الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم چودھری باغ علی صاحب

روزنامہ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍جنوری2014ء میں مکرم خادم حسین صاحب کے قلم سے اُن کے والد محترم چودھری باغ علی صاحب ابن مکرم چودھری وزیرعلی صاحب آف ساندہ چستانہ (قصور)کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

محترم چودھری باغ علی صاحب نے 1953ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے احمدیت قبول کرنے کی سعادت پائی۔ آپ کے چھ ماموں تھے جن میں سے ایک احمدی تھے۔ دیگر پانچ نامی گرامی ڈاکو تھے۔ اپنے احمدی ماموں مکرم چودھری فتح دین صاحب کی تبلیغ اور اُن کے نمونہ کو دیکھ کر آپ احمدیت کی آغوش میں آئے۔ آپ کے ماموں قریبی گاؤں میں مقیم ایک صحابی حضرت مولوی محمد اسحٰق صاحبؓ کو ہمراہ لے کر آپ کو تبلیغ کرنے آیا کرتے تھے۔ جب آپ دلائل کے مقابلے سے عاجز آجاتے تو اپنا سوٹا اٹھاکر غصے کا اظہار کرنے لگتے اور دونوں داعیین کو گاؤں سے نکال کر دم لیتے۔ لیکن وہ دونوں بھی ایسے تھے کہ چند دن بعد پھر آجاتے۔ چنانچہ اُن کی مستقل مزاجی نے آپ کے دل پر اثر کیا۔

اباجان کی گاؤں میں بہت عزت تھی۔ آپ کچھ پڑھے لکھے بھی تھے اس لیے آپ نماز جمعہ اور عیدین بھی پڑھایا کرتے تھے۔ لیکن 1974ء کا ابتلا آیا تو اتنی سخت مخالفت شروع ہوئی کہ مجھے بھی سکول سے نکال دیا گیا۔ میری عمر دس سال تھی اور مَیں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ گھر میں کھانے پینے کو بھی کچھ نہ ہوتا۔ تین تین دن ہم صرف ساگ چمچوں کے ساتھ کھایا کرتے تھے۔ اباجان کے بھائیوں نے خاندانی زمین کا وہ حصہ میرے ابا جان کو الگ کردیا جو پانی سے محروم تھا یعنی صرف بارانی تھا۔ اگر بارش نہ ہوتی تو فصل بھی نہ ہوسکتی۔ اگر کبھی فصل ہوجاتی تو مخالفین جانور چھوڑ کر اُجاڑ دیتے۔ اگر اباجان کوئی ملازم رکھتے تو اُسے دھمکاکر بھگا دیا جاتا۔ اباجان کی شادی بھی ختم کروادی گئی۔ پھر آپ کی دوسری شادی (میری والدہ) عشرہ بی بی صاحبہ سے ہوئی جو آپ کی ماموں زاد تھیں اور پیدائشی احمدی تھیں۔ دوسری شادی کے بعد کافی دیر ان کے ہاں اولاد نہ ہوئی تو مخالف رشتہ دار یہی کہا کرتے کہ یہ بددعایا گیا ہے۔ آخر خداتعالیٰ نے فضل فرمایا اور چار بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں۔ لیکن ہم سے بےانتہا نفرت کی جاتی۔ جب ہماری والدہ 1982ء میں اچانک بیمار ہوکر وفات پاگئیں تو گاؤں کے قبرستان میں دفنانے نہیں دیا گیا۔ رشتہ دار کہتے کہ اگر آج یہ سیدھے ہوگئے تو ہوگئے ورنہ کبھی بھی احمدیت نہیں چھوڑیں گے۔ آخر تین دن بعد تدفین ہوسکی۔ اس کے بعد ہم بچوں کو ساتھ لے کر اباجان ہجرت کرکے نورپور آبسے اور وہاں ’فضل عمر بُک ڈپو‘ اور پھر ’طاہر جنرل سٹور‘ بنایا۔ 1994ء میں اباجان کی بھی وفات ہوگئی۔ بہرحال خداتعالیٰ نے آپ کی اولاد پر اتنا فضل فرمایا کہ آج آپ کے چاروں بیٹوں کے اعلیٰ کاروبار ہیں، سارے موصی ہیں اور جماعتی خدمات میں پیش پیش ہیں۔ سب کی اولاد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔

میرے ایک غیراحمدی چچا جو گاؤں میں چودھری ہیں وہ ایک بار مجھے یوں کہنے لگے کہ جب سے تم لوگ کچھ کمانے لگ گئے ہو تو تمہارے گھر کی حالت کچھ اچھی ہوگئی ہے ورنہ تمہارے والد نے تو مرتے وقت تمہارے لیے کچھ نہیں چھوڑا تھا۔ مَیں نے انہیں کہا کہ وہ تو ہمیں بہت کچھ دے کر گئے ہیں۔ انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ ایسا کیا دے گئے ہیں؟ مَیں نے کہا کہ ایک واقعہ سناتا ہوں جس سے آپ کو علم ہوجائے گا۔ مَیں لندن میں تھا کہ ایک بار مجھے پانچ سو پاؤنڈ کی اشد ضرورت پڑی۔ مَیں نے وہاں کے امیر صاحب کو ایک خط لکھا کہ یہ رقم مجھے قرضہ حسنہ کے طور پر دے دی جائے تو اتنے عرصے میں واپس کردوں گا۔ تو اگلے ہی دن فون آیا کہ آکر چیک لے جاؤں۔ مَیں نے پیسے لے کر استعمال کیے اور آسانی سے واپس بھی کردیے۔ بتانا یہ تھا کہ میرے اباجان جب دنیا سے گئے ہیں تو دو سو ممالک میں میرا اکاؤنٹ کھلواگئے ہیں۔ کیا آپ کو گاؤں سے باہر بھی کوئی جانتا ہے؟

اباجان کو احمدیت کی آغوش میں لانے والے دونوں بزرگوں کے چند ایمان افروز واقعات پیش کرتا ہوں۔

محترم چودھری فتح دین صاحب کا یہ واقعہ بہت ایمان افروز ہے کہ گاؤں کے ڈیرہ میں شدید گرمیوں میں گاؤں والوں نے آپ کو کہا کہ پانی کی کمی ہوگئی ہے اور کنویں بھی خشک ہوتے جارہے ہیں۔ ایک دن آج منتخب کرلیتے ہیں اگر مرزا قادیانی سچا ہے تو اُس دن بارش ہوجائے تو ہم سارے مرزا صاحب کی بیعت کرلیں گے۔ اور اگر بارش اُس دن نہ ہوئی تو فتح دین بھی مرزا کو چھوڑ دے گا۔ چنانچہ ساون کی پانچ تاریخ منتخب کرلی گئی۔ اُس روز شدید گرمی تھی اور گاؤں والے ڈیرے پر بیٹھے مذاق اُڑا رہے تھے۔ چودھری فتح دین صاحب اٹھے اور کچھ دور جاکر اپنا صافہ بچھاکر دعا میں مصروف ہوگئے۔ آپ نے اپنے اللہ سے عرض کی کہ اگر آج بارش نہ ہوئی تو لوگ یہی کہیں گے کہ فتح دین جھوٹا ہوگیا ہے، پر جب وہ کہیں گے کہ فتح دین نے جھوٹے مسیح موعود کی بیعت کی ہے تو بھلا تیری غیرت کیسے گوارا کرے گی؟ ابھی دعا جاری تھی کہ بدلی آئی اور بارش شروع ہوگئی۔ آپ نے صافہ وہیں چھوڑا اور ڈیرے پر آئے تو لوگ وہاں سے جاچکے تھے۔ آپ نے بارش میں گاؤں کے ہر دروازے پر دستک دی لیکن بدقسمتی سے کسی نے اپنے عہد کا پاس نہ کیا اور بیعت نہ کی۔

