حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آنحضرتؐ نے مُردوں پر نوحہ کرنا ناجائز قرار دیا

نَوحہ اور بَین جو مُردوں پہ، فوت شدگان پہ کیا جاتا ہےاس کی کس پُرحکمت انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی۔ایک روایت میں آتا ہے اور یہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ  کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اُحد سے واپس لَوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ انصار کی عورتیں اپنے خاوندوں پر روتی اور بین کرتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا بات ہے حمزہؓ کو کوئی رونے والا نہیں؟ انصار کی عورتوں کو پتہ چلا تو پھر وہ حضرت حمزہؓ کی شہادت پر بَین کے لیے اکٹھی ہو گئیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ لگ گئی۔ میرے خیال میں مسجد میں ہی کچھ فاصلے پہ تھے۔ اور جب بیدار ہوئے تو وہ خواتین اسی طرح رو رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج یہ لوگ حمزہ کا نام لے کر روتی ہی رہیں گی؟ بند نہیں کریں گی۔ انہیں کہہ دو کہ واپس چلی جائیں۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ اپنے گھروں کو واپس لَوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی مرنے والے کا ماتم اور بَین نہ کریں۔ (مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۴۱۸-۴۱۹ حدیث ۵۵۶۳ مطبوعہ عالم الکتب بیروت ۱۹۹۸ء) تو اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مُردوں پر نوحہ کرنا ناجائز قرار دیا اور کسی بھی قسم کا نوحہ اور بین ختم کر دیا۔ یوں بڑی حکمت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں کے جذبات کا خیال رکھا۔ انہیں اپنے خاوندوں اور بھائیوں کی جدائی پر ماتم سے روکنے کی بجائے حضرت حمزہؓ کا ذکر کیا۔ ان پر رونے والا کوئی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حمزہؓ کی شہادت پر پھر لاش کی بے حرمتی دیکھ کر شدید غم تھا لیکن جب دیکھا کہ انصار عورتیں اب یہ نوحہ بند ہی نہیں کر رہیں۔ یہ ایک رسم ہی تھی تو پھر اس پر اس رسم کو ختم کرنے کے لیے اپنا نمونہ پیش کر دیا اور انہیں صبر کی تلقین کی۔ ایسی تلقین جو پُراثر تھی۔جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حمزہؓ کی جدائی کے غم کا تعلق ہے وہ آخر تک آپؐ کو رہا۔ ہمیشہ اس کا ذکر کرتے تھے۔

حضرت کعب بن مالکؓ نے حضرت حمزہؓ کی شہادت پر اپنے مرثیہ میں کہا تھا کہ میری آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور حمزہ کی موت پر انہیں رونے کا بجا طور پر حق بھی ہے۔ مگر خدا کے شیر کی موت پر رونے دھونے اور چیخ و پکار سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ وہ خدا کا شیر حمزہ کہ جس صبح وہ شہید ہوا دنیا کہہ اٹھی کہ شہید تو یہ جوانمرد ہوا ہے۔ (اسد الغابہ جلد ۲ صفحہ ۶۹ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت ۲۰۰۳ء)

(خطبہ جمعہ یکم مارچ ۲۰۲۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍ مارچ ۲۰۲۴)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button