امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے گلف ریجن کی ملاقات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مَیں عیسیٰ کے نقشِ قدم پر آیا ہوں، جیسا کہ عیسیٰؑ موسیٰ ؑکے مسیح کے طور پر ظاہر ہوئے تھے اور مَیں اسلام کا پیغام پھیلا رہا ہوں۔ آپؑ نے مزید فرمایا کہ تین سو سال کا عرصہ نہیں گزرے گا جبکہ اسلام اور احمدیت کا پیغام دنیا بھر میں پھیل جائے گا کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کو بھی پھیلانے میں تقریباً تین سَو سال کا عرصہ گزرا تھا ، جس کے بعد عیسائیت دنیا بھر میں پھیل گئی تھی اور جب روم کی سلطنت نے عیسائیت قبول کر لی تھی
مورخہ۲۳؍نومبر۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے گلف ریجن کے کے ایک وفد کو بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ خدام نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔یہ ملاقات اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے ‘‘گلف سٹیٹس’’ کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ عمومی طور پر ‘‘گلف سٹیٹس’’ کا ذکر آتے ہی ذہن میں عرب خلیجی ممالک (جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، کویت اور عمان)کا تصور ابھرتا ہے، کیونکہ یہ اصطلاح بالعموم ان ممالک کے لیے استعمال ہوتی ہے۔تاہم امریکہ کے تعلق میں ‘‘گلف سٹیٹس’’ سے مراد وہ پانچ امریکی ریاستیں ہیں جو میکسیکو کی خلیج (Gulf of Mexico) کے ساتھ واقع ہیں یعنی:ٹیکساس(Texas)، لوزیانا (Louisiana)، مِسی سپی(Mississippi)،الاباما (Alabama)اور فلوریڈا (Florida)۔یہ ریاستیں سمندری معیشت، بندرگاہوں، تیل کی صنعت اور متنوع ثقافتی ورثے کے لیے مشہور ہیں۔
امریکی گلف سٹیٹس سمندری طوفانوں (Hurricanes) اور ساحلی خوبصورتی کے لیے بھی معروف ہیں، جبکہ عرب خلیجی ریاستیں اپنے صحرائی جغرافیہ اور تیل کی دولت کے لیے مشہور ہیں۔ اگرچہ دونوں علاقوں کو ان کی جغرافیائی صورتِ حال کی وجہ سے ‘‘گلف’’ کہا جاتا ہے، لیکن ان کی ثقافت، تاریخ اور معیشت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔لہٰذاقارئین کے لیے یہ وضاحت ضروری تھی تاکہ وہ ان کے مابین فرق کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
حضورِ انور اپنے خدام کے درمیان رونق افروز ہوئے تو سب سے پہلے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا۔
پھر حضورانور وفد کے انچارج سے مخاطب ہوئے تو انہوں نے حضور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ اس وفد میں تئیس خدام شامل ہیں۔
تعارف کے دوران حضورانور نے ہر خادم سے انفرادی گفتگو فرمائی اور ان سے ان کی تعلیم، پیشے اور خاندانی پسِ منظر کے بارے میں دریافت فرمایا۔ چند خدام نے اپنے مستقبل کے ارادوں سے بھی آگاہ کیاکہ وہ جامعہ احمدیہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں یا یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی زندگیاں اسلام احمدیت کی خدمت کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں۔
تعارف مکمل ہونے کے بعد انچارج صاحب وفد کی جانب سے سوالات پیش کرنے کی اجازت طلب کرنے پر حضورِانور ایّدہ اللہ نے از راہِ شفقت اجازت مرحمت فرمائی جس پر خدام کو حالاتِ حاضرہ اور ایسے مختلف متنوع مسائل پر راہنمائی حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا جو آج کل کی نوجوان نسل پر اَثر انداز ہوتے ہیں۔
اس مجلس کا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ جیسا کہ ہم ایک مغربی ملک میں رہتے ہیں، ہمارے کچھ دوست ایسے ہیں جنہیں اسلام کے بارے میں بھی کوئی خاص علم نہیں، ایسے میں ہم انہیں احمدیت اور سنّی و شیعہ مسلمانوں میں فرق کیسے سمجھا سکتے ہیں؟
