مکتوب ایشیا (نومبر۲۰۲۴ء)
(بر اعظم ایشیاکے تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ)
عرب اسلامک سمٹ
مشترکہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس
سعودی خبر رساں ادارے کا بتانا ہے کہ اسرائیل کی فلسطینی اور لبنانی علاقوں میں بڑھتی ہوئی جارحیت نے عرب اور اسلامی راہنماؤں کو فوری اقدامات کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اس سلسلے میں سعودی عرب کے شہر ریاض میں اسلامی عرب سربراہی کانفرنس ہوئی جس میں عرب اور مسلم راہنماؤں کی توجہ غزہ اور لبنان میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی جارحیت پر تھی۔ یہ غیر معمولی سربراہی اجلاس سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے بلایا گیا، سعودی عرب، اردن، مصر، قطر، ترکی، انڈونیشیا، نائیجیریا اور فلسطین کے وزرائے خارجہ عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ مل کر غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے اور دیرپا اور جامع امن کے حصول کے لیے فوری بین الاقوامی اقدامات شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اجلاس کے اختتام پر جاری کیے جانے والے اعلامیے میں مسئلہ فلسطین اور لبنان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ جموں اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حقوق کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے شرکاء نے اپیل کی کہ عالمی برادری اِن تنازعات کے منصفانہ حل کے لیے کردار ادا کرے۔ اعلامیے کے مطابق کانفرنس میں مسلم مخالف رجحانات اور اسلاموفوبیا کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ مسلم ممالک کو مشترکہ عالمی حکمتِ عملی اپنانی چاہیے تاکہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو روکا جا سکے۔ کانفرنس میں شریک ممالک نے آپس میں تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے اور اقتصادی منصوبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا اور اِس کے لیے اِن کے درمیان آزادانہ تجارتی معاہدے اور سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے مختلف تجاویز پر غور بھی کیا گیا۔ اعلامیے میں تعلیم،سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ تحقیقی شعبوں میں تعاون بڑھانے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے تعلیمی اداروں اور سائنسی تحقیق میں شراکت داری کے فروغ کی اہمیت اجاگر کی گئی۔ سعودی خبررساں ادارے کے مطابق ریاض میں ۱۱؍نومبر کو ہونے والے اس مشترکہ عرب اسلامک سمٹ کی اہم ترجیحات میں جارحیت کو روکنا، شہریوں کا تحفظ، فلسطینی اور لبنانی عوام کو مدد فراہم کرنے کے لیےعالمی برادری پر دباؤ ڈالنا شامل ہے تاکہ وہ جاری جارحیت کے خاتمے اور خطے میں دیرپا امن و استحکام کے قیام کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرے۔
کانفرنس نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اِس سے نمٹنے کے لیے قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے اور عالمی سطح پر گرین انرجی اقدامات میں شرکت کی حوصلہ افزائی کے بارے میں بات کی گئی۔کانفرنس میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز کے حل کے لیے اتحاد اور یکجہتی بنیادی اصول ہیں اِس لیے باہمی تعاون، اَمن اور ترقی کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔
