ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز
(دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ اول)
تعارف
۱۵؍ اکتوبر ۲۰۱۸ءکو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے امریکہ اور گوئٹے مالاکے دورے کا آغاز فرمایا جس کا دورانیہ تین ہفتے تھا۔
اس ڈائری کے قارئین میں سے بیشتر افراد نے ان ناقابلِ فراموش لمحوں اور شاندار مناظر کو دیکھا ہوگا جو اس دوران پیش آئے۔ بہت سے خوش نصیب احمدیوں نے انہیں براہِ راست مشاہدہ کیا، جبکہ بے شمار دوسرے افراد نے انہیں ایم ٹی اے یا سوشل میڈیا پر دیکھا۔
میری خواہش و دعا ہے کہ میں بھی ان دنوں کے کچھ پہلوؤں اور واقعات کو آپ کے ساتھ شیئر کر سکوں جو خلافتِ احمدیہ کی برکات کو اجاگر کرنے میں مدد دیں۔ اس بات میں شک کا کوئی شائبہ تک نہیں کہ کوئی بھی تحریر یا کیمرہ خلیفہ وقت کے ساتھ کیے گئےسفر کے ان غیر معمولی دنوں کی درست عکاسی نہیں کر سکتا۔
حضور کا یہ دورہ آپ کے امریکہ کے گذشتہ دورے کے ساڑھےپانچ سال بعد ہو رہا تھا جبکہ آپ کا گوئٹے مالا کا یہ دورہ نہ صرف اس ملک کا پہلا دورہ تھا بلکہ یہ وسطی امریکہ کا بھی پہلا دورہ تھا۔ حضورِانور کی حرم محترمہ خالہ سبوحی کے علاوہ حضورِانور کی معیت میں سفر کرنے والے قافلے میں نو افراد شامل تھے۔
مسجد بیت الرحمٰن میں استقبال
رات پونے دس بجے تک امیگریشن کا عمل مکمل ہو چکا تھا نیز سامان (luggage) وصول کر لیا گیا تھا۔ حضور ہوائی اڈے سے روانہ ہونے کے بعد دس بجکر ۳۵؍ منٹ پر میری لینڈ کی مسجد بیت الرحمٰن مسجد پہنچے، جہاں ساڑھے تین ہزار سے زائد احمدی مسلمانوں نے انتہائی جذباتی اور یادگار انداز میں حضور کا استقبا ل کیا۔
جیسے ہی حضور کی گاڑی مسجدبیت الرحمٰن کے داخلی دروازے کے قریب رُکی اور حضور گاڑی سے باہر تشریف لائے تو مقامی احمدی مسلمانوں کو پہلی بار حضورِانور کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ کبھی کبھار خاص لمحوں یا ماحول کو ’’electric‘‘ کہا جاتا ہے، جب امریکہ کے ممبران جماعت نے اپنے خلیفہ کا استقبال کیا تو بالکل ایسا ہی محسوس ہوا۔ حضورِانور مسجد کے احاطے میں آگے بڑھتے ہوئے مسکراتے اور ہاتھ ہلا تے رہے۔
حضورِانور چند منٹ کے لیے اپنی قیام گاہ پر وضو کرنے کے لیے تشریف لے گئے جس کے بعد مقامی وقت کے مطابق رات گیارہ بجکر پانچ منٹ پر مغرب اور عشاء کی نماز پڑھانے کے لیے مسجد تشریف لا ئے۔ نماز ہونے تک ساڑھے گیا رہ بج چکے تھے۔ جب حضورنماز کے بعد اپنی قیام گاہ واپس جا رہے تھے تو اپنے بھانجے مرزا احسان احمد کو دیکھا اور مسکرا کر فرمانے لگے کہ ہمارا اب فجر کا وقت ہو چکا ہے۔
برطانیہ کے وقت کے مطابق اس وقت صبح ساڑھے چار بجے کا وقت ہو چکا تھا۔ حضورِانور کا یہ تبصرہ طویل اور تھکا دینے والے سفر کے دن کو ظاہر کرتا تھا لیکن اس کے باوجودحضورِانور کے چہرے پر تھکاوٹ کےکوئی آثار تک نہ تھے۔
اندھیرے وقت میں روشنی کا مینار
۱۶؍ اکتوبر بروز منگل نماز اور کھانے کے بعد، فیملی ملاقاتوں کا پہلا سیشن منعقد ہوا اوراگلے تین ہفتوں کے دوران، بیشتر افراد جو حضورِانور سے ملاقات کے ليے آئے وہ لوگ تھے جنہیں پہلے کبھی حضورِانور سے ملاقات کا موقع نہیں ملا تھا۔
