آسمانی برجوں کا قرآن میں مختلف جگہوں پر ذکر کیا گیا ہے
آسمانی برجوں کا قرآن میں مختلف جگہوں پر ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: وَ لَقَدۡ جَعَلۡنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا۔ (الحجر:۱۷) اور یقیناً ہم نے آسمان میں (ستاروں کی) کئی منزلیں بنائی ہیں۔ پھر فرمایا:تَبٰرَکَ الَّذِیۡ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا۔ (الفرقان:۶۲)یعنی برکت والی ہے وہ ہستی جس نے آسمان میں ستاروں کے ٹھہرنے کے مقام بنائے ہیں۔ پھر فرمایا: وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الۡبُرُوۡجِ۔ (البروج:۲) یعنی میں برجوں والے آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند، کواکب اورنجوم وغیرہ اجرام فلکی کا بھی قرآن کریم میں بکثرت ذکر فرمایا ہے۔
احادیث نبویﷺ میں ان اجرام فلکی کا ذکر مختلف معنوں میں ملتا ہے۔ چنانچہ احادیث میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ قیصر روم ہرقل(جو علم النجوم کا بہت بڑا ماہر تھا) نے ستاروں کی نقل وحرکت سے اندازہ لگا لیا تھا کہ حضورﷺ کی بعثت ہو چکی ہے یا آپؐ کی بعثت کا زمانہ قریب ہے۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی)پھر حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ستارے آسمان کی زینت کےلیے، شیاطین کو مارنے کےلیے اورراستہ معلوم کرنے کےلیے علامت کے طور پر بنائے گئے ہیں اور جس نے اس سے ہٹ کر ان کی کوئی اور تاویل کی تو اس نے غلطی کی اور ایک ایسی چیز کے درپے ہوا جس کا اسے کوئی علم نہیں۔ (صحیح بخاری کتاب بدءالخلق باب فی النجوم) اسی طرح فرمایا: جس نے نجوم کے ذریعہ سے کچھ سیکھا اس نے جادو کا ایک حصہ پایا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الطب باب فی النجوم) پھر حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ سورج اورچاند کے گرہن کا کسی کی موت و حیات سے کوئی تعلق نہیں۔ (صحیح بخاری کتاب الجمعۃ بَاب الصَّلَاةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْس) لیکن سورج اور چاند کے گرہنوں کو حضورﷺ نے اپنے مہدی کے مبعوث ہونے کے دو بے مثل نشان قرار دیے، جو اپنے وقت پر پوری شان کے ساتھ پورے ہوئے اور مسیح محمدی کی صداقت پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر گئے۔ (سنن دار قطنی کتاب العیدین باب صِفَةِ صَلَاةِ الْخُسُوفِ وَالْكُسُوفِ وَهَيْئَتِهِمَا)
قرآن و حدیث کی ان تعلیمات کی روشنی میں علمائے امت اجرام فلکی کی خدائی مشیت کے بغیر از خود زمینی حوادث پر اثر ڈالنے کی تاثیرات کے عقیدہ کو شرک قرار دیتے ہیں۔ نیز ان اجرام فلکی کی حرکات و سکنات سے غیب کی خبریں معلوم کرنے کے نظریہ کو شیطانی اور گناہ کبیرہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم ان کی رفتار و حرکات کے ذریعہ وقت اور زمانہ کے تعین اور موسموں وغیرہ کی تبدیلی کے قائل ہیں۔… علم النجوم کے ماہرین اور ہیئت دانوں نے سورج کے ستاروں میں حرکت کرنے اورزمین کے سورج کےگرد چکر لگانے کے حوالے سے مختلف حساب لگا کرسال کے بارہ مہینوں کے لحاظ سے بارہ حصے بنائے ہیں اور انہیں بارہ برجوں کے نام دیئے ہیں۔ کسی کی تاریخ پیدائش کے اعتبار سے اسے کسی برج کے تحت شمار کرنے میں تو بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں لیکن ان خیالی اور فرضی برجوں سے علم غیب حاصل کرنے اور آئندہ زندگی کے بارے میں پیشگوئیوں کے دعاوی سب اٹکل پچو اور تک بندیوں کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس کا حقیقت اور مصفیٰ علم غیب سے کوئی بھی تعلق نہیں۔
(بنیادی مسائل کے جوابات نمبر۳۴ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍مئی ۲۰۲۲ء)