پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

(مہر محمد داؤد)

جون تا ستمبر۲۰۲۴ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

جون تا ستمبر۲۰۲۴ء کے دوران ہم نے ریاستی اور عوامی سرپرستی میں احمدیوں کے خلاف ہونے والے واقعات میں بتدریج اضافہ دیکھا۔ ۲۰۲۴ء کی عید الاضحی کے موقع پر پنجاب بھر کے مختلف اضلاع میں احمدیوں کو ہراسانی اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اور ساتھ ہی بہت سے احمدیوں کو پنجاب کے امن عامہ کے قیام کی خاطر بلا کسی جرم کے زیر حراست رکھا گیا۔ اس ناجائز گرفتاری کے عمل کے ساتھ ہی بہت سی جگہوں سے قربانی کے گوشت کو ضبط کرنے،احمدیہ مساجد کے راستے روکنے اور شدت پسند گروہوں کی جانب سے قتل کی دھمکیاں موصول ہونے کا سلسلہ بھی دیکھنے کو ملا۔

امسال ستمبر میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی شق پر پچاس سال پورے ہونے پر احمدیت مخالف جذبات کا طوفان برپا ہو گیا۔ ملک گیر ریلیوں،کانفرنسوں اور بڑے پیمانے پر منعقد کی جانے والی تقریبات میں احمدیت مخالف بیانیہ،مزید نفرت اور احمدیوں سے مکمل طور پر معاشی مقاطعہ کرنے پر زور دیا گیا۔ اس کی ایک بڑی مثال ختم نبوت ٹرین مارچ کا جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ آنا اور پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کی جانب سے نفرت انگیز تقاریر میں منظم طور پر احمدیوں کے معاشی مقاطعہ کی باز گشت سنائی دی۔

اسی طرح دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں نے آنحضورﷺ کے یوم ولادت کو ملک بھر میں احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی،تشدد اور اشتعال انگیزی کے لیے استعمال کیا۔ فیصل آباد، ننکانہ صاحب، کراچی اور ربوہ جیسے اضلاع میں احمدیوں کو براہ راست قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ مبارک ثانی کے مقدمے میں صاف نظر آیا کہ کیسے عدالتی نظام بھی احمدیت کی مخالفت میں سرگرم ہے۔

فروری میں جب ایک احمدی کو سپریم کورٹ نے قرآن کے ممنوعہ ترجمہ کی تقسیم کے مقدمے میں بری کیا تو اس پر مذہبی جماعتوں نے عدلیہ کے خلاف ایسی مہم چلائی جس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ حالانکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل ۲۰ سب کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ عدلیہ اپنے اوپر یہ دباؤ برداشت نہ کر سکی لہٰذا سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کو تبدیل کر دیا اور احمدیوں کو دی گئی مذہبی آزادی پر قدغن پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔سپریم کورٹ نے نہ صرف احمدیوں کی مذہبی آزادی کے حق کا انکار کیا بلکہ شدّت پسندانہ تشریحات کرتے ہوئے خود کو احمدیوں کے معاشی مقاطعہ کرنے والوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ عدالتِ عالیہ کے اس فیصلے نے مذہبی شدت پسندی کو آئین پر برتری دینے کی مثال قائم کر دی ہے۔عدلیہ کا یوں ہتھیار ڈال دینا صرف ایک مقدمے کے فیصلے کے بعد کے نتائج کے علاوہ اور کئی چیزوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

ماہ جون میں نارووال میں احمدی احباب کی ناجائز گرفتاریوں سے پاکستان میں احمدیوں کی ابتر صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس معاملے کا آغاز ایک غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا جہاں کسی نے کچھ کاغذ باہر پھینک دیےاور اس کے بعد مشتعل ہجوم اور پولیس نے احمدیوں کے گھروں پر چھاپے مارنے شروع کر دیے۔جماعت احمدیہ کی مخدوش صورتحال کا اندازہ منڈی بہاؤالدین میں مقامی شدّت پسندوں کی جانب سے احمدیوں کے گھروں اور گاڑیوں کو لگائی جانے والی آگ کے ذریعے خوف وہراس پھیلائے جانے سے کیا جاسکتا ہے۔

