تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نغمۂ اکمل (حضرت قاضی ظہورالدین اکمل رضی اللہ عنہ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے ایک بہت ہی مخلص صحابی، نامور صحافی اور شاعر حضرت قاضی محمد ظہورالدین صاحب اکملؓ تھے۔ آپؓ ۱۸۸۱ء کو گولیکی ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۷ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت پائی اور ۱۹۰۶ء میں قادیان میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔حضرت قاضی صاحبؓ کو ’’الفضل‘‘ کے مینیجر اور ایڈیٹر کے طور پر کئی سال خدمات بجا لانے کی توفیق ملی نیز آپ ’’تشحیذالاذہان‘‘، ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ (اردو) اور ’’مصباح‘‘ کے بھی مدیر رہے۔ حضرت قاضی صاحبؓ کی وفات ۲۷؍ستمبر۱۹۶۶ء کو ہوئی۔
حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکمل صاحبؓ ایک ادیب و شاعر، ماہر لسانیات اور اردو کے علاوہ عربی، فارسی، کشمیری، ہندی اور گورمکھی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ آپؓ نے مخالفینِ احمدیت کو شعر کا جواب شعر میں بھی دیااور شاعری میں ہمیشہ مقصدیت پیشِ نظر رہی۔ آپ کا انداز بلکہ نمایاں خوبی تھی کہ اکثر اپنے کہے جانے والے اشعار سے قبل نثر میں کچھ کیفیت، پس منظر اور ضروری حالات کا ذکر بھی بیان فرمادیتے تھے تاکہ پڑھنے والا اس ماحول کو سمجھ سکے۔مثلاًاپنی ایک نظم سے قبل بتایا کہ ’’۱۹۰۸ء کی سہ ماہی اول میں لاہو رکسی کام کے لئے آیا تھا۔ وہاں لکھا۔‘‘(صفحہ ۸)
اسی طرح مجموعہ کے صفحہ ۹ پر نظم سے قبل نوٹ ہے کہ ’’ جب میرا سید و مولیٰ لاہور گیا تو میں قادیان میں گھبرا گیا اور یہ چند اشعار لکھے، آپؑ نے سن کر فرمایا۔ اُن کو جلد یہاں بلوا لو۔‘‘’’ایک پرانی نظم۔ جو سخت بخار کی حالت میں لکھی گئی تھی۔‘‘(صفحہ ۱۴) وغیرہ
ستمبر۱۹۶۷ء میں آپ کے بیٹے مکرم عبدالرحمان جنید ہاشمی صاحب نے اپنے والد کا یہ زیر نظر مجموعہ کلام ’’مکتبہ یادگاراکمل‘‘، دارالصدر ربوہ کی طرف سے نقوش پریس، اردو بازار لاہور سے شائع کروایا، جس کی دیدہ زیب کتابت منشی محمد اسماعیل صاحب خوشنویس، فیروز والا، ضلع گوجرانوالہ نے کی تھی۔ سوا پانچ صد صفحات سے زیادہ ضخیم یہ مجموعہ کلام محترم قاضی اکمل صاحب کے ۱۹۰۷ء سے ۱۹۶۵ء تک کے طبع ہونے والے شعری کلام پر مشتمل ہے۔ دراصل کتابی صورت میں ’’نغمۂ اکمل‘‘ کا پہلا حصہ ۱۹۱۱ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد ۱۹۳۹ء تک وقتاًفوقتاً اس کے کل دس اجزاطبع ہوئے، جن کو زیر نظر مجموعہ میں پہلی مرتبہ کتابی شکل میں یکجا کرکے پیش کیا گیا۔
مؤلف نے کتاب کے دیباچہ میں حضرت قاضی صاحب کا تعارف کرواتے ہوئے ایک دلچسپ امر یہ بھی لکھا کہ’’…آپ تپ لازم اور دیگر امراض کا شکار ہوکر صاحبِ فراش رہے۔ تاہم اسی حالت میں اسلامی معاشرہ کی اصلاح و ارشاد کے بارے میں ملک بھر کے اخبارات کو اپنے مضامین بھجواتے رہے۔ چنانچہ صرف ایک سال (۱۹۰۴ء) میں آپ کے پچاسی۸۵ مضامین اٹھارہ مختلف اخبارات میں شائع ہوئے۔ جن میں سے چودہویں صدر، لاہور پنچ، صدائے ہند، زمیندار، وکٹوریہ پیپر، سیالکوٹ پیپر، گلزار ہند، پنجاب آرگن، پنجاب سماچار، پٹیالہ اخبار سرفہرست ہیں…‘‘(صفحہ الف۔ب)
