الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیّدہ بشریٰ بیگم (مہر آپا) صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ فریال فیروز صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ بشریٰ بیگم صاحبہ (المعروف مہر آپا) کی سیرت شامل ہے۔
آپ۷؍اپریل ۱۹۱۹ء کو بمقام جہلم اپنے ننھیال میں پیدا ہوئیں۔آپ ایک نہایت شریف اور مخلص سادات خاندان میں سے تھیں۔ آپ مکرم سیّد عزیر احمد شاہ صاحب کی بیٹی اور حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ کی پوتی تھیں جن کا شمار جماعت کے ممتاز اہلِ کشوف و الہام میں ہوتا تھا۔حضرت ڈاکٹر صاحبؓ نے ۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔۱۹۲۰ء میں وہ سینئر اسسٹنٹ سرجن کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے تو مستقل سکونت کے لیے قادیان تشریف لے آئے۔۱۹۳۷ء میں ان کی وفات ہوئی۔ حضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ بھی ان کے بیٹے تھے۔
حضرت مہر آپا فرماتی ہیں کہ حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ مسجد میں نماز پڑھنے جاتے۔مٹی کا لوٹا پانی سے بھرتے۔وضو کر تے اور نماز پڑھ کر واپس آجاتے۔مسجد کے دروازے پر ایک بڑا زمیندار بیٹھ جاتا اور آپ کو مسلسل گندی گالیاں نکالتا رہتا مگر آپ نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہتے اور اُس کو کچھ کہے بغیر اطمینان کے ساتھ نماز سے فارغ ہو کر گھر واپس آ جا تے۔مگر ایک دن اس زمیندار نے حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دینی شروع کردیں۔ جونہی اس نے ایسا کیا حضرت شاہ صاحبؓ نے پانی بھرا لوٹا زور سے اس کے سر پر دے مارا۔ اس کاماتھا پھٹ گیا اور خون بہ نکلا۔مگر حضرت شاہ صاحبؓ نے اطمینان سے وضو کیا نماز پڑھی اور واپس لَوٹ آئے۔وہ زمیندار وہیں بیٹھا رہا۔ حضرت شاہ صاحبؓ جب دوسری نماز کے لیے تشریف لائے تو دوسرے احمدیوں نے کہا کہ شاہ صاحب!یہ زمیندار تو بہت اثر ورسوخ والا ہے اور یہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ شاہ صاحبؓ نے شانِ بےنیازی سے کہا: ’’ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ زمیندار حضرت شاہ صاحبؓ سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے مرزا غلام احمد کے بارے میں بتائیں اُن کا دعویٰ کیا ہے؟ تب آپؓ نے سب کچھ بتایا تو وہ آپؓ کے پائو ں پڑ گیا۔یہ کہتے ہوئے کہ میری توبہ قبول کریں اور بیعت لیں۔ اس کے بعد زمیندارکا سارا خاندان احمدی ہو گیا۔ اور جب بھی اس کے خاندان سے کوئی ملاقات کے لیے آتا تو اپنے نام کے ساتھ ’’لوٹے والے‘‘ ضرور لکھتا۔ آپ مزید فر ماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضورؓ (حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ )نے مجھے ایک رقعہ دیا جس میں نام کے ساتھ ’’لوٹے والے‘‘ لکھا ہوا تھا۔اس پر میں نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ حضورؓ فرمانے لگے: لو تمہیں علم ہی نہیں تمہارے ہی گھر کا تو واقعہ ہے۔پھر حضورؓ نے مذکورہ واقعہ مجھے سنایا۔
