صلح حدیبیہ کےتناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان:خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍ دسمبر۲۰۲۴ء
٭… معاہدےکي ايک شرط يہ تھي کہ اگر کوئي مسلمان مرد مکے سےمدينے آئے گا تو اسے واپس لوٹايا جائے گا ليکن اگر کوئي مرد مدينے سے مکّے جائے گا تو کفار اسے واپس کرنے کے پابندنہ ہوں گے
٭… ابو بصير بيمار ہوکر صاحبِ فراش تھے، انہوں نے بڑے شوق سے حضورؐ کے خط کو ہاتھ ميں تھامے رکھا اور اسي حالت ميں ان کي وفات ہوگئي جبکہ باقي مسلمان مدينے آگئے
٭… آپؐ نے فرمايا! اے ابو بصير! تم جانتے ہو کہ ہم ان لوگوں کو اپنا عہدوپيمان دے چکے ہيں، اور ہمارے مذہب ميں عہدشکني جائز نہيں ہے
٭… مدني سياست سے باہر لوگوں کو واپس مکے پہنچانے کا ذمہ دار آنحضرتﷺ کو قرار دينا خلافِ عقل بات ہے
٭… آپؐ نے معاہدے کے الفاظ کو بھي پورا کيا اور ابوبصير کو مکے والوں کے سپرد کرتے ہوئے مدينے سے رخصت کرديا
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۶؍ دسمبر۲۰۲۴ء بمطابق ۶؍فتح۱۴۰۳ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۶؍ دسمبر۲۰۲۴ء مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایاکہ
صلح حدیبیہ کے ذکر میں آج کچھ مزید تفصیل بیان کروں گا۔
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ معاہدوں میں رخنے رہ جایا کرتے ہیں جو بعض اوقات بعد میں اہم نتائج کا باعث بن جاتے ہیں۔ چنانچہ اس معاہدے میں بھی یہ رخنہ رہ گیا تھا۔
اس معاہدے میں گوکہ مسلمان مردوں کی واپسی کے متعلق صراحتاً ذکر تھا مگر مسلمان عورتوں کا کوئی ذکر نہ تھا۔
ابھی معاہدے پر تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ چند مسلمان عورتیں کفّارِ مکّہ سے چُھٹ کر مدینے پہنچ گئیں۔ ان میں سب سے اوّل نمبر پر مکّے کے فوت شدہ مشرک رئیس عقبہ ابن ابی معیط کی لڑکی امِّ کلثوم تھی، جو ماں کی طرف سے حضرت عثمان بن عفانؓ کی بہن بھی لگتی تھی۔ امِّ کلثوم بڑی ہمت دکھا کر لمبا سفر پاپیادہ طےکرکے مدینے پہنچی اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ اس کے پیچھے پیچھے اس کے دو کافر رشتے دار بھی مدینے آگئے اور اس کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ گوکہ معاہدے میں صرف مرد کا لفظ استعمال ہوا ہے مگر دراصل معاہدہ عام ہے اور مرد اور عورتوں دونوں پر مساوی اثر رکھتا ہے۔ ام کلثوم معاہدے کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس وجہ سے بھی کہ عورت کمزور جنس سے تعلق رکھتی ہے، واپسی کے لیے تیار نہ تھی۔
آنحضرتﷺ نے طبعاً اور انصافاً ام کلثوم کے حق میں فیصلہ فرمایا۔ ان ہی دنوں یہ آیت نازل ہوئی کہ
اگر کوئی عورت مکے سے مدینے آئے تو اس کا اچھی طرح امتحان کرلو اور اگر وہ نیک بخت اور مخلص ثابت ہوتو اسے ہرگز واپس نہ لوٹاؤ۔ لیکن اگر وہ شادی شدہ ہو تو اس کا مہر اس کےمشرک خاوند کو لازماً اداکرو۔
معاہدےکی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان مرد مکے سےمدینے آئے گا تو اسے واپس لوٹایا جائے گا لیکن اگر کوئی مرد مدینے سے مکّے جائے گا تو کفار اسے واپس کرنے کے پابند نہ ہوں گے۔ بظاہر اس شرط سے مسلمانوں کی ہتک مرادلی گئی تھی مگر حقیقت میں ایسا نہ تھا۔ ابتدا میں ہی آنحضرتﷺ نے فرمادیا تھا کہ ہاں! ٹھیک ہے جو شخص مدینہ چھوڑ کر مسلمانوں سے الگ ہوکر جائے گا ایسے منافق اور گندے عضو کو مدینے میں واپس لانے کی کیا ضرورت ہے۔ ابھی معاہدے کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ
ابو بصیر جو مکے کا رہنے والا تھا مسلمان ہوکر مدینے آگیا،
