احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
’’ان نیک دل ایمانداروں کاشکرکرنالازم ہے جنہوں نے اس کتاب کے طبع ہونے کے لئے آج تک مدد دی ہے۔ خداتعالیٰ ان سب پررحم کرے اور جیسا انہوں نے اس کے دین کی حمایت میں اپنی دلی محبت سے ہریک دقیقہ کوشش کے بجالانے میں زورلگایاہے خداوندکریم ایساہی ان پرفضل کرے‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)
۱۴: میاں غلام قادرصاحب قادیان
آپؓ کی اولاد
(گذشتہ سے پیوستہ) حضرت مولوی صاحب نے دو شادیاں کی تھیں۔پہلی بیوی کے بطن سے ایک لڑکاہوااور دوسری کے ہاں گیارہ بچے پیداہوئے تھے جن میں سے تین چھوٹی عمر میں فوت ہوگئے اور باقیوں نے طبعی عمرپائی۔آپ کی ساری اولاد کو صحابیتؓ ہونے کاشرف حاصل ہوا۔تفصیل حسب ذیل ہے۔
۱۔حضرت میاںمہتاب الدین صاحبؓ غالباًسنہ وفات ۱۹۳۳ء ہے۔
۲۔ حضرت رابعہ بی بی صاحبہؓ سنہ وفات معلوم نہیں۔
۳۔حضرت حکیم محمد حیات صاحبؓ غالباً۱۹۴۲ء میں وفات پائی۔انتخاب خلافت ثانیہ کےموقع پر آپ منکرین خلافت میں شامل ہوگئے اور تاوفات انہی سے منسلک رہے۔
۴۔حضرت فاطمہ بی بی صاحبہؓ۔سنہ وفات معلوم نہیں۔
۵۔حضرت میاں محمد اسحاق صاحبؓ۔غالباً۱۹۳۹ء میں فوت ہوئے۔
۶۔حضرت حکیم محمد اسماعیل صاحبؓ۔آپ لمبے عرصہ تک جماعت احمدیہ پیرکوٹ کے پریذیڈنٹ رہے۔نیز آنریری انسپکٹربیت المال اورآنریری انسپکٹر تبلیغ کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔آپ کی وفات ۱۹۶۸ء میں ہوئی۔
۷۔حضرت میاں عبداللہ خان صاحبؓ۔۱۹۲۴ء میں فوت ہوئے۔
۸۔حضرت میاں عبدالرحمان صاحبؓ۔آپ ۱۹۶۰ء میں فوت ہوئے کچھ عرصہ سلسلہ کے مبلغ بھی رہے۔
۹۔حضرت عزیزبخت صاحبہؓ اہلیہ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ۔(یہ مضمون تین اقساط میں الفضل مورخہ ۲۱؍مئی ۱۹۷۰ء جلد ۲۴/۵۹نمبر ۱۱۵ صفحہ ۵و مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۷۰ء جلد ۲۴/۵۹نمبر ۱۱۷صفحہ ۵اور مورخہ ۲۴مئی ۱۹۷۰ء جلد۲۴/۵۹نمبر ۱۱۸صفحہ ۵میں شائع ہوا)
براہین احمدیہ میں حضرت اقدس نے بوجوہ چند در چند لوگوں کا صرف عمومی رنگ میں شکریہ ادا کیا ہے اور ان کے ناموں کا اندراج آئندہ کے لیے موخر کیا ہے۔ چنانچہ حضورؑ تحریر فرماتے ہیں۔
’’اس جگہ ان تمام صاحبوں کی توجہ اور اعانت کا شکر کرتا ہوں جنہوں نے خالصًاللہ حصہ سوم کے چھپنے کے لئے مدد دی اور یہ عاجز خاکسار اب کی دفعہ ان عالی ہمت صاحبوں کے اسماء مبارکہ لکھنے سے اور نیز دوسرے خریداروں کے اندراج نام سے بوجہ عدم گنجائش اور بباعث بعض مجبوریوں کے مقصر ہے۔ لیکن بعد اس کے اگر خدا چاہے گا اور نیت درست ہو گی تو کسی آئندہ حصہ میں بہ تفصیل تمام درج کئے جائیں گے۔‘‘
(براہین احمدیہ ،روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۳۱۲)
