متفرق مضامین

حضرت حکیم مولوی محمد رشید رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(محمد سلطان ظفر۔ کینیڈا)

خاکسار کے نانا جان حضرت حکیم مولوی محمد رشید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۸۹۸ء میں قادیان دارالامان کے نزدیک ایک گاؤں ڈَلہ میں پیدا ہوئے۔ اس وقت تک آپ کے والد حضرت عطاء ربی رضی اللہ تعالیٰ عنہ احمدیت قبول کرچکے تھے لہٰذا آپ ان خوش نصیب صحابہؓ میں شامل ہیں جو پیدائشی احمدی تھے۔

مکرم ومحترم حکیم مولوی محمد رشید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے:’’ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا جب ہمارے دادا جان محترم عَبْدُہُ ولد محترم نیک محمد صاحب، ہمارے والد مکرم حکیم عطاء ربی صاحب کو کہا کرتے تھے کہ مجھے اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور میری زندگی کے بعد بہت ممکن ہے کہ مرزا غلام احمد کبھی کوئی دعویٰ کریں۔ اگر کبھی وہ کوئی دعویٰ کریں تو ان کے دعویٰ کو بےچون وچرا تسلیم کرلینا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کرنے کے بعد ہمارے والد حکیم عطاء ربی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلی۔ اس وقت تک ہمارے دادا جان وفات پاچکے تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ دادا جان کا یہ ارشاد کس بنیاد پر تھا۔ ہمارا اندازہ یہی ہے کہ غالباً ان کو کوئی الٰہی اشارہ ملا ہوگا۔‘‘

ہر دو بزرگوں کا ذکراحمدی احباب کی فہرست میں، اخبار بدر قادیان بتاریخ ۳۰؍مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱ پر کالم ایک اور دو میں موجود ہے۔

ہمارے نانا جان نے ہمیں بتایا کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند حضرت مرزا مبارک احمد میرے ہم عمر تھے اور ہم اکٹھے قادیان میں پڑھتے تھے۔ کئی دفعہ میں ان کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس چلا جاتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چمڑے کی بنی ہوئی ایسی جوتی بھی دیکھی ہوئی تھی جس کے چمڑے کا رنگ اندر اور باہر سے ایک جیسا ہی سرخ تھا۔ اس کے علاوہ ایک بار حضور علیہ السلام نے مجھے ایک پیسہ بھی دیا تھا۔‘‘

اسی طرح ایک دفعہ یہ بھی بیان کیا کہ’’جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو میرے والد حضرت عطاءربی صاحبؓ مجھے بھی اپنے ساتھ قادیان لے کر گئے۔ ہم تدفین کی جگہ کے بالکل قریب تھے۔ قبرمبارک کے لیے ساتھ ہی گارا بھی تیار کیا جارہا تھا۔ میں اتنا قریب تھا کہ جب اس گارا کو تیار کیا جارہا تھا تو اس کے چند چھینٹے مجھ پر آگرے اور ایک چھینٹا میری آنکھ میں بھی پڑ گیا جسے میرے والد صاحب نے صاف کیا۔‘‘

رجسٹر روایاتِ صحابہ (غیرمطبوعہ) میں آپ کے دو بیانات درج ہیں جو ذیل میں پیش خدمت ہیں۔

’’میاں محمد رشید صاحب ولد حکیم عطاء ربی صاحب ساکن ڈَلَّہ حال گھنوکے ڈاکخانہ قلعہ صوبا سنگھ ضلع سیالکوٹ

عمر۴۱سال۔ سن بیعت پیدائشی احمدی:صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب میرے کلاس فیلو تھے اور ہم اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ ایک دفعہ بیمار ہوئے۔ ان کی چارپائی اس مکان میں تھی جس میں اب حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ رہتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور میں اور صاحبزادہ صاحب اِدھر اُدھر پھر رہے تھے۔ کبھی چارپائی کے نیچے سے بھی گزر جاتے تھے۔ اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیڑھی سے نیچے تشریف لائے۔ آپ کے سر پر رومی ٹوپی تھی جس کے اوپر کی طرف چار سوراخ تھے۔ گلے میں صدری تھی اور پائجامہ نہ تنگ تھا نہ کھلا۔ پاؤں میں جوتی تھی۔ حضور کی تشریف آوری پر کسی خادم نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی چارپائی کے پاس کرسی بچھا دی۔ حضور اس پر بیٹھ گئے اور حضرت خلیفہ اوّل سے باتیں کرتے رہے۔

