احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت میاں نور محمد صاحبؓ صحابی نے سنایا کہ ایک دفعہ کسی حاجت مند نے آپ کو مالی امداد کے لیے کہا۔ آپ کی جیب میں اس وقت جو کچھ تھا اس کے حوالے کر دیا۔ سائل خوش خوش چلا گیا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کہنے لگیں گھر کی ضروریات کا بھی خیال رکھا کریں، آپ نے ساری رقم اس کو دے دی ہے۔ مولوی صاحب نے فرمایا گھبراؤ نہیں، اللہ کارساز ہے۔ چنانچہ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دیوا سنگھ صاحب ڈوگرہ کی طرف سے دس روپیہ کا منی آرڈر آگیا۔
۱۴: میاں غلام قادرصاحب قادیان
بعض واقعات
(۱)حضرت میاں نور محمد صاحبؓ صحابی نے سنایا کہ ایک دفعہ کسی حاجت مند نے آپ کو مالی امداد کے لیے کہا۔ آپ کی جیب میں اس وقت جو کچھ تھا اس کے حوالے کر دیا۔ سائل خوش خوش چلا گیا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کہنے لگیں گھر کی ضروریات کا بھی خیال رکھا کریں، آپ نے ساری رقم اس کو دے دی ہے۔ مولوی صاحب نے فرمایا گھبراؤ نہیں، اللہ کارساز ہے۔ چنانچہ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دیوا سنگھ صاحب ڈوگرہ کی طرف سے دس روپیہ کا منی آرڈر آگیا۔
(۲)آپ کے صاحبزادہ حکیم محمد اسمٰعیل صاحب پیرکوٹی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ علی پور تشریف لے گئے۔ میں بھی ہمراہ تھا۔ ایک سرائے میں ہم ٹھہرے۔ رات کے وقت ایک غریب آدمی نے اپنی مفلسی اور بے کسی کا اظہار کرکے امداد کی درخواست کی۔ میرے پاس اس وقت ایک ہی روپیہ تھا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا روپیہ اس سائل کو دے دو۔ میں نے ضروریات سفر کا خیال کرکے عذر کیا۔ آپ نے کسی قدر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے روپیہ دینے کے لیے دوبارہ ارشاد فرمایا، چنانچہ میں نے وہ روپیہ سائل کو دے دیا۔
دوسرے دن صبح ہم بازار کی طرف نکلے، ایک دکاندار آپ کو دیکھتے ہی کہنے لگا بہت اچھا ہوا آپ یہاں ہی تشریف لے آئے، ہم تو پیرکوٹ آپ کے پاس جانے والے تھے۔ آپ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا ایک بیمار ہے اسے دکھانا ہے چنانچہ وہ آپ کو مریض کے پاس لے گیا۔ آپ نے معائنہ کے بعد نسخہ لکھ دیا اور اس نے واپسی کے وقت آپ کی جیب (میں) آٹھ روپے ڈال دیے۔
(۳)حکیم محمد اسماعیل صاحب پیرکوٹی بیان کرتے ہیں کہ پیرکوٹ کے ایک نواحی گاؤں میں دو غریب اشخاص کی زمین پر ان کے شرکاء نے قبضہ کر لیا وہ امداد کے لیے حضرت مولوی صاحب کے پاس آئے۔ آپ نے کوشش کرکے گوجرانوالہ میں مقدمہ دائر کروا دیا۔ لیکن مقدمہ گوجرانوالہ کی عدالت میں ان کے خلاف فیصل ہوگیا۔ آپ نے حق رسی کے لیے سیالکوٹ درخواست دےدی۔ اس زمانہ میں اگرچہ حضرت مولوی صاحب آنکھوں سے معذور ہو چکے تھے، لیکن ان بیکس مظلوموں کی داد رسی کے لیے آپ پیرکوٹ سے پاپیادہ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ پہنچے۔ رات چوہدری سکندر خاں صاحب کے ہاں قیام کیا جو حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بالقابہ کے دادا تھے اور صبح ان سے سفارشی چٹھی لے کر حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کے پاس سیالکوٹ پہنچے۔ انہوں نے مقدمہ کی نقل دیکھ کر فرمایا آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ اپیل منظور ہو جائے گی۔ چنانچہ تیسری پیشی میں ہی ان مظلوموں کے حق میں فیصلہ ہو گیا۔
