلوک کی تمام منزلیں یہاں آکر ختم ہو جاتی ہیں کہ انسان کی حالت تعبد درست ہو۔ جس میں روحانی باغ لگ جاتے ہیں اور آئینہ کی طرح خدا نظر آتا ہے اسی مقام پر پہنچ کر انسان دنیا میں جنت کا نمونہ پاتا ہے اور یہاں ہی ھَذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَ اُتُوْبِہِ مُتَشَابِھَا کہنے کا حظ اور لطف اٹھاتا ہے۔
غرض حالتِ تعبد کی درستی کا نام عبادۃ ہے۔ ( الحکم جلد۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴؍جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ ۹، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ۱۰۴)
یہاں سوال ہے کہ کیسے علم ہو کہ میری نماز صحیح طرز پر ادا ہو رہی ہے اس کا جواب بھی آپؑ نے عطا فرمایا۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: سو یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز قبول ہو گئی ہے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ نماز کے اثرات اور برکات نماز پڑھنے والے میں پیدا ہو گئے ہیں جب تک وہ برکات اور اثرات پیدا نہ ہوں اس وقت تک نری ٹکریں ہی ہیں۔
اس نماز یا روزہ سے کیا فائدہ ہو گا جبکہ اسی مسجد میں نماز پڑھی اور وہیں کسی دوسرے کی شکایت اور گلہ کر دیا یا رات کو چوری کر دی، کسی کے مال یا امانت میں خیانت کر لی، کسی کی شان پر جو خدا تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے بخل اور حسد کی وجہ سے حملہ کر دیا، کسی کی آبرو پر حملہ کر دیا۔غرض اس قسم کے عیبوں اور برائیوں میں اگر مبتلا کا مبتلا رہا تو تم ہی بتاؤ اس نماز نے اس کو کیا فائدہ پہنچایا؟ ( ملفوظات جلد ہشتم، صفحہ۲۰۴، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
حضرت مسیح موعودؑ کے ان مقدس الفاظ سے یہ واضح ہے کہ قیام نماز اصل میں نماز پڑھتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ کے حضور اقرار کیا ہے اس کو عملی رنگ میں کر کے دکھانا ہے۔ چنانچہ حقیقت نماز پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: متقی کی دوسری صفت یہ ہے یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں۔ متقی سے جیسے ہو سکتا ہے نماز کھڑی کرتا ہے۔ یعنی کبھی اس کی نماز گر پڑتی ہے پھر اسے کھڑا کرتا ہے۔ یعنی متقی خدا سے ڈرا کرتا ہے اور وہ نماز کو قائم کرتا ہے اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اور خطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہو کر اس کے حضور میں ہارج ہوتے ہیں اور نماز کو گرا دیتے ہیں۔ لیکن یہ نفس کی اس کشاکش میں بھی نماز کو کھڑا کرتا ہے… انسان ترقی کر کے ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسے ذاتی محبت ہو جاتی ہے اور اس کو نماز کے کھڑے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اس لئے کہ وہ نماز اس کی کھڑی ہی ہوتی ہے اور ہر وقت کھڑی ہی رہتی ہے۔ اس میں ایک طبعی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور ایسے انسان کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوتی ہے۔ ( ملفوظات جلد ہشتم، صفحہ۱۴۴ تا ۱۴۵،ایڈیشن۲۰۲۲ء)
یعنی ایسا نمازی صرف پانچ وقت خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو کر صرف الفاظ میں اقرار ہی نہیں کرتا بلکہ نماز کے بعد عملی زندگی میں اس لفظی اقرار کو اعمال کا جامہ پہناتا ہے اور اس طرح ترقی کرتے کرتے اس مقام پر خدا تعالیٰ اس کو فائز کردیتا ہے جہاں پر اس کی زبان خدا کی زبان، اس کے ہاتھ خدا کے ہاتھ، غرض اس کی تمام قوتیں خدا کی مرضی کے موافق ہو جاتی ہیں اور ایسے نمازی کا کوئی حرکت و سکون خدا کی تعلیم کے خلاف نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: انسان کی وہ نمازیں جو شبہات اور وساوس میں مبتلا ہیں کھڑی نہیں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یقرءون نہیں فرمایا بلکہ یقیمون فرمایا یعنی جو حق ہے اس کے ادا کرنے کا۔ ( تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ ۴۵)