حکیم محمد رشید بقلم خود سکنہ گھنوکے

الراقم عبدالقادر

۲۷-۰۶-۳۹

ہم ہائی سکول میں پڑھا کرتے تھے۔ میرے ساتھ ایک طالب علم محمد عبداللہ افریقی مرحوم بھی تھے۔ وہ مجھ سے بڑے تھے۔ انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک بھینسا قادیان کی طرف آرہا ہے اور جب بستی کے قریب پہنچا ہے تو سونگھ کرایک طرف کو چلا گیا ہے۔ وہ خواب اس نے دوسرے لڑکوں کو سنائی۔ پھر غالباً مولوی سکندر علی صاحب جو ہمارے استاد تھے ان تک پہنچی۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں تحریر کر دی۔ حضور علیہ السلام نے خواب پڑھ کر فرمایا کہ نفل پڑھو اور سکول اور دفاتر میں چھٹی کر دو۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے خاص فضل کیا ہے۔ اس بستی کو طاعون سے بچایا ہے اس لیے تمام احمدی نفل پڑھیں۔

محمد رشید بقلم خود

الراقم عبدالقادر

۲۷-۰۶-۳۹‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر۱۰ صفحہ ۲۷۵)

سلسلہ کے پرانے خدام مکرم مبارک احمد انصاری صاحب اور ان کے بھائی مکرم رفیق احمد ثاقب صاحب (اللہ تعالیٰ ہر دو بزرگوں کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے) بتاتے ہیں کہ محترم حضرت حکیم عطاء ربی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے دادا جان کے ماموں تھے۔ ہمارے دادا جان کا گھر قادیان میں تھا جس سے متصل ہمارے دادا جان کے چھوٹے بھائی حکیم محمد دین صاحب کا گھر تھا جو حضرت حکیم عطاء ربیؓ کے داماد بھی تھے۔ اَواخر عمر میں حضرت حکیم عطاء ربیؓ محلہ دارالبرکات میں اپنے بیٹے مکرم محمد سعید صاحب کے ہاں منتقل ہوگئے تھے اورہم سب بچوں کے ساتھ خوب وقت گزارتے تھے اور ہماری کھیلوں میں شامل ہوتے تھے۔ بچیاں گڑیوں کی شادیاں کرتیں تو آپ ان کے کھیل میں شامل ہو کر ان گڑے گڑیوں کے نکاح بھی پڑھاتے۔ ہمیں چھوٹی چھوٹی سبق آموز کہانیاں سناتے تھے۔ آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اگر کسی موضوع پر بات ہورہی ہوتی تو اس سے متعلق کوئی کہانی اسی وقت بنالیتے اور ہمیں سناتے رہتے۔یہ کہانیاں نہ صرف دلچسپ بلکہ سبق آموز بھی ہوتی تھیں۔ آپ انتہائی خوش مزاج اور خوشگوار طبیعت کے مالک تھے۔محترم حضرت حکیم عطاء ربی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ۲۳؍اگست ۱۹۴۲ء کو ہوئی۔(الفضل ۲۹؍اگست ۱۹۴۲ء) اور تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی۔

ہمارے نانا جان حکیم مولوی محمد رشید صاحب دراز قد اور سرخ وسپید رنگ کے مالک تھے اور سر پر پٹے تھے اور کُلّہ والی پگڑی پہنتے تھے۔آپ کی تعلیم پرائمری تک تھی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ صلاحیت والا دماغ اور وسیع علم عطا فرمایا تھا۔ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی کے ماہر اور اعلیٰ درجہ کے مقرر تھے۔ غیرازجماعت احباب سے گفتگو کرتے وقت آپ پر ایک جلال طاری ہوجاتا تھا۔ لوگ یہی خیال کرتے تھے کہ آپ کسی اعلیٰ درجہ کے دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں۔۱۹۲۵ءکے لگ بھگ آپ گھنو کے ججہ ضلع سیالکوٹ منتقل ہوگئے۔گھنو کے ججہ میں آپ امام الصلوٰۃ، سیکرٹری مال، زعیم انصاراللہ اور صدرجماعت کے طور پر ایک طویل عرصہ خدمت سرانجام دیتے رہے۔آپ نے تعمیرِ ربوہ کے دوران محلہ دارالنصر میں ایک کنال کا پلاٹ بعوض ۱۰۰ روپیہ بغرض تعمیر مکان خریدا تھا تاہم گاؤں اور گردونواح کے احباب کے پُرزور اصرار پر بقیہ عمر گھنوکے ججہ میں ہی گذاری۔

