ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز
(دورۂ جرمنی و بیلجیم۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ ہفتم)
جلسہ جرمنی لجنہ سیشن
مورخہ ۸؍ستمبر ۲۰۱۸ء جلسہ سالانہ جرمنی کا دوسرا روز تھا، جس دوران حضورِانور کی تمام تر مصروفیات دن بھر جاری رہیں۔
حضورِانور نے لجنہ اماء اللہ سے خطاب کے بعد جلسہ کے مہمانوں سے انگریزی میں خطاب فرمایا اور پھر شام کو مختلف ملاقاتیں بھی کیں۔لجنہ سے خطاب میں حضورانور نے تاریخ میں خواتین کی عظیم اور تاریخی قربانیوں کا ذکر فرمایا جن کی تصدیق قرآن مجید اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں سے ہوتی ہے۔ حضورِانور نے حضرت ہاجرہؑ، حضرت مریمؑ اور فرعون کی بیوی کی مثالیں پیش فرمائیں۔
اس کے بعد حضورِانور نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے عہدِ مبارک سے حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے پاکیزہ نمونوں کا ذکر فرمایا اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے لے کر آج تک کی احمدی مسلم خواتین کی قربانیوں پر روشنی ڈالی۔
مختلف مثالیں بیان کرنے کے بعد حضورِانور نے فرمایا کہ آج کے احمدی مسلمانوں کے لیے صرف ان واقعات یا مثالوں کو سننا کافی نہیں ہے بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ گذشتہ بزرگوں کے پاکیزہ نمونوں کی پیروی کی بھی بھرپور کوشش کریں۔ حضور نےفرمایا: پس ان قربانی کے واقعات اور اپنی تاریخ کو صرف علمی اور وقتی حظّ اُٹھانے کے لیے نہ سنیں اور پڑھیں بلکہ یہ عزم کریں کہ ہم نے اپنے مقصدِ پیدائش کو پانا ہے اور اپنی نسلوں کو بھی اس کو حاصل کرنے والا بنانا ہے اور وہ ہے الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبّت اور الله تعالیٰ کا حقیقی عابد بننا۔ الله تعالیٰ اس کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔
ایک معرکہ آرا خطاب
دوپہر کے کھانے کے مختصر وقفے کے بعد حضورِانور دوبارہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے تاکہ ان ایک ہزار سے زائد مہمانوں اور معززین سے خطاب فرما سکیں جو جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
حضورِانور کی خلافت کے دوران فرمودہ خطابات ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ آنے والی نسلیں انہیں جنگ اور تنازع سے بچانے کی تاریخی اور عظیم کاوشوں کے طور پر یاد رکھیں گی۔ مورخہ ۸؍ستمبر ۲۰۱۸ء کو جرمنی کے جلسہ سالانہ سے فرمودہ خطاب بھی یقیناً انہی میں سے ایک تھا۔اپنی خلافت کے دوران حضور نے بارہا معاشرے میں انصاف کی اہمیت اور تمام افراد اور گروہوں کے اپنے اپنے کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ دنیا میں دیرپا امن قائم کیا جا سکے۔
حضورِانور نے انسانیت کو باہمی رواداری اور احترام کے فروغ اور ہر قسم کے نسلی تعصبات کی مکمل نفی کی طرف متوجہ فرمایا۔ تاہم ان کی تنبیہات اور انسانیت کو تباہی کے دہانے سے بچانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود دنیا میں ظلم، ناانصافی اور تنازعات دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
شاید حالیہ برسوں میں مغربی دنیا میں کوئی مسئلہ اقوام یا عوام کو امیگریشن کے مسئلے سے زیادہ تقسیم نہیں کر سکا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں صدر ٹرمپ کا انتخاب ہو یا برطانیہ کا یورپی یونین چھوڑنے کا فیصلہ دونوں بڑی حدّتک اسی مسئلے کا شاخسانہ تھے۔ یہ بات واضح ہے کہ بہت سے مغربی ممالک میں دائیں بازو کی انتہا پسندی کا دوبارہ اُبھرنا بھی اس معاملے سے جڑا ہوا ہے۔
مغربی ممالک میں یہ تصور جڑ پکڑ چکا ہے کہ غیر ملکیوں نے ان ممالک کو بدل دیا ہے جنہیں انہوں نے اپنا وطن بنایا ہے، کچھ ممالک نے بہت سخت امیگریشن پالیسیز اپنائیں اور بڑی تعداد میں پناہ گزینوں یا دیگر مہاجرین کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ دوسری طرف جرمنی جیسے کچھ ممالک نے حالیہ برسوں میں بہت فراخ دلانہ پالیسیاں اپنائیں۔ تاہم بڑے پیمانے پر امیگریشن اور غیر ملکیوں کی اچانک آمد کو سنبھالنے سے اندرونی چیلنجز اور مسائل بھی پیدا ہوئے۔
ایک تقسیم شدہ دنیا کے تناظر میں حضورِانور نے ایک اہم خطاب کیا جس میں آپ نے براہِ راست امیگریشن اور غیرملکیوں کے مغربی ممالک میں انضمام کے مسائل کو مخاطب کیا۔
حسبِ معمول حضورِانور کا خطاب انتہائی منصفانہ اور متوازن تھا۔ ابتدا میں ہی حضور نے واضح فرما دیا کہ ان کے نزدیک مغربی ممالک میں محض امیگریشن کے خوف کی بجائےمسلمانوں کے بڑے پیمانے پر آنے کا اور اسلام کا خوف زیادہ ہے۔ تاہم، دوسری جانب حضورِانور نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کچھ خدشات اور خوف حقیقی بھی تھے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ کیا مسلمانوں کی جانب سےغلط افعال اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر کیے جا رہے ہیں؟ غور کریں کہ کیا اسلام واقعی انتہاپسندی کی اجازت دیتا ہے یا کہ وہ ان لوگوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کرتا ہے جو فتنہ اور نفرت پھیلاتے ہیں؟