حضورِانور نےجواب میں فرمایا کہ آپ انہیں بتا سکتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی تھی اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق آخری زمانے میں ایک شخص نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظلّی اور بروزی نبی کے طور پر ظاہر ہونا تھا، جس کو مسیح اور مہدی کا لقب ملنا تھا، تمام مسلمان یہ مانتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور وہ اس شخص کے ظاہر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ مانتے ہیں کہ وہ شخص حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی شکل میں ظاہر ہو چکے ہیں اور آپؑ نے مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ آپؑ نے محض دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض آسمانی اور بعض دوسری نشانیوں کی پیشگوئی بھی فرمائی تھی۔
حضورِانور نے اس بات کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اور ان میں سے ایک نشانی رمضان کے مہینے میں مخصوص ایّام میں سورج اور چاند کے گرہن لگنے کا واقعہ تھا۔ یہ نشان ۱۸۹۴ء میں مشرقی کرۂ ارض یعنی قادیان اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں وقوع پذیر ہوا اَور پھر یہ نشان ۱۸۹۵ء میں مغربی کرہ ٔارض یعنی امریکہ میں رونما ہوا۔ اس نشان کا وقوع میں آنا تاریخ میں بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ تو ہم مانتے ہیں کہ یہ نشانات پورے ہوئے۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اس کے علاوہ اَور بھی پیشگوئیاں تھیں جو پوری ہو چکی ہیں۔مثلاً قدیم زمانے کی آمدورفت کے ذرائع جیسا کہ گھوڑے اور دیگر ذرائع ترک کر دیے جائیں گے اور نئے آمد و رفت کے ذرائع اپنائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اَور بھی دوسری نشانیاں ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ وہ تمام نشانیاں جن کا ذکر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں کیا، پوری ہو چکی ہیں۔ ایک شخص کا دعویٰ تھا اور اس دعویٰ کے حق میں سورج اور چاند کو گرہن لگنے کا نشان وقوع پذیر ہوا۔ تو ہم یہ مانتے ہیں کہ چونکہ یہ نشانیاں پوری ہو چکی ہیں، چونکہ دعویٰ دار موجود ہے اور اللہ اس شخص کی خاص تائید و نصرت فرما رہا ہے، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ وہ مسیح اور مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی شکل میں ظاہر ہو گئے ہیں۔لیکن دوسرے مسلمان اب بھی مسیح اور مہدی کے ظہور کے منتظر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پرانے عیسیٰ کا ظہور دوسری مرتبہ ہو گا، لیکن ہم کہتے ہیں کہ نہیں کوئی بھی شخص اتنا لمبا عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا، کوئی بھی شخص دو ہزار سال یا اس سے زائد عرصہ تک زندہ نہیں رہ سکتا۔عیسیٰؑ وفات پا چکے ہیں اور وہ دوبارہ نہیں آئیں گے، لیکن دوسرے مسلمان پھر بھی انہی کی آمد کے منتظر ہیں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ بعضوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ عیسیٰؑ اب نہیں ظاہر ہوں گے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی نبی نہیں آ سکتا۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے مسیح ومہدی اور نبی ہونے کا دعویٰ تو کیا ہے، لیکن انہوں نے ظلّی نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ آپؑ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن اور شریعت کو آگے بڑھایا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی راہنمائی اور ارشادات کے مطابق اسلام کا پیغام پھیلایا۔ اس سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کی مہرنہیں ٹوٹتی۔