آپ باجماعت نماز کے انتہائی پابند تھے۔ عمر کے آخری حصہ میں جب آپ کی نظر بھی ختم ہوچکی تھی اور ضعیف ہونے کی وجہ سے تمام وقت چارپائی پر لیٹے رہتے تھے، اُس وقت بھی تنگ گلیوں سے گذرکر مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرتے۔حالانکہ کچی گلیاں تھیں جن کے درمیان میں نکاسیٔ آب کی نالیاں ہوتی تھیں۔ (اور بارش کے بعد تو جہاں پاؤں رکھا جاتا، کیچڑ کی وجہ سے جوتی وہیں رہ جاتی لہٰذا بارش میں واحد طریقہ یہی ہوتا کہ ننگے پاؤں چلا جائے۔)عموماً مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیان کا وقت مسجد میں ہی گزارتے۔ اور بعض دفعہ عبادت میں اتنا مشغول رہتے کہ کھانا بھی مسجد میں ہی منگوالیتے۔

بچپن میں ہم سب لوگ موسمِ گرماکی چھٹیوں میں تقریباً ایک ماہ کے لیے ننھیال جایا کرتے تھے۔ ہمارے ساتھ بہت محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آتے۔ اس وقت تک آپ کی بینائی ختم ہوچکی تھی۔ اگرچہ ہم بہت چھوٹے تھے مگر نمازوں کے اوقات میں ہمیں کہتے کہ چلو مجھے مسجد لے چلو اور ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر خوشی خوشی مسجد لے جاتے۔ راستہ کی ہر اونچی نیچی جگہ اور نالی کا ان کو پتا تھا اور ایسی کوئی جگہ آتی تو ہمیں پہلے ہی کہتےآگے دھیان سے جانا۔ بہت بعد میں ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ جا تو اکیلے بھی سکتے تھے مگر ہماری تربیت کے لیے مسجد جاتے ہوئے وہ اس طرح ہمیں ساتھ لے جاتے تھے کہ ہمیں یہی محسوس ہو کہ وہ نہیں بلکہ ہم ان کو مسجد لے کر جارہے ہیں۔ مسجد پہنچ کر ہمیں کہتے کہ اذان دو۔ ہم میں سے کوئی بچہ اذان دیتا۔ اس وقت گاؤں میں بجلی تھی نہ لاؤڈاسپیکر لہٰذا ہم بچوں کی آواز زیادہ دُور نہیں جاتی تھی۔ ہمارے اذان دینے کے بعد آپ دوبارہ بلند آواز سے اذان دیتے تاکہ پورے گاؤں میں اذان کی آواز چلی جائے اور احبابِ جماعت نماز کے لیے آسکیں۔

ہمارے نانا جان نے اپنے بچوں میں جو عادت سب سے زیادہ راسخ کی وہ پنج وقتہ نماز کی بروقت ادائیگی تھی۔ اس کا اندازہ ایک واقعہ سے ہوتا ہے۔ ہماری ایک رشتہ دار خاتون نے ہمیں بتایا کہ جب ہم آپ کے والد ماسٹرمحمد عیسیٰ ظفر صاحب کی بارات لے کر گھنو کے ججہ پہنچے تو رات وہیں ٹھہرے۔ اگلے دن آپ کی والدہ صاحبہ کو لے کر واپس آئے۔ سفر بہت لمبا تھا۔ راستہ میں چار نمازوں کا وقت آیا اور آپ کی والدہ نے جو اس وقت دلہن بنی ہوئیں تھیں، چاروں نمازیں باقاعدہ وضو کرکے اپنے اپنے وقت پر ادا کیں۔