حضورِانور سے ملاقات کرنے والے ایک دوست ڈاکٹر نورالدین اکندلے صاحب(عمر۶۵؍ سال) تھے، جو نائیجیریا سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکہ تعطیلات پر آئے ہوئے تھے۔ ملاقات کے بارے میں مجھے بتاتے ہوئے ڈاکٹر نورالدین اکندلے صاحب نے کہاکہ حضورِانور ہم سب کے والد ہیں۔ ان کی فطری محبت کی حرارت ہمارے دلوں کو گرماتی ہے اور وہ ہم سے اپنے بچوں کی طرح سلوک کرتے ہیں۔ اگرچہ حضور بظاہر مجھ سے عمر میں محض دو یا تین سال ہی بڑے ہوں گے لیکن اللہ نے انہیں خلافت کا روحانی مرتبہ دے کر میرے والد کا درجہ عطا فرمایا ہے۔ اندھیرے وقت میں وہ روشنی کا مینار ہیں۔ چاہے ہمارا کہیں سے بھی تعلق ہو حضور ہمیں سمجھتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور کیا ہیں۔ حضور سے ملاقات کرنے سے مجھے ایک بہتر انسان بننے، اللہ کی راہ میں مزید خدمت کرنے، ہمیشہ سچ بولنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ساتھ اپنی عقیدت کو بڑھانے کی تحریک ہوتی ہے۔
حضورِ انور سے ملاقات کرنے والے ایک اور دوست ہمایوں سامی صاحب (عمر ۳۶؍ سال) تھے، جو کہ ۲۰۱۶ءمیں پاکستان سے امریکہ آئے ہیں۔ حضور سے ملاقات کے بعدہمایوں سامی صاحب نے کہاکہ میرا پہلا تاثر یہ ہےکہ صرف ایک منٹ میں ہی حضور نے مجھے اور میری فیملی کو ایسی محبت سے نوازا جو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ صرف ایک منٹ میں انہوں نے ہمیں وہ سب کچھ دے دیا جس کی ہمیں مستقبل میں کبھی بھی ضرورت ہو سکتی تھی۔ حضور جماعت کے سربراہ ہیں اور اس حیثیت سے وہ بہت مصروف اور اعلیٰ مقام پر فائز ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے ہماری ہر بات کو بہت دھیان سے سنا حالانکہ ہم تو بے وقعت سے لوگ ہیں۔
ہمایوں صاحب کی بیگم منصورہ ہمایوں صاحبہ نے مجھے بتایا کہ ان کے بھائی اور انکل دونوں پاکستان میں شہید ہو گئے تھے اور انہوں نے یہ بات حضور کو بتائی تھی۔
منصورہ ہمایوں صاحبہ نے کہاکہ جیسے ہی مَیں نے حضور کو یہ بتایا کہ میرے بھائی شہید ہو گئے ہیں تو حضورنے فوراً ہی ایک ’’الیس اللّٰہ‘‘ والی انگوٹھی نکالی اور مجھے کہا کہ یہ مَیں تمہیں اس لیے دے رہا ہوں کیونکہ تم ایک شہید کی بہن ہو۔میں بہت جذباتی ہو گئی تھی اور میں وہ پیغام کبھی نہیں بھولوں گی جو حضورِانور نے مجھے باور کروایا ہے کہ اللہ ہمیشہ ہمارے لیے کافی ہےچاہےہمیں کسی بھی قسم کے مصائب و مشکلات کا ہی سامنا کیوں نہ ہو۔
منصورہ صاحبہ نے مجھے بتایا کہ ان کے بھائی کی شہادت ان کی فیملی کے لیے بہت مشکل وقت تھا۔ ان کی بڑی بہن اس صدمے سے بہت غمگین تھیں اور اس دوران انہیں گردن توڑ بخار (meningitis) ہوگیا تاہم اس تکلیف کے باوجودمنصورہ صاحبہ نے اپنے رشتہ داروں کی قربانیوں پر فخر محسوس کیا۔
منصورہ صاحبہ نے کہا کہ میرے شہید بھائی اور انکل دونوں نے کہا تھا کہ وہ جماعت کے ليے اپنی جانیں دینے کے لیے تیار ہیںاورانہوں نے اسے ثابت کر دکھایا ہے۔اب جو ہم باقی رہ گئے ہیں ہمیں اپنی زندگیاں اسی جذبے اور عقیدت کے ساتھ گزارنی چاہئیں۔