معاشرے کی جانب سے احمدیوں پر کیے جانے والے ظلم و تشدد کا اندازہ تعلیمی اداروں کے اندر احمدی طلبہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکسلا میں مقامی احمدی مبلغ کے بچوں سے دھمکی آمیز سلوک احمدی طلبہ کو تعلیمی ادارو ں کے اندر درپیش مسائل کی خوب عکاسی کرتا ہے۔

جون میں بڑی تعداد میں احمدیہ مقدس مقامات پر شدت پسندوں کے حملے اور انتظامیہ کی جانب سے ان کی حمایت دیکھنے کو ملی۔ لاہور میں ایک احمدیہ مسجد پر پولیس نے چھاپہ مارا اور احمدی احباب بشمول خواتین اور بچوں کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ مسجد کی ناجائز تلاشی اور بعد میں اسے سیل کردینے کا عمل احمدیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور انہیں معاشرے میں مزید تنہا کرنے کی ایک واضح مثال ہے۔ احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی نے وفات یافتہ احمدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کے ذریعے احمدیوں کو تکلیف اور رنج پہنچانے میں اَور اضافہ کر دیا ہے۔ متعدد مقامات پر احمدیہ قبرستانوں میں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی اور انتظامیہ یا تو ان شرپسندوں کے ساتھ تھی یا اُن کی خاموش حمایت کرتی رہی۔

مجموعی طور پر ماہ جون سے ماہ ستمبر تک کا عرصہ احمدیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدّد،منظم امتیازی سلوک اور انتظامیہ کی جانب سے احمدیوں کی حفاظت کو کلیۃً نظر انداز کرنے کا غماض ہے۔ قانونی جوازوں کے ساتھ کیا جانے والا ظلم و ستم، معاشی مقاطعہ اور احمدیوں پر کیے جانے والے حملے فوری بنیادوں پر بین الاقوامی انتظامیہ کی توجہ اور مداخلت کا تقاضا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی مندرجہ بالا واقعات اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں سے کیے جانے والے سلوک کی وجہ سے پاکستان میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں باہمی تعاون اور کھلے دل سے ایک دوسرے کو قبول کرنے کی فضا جنم لے سکے۔

عید الاضحی ۲۰۲۴ء کے موقع پر احمدیوں کے ساتھ کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

عید الاضحی کے موقع پر احمدیوں کے خلاف انتہائی حد تک ناجائز قانونی کارروائیاں کی گئیں۔گذشتہ چند برسوں سے احمدیوں کے خلاف عید کے مواقع پر حکومتی انتظامیہ کی ایسی کارروائیاں ایک وطیرہ بنتا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں جماعت احمدیہ کے ممبران کو ہراساں کیا گیا، دھمکایا گیا اور انہیں عید کے موقع پر مذہبی رسومات ادا کرنے سے روکا گیا۔باوجود آئین میں موجود اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے قوانین اور بین الاقوامی انسانی حقوق ادا کرنے کی ذمہ داریوں کے حکومتی انتظامیہ ہر بار احمدیوں کے حقوق کے تحفظ میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اور یہ ناکامی ہر عید پر پہلے سے زیادہ بڑھتی جارہی ہے۔