زندگی کے آخری کچھ حصہ میں، پیرانہ سالی کی وجہ سے مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی میں کچھ تعطل آیا تھا۔لیکن گھر میں لیٹے ہوئے ہر وقت تسبیح اور دعائیں کرتے رہتے۔ حضرت رسول کریمﷺ اور ان کے اہل بیت سے بہت محبت کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ آپ نے ایک دفعہ ہمیں بتایا تھا کہ درود شریف کی برکت سے انہیں پانچ دفعہ خواب میں حضرت رسول کریم ﷺ کی زیارت ہوئی ہے۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی محترمہ حمیدہ طاہرہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ زندگی کے آخری ایّام میں ایک دن اباجان بہت ہی زیادہ خوش تھے۔ میرے پوچھنے پر پہلے تو کچھ نہ بتایا مگر بہت اصرار پر کہنے لگے کہ ’’آج میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسجد جانے کے لیے گھر سے باہر نکلا ہوں تو گھر سے باہر رسول کریمﷺ بازو کھولے کھڑے ہیں۔ اور بڑی محبت سے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔‘‘

اردگردکے قریباً پچیس دیہات میں تبلیغ کرنا آپ کا معمول تھا۔ بڑے بڑے غیرازجماعت علماء بھی آپ کے سامنے بات کرنے سے جھجکتے تھے۔ علاقہ کے تمام لوگ آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور دلی لگاؤ رکھتے تھے۔ بعض شریف النفس علماء حضرات مثلاً بھگت پور کے مولوی محمد عبداللہ صاحب اور کوٹ آغا کے مولوی خلیل صاحب، راہنمائی اور ملاقات کے لیے خود چل کر ان کے گھر آتے تھے۔لوگ کہتے تھے کہ ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ یہ احمدی ہیں، ہم تو ان کے کردار، اخلاق اور علم کے شیدائی ہیں۔ ان کا گھر گاؤں کے وسط میں، سب سے اونچا تھا۔ آپ چھت پر ایک بڑی مضبوط میز جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیشتر کتب رکھی ہوتی تھیں، کے پاس کھڑے ہوجاتے اور تقریر کرتے اور بغیر کسی صوتی آلہ کے آپ کی آواز پورے گاؤں تک پہنچتی رہتی۔

آپ ایک بلندپایہ حکیم تھے جس کی وجہ سے آپ کی وجاہت میں مزید اضافہ ہوگیاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں غیرمعمولی شفا رکھی ہوئی تھی۔ ایک دفعہ کالی صوبہ خاں ضلع گوجرانوالہ کے ایک بہت بڑے زمیندار کی بیوی سخت بیمارہوگئی اور ڈاکٹروں نے بھی مایوس ہوکر علاج چھوڑ دیا۔ خاتون کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تھی جب نانا جان کو بُلایا گیا۔ آپ نے علاج شروع کیا اور صرف ایک دن میں ہی مریضہ کوشفا ہوگئی۔ خاتون کا خاندان ہمیشہ ہمارے نانا جان کا ممنون رہا۔

دیگر نسخہ جات کے علاوہ مرض اٹھرا کے علاج کے لیے ناناجان کے پاس بڑا مجرب نسخہ تھاجس کے استعمال سے بےشمار عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے اولادعطا کی۔ بعض غیرازجماعت خواتین تو بچوں کی پیدائش کے بعد اپنے عقیدہ کے مطابق باقاعدہ ’’چڑھاوا‘‘ چڑھانے کے لیے تحفے لے کرآتی تھیں جس پر آپ انہیں اللہ تعالیٰ کے شکرانہ کی طرف توجہ دِلاتے اور صدقہ و خیرات کرنے کی نصیحت کرتے۔

