متفرق مضامین

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا دورۂ فرانس ۱۹۲۴ء

(نصیر احمد شاہد۔ مبلغ سلسلہ فرانس)

فرانس کے اخبارات کی نظر میں

وہ ’’زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘

اخبار نے بروز جمعرات ۳۰؍اکتوبر ۱۹۲۴ءکوصفحہ نمبر ۲پر بعنوان’’ایک ہندی شہزادے نے پیرس مسجد کا دورہ کیا‘‘تفصیلی رپورٹنگ کی۔رپورٹ کے ساتھ کسی آرٹسٹ کا بنایا ہواحضرت المصلح الموعودؓ کا عکس بھی دیا گیا۔اور عکس کے نیچے جلی حروف میں ’’خلیفۃ المسیح۔امام احمدی مسلم تحریک۔ آنجناب نے کل پیرس مسجد کا وزٹ کیا‘‘ تحریر کیا

۲۰۲۴ء کا سال جماعت احمدیہ برطانیہ کے لیےاس لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کہ جماعت نے مسجد فضل لندن کے سنگِ بنیاد کے سو سال پوراہونے پر تقریبات کا انعقاد کیا۔ ۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بفضلہ تعالیٰ اپنے دست مبارک سے مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ بابرکت سفر نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپ میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوا۔خاکسار اس نسبت سے فرانسیسی پریس کی بعض جھلکیاں پیش کرنا چاہتا ہے۔

۱۹۲۴ء میں، لندن میں منعقدہ ویمبلے کانفرنس میں شمولیت اور مسجد فضل لندن کے سنگِ بنیاد کے بعد حضرت المصلح الموعودؓ پیرس تشریف لائے۔ حضورؓ انگلستان کے شہر Southampton سے فرانس بذریعہ بحری جہاز فرانس کے شمال مغرب میں نارمنڈی ریجن میں واقع مشہور بندرگاہ Le Havre اور پھر یہاں سے پیرس بذریعہ ٹرین تشریف لائے۔ حضورؓ کے اس دورے کی یاد میں جماعت احمدیہ فرانس نے بھی کچھ پروگرامز بنائے ہیں۔ جن میں سے ایک Le Havreسےپیرس سفر کی یاد میں خدام سائیکل سفر منعقد کرنے کا تھا۔ لہٰذاخدام نے Le Havre سے مرکزی مسجد مبارک تک سائیکل سفر۲۹؍جون کوکرلیا ہے۔ جس میں ۵۷ خدام،چار اَنصار اور آخری پچاس کلو میٹر کے سفر میں پانچ اَطفال بھی شامل ہوئے۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ پیرس میں حضورؓ کی مصروفیات سے متعلق اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں۔ہمیں اب تک چھ اَخبارات ملے ہیں جن میں اس دورے کا ذکر ملتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی قدرت اور شان ہے کہ دُور افتادہ ملک ہند کے ایک نامعلوم گاؤں سے آنے والے امام جماعت احمدیہ کی مصروفیات اور مختلف شخصیات سے ملاقاتوں کی خبر نے فرانس جیسے اسلام بلکہ مذہب بیزار ملک میں اور پھر فرنچ اخبارات میں جگہ پائی۔ذیل میں ان اخبارات میں شائع خبروں کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔

Le Presse

شام کی خبریں دینے والاپیرس کاسب سے پرانا اور بڑااخبار ہے۔۲۶؍اکتوبر۱۹۲۴ءبروز اتوار فرنٹ پیج پر متفرق اور مختصر خبروں کے کالم میں حضرت المصلح الموعودؓ کے دورے سے متعلق درج ذیل خبردی:’’خلیفۃ المسیح ۱۷؍ افراد پر مشتمل ایک وفد کے ہمراہ لندن سے ۱۱ بج کر ۵۰ منٹ پر پیرس تشریف لائے ہیں‘‘۔

Le Matin

اس اخبار نےبروز جمعرات ۳۰؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں فرنٹ پیج پر حضرت المصلح الموعودؓ کی عکسی تصویر کے ساتھ، جس کے عقب میں (اس زمانہ میں زیر تعمیر)پیرس کی جامع مسجد دکھائی گئی، ’’فرانس اور اسلام ‘‘ کی سرخی کے ساتھ بعنوان ’’شہزادہ خلیفۃ المسیح‘‘ درج ذیل تفصیلی خبر دی۔