مختلف اضلاع میں تیس احمدیوں کو حراست میں لیا گیا۔ گوجرانوالہ میں آٹھ احمدیوں کو گرفتار کیا گیا۔ سرگودھا،ٹوبہ ٹیک سنگھ اور رحیم یار خان میں بھی ایسی ہی صورتحال رہی۔ شیخوپورہ میں پانچ احمدیوں کو گرفتار کیا گیا جنہیں بعد میں مجسٹریٹ کے حکم پر رہا کر دیا گیا۔ سیالکوٹ میں سترہ احمدیوں کو حراست میں لیا گیا جس سے حالات مزید سنگین ہو گئے۔ نارووال،کراچی اور عمر کوٹ میں بھی ایسے ہی واقعات ہوئے جہاں گرفتاری کے بعد احمدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

چکوال میں تین معروف احمدیوں کو امن عامہ کے قیام کی خاطر حراست میں لینے کے قانون کے تحت گرفتارکر لیا گیا اور عید کے تہوار میں شامل ہونے سے روک دیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران نے احمدیوں سے شورٹی بانڈپر دستخط کروائے کہ کوئی بھی احمدی قربانی نہیں کرے گا۔ ۱۹۶۰ء کے امنِ عامہ کے قیام کے قانون کو احمدیوں کے خلاف کھلے عام استعمال کیا گیا۔ اس قانون کے تحت پنجاب حکومت کسی بھی فرد کو تین ماہ تک بنا کسی مقدمےکے قید رکھ سکتی ہے تاکہ اس کی وجہ سے امن عامہ خراب نہ ہو۔اس قانون کے تحت تئیس احمدیوں کو حراست میں لیا گیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب احمدیت مخالف قوتوں اور قانونی ڈھانچے کے ‘باہمی تعاون’ کی خطرناک مثال قائم کی گئی۔ اور احمدیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کو قانونی جواز فراہم کیا گیا۔

امن عامہ کے اس قانون کا احمدیوں کے خلاف ایسا استعمال واضح کرتا ہے کہ حکومت آئین و قانون کی آڑ میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ظلم وستم روا رکھ رہی ہے۔ اس سے ایک ایسی صورتحال جنم لے رہی ہے جہاں احمدیوں کی جانب سے کسی بھی مذہبی روایت پر عمل درآمد اکثریتی مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت سکتا ہے۔ نتیجۃً احمدیوں کو حراست میں لے کر اُن پر ظلم و ستم کیا جا سکتا ہے۔

دھمکیاں

گرفتاریوں کے علاوہ احمدیوں کودھمکیوں اور تحقیر آمیز رویے کابھی سامنا کرنا پڑا۔جہلم میں عاصم رضوی نے ایک ریلی میں قربانی کرنے والے احمدیوں کو پھانسی پر لٹکانے کی دھمکی دی اور ریلی میں کھلے عام ہتھیاروں کی نمائش بھی کی گئی۔

ضبطی اور عباد ت پر پابندی

احمدی اس خوف میں مبتلا رہے کہ انہیں عید کی نماز اور قربانی سے ناجائز طور پر روکا جائے گا۔ گوجرانوالہ میں احمدیوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ عید کی نماز کا ایسا وقت مقرر کریں جس سے جماعت کے ممبران کے لیے مشکل پیدا ہو۔ فیصل آباد اور کراچی میں شدت پسندوں نے پولیس کو ایسی شکایات پہنچائیں جن کی وجہ سے احمدیوں کو نماز عید سے روکا گیا اور قربانی کے جانور اور ان کا گوشت ضبط کر لیا گیا۔ کئی اضلاع میں پولیس نے احمدیوں کو مساجد میں جانے سے روک دیا جس کی وجہ سے فوری طور پر عید کی نماز ادا کرنے ک لیے متبادل جگہ کا انتظام کرنا پڑا۔

مساجد پر حملے

کوٹلی آزاد جموں کشمیر میں ڈیڑھ سو کے قریب شدّت پسندوں نے احمدیہ مسجد پر حملہ کر دیا۔ انہوں نے مسجد پر گولیاں برسائیں اور مسجد کے مینار اور محراب کو مسمار کر دیا۔ درایں اثنا پولیس احمدیوں کے تحفظ کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے گھروں پر نظر رکھے ہوئے تھی اور اس تلاش میں تھی کہ کوئی احمدی قربانی تو نہیں کر رہا۔

