متفرق مضامین

عنبرمجھلی

صحابۂ رسولؐ کو ملنے والی ایک مجھلی پر تحقیق جس کے گوشت پر ۳۰۰؍ افرادنے ایک ماہ تک گزارا کیا

آپؐ نے فرمایا:یہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے نکالا تھا کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ گوشت ہے کہ تم ہمیں بھی کھلاؤ

’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘۔ بظاہر ایک مختصر جملہ ہے مگر حقیقت پر مبنی ہے۔ جب ضرورت پیدا ہوتی ہے تو اس کو حل کرنے کے لیے ہی نئی چیز کی ایجاد کی جاتی ہے۔ اسی طرح جب وقت کی ترقی کے ساتھ علم اور عقل میں ترقی ہوتی ہے تو بظاہر آسان دکھنے والے سوال بھی مشکل نظر آنے لگتے ہیں اور پھر اس کو حل کرنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ایک نئی چیز ایجاد کرنا۔

ایسے ہی ایک حقیقت پر مبنی واقعہ نے ایک ایسا سوال کھڑا کر دیا جس کا تسلی بخش جواب نہ ملنے پر سوال کے حل نے ایک نیا رخ بدلا۔ پس قارئین کی خدمت میں سوال اور جواب دونوں ہی پیش خدمت ہیں۔

سوال کچھ یوں تھا کہ حدیث مبارکہ میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ چند صحابہ ؓکے ساتھ ایک مہم پر نکلے جہاں راشن ختم ہونے کی وجہ سے ان کو مشکل کا سامنا تھا تو انہوں نے ساحل سمندر پر ایک مچھلی دیکھی اور اس کا گوشت ایک ماہ تک کھاتے رہے۔ تو وہ کون سی ایسی مچھلی تھی جس کو ایک ماہ تک کھایا جاتا رہا؟ اس سوال کا بہت ہی آسان جواب تھا کہ وہ ایک وہیل مچھلی تھی۔ مگر سوال یہاں ختم نہ ہوا کیونکہ وہیل کی تو کم و بیش ۷۰؍اقسام ہیں۔ تو وہ کونسی قسم تھی ؟

اس کے جواب میں آئیے سب سے پہلے اس حدیث مبارکہ کے الفاظ کو دیکھتے ہیں

’’حضرت جابرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بھیجااورحضرت ابو عبیدہ ؓکو ہمارا امیر مقرر فرمایا کہ ہم قریش کے قافلہ کا مقابلہ کریں اور آپؐ نے ہمیں کھجوروں کا ایک تھیلا زادِ راہ کے طور پر دیا۔ اس کے علاوہ آپؐ نے ہمارے لیے کچھ نہ پایا۔ حضرت ابو عبیدہؓ  ہمیں ایک ایک کھجور دیتے تھے۔ راوی کہتے ہیں میں نے کہا تم ایک (کھجور سے) کیسے گذارا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا ہم اسے چوستے تھے جس طرح بچہ چوستا ہے پھر اس پر کچھ پانی پی لیتے تھے تو وہ ہمیں دن رات کے لیے کافی ہوجاتا تھا۔اور ہم اپنی چھڑیوں کے ساتھ پتے جھاڑتے پھر انہیں پانی سے تر کر کے کھا لیتے۔ وہ کہتے ہیں ہم ساحلِ سمندر پرجا رہے تھے تو بڑے ٹیلے کی طرح کوئی چیز نظر آئی۔ ہم اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ ایک جانور ہے جسے عنبر کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا یہ مری ہوئی ہے۔ پھر کہا نہیں ہم رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اللہ کی راہ میں بھیجے ہوئے ہیں اور تم مضطر بھی ہو اس لیے کھاؤ۔ وہ کہتے ہیں ہم نے اس پر ایک ماہ گذارا کیا اور ہم تین سو آدمی تھے یہاں تک کہ ہم خوب موٹے (صحت مند) ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں میں دیکھ رہا ہوں ہم اس کی آنکھ کے گڑھے سے چربی کے مٹکے بھر بھر کر نکالتے تھے اور اس سے بیل کی طرح یا بیل کے برابر ٹکڑے کاٹتے تھے۔حضرت ابو عبیدہؓ نے ہم میں سے تیر ہ آدمی لیے اور انہیں اس کی آنکھ کے گڑھے میں بٹھادیا اور اس کی پسلیوں سے ایک پسلی لی اسے کھڑا کیا اور ہمارے پاس جو اونٹ تھے ان میں سے سب سے بڑے اُونٹ پر پالان باندھا تو وہ اس کے نیچے سے گذر گیا اور ہم نے توشہ کے طور پر اس کے گوشت کے پارچے خشک کرکے ساتھ لیے۔ جب ہم مدینہ آئے تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ کو یہ بات بتائی۔ آپؐ نے فرمایا:یہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے نکالا تھا کیا تمہارے پاس اس میں سے کچھ گوشت ہے کہ تم ہمیں بھی کھلاؤ۔ راوی کہتے ہیں ہم نے اس میں سے کچھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا اور آپؐ نے اسے تناول فرمایا ‘‘۔