تعارف میں مزید لکھا ہے کہ ’’خصوصاً اخبار بدر کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات و خطبات نوٹ کرنے پر مامور رہے،…اس دوران جب بھی اجازت ہوتی آپ اپنی تازہ نظم مسجد مبارک میں پڑھ کر سناتے جس پر حضورؑ اکثر جزاک اللہ کے کلمات سے نوازتے۔ حضرت مولوی عبدالکریمؓ تو بسا اوقات اٹھ کر ان کو سینے سے لگا لیتے اور حضرت خلیفہ اولؓ بھی ان کے کلام پر پسندیدگی کا اظہار فرماتے۔
مکرم جنید ہاشمی صاحب دیباچہ میں نغمہ اکمل کے فنی پہلوؤں کے تسلسل میں بتاتے ہیں کہ’’وہ عروض و قوافی اور انشاء و املا کا خاص طور پر لحاظ رکھتے تھے۔ اور’’ ضرورت شعری‘‘، ’’غلط العام‘‘ اور ’’غلط العوام‘‘ کا سہارا نہیں لیتے تھے بلکہ اصل تلفظ کی نشان دہی کے لئے اعراب ڈال دیتے تھے… انہوں نے قرآن و حدیث کے حوالے جس آمد و برجستگی سے نظم کئے ہیں وہ تلمیحی شاعری کے ایک درخشاں باب کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے تبحر اور وسعت علم کا اندازہ ان اشعار سے ہوسکتاہے جو عربی، فارسی حتی کہ کشمیری، ہندی اور گورمکھی زبان میں کہے گئے ہیں…۔ شاعری کا مقصد ’’اظہار زبان دانی‘‘ اور ’’ذہنی ورزش‘‘ نہیں ہے۔ بلکہ اُن کے سامنے ایک ہی نصب العین تھا جس کے حصول کے لئےوہ بار بار جماعت احمدیہ سے خطاب کرتے رہے۔ تبلیغ: اس کا علمی نمونہ انہوں نے خود پیش کیاہے۔ ہجرت سے پہلے وہ اردگرد کے دیہات میں نکل جاتے اور لوگوں کو مسائل دینی سمجھاتے بلکہ فقہ و حدیث کی روشنی میں ان کے خانگی تنازعات کا فیصلہ بھی کرتے جس کی وجہ سے آپ کو ’’قاضی ‘‘ کا خطاب ملا۔ اس کے علاوہ ریل گاڑی اور یکہ پر جب بھی سفر کرتے اپنے ہم سفروں کو اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے تھے… آپ نے ان ’’تبلیغی اسفار‘‘ پر ایک مثنوی بھی رقم کی تھی۔‘‘(صفحہ ر۔ س)
حضرت قاضی صاحب کی شاعری کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ آپ معاندین کو جہاں ضروری خیال کرتے، شعر میں جواب دیتے۔حضرت قاضی صاحب اپنی ایک نظم سے قبل لکھتے ہیں کہ ’’ شاعر انسان کے جذبات، حالات، خیالات، معتقدات، پیش آمدہ واقعات کی تصویر مؤثر الفاظ میں کھینچتا ہے…۔‘‘ (صفحہ: ۲۸)
محترم قاضی صاحبؓ نے اپنے شعری کلام میں علاوہ دیگر موضوعات اور اصناف کے اردو شعر و ادب کی سہرانگاری کی روایت کو بھی زندہ رکھا۔خدا کی حمد و ثنا اور بانی اسلام ﷺ کی مدح میں نعت گوئی کے بعد حضرت قاضیؑ ظہورالدین اکمل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام، آپ کی پیاری جماعت، مسکن قادیان، اور خلافت احمدیہ کے موضوع پرخوب خوب طبع آزمائی کی ہے۔
اس زیر نظرشعری مجموعہ کے بعض موضوعات یوں ہیں: جماعت کا جلسہ سالانہ، رمضان کی عبادات، عیدین، قربانی، مخالفین کے حملے، خلافت، احمدی مبلغین کو ہدایات اور ان کی ممالک غیر سے آمد اور روانگی، وغیرہ
اسی طرح ستمبر ۱۹۴۵ء میں ’’بفرمائش محمود احمد ناصر از منالی‘‘ لکھی، جس کا پہلا شعر ہے:
محمد پر ہماری جاں فدا ہے
کہ وہ سچا ہمارا رہنما ہے
(صفحہ: ۳۷۱)
الغرض ایک سادہ دل، سادہ مزاج اور سادہ زندگی بسر کرنے والے اس درویش منش انسان کی شاعری بیک وقت ادب کی چاشنی بھی رکھتی ہے، اپنے محبوب آقا ؑسے وارفتگی اور محبت کی آئینہ دار بھی ہے اورساتھ ساتھ سلسلہ عالیہ کی تاریخ سے واقفیت کے لیے ایک دلچسپ ذریعہ بھی۔اسی طرح اپنی ذاتی ارادت اور مخلصانہ عقیدت کی خاص لہر میں حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب نے بعض ایسے اشعار بھی کہے ہیں جن پر مخالفین احمدیت آج تک اعتراض کرتے چلے آرہے ہیں۔
٭…٭…٭