عرب میڈیا کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے پر پابندی کے ہولناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، سلامتی کونسل اسرائیل کی رکنیت معطل کرے اور بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کے خلاف یہودی آبادکاروں کی جاری دہشت گردی روکنے میں مدد کرے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب فلسطینی علاقوں سمیت لبنان اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی پُر زور مذمت کرتا ہے، بین الاقوامی برادری اسرائیل کو ایران اور لبنان کی سالمیت اور خود مختاری کے احترام کا پابند کرے۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ اسرائیل کی مسجد اقصیٰ کے تقدس کی پامالی اور بے حرمتی کی شدید الفاظ میں مذمت اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطین کا وجود ختم کرنے کے درپے ہے جس کے خلاف تمام مسلم ممالک متحد ہو کر آواز اُٹھائیں اور اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہوجائیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ مسلمان ممالک کو اسرائیل کے خلاف ضروری اقدامات لیتے ہوئے اِس کے ساتھ ہر طرح کی تجارت بند کردینی چاہیے اور اِسے عالمی سطح پر تنہاکردینا چاہیے۔
مشترکہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں وزیراعظم پاکستان سمیت پچاس سے زائد سربراہانِ مملکت اور خصوصی نمائندے شریک ہوئے اور سب نے ہی اقتصادی تعاون کے علاوہ اَمن اور استحکام کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے اتحاد پر زور دیا۔ سعودی ولی عہد نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ اُنہوں نے دو ریاستی حل پر عملدرآمد کے لیے بین الاقوامی اتحاد کا آغاز کر دیا ہے تاہم ضروری ہو گا کہ یہ اتحاد فلسطین کی رائے کا احترام کرتے ہوئے وہاں کے عوام کی اُمنگوں کے مطابق آگے بڑھے، پاکستان کا ۱۹۶۷ء سے قبل کی سرحدوں کے مطابق دو ریاستی حل کا مطالبہ فلسطینیوں کے لیے زیادہ قابل ِ قبول ہو سکتا ہے۔
یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ تمام معاملات زیر بحث بھی لائے جا سکتے ہیں اور میز پر بیٹھ کر گفت و شنید کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ اسرائیلی جارحیت کو رکوا کر اُسے واپسی پر مجبور کیا جائے،ابھی تک تو وہ کسی کی بات ماننے اور سننے کو تیار نہیں ہے چاہے وہ سلامتی کونسل کی قراردادیں ہوں یا امریکہ کی طرف سے حال ہی میں جاری کی جانے والی وارننگ،اِس سے قبل امریکہ اسرائیل کو زبانی کلامی کئی بار خبردار کر چکا ہے لیکن چونکہ ساتھ ہی ساتھ اُس کی مالی اور اسلحے کی امداد جاری ہے اِس لیے اسرائیل کو کسی بات کی فکر نہیں ہے کیونکہ اسرائیل کے اتحادی ابھی تک اس کی پشت پر نہ صرف کھڑے ہیں بلکہ اُس کی جارحیت کو حق ِدفاع گردانتے ہیں۔ دنیا کے کسی جنگی قانون اور ضابطے میں بھی بچوں اور خواتین پر ظلم اور بربریت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کسی قوم کی نسل کشی کا حق کیسے حق ِدفاع قرار دیا جا سکتا ہے؟اسرائیل کے اتحادی ممالک کے عوام اپنی حکومتوں کے ’’حقِ دفاع‘‘ کی اِس خود ساختہ تعریف کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، اسرائیل کے اندر سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں، امریکہ اور برطانیہ کے حالیہ انتخابات کے نتائج عوام کی اسرائیلی اقدامات اور اُس کا ساتھ دینے والوں کے خلاف واضح چارج شیٹ ہے،اسرائیل کا کھلم کھلا ساتھ دینے والے سیاستدانوں کی بڑی تعداد کو عوام نے مسترد کیا ہے لیکن دنیا کو چاہیے کہ سب سے پہلے اسرائیل کے اتحادیوں پر زور ڈالے کہ وہ اِس کی ہر طرح کی امداد بند کریں، فلسطین میں جنگ بندی کرائیں،اسرائیلی افواج کو واپس بھجوائیں اور پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاملات حل کریں۔اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ وہ لبنان،ایران اور شام کو بھی جنگ میں لپیٹ لے تاکہ معاملہ فلسطین سے نکل کر مزید پھیل جائے اور اِس کے توسیع پسندانہ عزائم کامیاب ہو سکیں جس کا وہ اظہار ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے نقشے دِکھا دِکھا کر کر چکا ہے، ایسے وقت میں مسلم ممالک کا متحد ہونا لازم ہے۔یہی وقت ہے کہ تمام مسلم ممالک اپنے اختلافات بھلا کر کم از کم فلسطین کے معاملے پر ایک آواز ہو جائیں، اُس اتحاد کو فوری طور پر عملی شکل دیں جس کا عندیہ سعودی عرب نے دیا ہے، مِل کر ہر ممکن عملی قدم اُٹھائیں تاکہ یہ مسائل حل ہو سکیں۔یاد رہے کہ گذشتہ برس اکتوبر میں اسرائیل کے فلسطین پر حملوں کے بعد سعودی عرب نے اس معاملے پر عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان کو ایک فورم پر اکٹھا کیا اور گذشتہ برس نومبر میں عرب اسلامک سمٹ منعقد کیا گیا تھا، جس میں مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔
فلسطین پر اسرائیلی جارحیت،تازہ صورتحال
۲۰،۱۹؍نومبر کی خبروں کے مطابق اسرائیلی فوج کے حملوں اور بمباری میں مزید ۱۲۹؍فلسطینی شہید ہو گئے۔غزہ کےطبی ماہرین نے بتایا کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں ۲۰؍فلسطینی شہیدہوئے، جن میں بے گھر خاندانوں کے خیموں پر حملوں میں شہید ہونے والےچھ افراد بھی شامل ہیں۔صحت کے حکام نے بتایا کہ دو بچوں سمیت چار افراد ساحلی علاقے المواسی میں ایک خیمہ بستی پر اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوئے، جسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاقہ قرار دیا گیا ہے، جب کہ دوافراد جنوبی شہر رفح میں عارضی پناہ گاہوں میں اور ڈرون حملے میں شہید ہو گئے۔طبی ماہرین نے بتایا کہ شمالی غزہ کے بیت لاہیا قصبے میں ایک اسرائیلی میزائل نے ایک گھر کو نشانہ بنایا، جس سے کم از کم دو افرادشہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ غزہ میں ایک گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں سات افراد شہید اور دس زخمی ہو گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعدازاں گذشتہ روز، وسطی غزہ کی پٹی میں نصیرات کیمپ میں اسرائیلی فضائی حملے میں چار افرادشہید ہوئے۔ان واقعات پر اسرائیل کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔خان یونس کے ناصر ہسپتال میں ٹینٹ ہاؤسنگ پر اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کے لواحقین، کمبلوں اور سفید کفنوں میں لپٹی لاشوں کے پاس احتجاج کے لیے بیٹھے تھے تاکہ انہیں قبروں تک لے جانے سے پہلے الوداع کیا جا سکے اور عالمی میڈیا میں احتجاج ریکارڈ کرایا جائے۔اسرائیلی فوج نے بیت لاہیا اور قریبی قصبوں بیت حنون اور جبالیہ میں ٹینک اور فوجی داخل کیے جو غزہ کی پٹی کے آٹھ تاریخی پناہ گزین کیمپوں میں سے سب سے بڑے ہیں۔بیت لاہیا میں کمال عدوان ہسپتال کے ڈائریکٹر حسام ابو صفیہ نے کہا کہ ہسپتال اسرائیلی فورسز کے محاصرے میں ہے اور عالمی ادارہ صحت خوراک، دوائیں اور جراحی کے آلات کی فراہمی سے قاصر ہے۔انہوں نے کہا کہ بچوں میں غذائی قلت کے کیسز بڑھ رہے ہیں،۔غزہ کا کوئی ہسپتال فعال نہیں رہا۔ غزہ میں اقوام متحدہ کے ۱۰۰ امدادی ٹرک لوٹ لیے گئے۔غزہ کی وزارت صحت کےمجموعی اعداد و شمار کے مطابق ،اسرائیلی فوج کی غزہ میں جاری بمباری کے باعث اب تک ۷۰؍فیصد فلسطینی بچوں اور خواتین سمیت کل ۴۳۹۷۲؍فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔نیز وزارت ہذا کے مطابق اب تک اسرائیلی فوج نے ۱۰۴۰۰۸؍فلسطینیوں کو زخمی کیا ہے۔