گھنوکے ججہ کے پاس ایک گاؤں بھڈال ہے، وہاں کے ایک بزرگ چودھری شرف الدین صاحب کا ہمارے نانا جان سے بڑا میل ملاپ تھا۔ ایک دفعہ رمضان کا مہینہ آگیا لیکن اُن کو نمازِ تراویح کے لیے بہت کوشش کے باوجودکوئی امام نہ ملا۔ ایک دن وہ ہمارے نانا جان کے پاس آئے اور اپنے مولویوں کا شکوہ کرتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’مولوی صاحب! رمضان کا مہینہ آگیا ہے۔ مولویوں سے نماز تراویح کے لیے معاملات طے کرنے کی کوشش کررہا ہوں مگر مولوی پیسے بہت زیادہ مانگ رہے ہیں۔ اس طرح بات کررہے ہیں جیسے کسی جانور بھینس گائے کا سودا ہورہا ہو۔‘‘

نانا جان نے فرمایا: ’’شرف دین صاحب آپ پریشان نہ ہوں۔میں آپ کے گاؤں جاکر آپ لوگوں کو نماز تراویح پڑھا آیا کروں گا اور کھانا بھی گھر سے کھا کر جاؤں گا۔ آپ پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا اور ساتھ میں ہرروز آپ کو چوّانی(چارآنے) بھی دے کر آیا کروں گا۔‘‘ (اُس وقت چارآنے بھی بہت وقعت رکھتے تھے)

چودھری شرف دین صاحب شرمندگی کے ساتھ ہنستے رہے اور کہنے لگے مجھے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن ہمارے لوگ آپ کے احمدی ہونے کی وجہ سے راضی نہیں ہوں گے۔

ہمارے نانا جان کو سیروسیاحت کا بہت شوق تھا۔ ایسے زمانے میں جب لوگوں کے لیے گاؤں سے شہر جانا بھی مشکل تھا، ہمارے نانا جان کوئلہ والی ریل گاڑی پر بیٹھ کر ایران کی سیر کرکے آئے۔ اسی طرح گھوڑے پر بیٹھ کر سری نگر کی سیر کرکے آئے۔

آپ کو کتابوں سے خاص شغف تھا۔ سلسلہ احمدیہ کی تمام کتب خرید تے تھے۔آپ کتابوں کو چمڑے کی مضبوط اور خوبصورت جلد کرواتے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیرکبیر کی تمام جلدیں، مشہور مترجم حضرت شاہ رفیع الدین کا ترجمہ قرآن اور کئی دیگر نایاب کتابیں ان کے زیراستعمال رہیں۔

ایک دفعہ ان کے ایک غیر از جماعت مریض کے ہمراہ ان کے ایک وکیل دوست ملنے کے لیے تشریف لائے۔ وکیل صاحب کہنے لگے کہ میرے اس دوست نے آپ کی اتنی تعریفیں کی ہیں کہ آپ سے ملے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔ پھر وہ بہت دیر تک ناناجان کے ساتھ علمی گفتگو کرتا رہا۔ پھر کہنے لگا کہ مولوی صاحب میں آپ سے ایک علمی مسئلہ پوچھتا ہوں اگر آپ وہ بتادیں تو میں آپ کی علمیت مکمل طور پر تسلیم کرلوں گا۔ آپ علامہ اقبال کے مشہورِ زمانہ شعر کی تشریح کردیں کہ

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

کیوں کہ اس میں تو کئی لوگوں کے لیے دونوں مصرعے ایک دوسرے کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ (وکیل صاحب نے کئی اور نقطے بھی بیان کیے جو اس شعر میں تشریح طلب تھے)

ہمارے نانا جان نے انہیں بتایا کہ اس شعر کو سمجھنے کے لیے شاعری کے ایک بنیادی نقطہ کو فراموش کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ تمام الجھنیں پیدا ہورہی ہیں۔ اردو شاعری میں رموزِ اوقاف کا استعمال نہیں کیا جاتا اور یہ قاری پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق پڑھتے ہوئے رموزِ اوقاف استعمال کرے۔

(یاد رہے کہ رموز اوقاف ( punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اوقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علیحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:)، قوسین () واوین (’’ ‘‘) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر( ؎ ) علامت مصرع (؏) وغیرہ۔)

نانا جان نے وکیل صاحب کو بتایا کہ مذکورہ شعر میں پہلا مصرع سوالیہ ہے۔ اس میں شاعر پوچھ رہا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پھول کی نرم و نازک پتی ہیرے جیسے سخت پتھر کو کاٹ سکے؟ یقیناً نہیں کاٹ سکتی اور اسی طرح ایک نادان اور کم علم شخص، علم کے باریک اور لطیف نکات کونہیں سمجھ سکتا۔ وکیل صاحب یہ تشریح سن کر حیران رہ گئے اور کہنے لگے کہ ان کا واسطہ بڑے بڑے علماء سے رہتا ہے مگر کبھی کسی نے اس شعر کی اتنی سادہ تشریح نہیں کی۔