’’وارث شہزادہ خلیفۃ المسیح،۸۰ ملین مومنین کے روحانی امام نے پیرس مسجد میں نماز پڑھی ‘‘

’’Pitié نامی قدیم جگہ کے ایک حصہ پر اورپرسکون محلہ میں بائیں جانب اور Geoffroy-Saint-Hilaire نامی سڑک اور Puits-de-l’ Hermite نامی جگہ کے درمیان مسجد کےموزائک طرز کا منارہ اور سفید گنبد بلند ہوتےہیں جہاں عنقریب پیرس کےمسلمان نماز پڑھ سکیں گے۔ اسلام دوستی کے مظاہرےمیں انگلستان فرانس سے سبقت لے گیا ہے۔اور مسلمانوں سے متعلق ہماری سیاست کے اس پہلو پر وہ متعجب بھی ہے۔لہٰذا فرانس کو بھی اس کے مقابل پرقرآن کے پیروکاروں کے لیے مسجد بنانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

لندن سے، جہاں پرآنجناب نے ایسی ہی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا، تشریف لانے والے ہندی شہزادے خلیفۃالمسیح نے کل تین بجے بعد دوپہر اپنے وفد کے ۱۷؍افراد کے ساتھ فرانس کی زیرتعمیر مسجد کا دورہ کیا۔ اسلام کے مقدس مقامات کی ہوبوس سوسائٹی کےصدر Sayyid Kadour ben Gabrit چونکہ مراکش گئے ہوئے تھے۔لہٰذاان کی غیر حاضری میں ان کے سیکرٹری جنرل محترم Robert Raynaud نے شہزادے کا استقبال کیا۔

اکتوبر کے مہینہ کے آسمان کے باوجود یہ ایک بہت خوبصورت اور مقدس لمحہ تھا۔سنگِ مرمر،عام پتھراورصنوبر کے درمیان پرسکون مراکشی مزدور خوش بختی محسوس کرتے تھے۔زمرد رنگ کی پگڑیاں پہنے ہوئے لوگ خاموش دورہ کرنے والے تھے۔اور ان سب کے آگے سفید پگڑی میں ایک شخصیت تھی جس کے سامنے سب ادب سے جھک کر ’’حضور‘‘ کہہ کے مخاطب ہوتے تھے۔ آپ سنہرے چشمے کے پیچھے مہربان اور پرعزم نگاہ والے ہندی شہزادے ہیں جو ۸۰ ملین مومنین کے روحانی امام ہیں۔ آپ کا سنہری چہرہ اس وقت چمک اٹھا جب آپ کو معلوم ہوا کہ موسم گرما کے بعد اہلِ ایمان کو نماز کے لیے بلانے کے واسطےبلند منارہ سے موذن اذان کی آواز بلند کرسکے گا۔ بعد ازاں نماز کے ہال میں داخل ہوتے ہوئے خلیفۃ المسیح نےنماز کے لیے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔لہذا محراب کے سامنے مکہ کی طرف رخ کرکے اپنے تمام پیروکاروں کے ساتھ اسلامی طریق کے مطابق نماز ادا کی۔

Le Petit Journal

اس اخبار نے بروز جمعرات ۳۰؍اکتوبر ۱۹۲۴ءکوصفحہ نمبر ۲پر بعنوان’’ایک ہندی شہزادے نے پیرس مسجد کا دورہ کیا‘‘ تفصیلی رپورٹنگ کی۔رپورٹ کے ساتھ کسی آرٹسٹ کا بنایا ہواحضرت المصلح الموعودؓ کا عکس بھی دیا گیا۔اور عکس کے نیچے جلی حروف میں ’’خلیفۃ المسیح۔امام احمدی مسلم تحریک۔ آنجناب نے کل پیرس مسجد کا وزٹ کیا‘‘ تحریر کیا۔تفصیلی خبر درج ذیل ہے:’’خلیفۃالمسیح۔امام احمدیہ مسلم تحریک اپنے ۱۷؍افراد کے قافلہ کے ساتھ پیرس تشریف لائے۔ Puits-de-l’ Hermite نامی جگہ پر واقع مسجد میں مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر Sayyid Kadour ben Gabrit کی نمائندگی میں، انسٹی ٹیوٹ کے جنرل سیکرٹری جناب Robert Raynaud نے ان کا استقبال کیا۔