مگر معاہدے کے مطابق آنحضرتﷺ نے کفار کے مطالبے پر اسے کفار کے ساتھ بھیج دیا۔ جب یہ پارٹی اسے ساتھ لے کرجارہی تھی تو راستے میں اس نے موقع پاکر پارٹی کے رئیس کو قتل کردیا اور دوسرا شخص بھاگ کر مدینے آگیا اور اس کے پیچھے پیچھے ابو بصیر بھی مدینہ آگیا۔ ابوبصیر نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا کہ آپؐ نے مجھے کفار کے حوالے کردیا تھا اور یوں آپؐ کی ذمہ داری ختم ہوگئی، مگر خدا نے مجھے ظالم قوم سے نجات دے دی ہے۔آنحضرتﷺ نے فرمایا یہ شخص تو جنگ کی آگ بھڑکا رہا ہے، اس پر ابو بصیر نے یہ جان کر کہ آنحضرتﷺ تو اسے بہرحال معاہدے کی وجہ سے واپس جانے کا ارشاد فرمائیں گے، وہ چپکے سے مدینے سے نکل گیا اورایک الگ مقام پر اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔
جب مکے کے دوسرے کمزور مسلمانوں کو ابو بصیر کے علیحدہ ٹھکانے کا علم ہو اتو وہ بھی آہستہ آہستہ وہاں جمع ہونا شروع ہوگئے،
ان ہی لوگوں میں رئیس مکہ سہیل بن عمرو کا لڑکا ابو جندل بھی تھا۔ان لوگوں کی تعداد ستّر اور بعض روایات میں تین سَو تک بیان کی گئی ہے، اس طرح آہستہ آہستہ مدینے کے علاوہ ایک اور مسلمان ریاست وجود میں آگئی۔ چونکہ یہ علاقہ شام کے راستے میں تھا اس لیے ان مسلمانوں کی اکثر کفار کے ساتھ مڈھ بھیڑ جاری رہتی اور اس نئے محاذ سے تنگ آکر خود کفار نے آنحضرتﷺ سےسفارت کے ذریعے درخواست کی کہ ان مسلمانوں کو بھی مدینے بلوا لیں۔ جب آنحضرتﷺ کا خط ابو جندل اور ابو بصیر کے پاس پہنچا تو ابو بصیر بیمار ہوکر صاحبِ فراش تھے، انہوں نے بڑے شوق سے حضورؐ کے خط کو ہاتھ میں تھامے رکھا اور اسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی جبکہ باقی مسلمان مدینے آگئے۔
مستشرقین حسبِ عادت اعتراض کرتے ہیں،ان اعتراضات میں سے دوقابلِ توجہ اعتراضات پر حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ نے تبصرہ فرمایا ہے، جن میں
پہلا اعتراض عورتوں کو واپس کرنے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا ہے اور دوسرا اعتراض ابو بصیر اورابو جندل کے واقعے پر ہے۔
ان اعتراضات کے جواب میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اوّل یہ معاہدہ کفارِ مکہ کے ساتھ ہوا تھا جو پہلے دن سے مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار چلےآرہے تھے۔ پھر یہ کہ خود کفارِ مکہ کی گواہی موجودہے کہ آنحضرتﷺ نے کبھی معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کی چنانچہ جب ہرقل شہنشاہِ رُوم کو آنحضرتﷺ کا تبلیغی خط ملا تو اس نے ابو سفیان کو جو رئیس الکفار تھااور اس وقت شام میں موجود تھا اسے بلایا اور یہی سوال کیا تو ابو سفیان نے جواباً کہا کہ نہیں! محمد(ﷺ) نے کبھی معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کی۔
عورتوں کی واپسی پر اعتراض کے ذیل میں
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے صحیح بخاری میں مرقوم الفاظ نقل کرکے فرمایا ہے کہ ان واضح اور غیر مشروط الفاظ کے ہوتے ہوئے یہ اعتراض کرناصرف بےانصافی نہیں بلکہ انتہائی بددیانتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ کی بعض روایتوں میں معاہدے کے الفاظ میں ’رجل‘کا لفظ نہیں بلکہ عام الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے مرد اور عورت دونوں مراد لیے جاسکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ
اوّل تو مضبوط روایت، جس میں ’رجل‘کا لفظ آتا ہے اسی کو مقدم سمجھا جائے گا
دوسرا یہ کہ تاریخی روایات جن میں مختلف الفاظ آتے ہیں وہ بھی اسی تشریح کے حامل ہیں جو کیے گئے ہیں۔ مثلاً سیرت ابن ہشام میں جو الفاظ ہیں وہاں بےشک مرد کا لفظ نہیں مگر تمام ضمائر اور صیغے وہی ہیں جو مردوں کے لیے مستعمل ہیں۔
دوسرا اعتراض جو ابو بصیر کے واقعے سے تعلق رکھتا ہے یہ بھی غور کرنے پر بالکل بودہ اعتراض معلوم ہوتا ہے۔ بےشک آنحضرتﷺ نے یہ معاہدہ کیا تھا مگر سوال یہ ہے کہ کیا آنحضرتﷺ نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی؟ ہرگز نہیں!