آئیں اب دیکھتے ہیں کہ وہ قیام نماز جو تعلق باللہ کا ذریعہ ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ اپنے ماننےوالوں کی کس رنگ میں راہنمائی فرماتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’ جو شخص عام مسلمانوں میں سے ہماری جماعت میں داخل ہوجائے اُس کا پہلا فرض یہی ہے کہ جیسا کہ وہ قرآن شریف کی سورۃ فاتحہ میں پنج وقت اپنی نماز میں یہ اقرار کرتا ہے کہ خدا ربّ العالمین ہے اور خدا رحمٰن ہے اور خدا رحیم ہے اورخدا ٹھیک ٹھیک انصاف کرنے والا ہے۔ یہی چاروں صفتیں اپنے اندر بھی قائم کرے۔ ورنہ وہ اس دُعا میں کہ اسی سورۃ میں پنج وقت اپنی نماز میں کہتا ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ یعنی اے ان چار صفتوں والے اللہ میں تیرا ہی پرستار ہوں اور توہی مجھے پسند آیا ہے سراسر جھوٹا ہے۔
کیونکہ خدا کی ربوبیت یعنی نوع انسان اور نیز غیر انسان کا مربی بننا اور ادنیٰ سے ادنیٰ جانور کو بھی اپنی مربیانہ سیرت سے بے بہرہ نہ رکھنا یہ ایک ایسا امر ہے کہ اگر ایک خدا کی عبادت کادعویٰ کرنے والا خدا کی اس صفت کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کو پسند کرتا ہے یہاں تک کہ کمال محبت سے اِس الٰہی سیرت کا پرستار بن جاتا ہے تو ضروری ہوتا ہے کہ وہ آپ بھی اس صفت اور سیرت کو اپنے اندر حاصل کرلے تا اپنے محب کے رنگ میں آجائے۔
ایسا ہی خدا کی رحمانیت یعنی بغیر عوض کسی خدمت کے مخلوق پر رحم کرنا یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جس کو یہ دعویٰ ہے کہ میں خدا کے نقشِ قدم پر چلتا ہوں ضرور یہ خُلق بھی اپنے اندر پیدا کرتاہے۔
ایسا ہی خدا کی رحیمیّت یعنی کسی کے نیک کام میں اس کام کی تکمیل کے لیے مدد کرنا۔ یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ سچا عابد جو خدائی صفات کا عاشق ہے اس صفت کو اپنے اندر حاصل کرتاہے۔
ایسا ہی خدا کاانصاف جس نے ہر ایک حکم عدالت کے تقاضا سے دیا ہے نہ نفس کے جوش سے یہ بھی ایک ایسی صفت ہے کہ سچا عابد کہ جو تمام الٰہی صفات اپنے اندر لینا چاہتا ہے اس صفت کو چھوڑ نہیں سکتا اور راستباز کی خود بھاری نشانی یہی ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کے لیے اِن چار صفتوں کو پسند کرتا ہے ایسا ہی اپنے نفس کے لیے بھی یہی پسند کرے لہٰذا خدا نے سورۃ فاتحہ میں یہی تعلیم کی تھی جس کو اس زمانہ کے مسلمان ترک کر بیٹھے ہیں۔‘‘ ( تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵صفحہ ۵۱۸۔۵۱۹)
یعنی قیام نماز سے مراد نماز کی ادائیگی کے بعد خدا تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لینا ہے۔ اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو وقت کی ضرورت کے مطابق ادا کرنا ہے۔ اب یہ وقت کی ضرورت کا علم ہر انسان کو ہونا ناممکن ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبوت اور نبوت کے بعد خلافت علیٰ منہاج نبوت کا مبارک نظام جاری فرمایا ہے اسی پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ قیام نماز کے متعلق آیت استخلاف کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اقامت صلوٰۃ اپنے صحیح معنوں میں خلافت کے بغیر نہیں ہو سکتی… اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صلوٰۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں خطبہ پڑھا جاتا ہے اور قومی ضرورتوں کو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اب اگر خلافت کا نظام نہ ہو تو قومی ضروریات کا پتہ کس طرح لگ سکتا ہے…اس طرح وہ لوگوں کو بتا سکے گا کہ آج فلاں قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اور آج فلاں قسم کی خدمات کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے کی حاجت ہے… ( تفسیر کبیر جلد ۸، صفحہ ۵۷۴، ۵۷۵ )
اگر انسان کو قیام نماز میں مشکل ہو تو اس کو دُور کرنے کے لیے ایک مسلسل جہاد کرنا چاہیے اور جب تک نماز قائم نہ کرلے اسے پوری تضرع سے خدا تعالیٰ کے حضور اپنی اس کمزوری کی دوری کے لیے دعا میں لگا رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: جیسے ایک مریض کے منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے تو وہ فی الفور علاج کی فکر کرتا ہے اسی طرح پر جس کا روحانی مذاق بگڑ جاوے اس کو بہت جلد اصلاح کی فکر کرنی لازم ہے۔ یاد رکھو انسان کے اندر ایک بڑا چشمہ لذت کا ہے جب کوئی گناہ اس سے سرزد ہوتا ہے تو وہ چشمہ لذت مکدر ہو جاتا ہے اور پھر لذت نہیں رہتی۔ مثلاً جب ناحق گالی دے دیتا ہے یا ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر بد مزاج ہوکر بد زبانی کرتا ہے تو پھر ذوق نماز جاتا رہتا ہے۔ اخلاقی قویٰ کو لذت میں بہت بڑا دخل ہے۔ جب انسانی قویٰ میں فرق آئے گا تو اس کے ساتھ ہی لذت میں بھی فرق آجاوے گا۔ پس جب کبھی ایسی حالت ہو کہ انس اور ذوق جو نماز میں آتا تھا وہ جاتا رہا ہے تو چاہیے کہ تھک نہ جاوے اور بے حوصلہ ہو کر ہمت نہ ہارےبلکہ مستعدی کے ساتھ اس گمشدہ متاع کو حاصل کرنے کی فکر کرے اور اس کا علاج ہے۔ توبہ، استغفار، تضرع۔ (ملفوظات جلدسوم، صفحہ۳۱۰،ایڈیشن۱۹۸۸ء)