آپ ہم بچوں کو بھی چھوٹی چھوٹی سبق آموز کہانیاں سناتے اور پہیلیاں بھی بجھواتے۔ ایک بات مجھے اب بھی یاد ہے کہ آپ نے مزاح کے رنگ میں پوچھا کہ ایسا فقرہ سناؤ جس میں انگریزی، اردو، پنجابی اور فارسی کے الفاظ شامل ہوں۔ جب ہم ناکام ہوگئے تو آپ نے کہا کہ ’’دریا میں، واٹر، گوڈے گوڈے، است۔‘‘

ان کے گاؤں میں ہماری موجودگی کے دوران ہی ایک دفعہ جامعہ احمدیہ ربوہ سے چند طلبہ جن میں غیرملکی طلبہ شامل تھے، ان کو ملنے کے لیے تشریف لائے۔ ان کو جامعہ کی طرف سے اسائنمنٹ ملی تھی کہ زیادہ سے زیادہ صحابہؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کرکے ان کے ساتھ تصاویر بنانی ہیں نیز ان کے ہاتھ سے کوئی تحریر بطور تبرک لینی ہے۔ تصاویر تو بنالی گئیں مگر بینائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کچھ لکھ نہیں سکتے تھے ایک غیرملکی طالب علم جو غالباً چین یا اس طرف کے کسی ملک سے تعلق رکھتے تھے، نے بہت جذباتی اصرار کیا جس پر آپ نے اس کی کاپی پر اندازہ سے ہی کچھ سطور لکھ دیں۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ الفاظ ایک دوسرے پر لکھے گئے تھے مگر وہ تحریر اس طالب علم کے لیے کافی تھی۔ انہوں نے دوسرے صفحہ پر اپنے ہاتھ سے وہ سطور بھی لکھ لی تھیں تاکہ یادداشت رہے کہ اصل تحریر کیا تھی۔

ہماری والدہ حلیمہ بی بی صاحبہ بتاتی تھیں کہ ۱۸؍مارچ ۱۹۶۲ء کو ان کی شادی مقرر تھی۔ اس سے چند دن پہلے ہمارے نانا جان نے انہیں نصیحت کی کہ یاد رکھنا کبھی زندگی میں جھوٹی گواہی نہ دینا۔ ہماری والدہ صاحبہ بڑی حیران ہوئیں کہ عموماً والدین یہ نصیحت کرتے ہیں کہ سسرال کی خدمت کرنا، عزت سے بات کرنا، شوہر کا خیال رکھنا وغیرہ لیکن انہوں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ ہونے والی دلہن کو جھوٹی گواہی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہو۔ المختصر یہ کہ عرصہ بعد ۱۹؍فروری ۱۹۷۸ء کو جب ہمارے والد ماسٹر محمد عیسیٰ ظفر صاحب وفات پاگئے تو ان کی آبائی جائیداد کے بارے میں ایک تنازعہ پیدا ہوگیا جس کافیصلہ ہماری والدہ صاحبہ کی گواہی پر منحصر تھا۔ ہمارے والد صاحب کی زندگی میں ہونے والے زبانی معاہدہ کا واقعہ جو ہمارے گھر میں طے ہوا تھا، درست تھا اور ہماری والدہ صاحبہ کے علم میں بہت اچھی طرح سے تھا۔ تاہم اس وقت وہ باورچی خانہ میں تھیں اور خود اس کمرے میں موجود نہیں تھیں۔ گواہی کے وقت کچھ قریبی رشتہ داروں نے مشورہ دیا کہ چونکہ بات درست ہے لہٰذا آپ کہہ دیں کہ یہ بات آپ کے سامنے ہوئی تھی۔ لیکن ہماری والدہ صاحبہ نے اپنے والد صاحب کی بات یاد رکھتے ہوئے یہی کہا کہ بات اگرچہ سوفیصد درست ہے مگر وہ خود اس وقت وہاں موجود نہیں تھیں۔ لہٰذا ان کی گواہی تسلیم نہ کی گئی اور ہم ضلع سرگودھا میں تقریباً دس ایکڑ کی شاندار زرعی زمین سے محروم ہوگئے۔ لیکن اس بات کا ہماری والدہ صاحبہ کو کبھی رتّی بھر بھی افسوس نہ ہوا اور نہ ہی ہمیں کبھی احساس ہونے دیا کہ ہماری کوئی حق تلفی ہوئی ہے۔ یا ہماری زندگی میں کبھی کسی چیز کی کمی رہ گئی۔