آپؐ نے تو اس معاہدے کی پابندی کا شاند ار نمونہ دکھایا۔
غور کریں! ابو بصیر اسلام کی صداقت کا قائل ہوکر مکّے سے بھاگتا ہے، چھپتا چھپاتا مدینے پہنچ جاتا ہے، مگر اس کے ظالم رشتے دار اس کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں اور اسے جبراً بزورِ تلوار واپس لے جانا چاہتے ہیں، دونوں فریق آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ ابو بصیر آنحضرتﷺ سے بھرائی ہوئی آواز میں عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے خدا نے اسلام کی نعمت سے نوازا ہے اور مکے واپس جانے میں دکھ اور تکلیف کی زندگی میرے سامنے ہے، آپؐ جانتے ہیں خدا کے لیے مجھے واپس نہ بھجوائیں۔ دوسری جانب ابو بصیر کے رشتے دار معاہدے کا حوالہ دیتے ہیں،
آنحضرتﷺ کے اپنے دل میں سخت صدمہ تھا مگر ایسےوقت میں بھی آپؐ نے امانت اور دیانت کاپورا خیال رکھا۔
آپؐ نے فرمایا! اے ابو بصیر! تم جانتے ہو کہ ہم ان لوگوں کو اپنا عہدوپیمان دے چکے ہیں، اور ہمارے مذہب میں عہدشکنی جائز نہیں ہے۔ پس ! تم ان لوگوں کے ساتھ چلے جاؤ اور اگر پھر تم اسلام پر صبر و استقلال کے ساتھ قائم رہو گے تو خدا تمہارے لیے اور تم جیسے مظلوموں کے لیے خود کوئی نجات کا رستہ کھول دے گا۔ اس ارشادِ نبوی پر ابو بصیر واپس چلا گیا۔ اس واقعے کی بعد کی تفاصیل کے ذیل میں اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ مکّے سے نکلنے والا شخص خواہ کہیں بھی ہو آپؐ اسے مکے واپس پہنچانے کے ذمہ دار ہوں گے تو معاہدے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
مدنی سیاست سے باہر لوگوں کو واپس مکے پہنچانے کا ذمہ دار آنحضرتﷺ کو قرار دینا خلافِ عقل بات ہے۔
یہ شرائط کفارمکہ نے ازخود رکھی تھیں اور جو کانٹے انہوں نے خود بوئے تھے وہ خود ہی ان کا شکار ہوئے۔ بےشک وہ لوگ جو ابو بصیر کے ساتھ اس علاقے میں جمع ہوئے مذہبی لحاظ سے مسلمان تھے مگر دنیاوی، سیاسی، حکومتی اور قانونی لحاظ سے آپؐ کا ان پر کوئی حق نہ تھا، یہ شرط کہ وہ لوگ سیاسی لحاظ سے آنحضرتﷺ کے تابع نہ ہوں گے خود کفار نے رکھی تھی۔ جب ازخود کفار نے ان مسلمانوں کو آنحضرتﷺ کی سیاست سے نکال دیا تو پھر آنحضرتﷺ پر اعتراض کیسا۔ یہ کفار مکہ کا اپنا مکر تھا جو خود ان ہی پر لوٹ کر گرا۔ آپؐ کا دامن جو پاک تھا وہ پاک رہا۔ آپؐ نے معاہدے کے الفاظ کو بھی پورا کیا اور ابوبصیر کو مکے والوں کے سپرد کرتے ہوئے مدینے سے رخصت کردیا اور پھر آپؐ نے معاہدے کی روح کو بھی پورا کیا اور ابو بصیر اور اس کے ساتھیوں کو اپنی سیاست کے دائرے سے باہر رکھا۔ مگر یہ لوگ انصاف سے کام نہیں لیتے اور اسلام اور آنحضرتﷺ کی ذات پر بےبنیاد اعتراض کرتے ہیں۔
حضورِانور نے خطبے کے اختتام پر فرمایا کہ آج بھی انصاف کے دعوےداروں کے یہی دہرے معیار ہیں، آج بھی اسی چیز نے دنیا میں فساد پیدا کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ آج بھی دنیا کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو ان دجالی فتنوں سے بچا کر رکھے۔
٭…٭…٭