حضرت مولوی محمد اسحٰق صاحبؓ میرے والد سے بہت محبت کرتے تھے اور اکثر ملنے کے لیے گاؤں آتے تھے۔ ایک دن صبح کے وقت آئے اور اباجان کو کہنے لگے: باغ علی! میرا اب دنیا سے جانے کا وقت آگیا ہے۔ فرشتے میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ مَیں ان سے اپنی بیٹیوں سے آخری ملاقات کرنے کی اجازت لے کر آیا ہوں اور اُن سے ملنے قصور شہر اور ساتھ کے گاؤں میں جارہا ہوں جہاں وہ رہتی ہیں۔ میرا وصیت سمیت ہر ایک کا لینا دینا کلیئر ہے۔ مَیں نے اپنی بیوی کو تین صد روپے ٹرک کا کرایہ دیا ہے کہ میری میت کو ربوہ پہنچانا ہے۔ کفن خرید کر رکھا ہوا ہے۔… اباجان کہتے تھے کہ مَیں سوچنے لگ گیا کہ مولوی صاحب کی عمر کافی ہوگئی ہے اس لیے شاید ان کا دماغ اب کنٹرول میں نہیں رہا۔ بہرحال مولوی صاحب چلے گئے۔ پھر عصر کے وقت دوبارہ آئے اور کہنے لگے کہ قصور والی اپنی بیٹی سے مل لیا ہے، دوسری بیٹی سے ملنے اس کے گاؤں جانے لگا تو فرشتے کہنے لگے کہ گھر چلو، ہم تمہارے نوکر نہیں ہیں۔ ہم اپنی ڈیوٹی پوری کریں اور جائیں۔ ہم تو مہلت دے رہے ہیں تمہاری دعاؤں کے صدقے جو تم روزانہ تہجد میں کرتے ہو کہ اے اللہ! مجھے موت گھر میں آئے۔ مَیں تبلیغ کے لیے اکثر گھر سے باہر رہتا ہوں اس لیے نہیں چاہتا کہ کسی اَور کو میری وجہ سے کوئی پریشانی ہو۔ تو باغ علی! میری بیٹی کو کہنا کہ اگر فرشتے مجھے اجازت دیتے تو مَیں آخری دفعہ ضرور تجھے ملنے آتا اور اب مَیں گھر واپس جارہا ہوں۔

اباجان کہتے ہیں کہ پھر مجھے صبح والا خیال آیا کہ مولوی صاحب کی عمر واقعی زیادہ ہوگئی ہے۔ کچھ دیر بعد مَیں مغرب کی نماز کی تیاری کررہا تھا تو ایک لڑکا کھریپڑ سے سائیکل پر مولوی صاحب کی وفات کی اطلاع دینے آگیا۔ مَیں اُن کے گاؤں کی طرف جاتے ہوئے سوچتا جا رہا تھا کہ آپؓ کا اپنے ربّ سے کتنا زندہ تعلق تھا۔ جب آپؓ کے گھر پہنچا تو آپؓ کی اہلیہ نے کفن اور تین صد روپے دیے اور بتایا کہ گھر آکر آپؓ نے فرمایاکہ میرے لیے چائے بناؤ اور راستہ چھوڑ دو۔ جب مَیں چائے بناکر واپس آئی تو آپؓ وفات پاچکے تھے۔

آپؓ کی اہلیہ نے مزید بتایا کہ جب ہماری دونوں بیٹیاں شادی کی عمر کو پہنچیں تو مَیں اکثر مولوی صاحبؓ کو کہا کرتی تھی کہ ان کے بارے میں بھی سوچا کرو۔ آپؓ کئی کئی دن تبلیغ کے لیے چلے جاتے ہیں اور گھر کی فکر ہی نہیں۔ آخر ایک دن یہی بات کی تو آپؓ کہنے لگے کہ اچھا مَیں بندوبست کرتا ہوں۔ کچھ دیر بعد واپس آکر مجھے کچھ پیسے پکڑائے اور کہا کہ کچھ لوگ آئیں گے، رشتہ کردینا۔ بعد میں آپؓ نے بتایا کہ مَیں نے اپنے اللہ میاں سے کہا کہ اے میرے خدا! تیری جوان بیٹیاں ہوں، غریبی نے صرف تیرا ہی گھر دیکھ رکھا ہو، پگڑی تیری گرنے کا ہر وقت خطرہ ہو، رشتہ کوئی تجھ سے نہ پوچھے، نزدیک تجھے کوئی بیٹھنے نہ دے۔ تو پھر مَیں دیکھوں کہ تُو اس دنیا میں کس طرح جی سکتا ہے۔ اسی لیے تُو اکیلا ہے نہ کوئی تیرا شریک، پریشانی تجھے کوئی نہیں ہے، سب سے بڑی بات تو یہ کہ تُو کسی کا جواب دہ نہیں ہے۔ ابھی مَیں نے سجدہ میں دعا کرکے سر اٹھایا ہی تھا کہ مجھے آہٹ سنائی دی۔ جب مَیں نے سلام پھیرنے کے بعد دیکھا تو ایک آدمی نے مجھے کچھ رقم پکڑائی۔ گنے تو ایک صد چالیس روپے تھے۔ پیچھے دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا اور مَیں اُس شخص کو جانتا بھی نہیں تھا۔ نہ کبھی اُس کو پہلے دیکھا تھا اور نہ کبھی بعد میں ملاقات ہوئی۔ پھر جبکہ ابھی التحیات کی پوزیشن میں ہی بیٹھا تھا کہ ایک اَور شخص آیا اور اُس نے مجھے ساٹھ روپے دیے۔ پھر ایک اَور شخص آیا اور کچھ پیسے دیے۔ مَیں نے وہ رقم لاکر بیوی کو دی۔ اس رقم سے دونوں بیٹیوں کا جہیز بھی بن گیا اور اللہ کے فضل سے وہ اپنے اپنے گھر رخصت بھی ہوگئیں۔