ہمارے نانا جان کی اپنے گاؤں گھنوکے ججہ میں دوسری خدمات سرانجام دینے کے علاوہ ایک اہم خدمت گاؤں میں ایک وسیع اور شاندار مسجد کی تعمیر تھی جس میں عورتوں کے لیے دوسری منزل پر انتظام ہے جس کا راستہ باہر سے اوپر جاتا ہے۔ اس کی تعمیر میں پورے گاؤں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

جماعت کی طرف سے ہونے والی ہرتحریک پر آپ لبیک کہتے تھے۔ آپ کا نام، کتاب بنام ’’تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین‘‘ (مرتبہ :چوہدری برکت علی خاں صاحب وکیل المال تحریک جدید) کے صفحہ نمبر۲۱۴پر درج ہے۔آپ کا کمپیوٹرائزڈ حوالہ نمبر ۰۱۷۲۳۰۰ ہے۔ ریکارڈ کے مطابق آپ کا پہلا وعدہ اور ادائیگی گیارہ روپے تھی۔ آپ بفضلہ تعالیٰ موصی بھی تھے۔ آپ کا وصیت نمبر ۱۷۸۴۷ اور جائیدادنمبر۷۶۸۳تھا۔ آپ کی وفات۵؍دسمبر ۱۹۸۶ء کو گھنو کے ججہ ضلع سیالکوٹ میں ہوئی۔ اُسی دن شام کو جنازہ ربوہ لایا گیا اور تدفین اگلے دن بہشتی مقبرہ، ربوہ کے قطعہ نمبر ۱۷، بلاک نمبر۳میں ہوئی۔ آپ کے کتبہ پر تحریر ہے کہ آپ رفیق (صحابی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔

ہمارے نانا جان کے سب سے بڑے بھائی مکرم محمد حسین صاحب تھے جن کی وفات جوانی میں ہوگئی اور ان کی بیوہ سے ہمارے نانا جان کی پہلی شادی ہوئی۔مکرم محمد حسین صاحب کے اکلوتے بیٹے مولانا محمد سلیم صاحب فاضل مربی سلسلہ، مبلغ بلادِ عربیہ فلسطین بھی رہے ہیں۔جیّدعالم اور کامیاب مناظر تھے۔ ان کے دسیوں مناظروں اور تبلیغی مباحثوں کا ذکر روزنامہ الفضل قادیان کے درجنوں شماروں میں ملتا ہے۔ ان کا بمقام ’’یَادگِیر‘‘ کرناٹک کا مشہور مناظرہ ایک علمی یادگار ہے۔ سیدنا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے ۱۹۳۳ء کے جلسہ سالانہ میں تقریر کے دوران مبلغین کرام کی خدمات کا تذکرہ فرماتے ہوئے مولانا محمد سلیم صاحب کے متعلق فرمایا تھا: ’’نئے مبلغ جو پیدا ہورہے ہیں ان میں بھی اچھے نوجوان نکل رہے ہیں۔ مولوی محمد سلیم صاحب ایک اچھے مبلّغ ہیں۔‘‘(الفضل مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۳)

مولانا محمد سلیم صاحب کی وفات کلکتہ بھارت میں ۳۰؍مارچ ۱۹۸۶ء کو ہوئی۔ ۲؍اپریل ۱۹۸۶ء کوان کا جسدِ خاکی قادیان لایا گیا جہاں مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ قادیان نے مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد قبر تیار ہونے پر اجتماعی دُعا کروائی۔

ہمارے نانا جان کی مذکورہ بالا شادی سے ان کی دوبیٹیاں سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک عنایت اللہ صاحب اور صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ فضل الرحمٰن صاحب پیدا ہوئیں۔