حضورِانور نے اس پر مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لیکن غیر احمدی مسلمان کہتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی بھی نبی کا دعویدار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مہر کو توڑ دے گا اور یہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس لیے وہ ہماری مخالفت کرتے ہیں، لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ مسیح کا دعویدار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اسلام کا پیغام پھیلایا ہے، اس لیے اس سے مہر نہیں ٹوٹتی۔ کوئی بھی نئی شریعت نہیں آ سکتی لیکن ایک ایسا نبی، جو اسلام اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے ہو اَور جو قرآنِ کریم کے پیغام کو پھیلانے کے لیے آیا ہو، آ سکتا ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ تو یہ فرق ہے اور یہ وہ باتیں ہیں، جو ہم مانتے ہیں اور جو وہ نہیں مانتے، وہ بالآخر اس طرف آئیں گے جب ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہو گااور جب وہ اپنی سمجھ، خیالات اور احادیث کے مطابق یہ دیکھ لیں گے کہ اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تو انہیں پھر آخر کارحقیقت قبول کرنی پڑے گی۔ اس کے لیے ہمیں انتظار کرنا ہو گا۔
آخر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مَیں عیسیٰ کے نقشِ قدم پر آیا ہوں، جیسا کہ عیسیٰؑ موسیٰ ؑکے مسیح کے طور پر ظاہر ہوئے تھے اور مَیں اسلام کا پیغام پھیلا رہا ہوں۔ آپؑ نے مزید فرمایا کہ تین سو سال کا عرصہ نہیں گزرے گا جبکہ اسلام اور احمدیت کا پیغام دنیا بھر میں پھیل جائے گا کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کو بھی پھیلانے میں تقریباً تین سَو سال کا عرصہ گزرا تھا، جس کے بعد عیسائیت دنیا بھر میں پھیل گئی تھی اور جب روم کی سلطنت نے عیسائیت قبول کر لی تھی۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ابھی تین سَو سال کا عرصہ نہیں گزرے گاجبکہ اسلام اور احمدیت دنیا بھر میں پھیل جائے گی۔ ہم دوسروں کو اس طرح سے یہ بات سمجھا سکتے ہیں۔
ایک خادم نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ احمدی مہاجروں کی ایک بڑی تعداد دنیا میں پھیل چکی ہے اور وہ خدام جو کسی ملک کے پیدائشی ہیں اور وہ خدام جو باہر کسی ملک سے ہجرت کر کے آتے ہیں، ان کے درمیان ایک خلیج واقع ہونے کا رجحان ہوتا ہے، اس باہمی تعلق کو ٹھیک کرنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
حضورِانور نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم احمدی ہیں، ہم ایک خدا کو مانتے ہیں، ہم ایک ہی مقدس کتاب قرآنِ کریم پر ایمان لاتے ہیں، ہم آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں، ہم مانتے ہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام ظاہر ہو چکے ہیں اور ہمارا اِیمان ہے کہ آپ کی وفات کے بعد خلافت کا نظام جاری ہے۔ ہم ان تمام باتوں کو مانتے ہیں۔ پھر فرق کیا رہ جاتا ہے؟ ایک ہی فرق ہے کہ آپ امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں اور آپ کے کزن افریقہ میں یا پاکستان یا انڈیا یا جنوبی امریکہ میں یا کسی بھی اَور ملک میں، یا اگر آپ کا کوئی دوست ہے تو وہ کہیں اَور پیدا ہوا ہے۔ چونکہ آپ کا دین ایک ہے، آپ کی تعلیم ایک ہے، تو پھر جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے کیونکہ آپ کی تعلیم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ ایک ہی چیز ہے اور وہ زبان ہے، اگر کوئی شخص پاکستان یا بنگلہ دیش یا مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہجرت کر کے امریکہ آتا ہے اور وہاں کچھ عرصہ گزار کر اس کو زبان کی بھی سمجھ آ جاتی ہے تو جب مَیں آپ سے بات کرتا ہوں تو مَیں اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ آپ سے اردو میں بات کروں تاکہ آپ کو بہتر طور پر سمجھا سکوں، لیکن چونکہ آپ کو اردو پسند نہیں، اس لیے مَیں کوشش کرتا ہوں کہ انگریزی میں بات کروں۔ تو اگر آپ کو میرے ساتھ بہتر سمجھ آ جاتی ہے تو اپنے بھائیوں سے بھی اچھی سمجھ آنی چاہیے۔
