حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

توکّل خداتعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہئے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۸؍نومبر۲۰۱۴ء)

ایک اور واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ عظیم اول کا سنایا کرتے تھے بلکہ خود بھی فرمایا کہ میں کئی مرتبہ یہ سنا چکا ہوں کہ ایسی حالت میں جب دہریہ بھی خدا تعالیٰ پر ایمان لے آتے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں ۱۹۱۸ء میں جرمنی نے اپنی تمام طاقت جمع کر کے اتحادی فوجوں پر حملہ کر دیا۔ تو اس وقت انگریز فوجوں پر یا اتحادی فوجوں پر ایک ایسا وقت آیا کہ کوئی صورت ان کے بچاؤ کی نہیں تھی۔ سات میل لمبی دفاعی لائن ختم ہو گئی۔ فوج کا کچھ حصہ ایک طرف سمٹ گیا، کچھ حصہ دوسری طرف سمٹ گیا۔ اور اس میں اتنا خلاء پیدا ہو گیا کہ جرمن فوجیں بیچ میں سے آسانی سے گزر کر پچھلی طرف سے آ کے حملہ کر سکتی تھیں اور انگریز فوج کو تباہ کر سکتی تھیں۔ اس وقت محاذ پر جو جرنل تھا اس نے کمانڈر اِنچیف کو اطلاع دی کہ میرے پاس اتنی فوج نہیں ہے۔ یہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ اس ٹوٹی ہوئی صف کو درست کرنا اب میرے بس میں نہیں رہا۔ یہ ایسا وقت تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ آج ہماری فوج تباہ ہو جائے گی اور انگلستان اور فرانس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ایسے وقت میں جب وہاں کمانڈر کی تار پہنچی ہے، انتہائی بے بسی کی حالت کی تار کہ بس اب تباہی آئی کہ آئی۔ تو جب کمانڈر کی یہ تار پہنچی تو اس وقت وزیر اعظم وزراء کے ساتھ میٹنگ میں بیٹھا تھا۔ کوئی اہم مشورہ ہو رہا تھا۔ اس وقت جب اطلاع پہنچی تو وزیر اعظم کر ہی کیا سکتا تھا۔ ایک تو کوئی زائد فوج موجودنہیں تھی اور اگر ہوتی بھی تو اتنی جلدی اس جگہ فوج بھیجی نہیں جا سکتی تھی۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ یورپ کا مذہب بیشک عیسائیت ہے لیکن اگر اسے اندر سے دیکھا جائے، چھان بین کی جائے تو بالکل کھوکھلا ہے اور عملاً لوگوں کی اکثریت مادہ پرست اور دہریہ ہیں۔ اور اِس زمانہ میں تو اسّی فیصد عملاً دہریہ ہونے کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ لیکن بہر حال اس وقت وہ مادہ پرست یورپ جس کی نگاہ عموماً خدا تعالیٰ کی طرف نہیں اٹھتی تھی، اپنے وسائل پر ان کو بڑا گھمنڈ اور مان تھا اور ایسا طبقہ جو حکومت کر رہا ہو اسے تو ویسے بھی اپنی طاقت اور قوت پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے۔ ان میں خدا تعالیٰ کا خانہ صرف نام کا ہی ہوتا ہے۔ تو ان کے اس وقت سب سے بڑے لیڈر، سردار نے جو اپنی طاقت اور قوت اور شان و شوکت کے فخر میں مست رہتا تھا اور ان کو یقین تھا کہ ہماری اتحادی فوجیں ہیں اب ہم جیت جائیں گے، اس نے بھی محسوس کیا کہ اس وقت کوئی ظاہری مددنہیں ہو سکتی جو ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا سکے۔ اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ آؤ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہماری مدد کرے۔ چنانچہ سب گھٹنوں کے بل جھک کر دعا کرنے لگے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ کیا تعجب ہے کہ وہ اس دعا کے نتیجہ میں ہی اس تباہی سے بچ گئے ہوں۔ پس جیسا کہ مَیں نے یہ آیت پڑھی ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشکل وقت میں ہر دوسری ذات تمہارا ساتھ چھوڑ جاتی ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو ساتھ رہتی ہے، جو کام آتی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اضطرار میں کی گئی جو دعائیں ہیں وہ قبول ہوتی ہیں چاہے دہریہ بھی دعا مانگ رہا ہو۔ اللہ تعالیٰ دہریوں کو بھی اپنی ہستی کا ثبوت دینے کے لئے بعض دفعہ نشان دکھاتا ہے۔ اگر اس کی قسمت میں ہو تو وہ نشان ہی اس کی عاقبت سنوارنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور آجکل بھی ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں کہ دہریہ کسی نشان کو دیکھ کر خدا تعالیٰ پر یقین لے آتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی کسی نبی یا اس کی جماعت کا مقابلہ کرے اور پھر چاہے وہ جتنی بھی اضطرار کی حالت میں دعائیں کر رہا ہو پھر وہ قبول نہیں ہوتیں کیونکہ یہ دعا اللہ تعالیٰ کی اس تقدیر کے خلاف ہے جس نے ہو کر رہنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کے انبیاء نے کامیاب ہونا ہے۔ بہر حال جرمنی اور انگلستان کی لڑائی میں تو دونوں فریق ایک ہی جیسے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک کی عاجزی سے کی گئی دعا کو سن لیا اور ایسے سامان پیدا ہوئے کہ جرمن فوج کو خبر نہ ہو سکی کہ ان کے سامنے کی صف ٹوٹ چکی ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے اس صف کے ٹوٹے ہوئے ہونے سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس کا مزید یہ بھی واقعہ ہے کہ اس وقت صرف یہ نہیں ہوا تھا کہ جرمنوں کو پتا نہیں چلا اس لئے جنگ کا پانسا ان کے حق میں نہیں پلٹا بلکہ کمانڈر اِنچیف نے ایک افسر کو بلا کر کہا جس پر اس کو یقین تھا کہ یہ بڑے کام کا آ دمی ہے اور کوئی نہ کوئی تدبیر نکال لے گا کہ مجھ سے زیادہ سوال نہ کرنا۔ میدان جنگ کی یہ صورتحال ہے۔ وہاں فوج کوئی نہیں ہے۔ صف ٹوٹ چکی ہے۔ راستہ خالی ہے۔ اب جاؤ اور کوئی انتظام کرو کہ عارضی طور پر کسی طرح کوئی صف بندی ہو جائے۔ وہ افسر بجائے اس کے کہ کمانڈر اِنچیف سے یہ سوال کرتا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ یہ صف جوڑی جا سکے جب کہ فوجیں اِدھر اُدھر ہو چکی ہیں اور کوئی ذریعہ نہیں، اپنی گاڑی میں بیٹھا۔ سیدھا اس جگہ گیا جہاں غیر فوجی کارکن فوج کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ وہاں گیا اور اس نے ان کو جمع کیا اور کہنے لگا کہ تمہیں ملک کی خدمت کا بڑا شوق ہوتا تھا اور فوج کو لڑتا دیکھ کر تمہارے جذبات بھی بھڑکتے تھے، دل میں تمنا پیدا ہوتی تھی کہ ہم بھی ملک اور قوم کے کام آ سکیں تو آؤ آج موقع ہے۔ آگے بڑھو اور صف بندی کرو۔ جو تھوڑا بہت اسلحہ تھا انہیں دیا۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں جو کارکن تھے ان کو لے گیا اور وہاں کھڑا کر دیا۔ اور بہر حال اس طرح چوبیس گھنٹے گزر گئے اور اس عرصہ میں دوسرے علاقے سے فوج سمٹ کر وہاں پہنچ گئی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد۱۲ صفحہ ۱۲۰تا۱۲۲)