وزارتِ داخلہ کی جانب سے صوبائی اور ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ ہر حال میں احمدیوں کی املاک کی حفاظت کو یقینی بنائیں لیکن اس کے باوجود یہ سب ظلم و ستم کیا گیا۔ وزارت کی جانب سے دو روز قبل ہی جاری کردہ اس حکم سے واضح طور پر صرفِ نظر کیا گیا۔

قانونی اور عدالتی ناکامی

اس عید کے موقع پر احمدیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی جڑیں پاکستان کے قانونی ڈھانچے،خاص طور احمدیت مخالف قوانین سے ملتی ہیں جو احمدیوں کو عوامی سطح پر اسلامی شعائر کے استعمال سے روکتے ہیں۔بار ایسوسی ایشنوں نے بھی اس میں اپنا خاص کردار ادا کیا ہے جنہوں نے ایسی قراردادیں منظور کی ہیں جو براہ راست احمدیوں کو نشانہ بناتی ہیں۔بطور خاص لاہور ہائی کورٹ نے اور دیگر کئی بار ایسوسی ایشنوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ احمدیت مخالف قوانین کو استعمال کر کے احمدیوں کو مذہبی رسومات بالخصوص عید کی نماز ادا کرنے اور قربانی کرنے سے روکا جائے۔

اس سال بھی لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایسا ہی خط مختلف اداروں کو لکھا جس میں واضح ہدایت دی گئی تھی کہ احمدیوں کو ہر حال میں نمازا ور قربانی سے روکا جائے۔

دوسری آئینی ترمیم کے پچاس سال پورے ہونے پر جماعت احمدیہ کے خلاف کارروائیاں

ستمبر ۲۰۲۴ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی ۱۹۷۴ء میں کی گئی دوسری آئینی ترمیم پر نصف صدی پوری ہونے پر جماعت احمدیہ کے خلاف جلسے،جلوس اور ریلیوں میں انتہائی تیزی دیکھنے میں آئی۔ ان واقعات نے جماعت احمدیہ پر ہونے والے ظلم وستم کو نمایاں کر دیا اور ساتھ ہی اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ کیسے مذہبی جماعتوں کا اثر ریاست پر بڑھتا جا رہا ہے اور کیسے ایک معصوم جماعت کو معاشرے سے مزید کاٹا جا رہا ہے۔

انجمن طلبہ اسلام کی جانب سے ۳۱؍اگست سے یکم ستمبر تک کراچی سے ربوہ تک کا ٹرین مارچ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ مارچ صرف دوسری آئینی ترمیم کی حمایت میں ہی نہیں تھا بلکہ غیراحمدیوں کے خودتراشیدہ عقیدۂ ختم نبوت کی بھی حمایت کا اعلان تھا۔ یہ وہی عقیدہ ہے جس کو بنیاد بنا کر احمدیوں کو اسلامی اور معاشرتی دائرے سے خارج کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔ اگرچہ مختلف شہروں سے لوگ اس مارچ میں شامل ہوئے لیکن ربوہ میں اس مارچ کے اختتام کرنے کا مقصد احمدیوں کی دل آزاری کرنا تھا۔ گو کہ پولیس کی بھاری نفری ربوہ ریلوے سٹیشن پر تعینات تھی اور مارچ کے شرکاء کو ٹرین سے نیچے اترنے نہ دیا گیا لیکن پھر بھی یہ لوگ اس شہر میں خوف وہراس پھیلانے کا موجب ضرور بنے۔

مزیدبرآں مینارِ پاکستان پر جمعیت علمائے پاکستان کی جانب سے ایک بہت بڑا جلسہ ہوا جس میں مولانا فضل الرحمان بھی شامل تھا۔ اور اس میں احمدیت مخالف تقاریر کی گئیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button