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ کیا اسلام مسلمانوں کو اپنے دین کے نام پر ملک کے قوانین توڑنے کی اجازت دیتا ہے؟ معاشرے میں مسلمانوں کے کردار کے حوالے سے اسلام ان سے کیا توقعات رکھتا ہے؟ کیا اسلام مسلمانوں کو ریاست پر بوجھ ڈالنے کی ترغیب دیتا ہے یا وہ انہیں محنت کرنے، وفادار رہنے اور اس معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے جہاں وہ رہتے ہیں؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ غلط کام کرنے والے مسلمان اپنے مذہب کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے خدشات جائز ہیں۔ لیکن اگر ان کے اعمال کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہو، اگر اسلام مخالف گروہ ایسی نفرت انگیز باتیں پھیلا رہے ہوںجن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہ ہو، بلکہ صرف خیالات اور جھوٹ پر مبنی ہوں تو پھر کیا ہو گا؟
حضورِانور نے قرآن کریم کی مختلف آیات کا حوالہ دیا جو ثابت کرتی ہیں کہ اسلام عقیدے کی آزادی اور ضمیر کی آزادی سکھاتا ہے۔ آپ نے ایسی آیات پیش کیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کرے۔
حضورِانور نے ان الزامات کی تردید کی کہ مسلمان مَردوں کو خدانخواستہ خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور انہیں ہراساں کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بلکہ ایسے شیطانی اعمال اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں اور اسلام نے ایسے جرائم کے لیے سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔ حضورِانور نے مہاجرین کی اپنے اپنائے ہوئے وطن کے حوالے سے ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا بھی ذکر کیا۔حضورِانور نے فرمایا کہ کسی بھی مہاجر کو اس احساس کے ساتھ دوسرے ملک میں داخل نہیں ہونا چاہیے کہ اسے کوئی حق حاصل ہے بلکہ انہیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ مقامی معاشرے کو کیا دے سکتے ہیں؟ مَیں نے کئی بار کہا ہے کہ مہاجرین کو خود کو اس قوم کا مقروض سمجھنا چاہیے جس نے انہیں قبول کیا ہے۔ انہیں حکومت اور عوام دونوں کا شکرگزار ہونا چاہیے اور اس احسان کا بدلہ چکانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنا وقت صرف ریاست سے فوائد اور الاؤنسز طلب کرنے میں ہی ضائع نہ کریں بلکہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے وہ معاشرے کی بہتری میں اپنا حصّہ ڈالنے کی کوشش کریں۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اگرچہ پناہ گزینوں کو مجبوراً ایسے معمولی یا بنیادی کام کرنے پڑیں جن کے لیے وہ خود کو زائد تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ بےکار بیٹھیں اور ریاست سے اپنی تمام ضروریات پوری کرنے کی توقع رکھیں۔ بصورتِ دیگر وہ مہاجرین جو معاشرے میں اپنا حصّہ ڈالنے میں ناکام رہتے ہیں، وہ معاشرتی مسائل میں اضافے کا سبب بنیں گے، وسائل نہ رکھنے والے افراد میں بےچینی بڑھانے کا سبب بنیں گے۔ مزید برآں اگر حکومتیں مہاجرین کو کچھ فوائد یا مالی امداد فراہم کرتی ہیں تو انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مقامی لوگوں کی ضروریات کو نظر انداز نہ کریں۔
مہاجرین پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا ذکر کرنے کے بعد حضورِانور نے ترقی یافتہ اقوام اور ان کے عوام کو وسعتِ قلبی اور دوسروں کی تکالیف پر ہمدردی کا اظہار کرنے کی بھی تلقین فرمائی۔
حضورِانور نے انتہائی خوبصورتی سے بیان فرمایا کہ معاشرہ ان مہاجرین کو ردّ نہ کرے جو اپنی کسی غلطی کے بغیر تکالیف کا شکار ہیں، معاشرہ ان بے گناہ لوگوں کو نظر انداز نہ کرے جو صرف امن سے زندگی گزارنے کا موقع چاہتے ہیں اور جو اپنے رہنے والے ملک کے قوانین کی پابندی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بجائے ہمیں ان لوگوں کی مدد کے لیے موجود ہونا چاہیے جن کی زندگیاں بکھر چکی ہیں، جو اذیتوں کا شکار ہیں اور جو مکمل طور پر بے بس، کمزور اور لاچار ہیں۔ آئیں ہم اپنی انسانیت ثابت کریں، آئیں ہم اپنی ہمدردی کا مظاہرہ کریں، آئیں ہم ان لوگوں کا بوجھ اُٹھانے کے لیے موجود ہوں، جو شدید ضرورت مند ہیں۔حضورِانور نے اپنے خطاب کا اختتام اس خواہش کے ساتھ کیا کہ انسانیت بڑھتی ہوئی مادیّت کی راہ سے ہٹ جائے اور خدا تعالیٰ کے وجود کو قبول کرے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ بجائے اس کے کہ ہم خدا تعالیٰ کے وجود کے ذریعے امن کی تلاش میں متحد ہوں، انسانیت صرف مادی وسائل کے ذریعے امن حاصل کرنے کی کوششوں میں الجھ چکی ہے۔ دن بدن انسانیت مذہب اور روحانیت سے دُور ہوتی جا رہی ہے اور اس کے نتائج خوفناک ہیں۔
(مترجم و انتخاب:قمر احمد ظفر)