نماز کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: نماز اس وقت حقیقی نماز کہلاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سے سچا اور پاک تعلق ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اطاعت میں اس حد تک فنا ہو اور یہاں تک دین کو دنیا پر مقدم کر لے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جان تک دے دینے اور مرنے کے لئے تیار ہوجائے جب یہ حالت انسان میں پیدا ہو جائے اس وقت کہا جائے گا کہ اس کی نماز نماز ہے مگر جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتی اور سچا اخلاص اور وفا داری کا نمونہ نہیں دکھاتا اس وقت تک اس کی نمازیں اور دوسرے اعمال بے اثر ہیں۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ ۵۷ )
نماز کے تعلق باللہ کا وسیلہ ہونے کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق، حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نماز پر کار بند ہو جاؤ اور ایسے کار بند ہو بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں۔ ( تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ ۵۹ )
حضرت مسیح موعودؑ نے قیام نماز کے لیے ہماری پوری طرح ہر لحاظ سے راہنمائی فرمائی ہے جس کو آسانی سے سمجھنے کے لیے درج ذیل طریق پر تحریر کیا جاتا ہے۔
قیام نماز کے مدارج
۱۔ خدا تعالیٰ کی ذات کا صحیح تصور ہونا چاہیے:حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:جب تُو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ تب تیری دعا قبول ہو گی اور تُو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں۔ اور ہماری گواہی رؤیت سے ہے نہ بطور قصہ کے۔ اس شخص کی دعا کیونکر منظور ہو اور خود کیونکر اس کو بڑی مشکلات کے وقت، جو اُس کے نزدیک قانون قدرت کے مخالف ہیں دعا کرنے کا حوصلہ پڑے جو خدا کو ہر ایک چیز پر قادر نہیں سمجھتا۔ مگر اے سعید انسان تو ایسا مت کر۔ تیرا خدا وہ ہے جس نے بے شمار ستاروں کو بغیر ستونوں کے لٹکادیا اور جس نے زمین و آسمان کو محض عدم سے پیدا کیا۔ کیا تو اس پر بدظنی رکھتا ہے کہ وہ تیرے کام میں عاجز آجائے گا؟ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۱)
۲۔نماز سے پہلے جیسے ظاہری وضو کیا جاتا ہے ایسا ہی باطنی وضو بھی کرو:حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو ایسا نہ کر کہ گویا تو ایک رسم ادا کر رہا ہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہری وضو کرتے ہو ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو۔ اور اپنے اعضاء کو غیر اللہ کے خیال سے دھو ڈالو۔ تب ان دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔ (ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۵۴۹ )
اتنا تو ہو کہ اس کی ملاقات کے لیے
سینہ بھی ہو دھلا ہوا اور آنکھ تر بھی ہو
۳۔ نماز میں انسان سست اور غافل نہ ہو:حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: جو شخص سویا ہوا نماز ادا کرتا ہے کہ اُسے اس کی خبر ہی نہیں ہوتی تو وہ اصل میں نماز نہیں جیسے دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ پچاس پچاس سال نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا… بعض نمازیوں پر خداتعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے جیسے فرماتا ہے۔فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ (الماعون :۵) وَیْلٌ کے معنی لعنت کے بھی ہوتے ہیں۔ پس چاہیے کہ ادائیگی نماز میں انسان سُست نہ ہو اور نہ غافل ہو۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۵۷تا۴۵۸، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
۴۔ لذت نماز کے لیے دعا کرے:حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے۔ اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذت رکھ دی ہے۔ جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے… اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ دروازہ بند کرکے دعا کرنی چاہیے کہ وہ رشتہ قائم رہے۔ اور لذت پیدا ہو… اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہو جائے تو اس چاشنی کا حصہ مل گیا، لیکن جسے دو چار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے…آئندہ کے سب وعدے اسی سے وابستہ ہیں ان باتوں کو فرض جان کر ہم نے بتلا دیا ہے۔ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۵۹۱ ،۵۹۲،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