ہندی شہزادہ لندن سے تشریف لائے ہیں۔جہاں آنجناب نے ایک ویسی ہی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا ہے جس کی تعمیر (پیرس میں ) Le Jardin des Plantes کے عقب میں مکمل ہو رہی ہے۔حضور اقدس سفید لباس میں ملبوس، سنہری کلہ اوربلند شملہ والی پگڑی پہنے ہوئے، معزز اَفراد ِقافلہ کے جلو میں تشریف لائے،جنہوں نے،گہرے نیلے رنگ کے جبے اور سبز پگڑیاں زیب تن کی ہوئی تھیں۔ان سب نے جناب Raynaud اورمسجد کے آرکیٹکٹس کی راہنمائی میں مسجد کے صحن کاوزٹ کیا جس کے درمیان میں مراکشی ماہرصناع نے مہینوں روزانہ کےصبر آزما کام سےسنگ مرمر اور موزائک کا حوض بنایا۔

نماز وں کے لیے مخصوص ہال میں لکڑی پر نفیس کاریگری کا ایسا کام کیاگیاہے کہ موزائک کی دیواروں کے اوپر لکڑی نے ہی چھت اور گنبد کو ڈھانپا ہوا ہے۔محراب جس کا رخ مکہ کی طرف ہےسب نے اس محراب کی تزئین کو پسند کیا۔اس پرایک سنگ مرمر کی پٹی پر قرآنی آیات کندہ کی گئی ہیں۔

وزٹ کے دوران شہزادے کے ایک اشارہ پریکایک ۱۷ سبز پگڑیاں (والےاراکین وفد)سفید و سنہری پگڑی (والے خلیفۃ المسیح)کے پیچھے صفوں میں کھڑے ہو گئے۔اپنے نبی کی قبر (اخبار میںغلطی سے کعبہ یا قبلہ کی بجائے نبی کی قبر لکھا گیا ہے۔مترجم)کی طرف رخ کر کے، مکمل خاموشی کے ساتھ شہزادہ اور آپ کا وفد سینہ پرہاتھ باندھے نماز پڑھنے لگ گئے۔

مسجد سے نکلنے سے قبل شہزادے اور ان کے وفد نے، ترجمان کے توسط سے، جناب Raynaud کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ کل، اپنا دورہ مکمل کر کے واپسی کے لیے رخت سفر باندھنے سے پہلے، وہ غیر اعلانیہ طور پر توجہ سے تخلیہ میں عبادت کرنے کے لیے آنا چاہتے ہیں۔اور اس کے لیے ہمیں ایک گھنٹہ کے لیے مسجد دے دی جائے۔

اس کے بعد،نفیس و سرخ چہرہ والے احمدیہ تحریک کے امام ۱۷ پگڑیوں والوں کے جلو میں تین ٹیکسیوں میں بیٹھ کرRivoliنامی سڑک پر واقع ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے جہاں پیرس میں قیام کے دوران ٹھہرے ہیں۔

LE TEMPS

اس اخبار نے بروز جمعہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۲۴ءکوصفحہ نمبر۶ پر متفرق خبروں کے کالم (کالم نمبر ۳) میں بعنوان ’’ایک ہندی شہزادہ اپنے وفد سمیت پیرس مسجد میں’’حضور کی پیرس میں مصروفیات کی درج ذیل خبر لگائی۔

’’ایک ہندی شہزادہ خلیفۃ المسیح پیرس میں تشریف لائے ہیں۔اور گذشتہ روز Geoffroy-Saint-Hilaire نامی سڑک اور Puits-de-l’ Hermite نامی جگہ کے درمیان زیر تعمیر مسجد کا وزٹ کیا۔ یہ مسجد بڑی تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہی ہے۔ احمدیہ مسلم تحریک کا سربراہ جن کے پیروکار ۸۰ ملین ہیں، یہ شہزادہ لند ن سے تشریف لائے ہیں جہاں آپ نے ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔

مسلم انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر Sayyid Kadour ben Gabrit کی نمائندگی میں، انسٹی ٹیوٹ کے جنرل سیکرٹری جناب Robert Raynaud نے ان کا استقبال کیا۔ سفید کپڑوں میں ملبوس، سر پر سفید اور سنہری پگڑی پہنے ہوئے آپ کی اقتدا میں نیلی اچکنیں اور سبز پگڑیاں پہنے ہوئے وفد کے۱۷ارکان بھی آپ کے ساتھ تھے۔ صحن کی تزئین،گنبداور مینار کے فن تعمیر، موزائک طرزاور محراب کی بناوٹ کو سراہنے کے بعد مکہ کی طرف رخ کرکے شہزادہ اور آپ کے ساتھیوں نے نماز ادا کی…اور آج بھی لوگوں کی غیرموجودگی میں مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے دوبارہ آئے۔

Le Journal

ایک گفتگو ایسے شخص سے جو جاری رکھنے والا ہےمسیحؑ اور محمدؐ( کے مشن کو)

۳؍نومبر کے شمارہ میں صفحہ ۳ پر اس اخبار کا صحافیSaint Brice لکھتا ہے:ہر روز تو کسی مذہبی سربراہ سے ہم کلام ہونے کا موقع نہیں ملتا،جو ایک نبی کا بیٹا اور خلیفہ بھی ہےاور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسیح(علیہ السلام) اور محمد(ﷺ) کے مشن کو جاری رکھنے والا ہے۔اورمیری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ایسااچھا موقعہ ملا۔ہندوستان کی احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ نے،جو پیرس میں تشریف لائے ہیں، مجھے فرانسیسی لوگوں کو اپنے مشن کے متعلق بتانے کے لیے مدعو کیا۔ میں نے اس دعوت کو بطیب خاطر قبول کیا۔کیونکہ جس تحریک کی آنجناب راہنمائی کر رہے ہیں اور اس کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں، اس کے متبعین جیسے شام اور الجزائر میں ہیں ویسے ہی فرانس میں بھی وہ دلچسپی لیتے ہیں۔

یہ تحریک احمدیہ درحقیقت کیا ہے؟یہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے عصر حاضر کا ایک مظاہرہ ہے جن کی تعداد زیادہ اہم نہیں۔اس تحریک کی ابتدا ۱۸۹۰ء میں پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں تادیان (قادیان۔مترجم)میں ہوئی۔بانی کا نام حضرت مرزا غلام احمد ہے۔آپ ایک قدیم معدوم ہوجانے والے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کی نیک نامی انحطاط سے محفوظ رہ گئی۔ آپ نے ۵۱ سال کی عمر میں اس دعویٰ سے اپنا پیغمبرانہ مشن شروع کیا کہ وہ بحیثیت نبی اسلام کو تمام آلودگیوں سے پاک کریں گے جنہوں نے اس کی شکل بگاڑ دی ہے۔نیز تمام انسانوں کوخدا کے دین میں جمع ہونے کے لیے تیارکریں گے۔زبان سے، قلم سے، سینکڑوں کتب تحریر کر کے، آپ پیروکاروں کی جماعت بنارہے ہیں۔ اس تحریک کا نام احمدیت ہے کیونکہ نئے نبی کو الہامات میں احمد نام عطا ہوا ہے۔۱۹۰۸ء میں آپ کی وفات پر آپ کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک حضرت مولوی نورالدین نے آپ کے کام کو ۱۹۱۴ء تک جاری رکھا۔ اس کے بعد نبی کے اپنے بیٹے محمود احمد کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔آنجناب ہی،لندن میں مشرقی زبانوں کے کالج کی طرف سے منعقد ہونے والی، مذاہب کی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے،یورپ تشریف لائے ہیں۔اور مذہبی دنیا کی حالت سے متعلق تحقیق کے لیے آپ نےاس موقع سے فائدہ اٹھایا۔