ایساہی براہین احمدیہ میں ہی مذکورکچھ احباب کی طرف سے رقم بھجوائے جانے کاذکرہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے قبل ازوقت حضوراقدس علیہ السلام کواطلاع دی اور عین پیشگوئی کے مطابق پھر پیسے بھی آگئے۔ لیکن ان ناموں کے ساتھ یہ ذکرنہیں ہے کہ آیاوہ رقم براہین احمدیہ کے لیےتھی یانہیں۔اس لیے یہاں صرف ان احباب کے نام دیے جانے پرہی اکتفاکیاجارہاہے۔
۱: ارباب سرورخان صاحب ابن ارباب محمدلشکرخان صاحب دس روپے۔ ازمردان۔
۲: جہلم سے ۴۵پینتالیس روپے۔
۳:عبداللہ خان صاحب
’’ایک دن صبح کے وقت کچھ تھوڑی غنودگی میں یکدفعہ زبان پر جاری ہوا‘‘عبداللہ خان ڈیرہ اسماعیل خان’’چنانچہ چند ہندو کہ جو اس وقت میرے پاس تھے کہ جو ابھی تک اسی جگہ موجود ہیں۔ ان کو بھی اس سے اطلاع دی گئی اور اسی دن شام کو جو اتفاقاً انہیں ہندوؤں میں سے ایک شخص ڈاک خانہ کی طرف گیا تو وہ ایک صاحب عبداللہ خان نامی کا ایک خط لایا جس کے ساتھ کسی قدر روپیہ بھی آیا۔‘‘
(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد۱صفحہ۲۵۱ ،۲۵۲حاشیہ درحاشیہ نمبر ۱)
کچھ دیگرخدام معاونین
گذشتہ صفحات میں ان خوش نصیب معاونین کا ذکر کیا گیا جنہوں نے براہین احمدیہ کے خودخریداربن کراعانت کی یا محض اعانت کرتے ہوئے کچھ رقم بھیجی یا دوسروں کوتحریک کرتے ہوئے ان کواعانت یاخریداری کی طرف توجہ دلائی۔
اب ان احباب کاذکرکیاجاتاہے کہ جنہوں نے براہین احمدیہ کی اشاعت وترسیل اور اس کے لیے خریدارفراہم کرنے کے لیے مساعی کی تھی۔
حضرت صوفی منشی احمدجان صاحب نے ایک بار حضرت اقدس علیہ السلام سے پوچھا تھا کہ اس مقصدعالیہ میں کس کس نے تعاون واعانت کے لیے مساعی کی ہے۔تو اس کے جواب میں حضورؑ نے جوابی خط میں تحریرفرمایا:
’’بعدہذا کارڈ آںمخدوم پہنچا۔ سوال آپ کی طرف سے یہ ہے کہ اس کارخیرمیں کتنے لوگ بصدق دل ساعی ہیں۔ سوواضح ہوکہ آں مخدوم کے سوا چارآدمی ہیں کہ ارادت اور حسن ظن سے ساعی ہیں۔پٹیالہ میں منشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ دفترنہر،سرہند۔ ڈیرہ غازی خاں میں منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ۔پشاورمیں مولوی غلام رسول صاحب صدرقانون گو۔ انبالہ میں منشی محمدبخش صاحب۔ ان چاروں صاحبوں نے سعی میں کچھ فرق نہیں کیا۔ منشی عبدالحق صاحب نے سب سے پہلے اس کارِ خیر کی طرف قدم رکھا اور جانفشانی سے کام کیااور ان کی کوشش سے لاہور اور انبالہ اورکئی ایک شہروں میں خریداری کتاب کی ہوئی اور اب بھی وہ بدستور سرگرم ہیں۔ کچھ حاجت کہنے کہانے کی نہیں۔منشی الٰہی بخش صاحب نے سعی اورکوشش میں کچھ دریغ نہیں کیااور منشی محمدبخش صاحب بھی بدل وجان مصروف ہیں اوران کی سعی سے بہت مددپہنچی۔یہ چاروں صاحب دلی مخلص ہیں اور حتی الوسع اپنی خدمت اداکرچکے ہیں…اور ان کے سوادوتین آدمی اوربھی ہیں کہ جنہوں نے حسب مقدارجوش اپنے کچھ خدمت کی ہے۔مگربہترہے کہ ان کی اسی قدرخدمت پرقناعت کی جائے تاموجب کسی ابتلاکانہ ہو۔‘‘