(۴)حکیم محمد اسمٰعیل صاحب پیرکوٹی بیان کرتے ہیں کہ مظفرگڑھ میں ایک ہیزم فروش تھا جو شکل و صورت سے معزز آدمی معلوم ہوتا تھا۔ وہ اکثر مولوی صاحب کی نشست گاہ کے قریب سے گزرا کرتا تھا۔ ایک روز آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تم کون ہو تو اس ہیزم فروش نے بتایا کہ فلاں ذیلدار کا عم زاد بھائی ہوں اور اس نے زبردستی میری زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس لیے ایندھن بیچ کر اپنا پیٹ پالتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت مولوی صاحب کو سخت تکلیف ہوئی اور آپ نے کوشش کرکے عدالت میں دعویٰ دائر کروا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے خلوص اور جذبہ ہمدردی کو نوازا اور فیصلہ اس مظلوم کے حق ہوگیا۔ وہ ہیزم فروش اس خلاف توقع کامیابی پر بہت خوش ہوا اور شکرانہ نعمت کے طور پر اس نے اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ حضرت مولوی صاحب کے نام منتقل کرانا چاہا، لیکن آپ نے ایسا کوئی معاوضہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
آپ کے بعض دیگر اوصاف حمیدہ
احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے آپ فرقہ اہل حدیث سے منسلک تھے اور ان بدعتوں اور مشرکانہ رسوم سے جن میں بعض دوسرے فرقے ملوث نظر آتے ہیں، بکلی محترز تھے اور طبیعت پر موحدانہ رنگ غالب تھا۔ علمی اعتبار سے آپ اپنے علاقے میں منفرد وجود تھے۔
طبابت میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ اور کثرت سے لوگ آپ کے پاس علاج کے لیے آتے رہتے تھے۔ جب نزول الماء کے عارضہ سے آپ کی نظر بند ہوگئی تو بھی مریضوں کا یہ سلسلہ حسب سابق جاری رہا۔ فن تشخیص میں آپ کو کمال حاصل تھا اور بسااوقات صرف بیمار کی آواز سے مرض کو شناخت کر لیتے تھے۔ حکیم محمد اسمٰعیل صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ کے طبی کمالات کے پیش نظر حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک دفعہ آپ سے فرمایا تھا کہ اگر آپ باقاعدہ مطب کھولیں تو میں آپ کو بو علی سینا کی کتاب القانون کا ایک قلمی نسخہ دے سکتا ہوں۔ حکیم محمد حیات صاحب پیرکوٹی اکثر سنایا کرتے تھے کہ ابتدائی ایام میں جب حضرت مولوی صاحب قادیان جاتے تو حضور آپ کو گول کمرہ میں ٹھہرایا کرتے تھے اور مریضوں کو آپ کے پاس بھیج دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ’’آپ کے آنے سے مجھے بہت آرام ملتا ہے۔ بیماروں کو آپ دیکھ لیتے ہیں۔ اور میں سکون سے تالیف و تصنیف میں مشغول رہتا ہوں۔‘‘