خزاں کے ان دنوں میں،غیر معمولی شکل وشباہت والی ایک شخصیت سے میرا سامنا ہوا جوسفید براق پگڑی اور شلوار میں ملبوس تھی۔ یہی پہلی چیز تھی جس نے مجھے حیران و ششدر کردیا۔پھر مجھے محسوس ہوا کہ آپ ایک لمبا کالا مذہبی کوٹ زیب تن کیے ہوئے تھے۔سر زہد و ذہانت کی علامت اور نگاہ حیادار۔ ایسےگرم جوش و متحرک کہ روحوں کو تسخیر کرنے والے لگتے ہیں۔درست کہ احمدیوں کا لائحہ عمل لازمی پرامن ہے۔اپنے کام کی تبلیغ کے لیےوہ صرف اور صرف ترغیب پر ہی انحصار کرتے ہیں۔اور یقیناً اس پر رد ّعمل ہوتا ہے۔کیونکہ موجودمذہبی راہنماؤں کی طرف ہر جدت پسند کو کافر کہا جاتا ہے۔ احمدیوں نے اپنی عزم و ہمت کی قیمت ظلم و ستم اور بسااوقات جان کی قربانی کی صورت میں چکائی ہے۔کچھ زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ ۱۳؍اگست کو کابل میں ان کے ایک ساتھی کو سنگسار کیا گیا۔تا ہم انگریزی حکومت نے انہیں آزادی دی ہوئی ہے کیونکہ احمدی حکومت وقت کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں۔یہ لوگ،مسیحؑ کی طرح،یہ تعلیم دیتے ہیں کہ قیصر کا قیصر کو دو۔اور یہ دنیا کی بادشاہت کےمتلاشی نہیں ہیں۔یہ وہ باتیں ہیں جو محمود احمد نے مجھے تفصیل سے بتائیں۔تا ہم میں آپ سے یہ پوچھنا نہ بھولا کہ ’’تلوار کے ذریعہ مذہب کو پھیلانے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہےجو کہ دنیا میں اسلام کے پھیلاؤ کی بنیاد تھی؟ ‘‘۔بزرگ شخص نے انتہائی صفائی سے مجھے جواباً کہا: ’’تشدد کا عقیدہ واضح طور پر بنیادی گمراہی تھی جس کے خلاف بطور رد عمل وہ تبلیغ کا کام کر رہے ہیں جس کانظام اس وقت ۵۰ ممالک میں جاری ہے‘‘۔

ایک سوال پیدا ہوا کہ ایسا شخص ہندوستان کے موجودہ حالات کے متعلق کیا سوچتا ہے؟(اس زمانہ میں انگریزی حکومت کوئی ایسا قانون بنانے کی کوشش کر رہی تھی تا اس کی بنا پر ہندوؤں کو حکومت میں شریک کیا جائے۔مترجم)اس کے جواب میں احمدیوں کے سربراہ نےبڑی صفائی سے یہ جواب دیا:’’میرے خیال میں انگریزوں نے (ایسی ) اصلاحات کی کوشش شروع کر کے بڑی غلطی کی ہے۔یہ قانون درحقیقت اس مقصد کے لیے بنایا گیا ہے کہ ہندوؤں کی سیاسی تعلیم وتربیت ہو سکے۔ خودحکومت کرنے کے لیے بلائے جانےسے پہلے ہندوؤں کو باہمی تحمل و برداشت سیکھنا چاہیے‘‘۔ اس پر حکمت اصول پر جو صرف ہندوستان پر ہی لاگو نہیں ہونا چاہیے، ہماری گفتگو تمام ہوئی۔ (SAINT-BRICE)

نوٹ:غالباً یہی وہ اخبار ہے جس کے ایڈیٹر کی حضور انورؓ سے ملاقات کے متعلق الفضل ۱۸؍دسمبر۱۹۲۴ء کے شمارے میں درج ذیل الفاظ میں ذکر ہے:’’لی جرنل Le Journal کے ایڈیٹر سے ملاقات:عرفانی ؔحضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے ساتھ لی جرنل کے ایڈیٹر سے ملا اور اس نے حضرت سے انٹرویو کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کی دوپہر کو وہ لنچ پر دوگھنٹہ تک حضرت سے گفتگو کرتارہا۔

L’Intransigeant

اس اخبارنے ۱۰؍نومبر ۱۹۲۴ءبروز سوموار اپنےصفحہ نمبر ۴ پر تازہ مختصر خبروں کے کالم (نمبر ۲)میں’’چشمے اور پگڑی‘‘ کے عنوان سے درج ذیل خبر دی:’’ہندی اسلام کی ایک انتہائی معزز شخصیت،کالی عینک، سیاہ داڑھی اور بڑی سفیدپگڑی، پرکشش اور پر عزم چہرہ والے(حضرت )مرزا بشیرالدین محمود احمد نےپیرس مسجد کا دورہ کیا۔‘‘

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button