اگلا سوال یہ تھا کہ اگر روس امریکہ پر حملہ کرے تو ہم احمدی مسلمان اس صورت میں کیا کر سکتے ہیں؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہم احمدی مسلمان، جو امریکہ میں رہتے ہیں، وہ وہاں کے شہری ہیں۔ اگر روس یا کوئی بھی ملک حملہ کرتا ہے تو اس کا دفاع وہاں کے شہریوں کا کام ہے۔ اگر آپ مسلح افواج میں ہیں تو آپ کو ان کے لیے لڑنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہم صرف اپنے ملک کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے راہنماؤں کو عقل دے کہ وہ ظلم نہ کریں اور دوسروں کو بھی عقل دے کہ وہ کسی قسم کی بربریت کا ارتکاب نہ کریں۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الْاِيْمَانِیعنی وطن سے محبّت ایمان کا حصہ ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے ملک سے محبّت اور اس کی خدمت کرنی چاہیے۔ تاہم اگر آپ دیکھیں کہ آپ کا ملک ظلم کر رہا ہے تو پھر اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو وہاں سے ہجرت کر جانی چاہیے۔
ایک خادم نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھنے والا اور جاننے والا ہے تو فرشتے انسانوں کے اعمال کیوں لکھتے ہیں؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے اور وہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا ہے اور انہیں کچھ ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ یہ اللہ کا نظام ہے۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ فرشتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ معلومات جمع کریں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ اپنے دیے گئے کام کو پورا کر سکیں۔ قیامت کے دن یہ ریکارڈ گواہی کے طور پر پیش ہوں گےاور اللہ تعالیٰ فرشتوں کو لوگوں کے اعمال کا گواہ بنا کر اپنے فیصلے صادر فرمائے گا۔
حضورِانور نے اس نظام کو اللہ کی تخلیق کا حصّہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایمان والوں کو اسے بغیر کسی شک و شبہ کے تسلیم کرنا چاہیے۔
ایک خادم نے حضورِانور سے راہنمائی طلب کی کہ نوجوانی میں شادی کرنے کے بعد بیٹے اور شوہر کے طور پر ذمہ داریوں کو کیسے متوازن طریقے سے نبھایا جا سکتا ہے؟
حضورِانور نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ شادی اس وقت کرنی چاہیے جب انسان ان ذمہ داریوں کو اٹھانے کے لیے تیار ہو۔ یہ تمہارے اور ایک لڑکی کے درمیان ایک رشتہ ہےاور تمہیں اس رشتہ کو نبھانا ہے۔ اور تم اس رشتہ پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا رہے ہو۔
حضورِانور نے بیوی اور والدین کے حقوق میں توازن برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض ذمہ داریاں ایسی ہیں جو تمہیں اپنی بیوی کے ساتھ پوری کرنی ہیں، اور بعض حقوق ایسے ہیں جو تمہیں اپنے والدین کے حق میں ادا کرنے ہیں۔ دونوں طرف اپنی ذمہ داریاں پوری کرو۔ یہی ایک متوازن شخص کا طریقہ ہے۔ ایک مومن کو ہمیشہ متوازن ہونا چاہیے۔
ایک خادم نے حضورِانور سے دریافت فرمایا کہ بطور احمدی مسلمان ہمارا جنّوں اور ان کی طاقتوں کے بارے میں کیا اعتقاد ہے؟
حضورِانور نے جواب میں جنّ کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جنّ وہ چیزیں ہیں جنہیں ہم محسوس نہیں کرتے یا جن کا تصور نہیں کر سکتے۔ لفظ جنّ کے مختلف معانی ہیں۔ عربی میں جراثیم کو بھی جن کہا جاتا ہے، اور ہر وہ چیز جو چھپی ہوئی ہو، اسے بھی جنّ کہا جاتا ہے۔ بڑے لوگ جو عوام کے سامنے نہیں آتے، یا طاقتور لوگ جو غاروں اور جنگلوں میں رہتے ہیں، یا وہ لوگ جو دوسروں کے تحت کام کرتے ہیں، انہیں بھی جنّ کہا جاتا ہے۔ یہ جن ّکے معنی ہیں۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی ایسا جنّ ہے، جس نے انسان کو قابو کر لیا ہے اور اس کی تمام صلاحیتوں، حواس اور ہر چیز پر قبضہ کر لیا ہے، تو ہم اسے نہیں مانتے۔ ایسی طاقت جنّوں کے پاس نہیں ہے۔
حضورِانور نے اس ضمن میں نصیحت فرمائی کہ اگر کوئی کہے کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو انہیں دعا کرنے کی نصیحت کریں اور لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِاور اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ پڑھنے کی ہدایت دیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کیفیت سے بچا لے گا۔