سیّدہ مہر آپا نے ۱۹۴۴ء میں میٹرک کیا اور دینیات سکول کی دو جماعتیں بھی پاس کیں، پھر جامعہ نصرت ربوہ سے ایف اے کیااور اس کے بعد بی اے میں داخلہ لیا مگرپھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی علالت کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ ترک کر دیا اور حضورؓ کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔
حضرت سیّدہ ام طاہر صاحبہؓ کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعودؑکے بعض الہامات کی روشنی میں حضرت مصلح موعودؓکے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء معلوم ہو تا ہے کہ بچوں کی نگہداشت کی خاطر دوسری شادی کرنا بہتر ہوگا۔آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’اتفاقاً ایک روز میں نے تذکرہ کھولا اس میں لفظ بشریٰ موٹے حروف میں لکھا نظر آیا۔اسے دیکھ کر میرا ذہن اس طرف گیا کہ میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی لڑکی کا نام بشریٰ ہے مگر اس سے تو میری شادی کا سوال ہی پیدا نہیںہو سکتا کیونکہ میر صاحبؓ مر حوم نے حضرت امّاں جانؓ کا دودھ پیا ہے۔پس بشریٰ میری بھتیجی ہے۔ … میرا ذہن اس طرف گیا کہ مریم مر حومہ کے خاندان میں بھی ایک لڑکی بشریٰ نام کی ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ بعض بیماریوں کی وجہ سے اس کی شادی اس وقت تک نہیں ہو سکی۔ چنانچہ سیّد ولی اللہ شاہ صاحبؓ جو(رشتہ کا) پیغام لے کر گئے تھے واپس آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ لڑکی کے والد تو راضی ہیں مگر لڑکی کہتی ہے کہ میں تو شادی کے قابل ہی نہیں (بعض تکالیف کی وجہ سے آپ کے ہاں اولاد نہیں ہوسکتی تھی)پہلے ہی لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک بیمار عورت حضرت صاحب کے گھر بھیج دی ہے۔اب اگر مَیں گئی تو خاندان کی بد نامی ہوگی اور لوگ کہیں گے کہ ایک اَور بیمار بھیج دی۔ سیّد حبیب اللہ شاہ صاحبؓ نے کہا کہ میں نے کشفاََ دیکھا کہ بشریٰ بیگم سفید لباس میں ملبوس میرے سامنے کھڑی ہے اور حضورؓ کو بھی دیکھا کہ قریب ہی ایک طرف کھڑے ہیں اور یہ القا ہوا: ’’ بشریٰ بیگم صاحبہ حضرت کے لیے ہیں۔‘‘
آپ کے بارے میں حضورؓ کو ایک رئویا میں خبر دی گئی تھی کہ ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے کہ مہرآپا کو بلائو۔ یعنی محبت کرنے والی آپا۔اسی رئویا کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو جماعت میں ’مہر آپا‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
حضورؓ فرماتے ہیں کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی حاصل کرنے کی طرف توجہ کی گئی تو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ،پروفیسر صوفی بشارت الرحمٰن صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانصاحبؓ نے واضح خوابیں دیکھیں۔ چنانچہ ۲۴؍جولائی ۱۹۴۴ء کو آپ کے ساتھ حضورؓ نے اپنے نکاح کا اعلان ایک ہزار روپے حق مہر پر فرمایا۔خطبہ نکاح میں حضورؓ نے حضرت سیّدہ اُمّ طاہرصاحبہ ؓکی وفات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا ذکر کیا اور فرمایا:’’حضرت اُمّ طاہرؓ کے بچوں کی نگہداشت کے لیے شادی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ طے پایا کہ حضرت سیّدہ اُمّ طاہرؓکے خاندان سے رشتہ کیا جائے۔‘‘