ہم پر یہ حضرت مسیح موعودؑ کا کتنا عظیم احسان ہے کہ صرف اس لذت کے لیے دعا مانگنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ وہ دعا کے الفاظ بھی سکھا گئے۔جو اس طرح ہیں:’’اے اللہ تُو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آ جاؤں گا۔ اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور ناشنا سا ہے۔ تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے۔تو ایسا فضل کر کہ میں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جا ملوں۔
جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کر ے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بےذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پیدا کر دے گی۔‘‘ ( الحکم جلد ۷ نمبر ۱ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ ۵۸ )
۵۔نماز میں طبعی جوش اور ذاتی محبت کا ہونا ضروری ہے: حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’ نماز کے متعلق جس زائد ہدایت کا وعدہ ہے وہ یہی ہے کہ اس قدر طبعی جوش اور ذاتی محبت اور خشوع اور کامل حضور میسر آجائے کہ انسان کی آنکھ اپنے محبوب حقیقی کے دیکھنے کے لئے کھل جائے اور ایک خارق عادت کیفیت مشاہدہ جمال باری کی میسر آجائےجو لذات روحانیہ سے سراسر معمور ہو۔‘‘ ( حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲، صفحہ۱۳۹)
اس رخ کو دیکھنا ہی تو ہے اصل مدّعا
جنت بھی ہے یہی کہ ملے یارِآشنا
حضرت مسیح موعودؑ ان امور کا خیال رکھ کر نماز ادا کرنے والوں کوخوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نماز اب عمل نہیں بلکہ ایک انعام ہے۔ یہ نماز اس کی ایک غذا ہے، جو اس کے لئے قرۃ العین ہے۔ یہ گویا نقد بہشت ہے۔‘‘ ( ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۹، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
اس بہشت کے باسیوں کی آرزو تو دیکھیں!
محمود عمر میری کٹ جائے کاش یونہی
ہو روح میری سَجْدہ میں سامنے خدا ہو
حضرت مسیح موعودؑ اپنے خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خدا کا یہی منشاء ہے کہ لفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنایا جاوے۔ یہودی کیا توریت پر ایمان نہیں لاتے تھے؟ قربانیاں نہ کرتے تھے ؟ مگر خدا تعالیٰ نے ان پر لعنت بھیجی اور کہا کہ تم مومن نہیں ہو بلکہ بعض نمازیوں کی نمازوں پر بھی لعنت بھیجی ہے۔ جہاں فرمایا ہے: فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ (الماعون :۵تا ۶)۔ یعنی لعنت ہے ایسے نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ صلوٰۃ اصل میں آگ میں پڑنے اور محبت الٰہی اور خوف الٰہی کی آگ میں پڑ کر اپنے آپ سے جل جانے اور ما سوی اللہ کو جلا دینے کا نام ہے اور اس حالت کا نام ہے کہ صرف خدا ہی خدا اس کی نظر میں رہ جاوے اور انسان اس حالت تک ترقی کر جاوے کہ خدا کے بلانے سے بولے اور خدا کے چلانے سے چلے۔ اس کے کل حرکات اور سکنات اس کا فعل اور ترکِ فعل سب اللہ ہی کی مرضی کے مطابق ہو جاوے خودی دُور ہو جاوے۔ ( الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۹ مورخہ ۱۸ جون ۱۹۰۸ ء صفحہ۵ تا ۷، بحوالہ ملفوظات جلد۱۰ صفحہ ۳۱۴،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
پھر حضرت مسیح مو عودؑ قیام نماز اور تعلق باللہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : دُعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اِ س دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے اور روح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک مصیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے اور اس کا رکوع یعنی جُھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے اور اس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گر کر اپنے تئیں بکلی کھو دیتی ہے اور اپنے نقش وجود کو مٹا دیتی ہے یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے۔ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۲۲۳-۲۲۴)
٭…٭…٭