………٭………٭………٭………

چنگیز خان اور ہلاکو خان

چنگیزخان اور ہلاکوخان کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون ماہنامہ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ نومبر 2013ء میں مکرم ندیم احمد فرخ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مشہور منگول جنگجو سردار چنگیز خان 1162ء میں دریائے آنان کے علاقے میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام تموجن تھا۔ صرف تیرہ برس کی عمر میں اُس کے والد نے اُسے اپنے قبیلے کا سردار بنادیا۔ اُس وقت منگولیا میں کئی قبائل حکومت کرتے تھے۔ تموجن نے اپنی حکمت عملی سے تمام قبائل کو متحد کیا تو سب نے اُس کی قابلیت دیکھ کر اُس کو اپنا سردار مقرر کرلیا اور اُسے خاقان (یعنی بڑا بادشاہ)کے خطاب سے نوازا گیا۔

چنگیزخان نے حکمرانی سنبھالتے ہی فوج کو منظّم کیا اور منگول سلطنت کو مضبوط بنانے کے لیے دیگر علاقوں کی تسخیر اور تباہی کی۔ ساری دنیا کو فتح کرنے کے جنون میں اُس کی خونخوار فوجوں نے جنوبی روس اور شمالی ہند تک حملے کرکے فتوحات حاصل کیں۔ قازقستان اور کرغزستان بھی فتح کیا۔ چین پر بھی کئی حملے کرکے اس کے بہت سے علاقے فتح کیے۔ ساتھ ہی اپنی سلطنت میں تجارت کو فروغ دے کر اسے معاشی استحکام بھی دیا۔ وہ 1227ء میں چین پر اپنے تیسرے حملے میں مصروف تھا جب اُس کا انتقال ہوگیا۔

چنگیز خان کے ایک بیٹے کا نام تولی خان تھا جس کے تین بیٹے تھے یعنی ہلاکو خان، قبلائی خان اور منگوخان۔ ان میں ہلاکو خان ایک ظالم انسان تھا جو 1217ء میں پیدا ہوا۔ 1256ء میں اُس نے ایران کو فتح کرکے وہاں کے بادشاہ خورشاہ کو قتل کردیا۔ پھر ایک لاکھ فوج لے کر عراق پر قبضہ کرلیا اور بغداد، بصرہ اور کوفہ کو تباہ و برباد کردیا۔ دو سال بعد اُس نے دمشق فتح کرکے وہاں بھی قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ آخر 1260ء میں اُسے مصر میں شکست ہوئی۔ 1265ء میں ایران میں اس کا انتقال ہوگیا۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍اکتوبر2016ء میں شامل اشاعت مکرم طاہر بٹ صاحب کی نعت میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:


تُو نُورِ دو جہاں ہے ، رخشاں تر ہے چاند تاروں سے
تُو پہنچا عرشِ یزداں تک فلک کی راہگزاروں سے
ترا اِک ایک نقشِ پا ہے منزل دنیا والوں کی
کہ واقف تُو فقط تھا عشق کی ارفع بہاروں سے
سبھی اعمال تیرے، مشعلِ انوارِ روحانی
تیرے اقوال بھی سارے ، ہیں زرّیں شاہ پاروں سے
تیرا دل بھی تو اِک کوہِ گراں صبر و رضا کا تھا
اٹھایا بار تُو نے جو ، نہ اُٹّھا کوہساروں سے
سراپا نُور تھا نُورِ الٰہی سے ترا سینہ
مٹائے تُو نے اندھیرے زمیں کے اندھے غاروں سے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button