دبئی میں غیرقانونی تارکین وطن کے لیے پاسپورٹ مدت میں رعایت
متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کے حکام نےغیرقانونی تارکین وطن کی سہولت کے لیے پاسپورٹ کی مدت میں مزید رعایت دینے کا اعلان کیا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق دبئی میں مقیم غیرملکی کارکن جن کے اقامے(Residence Permits) اور ورک پرمٹ(Work permit) تجدید نہیں کرائے گئے انہیں یہ سہولت فراہم کی گئی ہے کہ وہ اگر ریاست میں مزید رہنے کے خواہشمند ہیں تو اپنے قیام کو قانونی بنا لیں،مہلت کے دوران کسی قسم کا جرمانہ اور اضافی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
اس رعایت کا اعلان ان غیرملکیوں کے لیے بھی کیا گیا ہے جو مستقل طورپر اپنے وطن جانے کے خواہشمند ہیں، ایسے تارکین قانونی طورپر فائنل ایگزٹ ویزا حاصل کرسکتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے وطن کا سفر کرنے کے اہل ہوں گے۔حکام کا کہنا ہے کہ جو افراد سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فائنل ایگزٹ ویزے پر جائیں گے انہیں بلیک لسٹ کی کیٹیگری میں شامل نہیں کیاجائے گا اوروہ جب چاہیں دوسرے ویزے پر امارات آسکتے ہیں۔
اماراتی امیگریشن کے ڈائریکٹر جنرل سہیل سعید الخیلی کا کہنا ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کے لیے جو رعایتی مہم شروع کی گئی ہے اس کا مقصد ان کے قیام کو قانونی شکل دینا ہے، ایسے غیرملکی جن کے پاسپورٹ کی ایکسپائری کم تھی ان کےلیے خصوصی طورپر ایکسپائری کی حد ایک ماہ کردی گئی ہے۔
واضح رہے کہ اماراتی حکام نے دو ماہ تک ایسے تارکین کو جن کے اقامے (Residence Permits)زائد المیعاد تھے یا کسی وجہ سے ان کا ورک پرمٹ نہیں بنایا گیا تھا انہیں مہلت دی ہے تاکہ وہ اپنے قیام کی دستاویزات کو قانونی شکل دے کر ملازمتیں حاصل کرسکیں۔
پنجاب پاکستان میں سموگ کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات
۲۰؍نومبر سے ربوہ اور لاہور پنجاب بھر میں سموگ میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے سکولوں اور کالجوں میں ہونے والی رخصتیں واپس لے لی گئی ہیں۔ دیگر لگائی جانے والی گرین لاک ڈاؤن کی پابندیوں میں بھی نرمی کردی گئی ہے۔ تاہم نومبر کے آغاز میں جب سموگ کا کافی زور تھا اور صحت عامہ کی صورتحال بہت بگڑ چکی تھی، اس حوالے سے ریکارڈ کے لیے ان دنوں پنجاب میں سموگ کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں۔
پنجاب حکومت نے سموگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ پنجاب کی سینئر وزیر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہیلتھ ایمرجنسی کے علاوہ دونوں شہروں میں جمعے، ہفتے اور اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن ہو گا، دونوں شہروں میں ہفتے سے آئندہ اتوار تک تعمیرات پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ہیلتھ ڈیسک اور ہسپتالوں میں سٹاف کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں جبکہ محکموں کو ادویات وافر مقدار میں مہیا کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔ شہریوں کو کہا گیا ہے کہ موٹر سائیکل پر ایمرجنسی کے سوا باہر نہ نکلیں اور ماسک کا استعمال کریں۔ اگر سموگ برقرار رہی تو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسز ہوں گی،ریسٹورنٹس کو ’’ڈائن اِن‘‘ کے لیے شام چار بجے تک کا وقت دیا گیا ہے اور ٹیک اوے (take away)رات آٹھ بجے تک کھلا رہے گا۔