(مسلم کتاب الصید الذبائح ، باب اباحة میتات البحر )

تو سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس مچھلی کے بارےمیں روایت سے کیا باتیں ہمیں پتا چلتی ہیں۔ ۱: یہ ایک مچھلی تھی جسے عنبر کہا جاتا تھا۔۲: اس کی آنکھ کے گڑھے سے چربی کے مٹکے بھربھر کے نکالے جاتے تھے۔ ۳: اس کی آنکھ کے گڑھے میں تیرہ آدمی سمو سکتے تھے۔ ٤: اس کی پسلی اتنی بڑی تھی کہ اس کے نیچے سے اونٹ اپنے پالان سمیت گزر سکتا تھا۔ ٥: اس مچھلی سے اتنا گوشت میسر آ یا کہ ۳۰۰؍ افراد ایک ماہ تک اس کو کھا تے رہے۔ ٦:یہ مچھلی اس علاقہ میں پائی بھی جاتی تھی۔

تو گویا جس مچھلی میں یہ سب خصوصیات پوری ہوں گی وہی مچھلی اس سوال کا جواب ہوگی۔ تو اب اس معیار پر دنیا کی بڑی مچھلیوں کو پرکھتے ہیں۔

دنیا میں سب سے بڑی مچھلی وہیل مچھلی ہے۔ اسے اردو میں فیل ماہی (سمندر کا ہاتھی) ، عربی میں عنبر اور انگریزی میں whale کہتے ہیں۔ مگر اس کی ۷۸؍سے زائد اقسام ہیں۔

اس میں سب سے بڑی بلیو وہیل (blue whale) کہلاتی ہے۔ مگر کیا یہ ہی وہ مچھلی تھی جس کی ہمیں تلاش ہے ؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ کیونکہ پہلا معیار ہی یہ تھا کہ وہ مچھلی عنبر کہلاتی تھی۔ او ر عنبر اس مچھلی کو کہتے ہیں جس سے عنبر ( وہ گریس جیسا گاڑھا مادہ جو خوشبو اور دیگر ادویات میں استعمال ہوتا ہے ) نکلتی ہے۔ اس کو انگریزی میں Ambergrisکہا جاتا ہے۔ یہ مچھلی کی آنتوں میں پیدا ہوتا ہے اور سیاہ رنگ کا ہوتا ہے مگر دھوپ اور سمندری پانی کے اثر سے سخت سرمئی پیلے رنگ میں بدل جاتا ہے۔ یہ عموماً چھوٹے ٹکڑوں میں پایا جاتا ہے، مگر سب سے بڑا ٹکڑا ٦۳٥؍کلو کا انڈونیشیا کے جزائر میں ۱٦۹٦ء میں ملا تھا۔ چونکہ وہیل مچھلی کی آنت اتنا بڑا ٹکڑا اپنے اندر نہیں سمو کتی اس لیے اکثر اوقات یہ وہیل مچھلی اسے منہ کے ذریعہ ہی واپس سمندر میں اگل دیتی ہے جس کی وجہ سے یہ ساحل سمندر پر انسانوں کے ہاتھ بھی لگ جاتا ہے۔(انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا)

پس وہیل کی ان سب اقسام کو مد نظر رکھیں تو صرف سپرم وہیل (sperm whale) ہی ان تمام معیاروں پر پوری اترتی ہے۔ یہی وہ واحد وہیل کی قسم ہے جس کے جسم میں عنبر (Ambergris) پیدا ہوتا ہے اور آج بھی ماہی گیر اس نسل کی مردہ مچھلیوں سے عنبر نکالتے ہیں۔ جون ۲۰۲۱ء میں یمن کے ماہی گیروں نے ایک سپرم وہیل مردہ حالت میں پکڑی ، جس سے انہوں نے پندرہ لاکھ ڈالر مالیت کی عنبر نکالی۔ (جس کی خبر یکم جون ۲۰۲۱ءکو بی بی سی چینل نے اپنے ٹی وی ، ویب سائٹ اور اخبار پر بھی دی )۔