جبکہ ہمارے نانا جان کی دوسری شادی محترمہ محمد بی بی صاحبہ سے ہوئی جن سے مندرجہ ذیل اولاد پیدا ہوئی۔

۱.حلیمہ خالدہ صاحبہ مرحومہ (اہلیہ ماسٹر محمد عیسیٰ ظفر مرحوم احمدنگر)

۲.محمد حلیم صاحب مرحوم (آپ گھنوکے ججہ میں ایک طویل عرصہ تک سیکرٹری مال رہے۔ مذکورہ بالا مسجد کی تعمیر کے دوران ان کی خدمات محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مثالی رہیں)

۳.محمد نسیم صاحب ربوہ

۴.نعیمہ شاہدہ صاحبہ مرحومہ (اہلیہ فضل الرحمٰن نعیم صاحب مرحوم ابن ماسٹر عبدالرحمٰن اتالیق صاحب مرحوم)

۵.محمد نعیم خالد صاحب ڈسکہ (حال کینیڈا)

۶.حمیدہ طاہرہ صاحبہ (اہلیہ ملک محمد اسلم کھوکھر صاحب انسپکٹر مال آمد ربوہ)

ہمارے نانا جان کی ایک ہمشیرہ حمیدہ بیگم صاحبہ زوجہ حکیم محمد دین صاحب تھیں جو خود بھی صحابیہ اور موصیہ تھیں۱ور بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ صحابہ میں مدفون ہیں۔ جبکہ دو چھوٹے بھائی بھی تھے۔ مکرم مولوی محمد سعید صاحب مرحوم (انسپکٹر بیت المال صدر انجمن احمدیہ ربوہ) فیکٹری ایریا ربوہ جن کی پیدائش ۱۹۰۲ء میں ڈَلہ نزد قادیان میں ہوئی۔ آپ کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعدد بار شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ آپ کی شادی حضرت میاں پیرمحمدصاحب پیرکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کی بیٹی سے ہوئی۔ آپ کی وفات ۶؍اگست ۱۹۹۴ء کو ربوہ میں ہوئی جبکہ تدفین اگلے دن بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ (روزنامہ الفضل ربوہ ۲۴؍اگست ۱۹۹۴ء صفحہ ۱)

دوسرے بھائی مکرم ماسٹر محمد حمید صاحب مرحوم کراچی میں رہتے تھے جن کی پیدائش ۱۹۰۳ء میں ڈَلَّہ نزد قادیان میں ہوئی۔ انہیں ایک طویل عرصہ نواب شاہ سندھ میں بطور ٹیچر کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کی وفات ۱۹۷۹ء میں کراچی میں ہوئی۔

دسمبر ۱۹۷۷ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر ہمارے ننھیالی رشتہ دار حسبِ معمول ہمارے گھر واقع احمدنگر (نزد ربوہ) میں ٹھہرے تھے۔ میری عمر چارسال ہوگی اور میں گیلی مٹی سے کچھ کھلونے بنا رہا تھا۔ ان کو جوڑتے ہوئے میں اپنا لعاب بھی لگادیتا تھا۔ محترم ماسٹر محمد حمیدصاحب بھی کراچی سے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے جب یہ منظر دیکھا تو مجھے ایک پیالی میں پانی لاکر دیا اور کہا کہ جب ضرورت ہوتو یہاں سے پانی لے لینا مگر لعاب نہ لگانا۔ بہت عرصہ تک مجھے اس بات پر شرمندگی بھی ہوتی تھی کہ ایک بزرگ ہوکر بھی انہوں نے خود پانی لاکر دیا تھا اور مجھے یا کسی اور کو یہ نہیں کہا کہ وہ پانی لاکر دے دے کیونکہ ان کی نصیحت صرف زبانی نہیں تھی بلکہ عملی تھی اور ان کے اس عمل سے مجھے عملی زندگی میں بہت مدد ملی کہ بات میں حقیقی اثر اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب خود تردّد کرکے عملی نمونہ پیش کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ ان تمام بزرگانِ دین کی مغفرت فرمائے اور اُن کی نیکیاں، اُن کی نسلوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button