جب بھی آپ قادیان حاضر ہوتے تو کچھ نہ کچھ نذرانہ محبت کے طور پر حضور کی خدمت میں ضرور پیش کرتے۔ بعض اوقات گھر سے کریل کے پھل کا اچار تیار کروا کر اور کئی دفعہ کھیس اور چوتہی خاص ڈیزائنوں کی بنوا کر حضور کے لیے بطور تحفہ لے جاتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آپ سے خاص محبت اور شفقت کا برتاؤ فرماتے۔
میاں عبدالرحمان صاحب پیرکوٹی اکثرسنایاکرتے تھے کہ ایک دفعہ میں بھی آپ کے ساتھ قادیان گیاتھا۔جمعہ کا دن تھا۔ہم سیدھے حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب کی دکان پرپہنچے۔انہوں نے اپنی چھوٹی بچی کے ذریعے حضورکی خدمت میں اطلاع بھجوائی کہ پیرکوٹ والے مولوی صاحب آئے ہیں۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس وقت مہندی لگارکھی تھی۔اسی حالت میں باہر تشریف لے آئے۔لڑکی نے آکربتایاکہ حضورآپ کا انتظارکررہے ہیں چنانچہ ہم گول کمرہ کی طرف چل پڑے اور چونکہ اس زمانہ میں حضرت مولوی صاحب کی نظر بندہوچکی تھی اس لیے حضرت اقدس نے خود آگے بڑھ کر آپ سے معانقہ کیا۔حضورکی یہ شفقت دیکھی تو حضرت مولوی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اورنہایت دردناک لہجہ میں آپ نے کہا
بردرآمد بندہ بگریختہ آبروازبہرعصیاں ریختہ
[ترجمہ ازمصنف: تیرے دروازے پر یہ بندہ گرتا پڑتا آن حاضرہواہے کیونکہ گناہوں اور ناسپاسیوں سے عزت بھی جاتی رہی۔]حضرت مولوی صاحب کی زبان سے یہ شعر سناتوحضرت اقدس بھی چشم پرآب ہوگئے اوراحوال پرسی کے بعد ہمارے قیام وطعام کاانتظام فرمایا۔
حکیم محمد اسماعیل صاحب پیرکوٹی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولوی صاحب بہت مؤدب تھے اور جب مسجدمبارک میں مجلس عرفان قائم ہوتی تو آپ اکثر پیچھے بیٹھتے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کئی دفعہ آپ کو مخاطب کرکے فرماتے۔مولوی صاحب آپ آگے تشریف لے آئیں چنانچہ آپ اٹھ کر حضورکے قدموں میں بیٹھ جاتے۔آپ نہایت متدیّن بزرگ تھے اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اسلامی آداب کا خیال رکھتے تھے اور ارشاد خداوندی یأمرون بالمعروف اور ینھون عن المنکر پر پوری طرح عامل تھے۔ آپ میں صلہ رحمی کا جذبہ احسن طورپر پایاجاتا تھا۔اور آپ اپنے لواحقین کے ساتھ ہمیشہ احسان ومروّت کاسلوک فرماتے تھے۔چنانچہ آپ نے اپنی زرخریدجائیدادمیں سے بھی اپنے بھائیوں کو برابرکا حصّہ دیا۔بچپن میں جب آ پ کے چھوٹے بھائی میاں فضل الٰہی صاحب تحصیلدارگھرمیں اطلاع دیے بغیر دہلی چلے گئے تو آپ ان کو لانے کے لیے دہلی گئے۔ (یہ سفر۱۸۶۳ء میں پیش آیا تھا اورمیاں صاحب موصوف ان دنوں دہلی میں مفتی صدرالدین صاحب کے پاس مقیم تھے )
آپ اگرچہ معروف معنوں میں قرآن کریم کے حافظ نہ تھےلیکن کئی لمبی لمبی سورتیں زبانی یادتھیں اوراکثرانہیں نماز تہجد میں پڑھاکرتے تھے بالخصوص سورۂ یاسین۔
حلیہ اورلباس
آپ کا قد لمبا،جسم مضبوط اور رنگ گندمی تھا۔آپ کی پیشانی کشادہ اور ناک بلند داڑھی اور سر کے بالوں کوحنا کا رنگ دیتے تھے۔ آپ کا لباس دیہاتی وضع کا ہوتاتھا۔عام طورپر پگڑی،کرتہ اور لاچہ زیب تن کرتے۔جوتا دیسی طرز کا پہنتے۔آپ کا طوروطریق تصنّع وبناوٹ سے منزہ تھا اور ارشاد قرآنی ما انامن المتکلفین پر عامل تھے۔سادگی اور بے تکلّفی آپ کی زندگی کا طرّ ۂ امتیاز تھااورخلوص اور محبت اس کے بنیادی عناصر۔