حضورِانور نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ عموماً اَن پڑھ اور جاہل لوگوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ جنّوں نے ان پر سایہ کر لیا ہے اور وہ ان کی تمام صلاحیتوں اور طاقتوں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بیماری ہے، جس کے علاج کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کو ماہرِ نفسیات سے رابطہ کرنا چاہیے۔
ایک سوال یہ کیا گیا کہ اگر فیملی کا کوئی فرد یا عزیز اسلام یا احمدیت سے منحرف ہو چکا ہو تو ہم ایک خادم کی حیثیت سے انہیں واپس کیسے لا سکتے ہیں؟
حضورِانور نے اس پر تلقین فرمائی کہ کوشش کریں کہ اگر وہ آپ سے بات کرنے کے لیے راضی ہوں تو انہیں تبلیغ کریں۔ انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ حقیقی تعلیمات کیا ہیں اور وہ کیوں اسلامی تعلیمات سے منحرف ہو رہے ہیں۔ اگر ان کے کوئی سوالات ہوں تو انہیں مربی صاحب کے پاس لے کر جائیں تاکہ مربی صاحب ان کو تسلی بخش جوابات دے سکیں۔ اور اگر وہ سمجھنا نہیں چاہتے یا کہتے ہیں کہ مَیں آپ کی بات نہیں سننا چاہتا یا اس مسئلے پر بات نہیں کرنا چاہتا ہوں تو پھر ان کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بچا لے۔
ایک خادم نے درخواست کی کہ پیارے حضور! اللہ تعالیٰ سے میرا روحانی تعلق پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ میری تعلیمی ترقی کے لیےبھی دعا کریں۔
اس پر حضورِانور نے تلقین فرمائی کہ پانچ نمازوں کو کبھی نہ چھوڑنا اور اگر ممکن ہو سکے تو روزانہ چند نوافل بھی ادا کر لیا کریں اور زیادہ استغفار اور درود شریف پڑھیں۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ درود شریف، استغفار اور رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَاپنی ذاتی ترقی کے لیے اور جماعتی ترقی کے لیے بھی پڑھیں۔
اس مجلس کا آخری سوال یہ تھا کہ آپ ایسے احمدیوں کو کیا نصیحت فرمائیں گے جو کسی باقاعدہ جماعت یا دیگر احمدیوں سے دُور مقیم ہیں؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں ہدایت فرمائی کہ اگر دو یا چار افراد ایک چھوٹے سے علاقے میں مقیم ہیں تو انہیں کم از کم جمعہ کے روز اکٹھا ہونا چاہیے۔ اگر صرف آپ کے فیملی کے ممبران موجود ہوں تو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ جمعہ ادا کرنے کی کوشش کریں۔
حضورِانور نے اپنی ذاتی مثال دیتے ہوئے بیان فرمایا کہ مَیں گھانا میں کئی سال تک اکیلا رہا اور وہاں کوئی احمدی نہیں تھا، صرف میرے اہل و عیال تھے۔ مَیں اور میری اہلیہ کچھ عرصے تک نماز جمعہ اکیلے ادا کرتے تھے یا کبھی کبھار کوئی احمدی طالبعلم ہمارے ساتھ شامل ہو جایا کرتا تھا۔ بعد میں دوسری جگہ پر صرف ایک ملازم تھا، جو احمدی تھا، وہ ہمارے گھر آ کر ہمارے ساتھ نماز جمعہ ادا کرتا تھا۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ یہ وہ طریقہ ہے جس سے ہمیں ایسے معاملات کا حل نکالنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی آپ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کر سکتے ہیں، اگر ممکن ہو، اور قرآنِ کریم کو کم از کم روزانہ پڑھا کریں تاکہ آپ اور آپ کے اہلِ خانہ قرآن کے معانی کو سمجھ سکیں۔ جب آپ تلاوت کر رہے ہوں تو چند آیات کا ترجمہ بھی پڑھ لیا کریں۔
حضورِانور نے استفسار فرمایا کہ جہاں پر آپ مقیم ہیں وہاں پر کوئی احمدی نہیں ہے؟ موصوف کے اثبات میں جواب دینے پر حضورِانور نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ تو پھر تبلیغِ احمدیت کرو اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو احمدیت میں شامل کرو۔
ملاقات کے اختتام پر شاملین کو حضورِانور کے ہمراہ گروپ تصویر بنوانے اور قلم بطور تبرک حاصل کرنے کی سعادت ملی نیز حضورِانور نےان کے قیام وطعام کے انتظامات وغیرہ کے بارے میں بھی دریافت فرمایا۔
حضورِانور نے سب شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