جماعت کے یتامیٰ کی خبر لو
(انتخاب خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۳۱؍جنوری ۱۹۱۹ء)
۱۹۱۹ء میں حضؓور نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے جماعت کو یتامیٰ کا خیال رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)
ممالک کے لحاظ سے بھی نیکی کی تعریف میں اختلاف ہے۔ ہندوستانی نیکی کی اَور تعریف کرتے ہیں اور عرب والے نیکی کی کچھ اَور ہی تعریف بتاتے ہیں، مصری اور چینی کچھ اَور۔ ایرانی نیکی کسی اَور چیز کو قرار دیتے ہیں
تشہدوتعوّذ اور سورۃفاتحہ کے بعد حضورؓ نے سورۃ بقرہ کی مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِيّٖنَ ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيْلِ١ۙ وَ السَّآىِٕلِيْنَ۠ وَ فِي الرِّقَابِۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ وَ الصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِيْنَ الْبَاْسِؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْاؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔ (البقرہ:۱۷۸) اور پھر فرمایا: ‘‘نیکی اور تقویٰ کے متعلق لوگوں میں عام طور پر اختلاف ہے۔ مختلف جماعتیں، مختلف قومیں، مختلف مدارج کے لوگ اور مختلف زمانوں کے لوگوں کے نزدیک نیکی کی تعریف مختلف رہی ہے۔
غرباء نیکی کی تعریف کچھ اَور کرتے ہیں اور امراء کچھ اَور۔
پھر ممالک کے لحاظ سے بھی نیکی کی تعریف میں اختلاف ہے۔ ہندوستانی نیکی کی اَور تعریف کرتے ہیں اور عرب والے نیکی کی کچھ اَور ہی تعریف بتاتے ہیں، مصری اور چینی کچھ اَور۔ ایرانی نیکی کسی اَور چیز کو قرار دیتے ہیں۔
ہندوستان میں حاجی بڑے نیک شمار ہوتے ہیں۔ یہاں پر ایک شخص صوم و صلوٰۃ اور دیگر احکامِ شرعی کا خواہ کتنا ہی پابند کیوں نہ ہو لوگ اس کے مقابلہ میں عام طور پر ایک حاجی کو ہی ترجیح دیں گے۔ خواہ اس نے سفرِ حج میں اپنے تمام اوقات فضول اور لغو طور پر ہی ضائع کئے ہوں اور حج کرنے کے بعد بھی اپنے اعمال میں کوئی تغیّر نہ کیا ہو اور صوم و صلوٰۃ کا بھی چنداں پابند نہ ہو۔ تاہم اس کی اس نیکی کا اظہار لفظ ‘‘حاجی’’اس کے نام کے ساتھ لگا کر کریں گے۔
حالانکہ ہندوستان کے حاجیوں میں عام طور پر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی غرض حج سے محض شُہرت طلبی ہوتی ہے۔
ورنہ ان کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی کوئی خشیت اور خوف نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے کہ ایک ریل کے سٹیشن پر ایک نابینا بڑھیا بیٹھی تھی۔ ایک شخص نے اس کی چادر اُتار لی۔ اس بڑھیا نے کہا بھائی حاجی مجھ غریب کی چادر کیوں لیتا ہے؟ میرے پاس تو کوئی اور کپڑا نہیں ہے۔ مَیں سردی میں مَر جاؤں گی۔ وہ چادر تو اُس شخص نے رکھ دی مگر پوچھا کہ تو نے کس طرح جانا کہ مَیں حاجی ہوں۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ ایسے کام حاجی ہی کیا کرتے ہیں۔