پھر دوسرا معیار یہ تھا کہ اس کی آنکھ کے گڑھے میں سے چکنائی کے مٹکے بھر بھر کر نکالتے تھے۔ بعض ترجمہ کرنے والے اس کو آنکھ کا حلقہ قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ بات قارئین کی خدمت میں پیش کرتا چلوں کہ وہیل مچھلی چاہے ٤۰ ہاتھیوں کے برابر وزن کی ہو جائے اس کی آنکھ ٤ انچ سے ٥ انچ تک ہی ہوتی ہے (اس کی مکمل تحقیق جان ہینڈرسن نے رسالہ آسٹرانومی کے مارچ ۲۰۱٥ء کے شمارہ میں شائع کی ہوئی ہے۔)

۲۲؍مئی ۲۰۲۰ء کے آپٹیشن رسالے سے یہ تصویر لی گئی ہے۔ جہاں انہوں نے تصویر سے دو چیزیں واضح کی ہیں کہ آنکھ کا عدسہ کتنا چوڑا اور آنکھ کا مکمل گولا کتنا چوڑا ہوتا ہے۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سب سے بڑی وہیل مچھلی جسے بلیو وہیل کہتے ہیں اس کی آنکھ ۱۱۰ ملی میٹر کی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ کرکٹ کی گیند اسّی(۸۰) ملی میٹر کی ہوتی ہے اور وہیل مچھلی کی آنکھ اس گیند سے ڈیڑھ گنا بڑی ہے۔ یہ تصویر ہمیں ایک اور چیز بھی بتا رہی ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی آنکھ قیر ماہی مچھلی (Squid) کی ہوتی ہے جو ایک فٹ بال کے جتنے ہوتی ہے۔

پس ہمیں اس بات کو یوں سمجھنا پڑے گا کہ آنکھ کے قریب ترین حصہ میں کوئی ایسا مقام ہو جہاں سے چکنائی حاصل کی جا سکے۔اب وہیل کی کسی بھی اور قسم میں یہ معیار نہیں پایا جاتا کہ اس کے آنکھ کے قریب ایسی کوئی جگہ ہو جہاں سے کسی قسم کی چکنائی کا حصول ممکن ہو اور چکنائی بھی اتنی کہ مٹکے بھر بھر کر نکالے جا سکیں۔ البتہ سپرم وہیل میں ناک اور آنکھ کے درمیان ایک عضوہوتا ہے جس میں ایک چکنائی ہوتی ہے جسے انگریزی میں spermaceti اور اردو میں موم کافوری کہا جاتا ہے۔ جو کہ ایک اندازے کے مطابق دو ہزار لیٹر تک بھی ہو سکتی ہے۔(cosmos magazine،اشاعت ۱۳؍اکتوبر۲۰۱۴ء) اس مادہ کو مرہم ، کاسمیٹکس میں کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانہ میں اس سے موم بتیا ں بھی بنائی جاتی تھیں اور کشتیوں میں لیپ لگانے کے کام بھی آتی تھی۔ (Wikipedia)

تیسرا معیار یہ تھا کہ آنکھ کے گڑھے میں جہاں سے چکنائی کے مٹکے نکالے تھے وہاں ۱۳؍افراد سمو گئے۔

پس جب ہم سپرم وہیل کے spermaceti عضو کی لمبائی کو دیکھتے ہیں تو اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ حصہ پوری وہیل کے ۳۰ سے ٤۰ فیصد حصہ پر محیط ہوتاہے۔ پس اس میں چند آدمیوں کا سمو جانا انتہائی آسان ہے۔اس وہیل کے علاوہ کوئی بھی ایسی وہیل مچھلی کی نسل نہیں جس کے آنکھ یا اس کے قریب کوئی ایسی جگہ ہو جہاں اتنے افراد سمو سکیں۔

چوتھا معیار یہ تھا کہ اس کی پسلی کے نیچے سے اونٹ کجاوے سمیت گزر گیا۔ اس معیار میں تقریباً ساری ہی وہ مچھلیاں آتی ہیں جو بڑی قسم کی وہیل مچھلیاں ہیں۔ چونکہ پہلے کے تینوں معیار صرف سپرم وہیل میں پورے ہو رہے تھے تو دیکھتے ہیں کہ کیا یہ معیار اس میں پورا ہو رہا ہے یا نہیں۔ ایک عرب اونٹ عموماً ٦ فٹ سے ۸ فٹ اونچا ہوتا ہے۔ اور اگر اس پر کجاوا بھی رکھا جائے تو اندازاً دو فٹ مزید شامل کر لیں۔ تو اس کی پسلی کی اونچا ئی کم از کم ۹ تا ۱۰ فٹ ہونی چاہیے کہ اس کے نیچے سے اونٹ اپنے کجاوے سمیت گزر جائے۔ اب تک سائنسی لحاظ سے ۹ فٹ لمبی پسلی ریکارڈ کی گئی ہے۔