تو بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا دار لوگ بھی مشکل وقت میں جب کوئی سہارا نظر نہ آ رہا ہو تو خدا تعالیٰ کے سہارے کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تدبیر تو اپنی جگہ ہے، جو ہوتی ہے۔ تو وہ لوگ جو مادہ پرست ہیں جب ایسے نظارے دکھاتے ہیں تو جن لوگوں کا دعویٰ اور اوڑھنا بچھونا ہی خدا تعالیٰ کی طرف نظر رکھنے کا ہے اور ہونا چاہئے ان کو کس قدر اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہماری نظر ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرف رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لئے یہ دعا سکھائی ہے جو ہر نماز میں پڑھنے کا حکم ہے اور ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم ہے تا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری نظر نہ ہٹے۔ کبھی ہم دنیاوی سہاروں کی طرف نظر نہ رکھیں۔ کبھی ہم پہلے یہ نہ سوچیں کہ دنیاوی سہاروں کی طرف پہلے رجوع کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف بعد میں۔ ہاں ظاہری تدبیر کا بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کرو اور کرنی چاہئے۔ لیکن توکّل جو ہے خدا تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ جب سمندر کے طوفان میں پھنس گئے تو خدا تعالیٰ کو پکارنا شروع کر دیا۔ جب صفیں ٹوٹ گئیں تو پھر خدا یاد آیا۔ بلکہ ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا سکھا کر خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا کہ میری طرف اور صرف میری طرف تمہاری نظر ہونی چاہئے۔ اور یہ دعا ہے۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن(الفاتحہ: ۵)۔ ایک لمبی حدیث ہے، اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بندہ کہتا ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مانگا ہے میں اسے دوں گا۔ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ حدیث نمبر۸۷۸)

پس کیا یہ مسلمانوں کی خوش قسمتی نہیں کہ اللہ تعالیٰ دعاؤں کی قبولیت کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن یہ مستقل ضمانت اس وقت بنتی ہے جب عبادت کی طرف اور خالص ہو کر عبادت کی طرف مستقل نظر رہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا صرف مشکل وقت میں گرفتار ہو کر وہ دعا نہ ہو۔ یہ تو دہریہ بھی کر لیتے ہیں۔ ایسی دعا نہیں ہونی چاہئے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم احمدی ہیں اور ہم نے زمانے کے امام کے ہاتھ پر عہدِ بیعت کیا ہے۔ ہم نے اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کا عہد کیا ہے۔ ہم نے عُسراور یُسر، تنگی اور آسائش میں خدا تعالیٰ سے ہی مدد مانگنے اور غیر اللہ سے بیزاری کا عہد کیا ہے۔ ہمیں اپنے عہدنبھانے کے لئے کس قدر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کے مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ڈوبتے ہوئے دہریہ کی طرح خدا تعالیٰ کو نہیں پکارنا۔ ہم نے اعلیٰ معراج حاصل کرنے والے مومنین کی طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت اور استعانت کا ادراک حاصل کر کے اس پر عمل کرنا ہے۔ جس کا دعویٰ ہے کہ ہماری ساری قوت ہماری ساری طاقت اور ہمارا مکمل سہارا خدا تعالیٰ کے سامنے خدا تعالیٰ کے آگے جھک جانے میں ہے۔ ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ ہم نے اس کے لئے کیا کرنا ہے اور کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہماری عبادتیں اور ہماری خدا تعالیٰ سے مدد کی پکار کا وہ معیار ہے جو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق ہے؟ یا روزانہ بتیس مرتبہ فرض نمازوں میں طوطے کی طرح اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کو دھراتے ہیں اور بس کام ختم ہو جاتا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button