(مکتوبات احمدؑ جلد۳ صفحہ ۲۳ مکتوب نمبر۲)
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی خط کے آخر پرلکھا:
’’اور ان کے سوا دوتین آدمی اوربھی ہیں کہ جنہوں نے حسب مقدارجوش اپنے کچھ خدمت کی ہے۔مگربہترہے کہ ان کی اسی قدرخدمت پرقناعت کی جائے تا موجب کسی ابتلاکا نہ ہو۔‘‘
خاکسارکاقیاس ہے کہ ان دوتین آدمیوں میں سے اول نمبرپرمیرعباس علی صاحب ہی ہوں گے اوراس کاایک قرینہ جوکہ اسی خط کے اندرموجودہے وہ حضورعلیہ السلام کے وہ الفاظ ہیں کہ تا موجب کسی ابتلا کانہ ہو
’’کوئی بھی مؤرخ یامحقق جب محترم میرعباس علی صاحب کی سوانح پرنظرڈالے گا یاکم ازکم ان خطوط کاہی مطالعہ کرلے گا جوحضورؑ نے ان کے نام لکھے تو یہ اندازہ کرناقطعاً مشکل نہیں ہوگا کہ ان دوتین آدمیوں میں سے ایک یہی میرعباس علی صاحب ہی ہوسکتے ہیں۔
حضرت عرفانی صاحبؓ نے بھی براہین احمدیہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’’سب سے زیادہ جس شخص نے براہین احمدیہ کے خریداروں کے پیداکرنے میں سعی کی میرعباس علی صاحب لدھیانوی تھے۔‘‘
( حیات احمدؑ جلددوم صفحہ ۶۲)
ایک دوسری جگہ قدرے تفصیل کے ساتھ حضرت عرفانی صاحبؓ نے لکھاہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’عوام میں سے جن لوگوں نے براہین کی اشاعت میں مدد دینے کا کام کیا ان میں سے میر عباس علی لودہانوی کا نام سب سے اول رہ گیا۔میر صاحب کے تذکرہ کے ساتھ دل میں ایک درد پیدا ہوتا ہے کہ یہ شخص آخر میں ان برکات اور فضلوں سے محروم ہو گیا جو حضرت اقدسؑ کے ذریعہ دنیا میں آئیں۔اس کی شامت اعمال نے اسے منکرین کے صف میں کھڑا کر دیا اور اسی پر خاتمہ ہوا۔ حضرت مسیح موعودؑ کو اس کے اپنے مقام سے گر جانے کی خبر خدا تعالیٰ نے دے دی تھی۔اور حضرتؑ نے اس کو اپنے مکتوبات میں اشارتًا اس کی طرف توجہ بھی دلائی تھی۔لیکن وہ کشوف اور رؤیا آپ کے ایسے زمانہ کے تھے کہ میر عباس علی صاحب اول الناصرین نظر آتے تھے ان کی ارادت اور عقیدت ترقی کر رہی تھی۔اس وقت حضرت نے ان کو وہ رؤیا لکھی جس سے پایا جاتا تھا کہ میر عباس علی صاحب کا پچھلا حال پہلے سے بد تر ہو گیا…میر عبا س علی صاحب کی امداد کا طریق یہ نہ تھا کہ وہ خود کوئی مالدار آدمی نہ تھے اور نہ روپیہ دیتے تھے۔بلکہ انہوں نے براہین کے خریداروں کے فراہم کرنے کی کوشش کی۔