پانچواں معیار یہ تھا کہ مچھلی سے اتنا گوشت میسر آ سکے کہ ۳۰۰؍افراد ایک ماہ تک اس سے گزارہ کر سکیں۔ (البتہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق مسلمانوں نے وہاں اٹھارہ دن قیام کیا تھا۔) اس معیار پر سپرم وہیل کو جانچتے ہیں تو تاریخی لحاظ سے سب سے بڑی سپرم وہیل ۱۹۳۳ء میں ریکارڈ کی گئی۔ اس کی لمبائی ۷۹؍فٹ تھی (وکی پیڈیا)۔ اس کے بعد دوسری بڑی سپرم وہیل ٦۸؍فٹ لمبی ریکارڈ کی گئی جس کا وزن ٥۷ ٹن (یعنی تقریبا ًاکاون ہزار کلو )تھا۔ عموماً گوشت کے کھانے کا اندازہ اس طرح لگایا جاتا ہے کہ ایک فرد کے لیے ۳٥۰؍گرام گوشت ایک وقت کے کھانے کے لیے پکایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ایک شخص اندازاً ایک دن (یعنی دو وقت کے کھانے میں ، جو کہ اس وقت کے عرب کا رواج تھا) میں ۷۰۰گرام گوشت کھائے گا اور ایک ماہ میں قریباً ۲۱؍کلو گوشت۔ اب اگر یہ دیکھیں کہ وہ لشکر ۳۰۰ افراد پر مشتمل تھا تو ایک ماہ کے لیے ان کو ٦۳۰۰؍کلو گوشت کی ضرورت تھی۔ ایک جانور سے کھانے کے قابل گوشت نکلنے کا تناسب ٦۳ فیصد ہوتا ہے (یعنی باقی ۳۷ فیصد کھال ،فضلات وغیرہ ناقابل استعمال اشیاء ہوتی ہیں۔)تو اس لحاظ سے مچھلی کا اندازاً قابل استعمال گوشت تقریباً ۳۲؍ہزار کلو بنتا ہے۔ پس یہ گوشت اس لشکر کے لیے واقعی وافر تھا۔ اسی وجہ سے دوسری روایات میں آتا ہے کہ صحابہؓ نے اس گوشت کو خشک کیا اور بطور زاد راہ واپسی پر اپنے ساتھ رکھا اور اس کا کچھ حصہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھی پیش کیا۔

پس آخری معیار اس نسل کی مچھلی کا جزیرہ نما عرب کے قریب سمندروں میں پایا جانا تھا۔ پس یہ شرط بھی اس نسل (sperm whale) میں پوری ہوتی ہے کیونکہ ہمارے پاس ۲۰۲۱ء کی عینی شہادت موجود ہے جب یمن کے ماہی گیروں نے وہاں ایک مردہ عنبر کو پایا تھا۔ (BBC News 1-Jun-2021)

پس بظاہر ان تمام معیاروں پر جو مچھلی پوری اتر رہی ہے وہ وہیل نسل کی sperm whale مچھلی ہے۔ مکتبہ دار السلام جو کہ اسلامی کتب کی اشاعت کا ایک بین الاقوامی ادارہ ہے انہوں نے اپنی شائع کردہ سنن ابو داؤد میں بھی اس روایت کے تحت تشریح میں لکھا ہے: اس سے مراد سپرم وہیل ہی ہے۔ (سنن ابو داؤد ، جلد ۳ صفحہ ۹٦٥، مطبوعہ مکتبہ دار السلام الریاض ، ۲۰۰۷ء )ہم اس زمانہ میں قیاس ہی کر سکتے ہیں کیونکہ اصل واقعہ کو گزرے ۱٥۰۰ سال گزر چکے ہیں اور حتمی علم تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔ اس مضمون کا مقصد محققین کے لیے ایک راستہ کی نشاندہی ہے کہ وہ ان مضامین پر بھی تحقیق کریں تا کہ نئے دور کے اٹھنے والے سوالوں کا تسلی بخش جواب دیا جاسکے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button