اخلاقی معجزات اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار تبلیغ کے میدان اور اگلی نسلوں کی تربیت کے بھی سامان پیدا کریں گے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍ اپریل ۲۰۰۶ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’اے عزیزو! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کیلئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی۔ اس لئے اب اپنے ایمانوں کو خوب مضبوط کرو اور اپنی راہیں درست کرو، اپنے دلوں کو پاک کرو، اور اپنے مولیٰ کو راضی کرو۔
دوستو! تم اس مسافر خانہ میں محض چند روز کے لئے ہو۔ اپنے اصلی گھروں کو یاد کرو۔ تم دیکھتے ہو کہ ہر سال کوئی نہ کوئی دوست تم سے رخصت ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی تم بھی کسی سال اپنے دوستوں کو داغ جدائی دے جاؤ گے۔ سو ہوشیار ہو جاؤ اور اس پُرآشوب زمانے کی زہر تم میں اثر نہ کرے۔ اپنی اخلاقی حالتوں کو بہت صاف کرو۔ کینہ اور بغض اور نخوت سے پاک ہو جاؤ۔ اور اخلاقی معجزات دنیا کو دکھلاؤ‘‘
(اربعین نمبر۴، روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ۴۴۲-۴۴۳)
پس غور کریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ نیک نیتی سے ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم نے اس مسیح کو دیکھ لیا جس کی بہت سے پیغمبروں نے خواہش کی تھی۔ ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا زمانہ تھا جس میں آپؑ کے صحابہؓ نے آپ کو جسمانی طور پر بھی دیکھا اور پھر ہر روز آپ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کے نظارے بھی دیکھے۔ اور ان نظاروں کو دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ بھی کیا۔ لیکن آج ہم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر ہر دن کے طلوع ہونے پراللہ تعالیٰ کے فضلوں کی ایک نئے رنگ کی بارش برستا دیکھتے ہیں تو یہ فضل بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہی دیکھ رہے ہیں۔ یہ جو جماعت پر بارشیں ہو رہی ہیں یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر دن ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا نیا جلوہ دکھا کر ہمیں آپ ہی کو دکھا رہا ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہی ان جلووں کے پیچھے دیکھ رہے ہیں۔ پس اس وقت کی قدر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم سے چمٹتے ہوئے جو حقیقت میں آپؑ کے آقا و مطاع پر اتری ہوئی تعلیم ہی ہے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی کوشش کرتے چلے جائیں اور اس کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے چلے جائیں۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے لئے کسی شخص کی طرف نہ دیکھیں بلکہ اس خاتم الاولیاء کی طرف دیکھیں جس کے بھیجنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا اور جس کو آپ نے قبول کیا۔ اپنی راہیں ہمیشہ درست رکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے اور جس راہ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑا ہے اس راہ سے کبھی بھٹکنے والے نہ بنیں۔ اپنے معاملے خدا سے صاف رکھیں اور اپنا قبلہ درست رکھیں۔ اپنے دلوں کو پاک رکھیں، اپنے دلوں کے داغ دھونے کی کوشش کریں۔ دوسروں کے دل میں جھانکنے کی کوشش نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے، مرنے کے بعد نہ کسی دوسرے کا بوجھ ہمارے پلڑے میں ڈالنا ہے، نہ ہمارا بوجھ کسی دوسرے کے پلڑے میں ڈالنا ہے۔ پس دلوں کو پاک رکھنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنے دل میں ہمیشہ جھانکتے رہیں، اپنے گریبان پر ہمیشہ نظر رکھیں، اسی سے مولیٰ راضی ہوگا، اسی سے ماحول میں فتنہ و فساد ختم ہو گا۔ اسی سے اعلیٰ اخلاق قائم ہوں گے، اسی سے کینےدور ہوں گے۔ اسی سے ہر کوئی اپنے آپ کوبغض اور حسد کی آگ سے بچانے والا ہو گا۔ اور اسی سے اخلاقی معجزات دنیا کے سامنے آئیں گے۔ اور دنیا کو ہماری طرف توجہ پیدا ہو گی۔ لیکن اگر ہم ان گھٹیا باتوں میں ہی پڑے رہے کہ فلاں میرا اچھا کھانا برداشت نہیں کر سکتا یا فلاں، فلاں کام کیوں نہیں کرتا تو نہ کبھی کینےختم ہو ں گے، نہ کبھی بغض ختم ہوں گے، نہ حسد ختم ہوں گے اور نہ اخلاقی معجزات رونما ہوں گے۔ یاد رکھیں یہی اخلاقی معجزات اور نیکیوں کے اعلیٰ معیار تبلیغ کے میدان بھی ہمارے لئے کھولیں گے اور اگلی نسلوں کی تربیت کے سامان بھی پیدا کریں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’یقیناً یاد رکھو کہ مومن متقی کے دل میں شر نہیں ہوتا۔ جس قدر انسان متقی ہو تا جاتاہے اسی قدر وہ کسی کی نسبت سزا اور ایذا کو پسند نہیں کرتا۔ مسلمان کبھی کینہ ور نہیں ہو سکتا ‘‘۔
فرماتے ہیں
:’’ہم خود دیکھتے ہیں ان لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے۔ کوئی دکھ اور تکلیف جو پہنچا سکتے تھے انہوں نے پہنچایا ہے۔ لیکن پھر بھی ان کی ہزاروں خطائیں بخشنے کو اب بھی تیار ہیں۔ پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو، یاد رکھو کہ تم ہرشخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمدردی کرو اور ’’بلاتمیز مذہب و قوم‘‘ ہر ایک سے نیکی کرو‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۲۱۹)
تو دیکھیں یہ ہے آپؑ کا اسوہ، آپؑ کی ہم سے توقعات کہ غیروں سے بھی ہمدردی کرو۔ جب غیروں سے اس قدر سلوک کرنا ہے تو آپس میں کس قدر پیار و محبت سے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ مومن کی یہ نشانی بتاتا ہے کہ وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان اور مکمل یقین رکھتے ہیں ان کا آپس کا سلوک رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ (الفتح:۳۰) کا مصداق ہے۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے سے بہت ملاطفت کرنے والے ہیں۔ محبت اور پیار کا سلوک کرنے والے ہیں۔ اس لئے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھانے کے لئے اپنے معاملات میں جب تک شکوے شکایتیں بند نہیں کریں گے ان لوگوں میں شمار نہیں ہو سکتے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ لیکن یہ تمام معیار کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جب تک اللہ تعالیٰ سے مدد نہ مانگیں کیونکہ شیطان جو برائیوں پر اکسانے والا ہے اس کا مقابلہ خدا کی مدد اور اس کے رحم کے بغیر نہیں ہو سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑ انا اور اس سے مدد مانگنا ضروری ہے۔ اس کے رحم کوجذب کرنے کے لئے یہ باتیں بھی ضروری ہیں اور اس کے ساتھ پاک دل ہو کر برائیوں سے بچنے کی کوشش بھی کی جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’یہ طوفان جو نفسانی شہوات کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے یہ نہایت سخت اور دیر پا طوفان ہے جو کسی طرح بجز رحم خداوندی کے دُور ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جس طرح جسمانی وجود کے تمام اعضاء میں سے ہڈی نہایت سخت ہے اور اسکی عمر بھی بہت لمبی ہے اسی طرح اس طوفان کے دُور کرنے والی قوت ایمانی نہایت سخت اور عمر بھی لمبی رکھتی ہے تا ایسے دشمن کا دیر تک مقابلہ کرکے پامال کر سکے اور وہ بھی خداتعالیٰ کے رحم سے‘‘۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ۲۰۶)
پس اس رحم کو جذب کرنے کے لئے جہاں خداتعالیٰ سے تعلق جوڑیں وہاں کوشش کریں کہ ان برائیوں کو دُور بھی کیا جائے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے اس کا فضل اور رحم اور مدد طلب کرتے ہوئے ایک مصمّم اور پکے ارادے کے ساتھ برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہمیں ان ادنیٰ خواہشات اور نفسانی خواہشات سے بچاتا ہے۔