ان خریداروں میں سے بعض سعید الفطرت ایسے لوگ نکل آئے جو بالآخر اس سلسلہ میں داخل ہو کر اپنے مقصد حیات کو پا گئے اور خدا تعالیٰ کی رضا کو انہوں نے حاصل کیا ان بزرگوں کے نام یہاں مجھے دینے کی ضرورت نہیں اس کے لیے کوئی دوسرا مقام ہے۔بعض ایسے بزرگ بھی تھے جو براہ راست براہین احمدیہ کے خریدار ہوئے اورانہوں نے اس کی اشاعت کے لئے پوری کوشش کی ان میں سے چودہری رستم علی خانصاحب رضی اﷲ عنہ اور حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اﷲ عنہ کا نام ہمیشہ فخر سے لیا جائے گا۔ ‘‘
(حیات احمدؑ جلددوم صفحہ ۷۶ ،۷۷)
تو اس طرح چند ایک اہم معاونین کی فہرست میں یہ نام نمایاں ہیں۔
۱:حضرت صوفی منشی احمدجان صاحبؓ
۲:منشی عبدالحق صاحب پٹیالہ
۳:منشی الٰہی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ
۴: مولوی غلام رسول صاحب صدرقانون گو پشاور
۵:منشی محمدبخش صاحب انبالہ
۶:میرعباس علی صاحب لدھیانوی
۷:حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ
۸:حضرت چوہدری منشی رستم علی صاحبؓ
حضرت منشی صاحب کوحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ابتدائی زمانہ میں خدمت وارادت کاشرف حاصل ہوااور پھریہ تعلق بڑھتاہی چلاگیا۔ عرش پریہ نام ’’چوہدری رستم علی‘‘ لکھااور پکاراگیا۔(ماخوذ ازتذکرہ صفحہ۴۴۷)
حضرت چوہدری رستم علی صاحب مدار ضلع جالندھر کے ایک معزز اور شریف خاندان اعوان کے رکن تھے اور بصیغہ ملازمت محکمہ پولیس میں نوکر تھے اور جالندھر میں مقیم تھے۔ آپ تک براہین احمدیہ کا اعلان اور ذکر پہنچا۔ باوجود وہ محکمہ پولیس میں نوکر تھے اور ابھی نوجوان تھے مگر صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ انہوں نے جب براہین احمدیہ اور حضرت اقدس کا چرچا سنا تو براہین احمدیہ کو خرید کیا اور اسے غور سے کئی بار پڑھا جوں جوں وہ براہین کو پڑھتے حضرت اقدس کےساتھ ان کا رابطہ اور محبت بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنے اخلاص و وفا میں ان ابتدائی ایام ہی میں ایسی ترقی کی کہ آپ حضرت کے خاص احباب میں سے ہو گئے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ان کے محبت واخلاص کاذکرکرتے ہوئے فرمایا:
’’ہمارے ایک دوست چوہدری رستم علی صاحب تھے۔ پہلے وہ سپاہی تھے۔ پھر کانسٹیبل ہوگئے پھر سب انسپکٹر بنے۔ پھر پراسکیوٹنگ انسپکٹر بنے۔اس وقت تنخواہیں بہت تھوڑی تھیں۔ آج کل تو ایک سپاہی کو مہنگائی الاؤنس وغیرہ ملا کر قریبًا ساٹھ روپیہ ماہوار مل جاتے ہیں۔ لیکن ان دنوں سپاہی کو غالبًا گیارہ روپے۔ تھانیدار کو ۴۰ روپے اور انسپکٹر کو ۷۵ یا سو روپے ملتے تھے۔ اور پراسی کیوٹنگ افسر کو سو سے کچھ زیادہ ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھجوا دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہیں یکدم آرڈر آ گیا کہ ان کو عہدہ میں ترقی دی جاتی ہے۔ اور تنخواہ اتنی بڑھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کی تنخواہ میں جو بڑھوتی ہوئی وہ ساری کی ساری وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے حضرت صاحب کو جو خط لکھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے پڑھنے کے لئے دیا۔ میں نے پڑھ کر بتایا کہ یہ خط چوہدری رستم علی صاحب کا ہے۔ اور انہوں نے لکھا ہےکہ میں سو روپیہ تو پہلے ہی بھیجا کرتا تھا۔ لیکن اب میری تنخواہ میں ۸۰ روپے کی ترقی ہوئی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض حضور کی دعاؤں کے طفیل ہوئی ہے۔ اور آپ کے لئے ہوئی ہے۔ اس لئے اب میں آپ کو ۱۸۰ روپے ماہوار بھیجا کروں گا۔ میں اس بڑھوتی کا مستحق نہیں ہوں بلکہ میں توسمجھتا ہوں کہ میں پہلی تنخواہ کا بھی مستحق نہیں تھا۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ مجھے آپ کی خاطر ہی دے رہا ہے۔ اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ کو جو مالدار دئیے تھے وہ بھی کیسی کیسی قربانیاں کرتے تھے۔ اور پھر ان قربانیوں میں بڑھتے چلے جاتے تھے۔‘‘
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ ۱۱؍جنوری ۱۹۵۸ء صفحہ ۵)
براہین احمدیہ کے آخری صفحہ پر آپ علیہ السلام نے ایک بار پھرجذبات تشکرسے بھرپوردل سے ان معاونین کے لئے دعاکی ہے۔ان دعائیہ الفاظ پران خوش نصیبوں کے ذکرکاباب ختم کرتے ہیں۔حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس جگہ ان نیک دل ایمانداروں کاشکرکرنالازم ہے جنہوں نے اس کتاب کے طبع ہونے کے لئے آج تک مدد دی ہے۔ خداتعالیٰ ان سب پررحم کرے اور جیسا انہوں نے اس کے دین کی حمایت میں اپنی دلی محبت سے ہریک دقیقہ کوشش کے بجالانے میں زورلگایاہے خداوندکریم ایساہی ان پرفضل کرے۔‘‘
(براہین احمدیہ صفحہ۵۶۲،روحانی خزائن جلدا صفحہ ۶۷۳)
حضرت اقدس علیہ السلام کے ان جذبات تشکر اور اس ارشا دکی تعمیل میں تو عرش کے فرشتے بھی ان معاونین کے لیے دعائیں کرتے ہوں گے اورہمیں بھی یہ حکم ہے اس تعمیل میں ہم بھی خداکے حضور دعاکرتے ہیں کہ اے خدایا !تُوان سب کو احسن ترین اوربہترین جزاسے نواز اوران کی نسلوں کو نوازتارہ اوراس سے بڑی خیر کیاہوگی کہ وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آجائیں اوراے ہمارے رحمان اور رحیم خدایا !ہم نہیں جانتے کہ ان کے لیے کون سی دعا بہتر ہوگی،اس لیے یہ التجا ہے کہ آج سے ایک سو چالیس سال قبل حضرت اقدس علیہ السلام کے قلب ِشکور سے جو دعائیں ان کے لیے نکلی تھیں وہ توتیری لوح محفوظ میں ابھی تک ہوں گی بس ہماری التجا ہے کہ تُو وہ دعائیں ان سب معاونین کے حق میں ہمیشہ قبول فرماتے رہنا۔آمین۔
٭…٭…٭