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ میں بھی سموگ کے حوالے سے درخواست کی سماعت ہوئی، جس میں پنجاب حکومت کو سموگ کے خاتمے کے لیے دس سال کی پالیسی بنانے کی ہدایت کی گئی۔سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں الیکٹرک بسیں چلانے کے لیے بجٹ مختص کردیا ہے، آئندہ سال جون سے قبل یہ الیکٹرک بسیں سڑکوں پر ہوں گی جبکہ صوبائی حکومت فوڈ سیکیورٹی سے متعلق اقدامات بھی کر رہی ہے۔اُنہوں نے مزید کہا کہ سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے اور بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے بھی اقدامات کر رہے ہیں،زمینی سطح کا درجہ حرارت بڑھنے سے روکنے اور اربن فاریسٹ پر کام کیا جا رہا ہے،آئندہ سال مارچ میں عدالت کو اس کی رپورٹ دیں گے۔ عدالت نے ’’بیجنگ ماڈل‘‘ کو دیکھ کر معاونت کرنے کی ہدایت بھی کی۔ عدالتِ عالیہ نے حکومتی اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے پر پابندی لگائے، زیر زمین پانی محفوظ کرنے والے پودے کو زیادہ سے زیادہ لگایا جائے، حکومت دس مرلہ گھروں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا لازمی قرار دے۔
یہ بات اہم ہے کہ سموگ کی وجہ سے عام شہریوں کے معمولات زندگی اور صحت کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیاں بھی متاثر ہو ئی ہیں۔ پنجاب کے بڑے شہر اور نواحی قصبات میں ہر سال سورج کی روشنی اکتوبر سے فروری تک اسموگ کی زہریلی ہوا کے بادلوں میں چھپ جاتی ہے اور شہریوں کے لیےسانس لینا یا معمولات زندگی جاری رکھنا محال ہو جاتا ہے۔ اس سال لاہور کے علاوہ ملتان، فیصل آباد، بہاولپور اور دیگر شہروں میں بھی ایئر کوالٹی انڈیکس ۳۰۰؍کی خطرناک حد سے بھی کئی گنا اوپر جا چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایئر کوالٹی انڈیکس ۱۵۰۰؍سے ۲۰۰۰؍کی حد بھی کراس کر گیا۔ اس کی وجہ سے حکومت کو مختلف شہروں میں گرین لاک ڈاؤن لگانے کے علاوہ صنعتی و تجارتی سرگرمیوں پر بھی پابندیاں عائد کرنی پڑ رہی ہیں۔جیسا کہ اوپر کی رپورٹ سے ظاہر ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں قائم آلودگی پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ’’آئی کیو ایئر‘‘ کے مطابق لاہور میں ہوا کا معیار خطرناک حد سے بھی زیادہ آلودہ ہو چکا ہے جس میں بنیادی آلودگی والے pm2.5 ذرات کی سطح عالمی ادارہ صحت کی جانب سے محفوظ قرار دی گئی مقدار سے۳۵.۴؍گنا زیادہ ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے پنجاب حکومت گذشتہ سال سے اسموگ ایکشن پلان پر عملدرآمد کر رہی ہے۔ اس کے باوجود لاہور میں گذشتہ ایک سال کے دوران اسموگ کے بحران میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ اکتوبر کے وسط سے لاہور مسلسل دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں سرفہرست ہے۔ ایئر کوالٹی کی مانیٹرنگ کرنے والے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال بھی لاہور کا ماحول صرف تین دن کے لیے اچھا رہا جبکہ ۴۲؍دن کے لیے ہوا کا معیار تسلی بخش اور ۳۲۰؍دن تک غیر تسلی بخش یا مضر صحت ریکارڈ کیا گیا۔ اس سال بھی یکم جنوری سے ۳۰؍اکتوبر تک لاہور کی ہوا کے معیار میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی اور صرف چار دن ہوا کا معیار اچھا رہا جبکہ ۱۲دن ایئر کوالٹی انڈیکس تسلی بخش رہا جبکہ باقی دنوں میں ہوا کا معیار نقصان دہ یا انتہائی نقصان دہ ریکارڈ کیا گیا۔