وہ عورت اس سے واقف تھی اور نہ اس کی آنکھیں سلامت تھیں مگر اس نے جو کچھ کہا وہ اُس کی فطرت کی آواز تھی۔ لیکن باوجود اس قسم کی حالت کے پھر بھی عام طور پر حاجیوں کو بڑا نیک اور حج کو بڑی نیکی ہندوستان میں خیال کیا جاتا ہے، لیکن عرب میں جاؤ تو وہ لوگ نیکی حج کو قرار نہیں دیں گے وہاں کسی اور ہی چیز کا نام نیکی ہو گا۔ ان میں نیکی قومیت کے لحاظ سے سخاوت کو سمجھا جائے گا۔ وہ لوگ اگر کسی کی تعریف نیکی میں کریں گے تو کہیں گے کہ یہ شخص بڑا نیک ہے کیونکہ بڑا سخی ہے۔
اسی طرح اب یورپ میں اسلام پھیلے تو وہاں کے لوگ روزے کو بڑی نیکی سمجھیں گے کیونکہ وہ لوگ کثرت سے کھانے پینے والے ہیں۔ پس جب ان کو کھانے پینے سے باز رہنا پڑے گا تو
وہ حج،زکوٰۃ، نماز وغیرہ دیگر احکام شرعی کی بجا آوری کو نیکی قرار دینے کی بجائے روزہ رکھنے کو سب سے بڑی نیکی قرار دیں گے۔
پھر ہندوستان میں یہ بھی بڑی نیکی خیال کی جاتی ہے کہ کوئی شخص نماز کا پابند ہو ایسے شخص کو کہیں گے کہ یہ بڑا ہی نیک ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ نماز کا پابند ہے۔
صحابہ کے وقت میں اگر کسی شخص کی تعریف نماز کی پابندی کے باعث کی جاتی تو وہ لڑپڑتے۔ کیونکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہا جائے کہ فلاں شخص بڑا بہادر ہے۔ کیونکہ وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو گیا ہے۔ یا یہ کہ وہ شخص بڑا ہی تیز نظر ہے کہ اس کی ماں اس کے پاس بیٹھی تھی اس نے اس کو پہچان لیا۔ یا یہ کہ اس شخص کا معدہ بڑا ہی مضبوط ہے کہ اس نے ایک چنا ہضم کر لیا۔ پس جیسا کہ بہادری، تیز نظری اور مضبوطیٔ معدہ کے یہ معیار نہایت مضحکہ انگیز ہیں۔ ایسے ہی صحابہ کے نزدیک کسی شخص کی نیکی کا معیار محض پابندیٔ نماز مضحکہ انگیز تھا۔ کیونکہ وہ لوگ نیکی کے اُس مقام پر کھڑے تھے جہاں پابندیٔ نماز کو ایک بڑی نیکی قرار دینا ایک مضحکہ انگیز بات ہے۔ وہ لوگ دین کے لئے بڑی قربانیوں اور سخت آزمائشوں کو نیکی سمجھتے تھے جس میں یہ باتیں زیادہ پاتے تھے اُسی کو نیک کہتے تھے۔
پس نیک اور نیکی کی تعریف ہر زمانہ،ہر مُلک اور ہر قوم میں جُدا جُدا اور مختلف رہی ہے۔ مَیں نے جو یہ آیت پڑھی ہے اِس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مشرق و مغرب کی طرف مُنہ پھیرنا نیکی نہیں۔ اگر کوئی شخص قبلہ کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتا ہے اور اس کی نماز میں وہ مغز اور مخ نہیں ہے تو اس نے قبلہ کی طرف مُنہ کیا یا دوسری طرف کیا اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ کیونکہ نیکی مُنہ کے کسی طرف کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ
نیکی نام ہے اُس کیفیت کا جو دل کے اندر پیدا ہوتی ہے
اور یہ جو حرکات کی جاتی ہیں یہ ان کا ظاہری ثبوت ہوتی ہیں۔ پس اگر ان ظاہری حرکات میں وہ چیز نہیں جس کا تعلق دل سے ہے تو یہ ظاہری حرکات کچھ نہیں۔ محض قبلہ کی طرف مُنہ کرنا یا نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا یا حج کرنا یہ تمام باتیں دلی کیفیت کے نہ ہونے کے باعث ہیچ ہو جاتی ہیں۔