ایک اَور شخص جو حضور سے ملےوہ یوگنڈا کے ۴۱؍ سالہ رامسی کوجو صاحب تھے جنہوں نے ۲۰۱۶ءمیں احمدیت قبول کی تھی جبکہ ان کی اہلیہ احمدی نہیں تھیں، لیکن وہ اپنے دونوں بیٹوں، عیسیٰ ( عمر ۱۵؍ سال) اور ابرا (عمر ۹؍سال) کی پرورش احمدی کے طور پر ہی کر رہے تھے۔
حضور سے پہلی بار ملاقات کے بعد ہر ایک نے مجھے اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔ رامسی کوجو صاحب نے کہاکہ جس چیز نے سب سے زیادہ مجھے متاثر کیا وہ حضور کی عاجزی تھی۔ آپ جماعت کے عالمی راہنما ہیں اور ان کا بہت بلند مرتبہ ہے پھر بھی وہ میرے بچوں کے ساتھ بہت محبت اور بے تکلفی سے بات کر رہے تھے۔ حضور نے ان پر بہت شفقت فرمائی اور اس ذریعہ سے مجھے بھی محبت دکھائی۔ آج میں نے ایک مثالی مذہبی راہنما سے ملاقات کی ہے جس نے اسلام پر میرے ایمان کو مزید پختہ کیا ۔
حضور سے ملاقات کے بعدان کے بڑے بیٹے عیسیٰ صاحب نے بتایاکہ آج کا دن میرے ليے بہت متاثر کن تھا کیونکہ حضور سے ملاقات ہوئی۔ میں حضورِ انور کی موجودگی میں بہت اچھا محسوس کر رہا تھا۔ حضورِانور خالص روشنی کی مانند ہیں اور جب آپ ان کے قریب ہوتے ہیں تو وہ روشنی آپ میں بھی سرایت کر جاتی ہے اور آپ کو ایک مضبوط احمدی بنا دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ میری خواہش ہے کہ میں اسلام کی خدمت کروں اور دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام پھیلا کراسے تھوڑا سا بہتر بناؤں۔
میں سیرا لیون کی ایک احمدی خاتون جاریاتو حاجہ سنکوہ صاحبہ سے بھی ملا جنہوں نےاپنی بزرگ والدہ حاجہ کادیاتو کارگبو صاحبہ اور اپنی چھوٹی بیٹی کے ہمراہ حضور انورسے ملاقات کی تھی۔
جاریاتو صاحبہ نے مجھے بتایا کہ ان کے والدین سیرا لیون جماعت کے پیش رَو افراد میں شامل تھے کیونکہ ان کے والد الحاجی امادو سنکوہ نے ۱۹۴۰ء کی دہائی میں احمدیت کو قبول کیا تھا۔ افسوس ہے کہ ان کے والدصاحب ۲۰۱۷ءمیں وفات پا گئے، لیکن حضورسے ملاقات نے انہیں بہت سکون اور راحت فراہم کی۔
جاریاتو صاحبہ نے کہا کہ میں پچھلے پندرہ سال سے امریکہ میں ہوں مگر آج پہلی بار مجھے حضور سے ملاقات کا موقع ملا ہے۔ میں حضور کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی لیکن حضور کو دیکھ کر میں اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکی۔ پچھلے سال میں نے اپنے والد کو کھو دیا تھا لیکن آج میں اپنے دوسرےوالد سے ملی ہوں۔وہ والدجو مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتا اور میرا خیال رکھتا ہے۔ حضور میرے والد اور میرے سب کچھ ہیں۔
جاریاتو صاحبہ نے مزید کہاکہ میرے والد کا ہمیشہ یہ خواب رہا تھا کہ میں حضور سے ملاقات کروں اور مجھے یقین ہے کہ آج ان کی روح خوش ہو گئی ہو گی۔ وہ ایک بہت ہی پُرجوش احمدی تھے اور سیرا لیون کے گاؤں گاؤں جا کر اسلام کا پیغام پھیلایا کرتے تھے۔ احمدیت سے بے حد لگاؤکی وجہ سے ان کو بہت زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور کئی لوگ ان سے بدظن اور ناطہ توڑ چکے تھےتاہم انہوں نے اپنی زندگی کو ’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘ کے مطابق گزارا۔
(مترجم:طاہر احمد۔ انتخاب:مظفرہ ثروت)
٭…٭…٭