آپ حضورؓ کی ساتویں اور آخری حرم محترم تھیں۔ شادی کی تقریب۲۴؍اگست۱۹۴۴ء کی شام مکرم سیّد عزیر احمد شاہ صاحب کی کوٹھی واقع دارالانوار قادیان میں منعقد ہوئی۔ اگلے روز حضورؓ کی طرف سے مسجد مبارک قادیان میں دن کے دو بجے دعوت ولیمہ دی گئی۔ حضورؓ اُن دنوں ڈلہوزی میں تھے تو آپؓ کے ارشاد پر حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ امیر مقامی نے دعا کروائی اور ڈلہوزی میں بھی ایک دعوت دی گئی۔
حضرت مہر آپا شادی سے پہلے کا ایک خواب یوں بیان فرماتی ہیں کہ بہت خوبصورت جوڑا مَیں نے پہنا ہوا ہےجس کا رنگ بہت پیارا ہے اور جوڑے پر چمکدارخوبصورت کام کیا ہوا ہے۔ جوڑے کے اوپر بہت خوبصورت اور بھاری جبّہ پہنا ہوا ہے مگر یہ لباس اس قدر بھاری ہے کہ اس کو پہن کر کسمساہٹ محسوس کر رہی ہوں۔ کانوں میں دلکش آویزے ہیں جو گردن تک آتے ہیں ان میں سفید اور سرخ نگینے ہیں۔ آئینہ دیکھتی ہوں تو سب چیزیں بہت پیاری معلوم ہوتی ہیں۔
آپ اپنے نام کی طرح مہربان اور محبت کر نے والی تھیں۔ نہایت نفیس طبیعت،شگفتہ مزاج اور باوقار خاتون تھیں۔ آپ غریب پرور اور مسکین نواز بھی تھیں۔آپ اپنے گھر میں کام کرنے والی لڑکیوں کا بہت خیال رکھتیں اور ان کی تعلیم و تر بیت پر بھی توجہ فرماتی تھیں۔
حضرت سیّدہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ شادی کے بعد حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ حضورؓ کے معیار اور اعتماد پر پوری اتریں۔ آپ نے حضرت سیّدہ اُمّ طاہر صاحبہؓ کے سارے بچوں کا بہت خیال رکھا اور جتناپیار بھی ممکن تھا ان کو دیا۔اس کے علاوہ حضرت صاحبؓ کے سارے بچوں سے ہمیشہ محبت اور شفقت سے پیش آتیں۔ بڑے بچوں سے محبت کے علاوہ ان کا احترام بھی بہت کرتیں۔اپنے متعلق تو میں حتمی طور پر کہہ سکتی ہوں کہ انہوں نے مجھے بہت محبت دی اور اس کے ساتھ عزت بھی بہت کر تیں اور میں نے بھی ان کی عزت و احترام میں کوئی کمی نہیں کی ا ور ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ آپ میرے رویہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔سسرال کے سارے عزیزوں سے محبت واحترام کا رویہ تھا۔بڑی دعاگو اور تہجد گزار تھیں۔غریبوں کی امداد کرنے والی،مہمان نواز اور ملازمین سے حسن سلوک رکھنے والی ہستی تھیں۔
حضرت سیّدہ مہرآپا کے خاندان کی باقی خواتین بھی بہت مخلص تھیں اور دین کی خاطر قربانی کرنے والی تھیں۔زیورات، روپیہ پیسہ جو کچھ بھی پاس ہوتا جماعت کی ضرورت کے وقت پیش کر دیتیںمگر کسی کو کانوں کان بھی علم نہ ہوتا۔آپ بھی اپنے آباءؤاجدادکے نقش قدم اوراسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں ہی سب مال و دولت اور دیگر جائیداد اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر گئیں۔آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے آپ کی عظیم مالی قربانی کا جو مصرف سوچا وہ تاریخ احمدیت میں ایک نہایت حسین یاد گار کے طور پر زندہ رہے گا۔ حضور ؒنے فرمایا:’’سیدہ مہر آپا کی وفات کی اطلاع چونکہ مجھے جرمنی میں ملی ہے اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی طرف سے جو روپیہ یہاں موجود ہے اس میں سے اور کچھ باہر سے منگواکر تین لاکھ جرمن مارک جماعت احمدیہ جرمنی کے سپرد کردوں گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سومساجد کی جو تحریک ہے اس میں سے ہر سو میں سے تین ہزار ان کی طرف سے ہوگا۔… جماعت جرمنی کو جو توحید کے نشان کے طور پر مسجدیں بنانا ہے۔ اس کی میں آج سیدہ مہر آپا کی وفات کے ساتھ تحریک کرتا ہوں۔… اس میں جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے سیدہ بشریٰ بیگم مہر آپا کا ایک مستقل حصہ ہوگا۔ گویا ہر مسجد میں اُن کی طرف سے کچھ نہ کچھ ہوگا اور میں بھی اللہ کے فضل سے آپ کے ساتھ شامل ہوجائوںگا تو اللہ کرے کہ ہمیں یہ توفیق عطا ہو۔… پس سیدہ مہرآپا کے وصال نے ایک نئی بات بھی آپ کے اندر پیدا کردی ہے جماعت جرمنی میں یہ سارے خیالات میرے دل میں اس وصال کے ساتھ ہی اُٹھنے شروع ہوئے اور اس طرح پایۂ تکمیل کو پہنچے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وفات کو زندہ کرنے کی توفیق بخشے۔جو بھی ہم میں سے مرے صفاتِ باری تعالیٰ کو پیچھے روایات کی صورت میں زندہ چھوڑتا چلا جائے۔آمین‘‘
محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کی شادی کے بعد قادیان آکر ہم بہن بھائی آپ کے ساتھ رہنے لگ گئے۔آپ ہم سب سے انتہائی محبت و شفقت کا اظہار فرماتیں۔آپ حضرت صاحبؓ کے لیے بہت غیرت اور محبت رکھتی تھیں۔ ان کی انتہائی فرمانبردار اور خدمت گزار تھیں۔ایک دفعہ ببی (سید قمر سلیمان احمد)کو ایک پستول دی اور کہا کہ یہ حضرت مصلح موعودؓ کی نشانی ہے۔یہ میں اپنے بھائیوں کو بھی نہیں دینا چاہتی کیونکہ اس کی جو قدر آپ کو ہوگی اَور کسی کو نہیں ہوگی۔ ابا جانؓ کی وفات کے بعد ان کے سب بچوں کا بہت خیال رکھتیں۔ باقاعد گی سے عیدی کے پیکٹ ان کے گھر بھجواتیں۔اسی طرح ہمسایوں کے گھر بھی باقاعد گی سے تحفے بھجواتیںاور کہتیں یہ ہمسایوں کا حق ہے۔۱۹۵۷ء میں حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی شادی ان کے گھر میں ہوئی تو بہت خوش اسلوبی سے سارے انتظامات کروائے۔ حضوؒر کے ساتھ خاص محبت کا سلوک تھا۔اکثرباتوں میں حضورؒ کا ذکر ’میرا طاری‘ کہہ کر کرتیں۔آپ کے اندر مہمان نوازی کی صفت بہت نمایاں تھی۔مہمان نوازی اور خدمت خلق کا دائرہ بہت وسیع تھا۔بیماری میں بھی تواضع کرتیں۔کھانا بہت اچھا پکاتیں، باوجود ملازموں کے کوئی نہ کوئی چیز خود بھی بناتیںاور سب کو کھلا کر بہت خوش ہوتیں۔بہت صفائی پسند تھیں۔اپنے آپ کو بھی صاف ستھرا رکھتیں اور گھر کو بھی سلیقے سے سجاتیں۔صبرو تحمل کا پیکر تھیں۔قریبی عزیزوں، بھائیوں کے صدمات بڑے حوصلے سے برداشت کیے۔اپنی بیماری کا عرصہ بھی صبرو تحمل سے گزارا۔بہت عبادت گزار تھیں۔تہجد اور صوم و صلوٰۃ کی پابندتھیں۔ مطالعہ کا بھی شوق تھا۔ مضامین لکھتیں، جلسوں اور اجتماعات پر تقاریر بھی بہت جوش اور ولولہ سے کرتیں۔ آپ نے انسپکٹر جلسہ سالانہ کے فرائض بھی انجام دیے۔سیر کی شوقین تھیں صبح کو باقاعدگی سے سیر پر جاتیں۔شام کوبھی چہل قدمی کرنے جاتیںاور سب بچوں کے گھروں میں ملنے جاتیں۔
۲۲؍مئی ۱۹۹۷ءکو حضرت مہر آپا کی وفات ہوئی۔
………٭………٭………٭………