پی آئی اے کاعروج و زوال
بیرون ملک رہنے والے پاکستانی، ’’پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز‘‘(PIA) کے ساتھ کسی زمانے میں خاص تعلق رکھتے تھے۔ جو شخص بھی بیرون ملک روانہ ہوتا یا پاکستان واپس آتا تو پاکستانی پرچم بردار ایئر لائن پر سفر کرنے کو ترجیح دیتا۔ دیارغیر میں ایئرپورٹ پر کہیں بھی پی آئی اے کا کیبن دیکھتے تو وہیں سے بکنگ کرالیتے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ایک ہی اڑان میں یورپ اور کینیڈا سے مسافروں کو لے کر لاہور اسلام آباد یا کراچی میں ان کے مطلوبہ ایئرپورٹ پر اتار دیتی۔ اگر کوئی شخص بیرون ملک وفات پا جاتا تو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن اس کی میت کی واپسی کے سارے فرائض اپنے ذمہ لیتی اور اس سلسلے میں تمام انتظامات منٹوں میں طے پا جاتے۔
ایک طویل عرصہ تک پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن بیرون ملک رہنے والوں کے لیے ایک ماں کا کردار ادا کرتی رہی۔ پھر اس ایئرلائن کے محافظ، راہزن بن گئے۔ عروج سے زوال تک کا سفر ایسے بے ڈھنگے طریقے سے طے ہوا کہ آج اس کا وقار عالمی سطح پر بہت نیچے چلا گیا ہے۔ جس جگہ بیٹھوپی آئی اے کا نوحہ شروع ہو جاتا ہے ہر پاکستانی کا دل پی آئی اے کےاختتام پر انتہائی اداس ہے۔ جو مسافر ایک ہی اڑان میں دنیا کے کسی بھی کونے سے پاکستان پہنچ جاتے تھے آج انہیں پاکستان آنے کے لیے دربدر ہونا پڑتا ہے، پروازیں بدلنا پڑتی ہیں، کئی ملکوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے، سامان اتارنا اور چڑھانا پڑتا ہے اور جو کام پی آئی اے سات یا آٹھ گھنٹوں میں سر انجام دے دیتی تھی آج وہ بارہ گھنٹوں میں بھی بطریق احسن انجام نہیں پاتا۔ دیار غیر میں وفات پانے والوں کی میتیں جو ضروری کارروائی کے بعد پی آئی اے اپنے ذمے لے لیتی تھی آج اس میت کو کئی کئی دن سرد خانے کی نذر ہونا پڑتا ہے۔ اول تو کوئی ایئر لائن میت لانے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی اور اگر کوئی تیار ہو بھی جائے تو اس کے اخراجات ہوشربا طور پر زیادہ ہوتے ہیں مجبوراً پاکستانی کمیونٹی سے چندہ کر کے اپنے بھائی کی میت دیار غیر سے وطن بھیجی جاتی ہے اور وہ بھی کارگو کے ذریعے۔
جس کے طیاروں پر غیر ملکی ایئر لائنز تربیت لیا کرتی تھیں آج ان طیاروں کی حالت ایسی ہے کہ شاید انہیں سڑکوں پر بھی نہ چلایا جا سکے۔ جو ادارہ غیر ملکی ایئر لائنوں کو فضائی میزبان تیار کر کے دیتا تھا آج وہاں پر ڈھنگ کے میزبان بھی دستیاب نہیں، جس کے پائلٹ دنیا بھر کے لیے عزت و فخر کا نشان ہوا کرتے تھے آج ان کے ماتھے پر جعلی ڈگری کا جھوٹا داغ لگا کر پوری دنیا میں ان کا داخلہ ممنوع کر دیا گیا ہے۔امیگریشن حکام کی بے توقیری کا نشانہ بننے والوں کے زخموں پر مرہم اسی صورت میں رکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ایک مرتبہ پھر اڑان بھرے اور سبز ہلالی پرچم پوری دنیا میں لہرائے۔
٭…٭…٭