اگر نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ افعال سے خدا کی رضا مدّنظر نہ ہو تو یہ چیزیں ہیچ ہیں کیونکہ یہ تو آتے ہیں مگر بغیر اس قلبی کیفیت کے کُند اور ناکارہ ہیں اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص کے پاس تلوار تو ہے مگر کُند، اور ہتھیار ہیں مگر زنگ خوردہ۔ پس جس طرح ہتھیاروں کی قیمت ان کی تیزی اور صفائی سے ہے اسی طرح ان اعمال کی قدر خدا کی نظر میں اُسی وقت ہوتی ہے جبکہ اُن کے ذریعہ خدا کی رضا جوئی مقصد ہو۔
مَیں نے جو آیت پڑھی ہے اس میں نیکی کی علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مشرق و مغرب کی طرف مُنہ کرنا نیکی نہیں۔ بلکہ ان افعال کے ساتھ عزیمتِ قلب ہونی چاہئے۔ درحقیقت مُنہ پھیرنے میں کچھ بھی نہیں اگر اس کے ساتھ دُعاشامل نہیں جس کی وجہ سے نماز کو صلوٰۃ کہا جاتا ہے۔ یہ ارشاد الٰہی ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم یتیموں ، اسیروں اور غریبوں کی مدد کریں اور خدا کی مخلوق سے ہمدردی کریں۔ اس میں ہمیں انہی باتوں کا سبق دیا گیا ہے کہ جو تکلیف میں ہو اس کی تکلیف دُور کریں، جو مصیبت میں ہو اس کی مصیبت ہٹانے کی کوشش کریں کیونکہ اگر صوم و صلوٰۃ کے ساتھ خدا کی اطاعت نہیں، اُس کی مخلوق سے ہمدردی نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں۔
مَیں ان علامتوں میں سے ایک علامت کے متعلق اس وقت اپنی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں اور
وہ جماعت کے یتامٰی کی پرورش و تعلیم و تربیت کا سوال ہے۔
اِس میں شک نہیں کہ یہ نہایت اہم سوال ہے اور کسی جماعت کی ترقی اس کے افراد کی ترقی پر منحصر ہوتی ہے۔ جب کسی جماعت کے اکثر افراد دُنیا میں کامیاب ہوں تبھی وہ جماعت کامیاب شمار کی جاسکتی ہے۔ چوڑھے اگر مل کر بیٹھ جائیں تو وہ معزز نہیں کہلا سکتے۔ کسی جماعت کی عزّت و عظمت اُس کے افراد کی عزّت وعظمت پر منحصر ہوتی ہے کیونکہ افراد کا مجموعہ ہی جماعت ہوا کرتی ہے۔ پس ترقی پانے والی جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے افراد کی ترقی کی فکر کرے۔ جو لوگ اس کا خیال نہیں کرتے ان کی جماعتیں آہستہ آہستہ ٹوٹ جاتی ہیں اور زورگھٹ جاتا ہے۔
اسلام نے اِس بات کو مدّنظر رکھا ہے کہ جو لوگ صاحبِ استعداد اور صاحبِ وسعت ہوں اور ان کے پاس دولت ہو اُن کا فرض ہے کہ وہ اپنے کمزوروں کی مدد کریں اور جو مستحق ہیں ان کو امداد دیں۔ ان کمزوروں میں بھی آگے دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک تو بڑے جوان ہوتے ہیں وہ تو کسی نہ کسی طرح اپنی پرورش کر سکتے ہیں۔ دوسرے کمزور اور چھوٹے بچے ہوتے ہیں جن میں نہ عقل ہوتی ہے نہ تجربہ، اِس لئے وہ اپنی پرورش کے لئے کچھ نہیں کر سکتے۔