وفات
مارچ ۱۹۰۴ء میں حضرت مولوی صاحب بعارضہ زحیر بیمارہوئے اورچند روز صاحب فراش رہنے کے بعد اپنے مولائے حقیقی سےجاملے۔نمازجنازہ میں گردونواح کے احمدی بکثرت شامل ہوئے۔آپ پیرکوٹ کے نواحی قبرستان میں مدفون ہیں۔آپ کی وفات کی خبر جب قادیان پہنچی تو حضرت اقدس علیہ السلام نے جمعہ کے روز خودامام ہوکر آپ کا جنازہ غائب پڑھااور باربارآپ کے اخلاص کا ذکر فرماتے رہے۔
آپ کے صاحبزادہ حکیم محمداسماعیل صاحب پیرکوٹی بیان کرتے ہیں کہ میں جون ۱۹۰۴ء میں چندہ جات کی رقوم لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ والد صاحب کی وفات کا صدمہ ابھی تازہ تھا۔حضورکی غیرمعمولی شفقت دیکھی تومیرادل بھرآیااور آنکھوں سے بےاختیارآنسو جاری ہوگئے۔حضرت اقدس نے مجھے اس حالت میں دیکھا تو تسلّی دیتے ہوئے فرمایا:’’آپ کے والد صاحب نہایت ہی مخلص احمدی تھے میں نے ان کا جنازہ بھی پڑھایاہے۔آپ کو چاہیے کہ ان کے نقش قدم پر چلیں۔‘‘
حکیم صاحب کہتے ہیں کہ’’نہایت ہی مخلص‘‘کے الفاظ حضورنے کئی باردہرائے۔
اسی طرح ۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء کو بعض دوستوں کے اخلاص کاذکرکرتے ہوئے حضرت اقدس نے فرمایا:’’منشی جلال الدین (بلانوی ) بھی بڑے مخلص تھے اور ان کے ہم نام (مولوی جلال الدین صاحب )پیرکوٹ والے بھی۔دونوں میں سے ہم کسی کوترجیح نہیں دے سکتے۔‘‘(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ ۲۸۵)
خداتعالیٰ نے آپ کو حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی جیساممتاز خادم سلسلہ داماد عطافرمایاجس کی زندگی کا ہرلمحہ خدمت دین کے لیے وقف تھا۔یعنی ۱۹۰۶ء،میں آپ کی چھوٹی صاحبزادی محترمہ عزیزبخت صاحبہ کی شادی حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی سے ہوئی۔جب حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے اس رشتہ کے بارے میں استخارہ کیاتو آپ نے رؤیامیں حضرت قاضی محمد ظہورالدین صاحب اکمل کو دیکھاجس کی آپ کو یہ تفہیم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعلق اس علاقہ میں دین کے کامل ظہور کا موجب ہوگا۔چنانچہ بفضلہ تعالیٰ ایساہی ہوا۔پیرکوٹ میں حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ کے ایک عرصہ قیام کرنےکی وجہ سے احمدیت کاپیغام اس علاقہ میں دوردورتک پہنچ گیااور کئی افرادکو قبول حق کی توفیق ملی۔ایک دفعہ مانگٹ اونچے تحصیل حافظ آباد میں مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے ساتھ آپ کا مناظرہ بھی ہواجس کے نتیجہ میں پچاس آدمیوں نے احمدیت قبول کی۔(بدر۱۱؍مئی ۱۹۱۱ء) اسی طرح کولوتارڑ میں مولوی محمد حسین صاحب سے آپ کا مباحثہ ہواجس میں چودھری سردارخان صاحب رئیس بھاکابھٹیاں نے قبول احمدیت کا اعلان کیااور چودھری عنایت اللہ صاحب انسپکٹر پولیس نے چشمِ پُرآب ہوکربرسراجلاس کہاکہ جو جواہر ہمیں آج مولوی غلام رسول صاحب راجیکی سے ملے ہیں وہ کبھی نہیں دیکھے۔
(الفضل۱۵؍جولائی۱۹۱۶ء)