پس ہمارے لئے یہ سوال سب سے زیادہ اہم ہے کہ ہمارے یہاں قادیان میں ایک بڑی جماعت یتامٰی کی موجود رہتی ہے۔ ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ ان کے والدین اپنے وطنوں اور عزیزوں کو چھوڑ کر یہاں آگئے اور موت نے ان کو اپنے بچوں سے جُدا کر دیا۔ اگر وہ بچے اپنے وطن میں ہوتے تو ان کے عزیز ان کی پرورش کسی نہ کسی طرح کرتے لیکن وہ تو اپنے تمام عزیزوں کو چھوڑ کر یہاں آگئے تھے اور یہاں ہی اُنہوں نے اپنے عزیز بنائے تھے اور یہاں ہی اُن کی رشتہ داریاں ہوتی تھیں۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ بیرونی جماعتوں سے آتے ہیں اور والدین کے فوت ہو جانے پر کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچ جاتے ہیں۔
اب یتیموں کے متعلق ایک تو مقامی جماعت کا فرض ہے۔ دوسرے تمام جماعت کا بھی فرض ہے۔
بہ لحاظ مقامی ہونے کے قادیان کی جماعت کا فرض ہے اور بہ لحاظ تمام جماعت کا مرکز ہونے کے بیرونی جماعتوں کا بھی فرض ہے۔ اِس وقت تک یتیموں کے متعلق کوئی احسن تجویز نہیں ہو سکی نہ ان پر کوئی توجہ کی جاسکی ہے، لیکن اَب مَیں نے حکم دیا ہے کہ تمام یتیموں کی فہرست بنائی جائے خواہ وہ قادیان کے ہوں یا باہر سے آئے ہوئے ہوں۔ جب وہ فہرست تیار ہو جائے گی تو اُن کے اخراجات کو جماعت پر پھیلایا جائے گا اور بہت حد تک اُن کی پرورش کا فرض قادیان کی مرکزی جماعت پر ہوگا۔ یتامیٰ کے لئے بعض تجاویز کی گئی ہیں مگر وہ ابھی مکمل نہیں ہوئیں مثلاً یہ کہ بعض لوگوں کے گھروں میں بچوں کو رکھا جائے، لیکن اِس میں یہ نقص ہے کہ بعض لوگ بچوں سے کام زیادہ لیتے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت کا کچھ خیال نہیں رکھتے اور یہ بھی تجویز کی گئی ہے کہ ایک یتیم خانہ بنایا جائے لیکن ظاہر ہے کہ یتیم خانہ کے لئے بڑے اخراجات کی ضرورت ہے اور وہ ہماری جماعت زیادہ برداشت نہیں کر سکتی۔ اِس لئے ایسی تجویز کی ضرورت ہے کہ خرچ بھی زیادہ نہ ہو اور بچوں کی نگہداشت بھی کافی ہوسکے۔ جس سے وہ آوارہ نہ ہوں۔ میرے نزدیک وہ بچے جو ابھی چھوٹے ہیں ان کو بعض لوگوں کے سپرد کیا جاسکتا ہے کہ وہ مہینہ یا پندرہویں دن ان کی تعلیمی و اخلاقی حالت کی رپورٹ کیا کریں اور علاوہ ان کی رپورٹ کے اور ذرائع سے بھی ان بچوں کی حالت کا علم حاصل کیا جایا کرے۔ مگر اس میں ایک اور بات بھی ہے کہ سارے گھرانے ایسے نہیں جو ایک ایک بچہ کو سنبھال سکیں۔ میرے نزدیک ایک لوکل ذریعہ یتیموں کی پرورش کا ہے اور اس کو زیادہ وسیع اور مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ اور وہ آٹا فنڈ ہے۔
اِس طرح پر کہ یتامیٰ کے لئے گھروں میں آٹا بھجوا دیا جایا کرے۔ پہلے بعض کو خرچ دیا جاتا ہے لیکن وہ خرچ پورا نہیں ہوتا۔ پس اِس طرح ان میں آٹا جمع ہو کر تقسیم ہو جائے۔ مَیں جانتا ہوں کہ بعض کاموں میں بہت دیر ہو جاتی ہے۔ لیکن
اِس کام کے لئے دیر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یتیموں کی ہر طرف سے چیخ و پُکار آرہی ہے۔
مَیں لوکل انجمن کو آگاہ کرتا ہوں کہ وہ دو دن کے اندر اندر اپنا جلسہ کرکے بتائے کہ وہ کیا کر سکتی ہے۔ باقی جس قدر کمی ہو گی وہ جماعت کے اِن فنڈوں سے پوری کر لی جائے گی جو ہمارے پاس آتے ہیں۔ دوستوں کو چاہئے کہ جس قدر بھی ان سے ہو سکتا ہے۔ یتیموں کی مدد کے لئے کوشش کریں اور جلد سے جلدبتائیں کہ ان سے یہ بوجھ کس قدر اُٹھ سکتا ہے۔
(الفضل ۸؍فروری ۱۹۱۹ء)