سبع مثانی…سورۃ الفاتحہ کا ایک صفاتی نام
’’اس کی سات آیات دنیا کی عمر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ سات ہزار سال ہے اور ہر آیت ہزار سال کی کیفیت پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ آخری ہزار سال گمراہی میں بڑھ کر ہوگا اوریہ مقام اسی طرح اظہار کا مقتضی تھا جس طرح یہ سورۃ شروع دنیا سے لے کر آخرت تک کے ذکر کی کفیل ہے‘‘ (مسیح موعودؑ)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک روحانی مائدہ کی صورت میں ساری دنیا کے لوگوں کے لیے نازل فرمایا ہے اور اس کے مطالعہ سے خوب عیاں ہے کہ دیگر صحف سابقہ (تورات، انجیل اور زبور)کی طرح اس میں بھی خاص خاص ہستیوں اور مضامین کو صفاتی ناموں کے ساتھ تفصیلی طور پر بیان کیا گیاہے تاکہ ان کا تعارف اور تفصیل کھو ل کھول کر بیان کی جا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے تعارف اور عرفان کا آغاز سورۃ الفاتحہ میں اپنی صفات ربّ، رحمان، رحیم اور مالک یوم الدین سے کروایا ہے۔ اسی طرح ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کو اسی پاک الٰہی صحیفہ قرآن کریم میں شاہد، مبشر، نذیر، نور، سراج منیر، داعیاً الی اللّٰہ باذنہ، رحمۃ للعالمین اور خاتم النبیین ﷺ جیسی صفات سے متصف قرار دیا گیاہے۔
مضمون زیر نظر میں سورۃ الفاتحہ کے ایک صفاتی نام سَبْعًا مِنَ الْمَثَانیِ کا کچھ تفصیلی جائزہ لینا مقصود ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَالۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ (الحجر:۸۸)۔ ترجمہ : اور یقیناً ہم نے تجھے سات بار بار دہرائی جانے والی (آیات) اور قرآنِ عظیم عطا کئے ہیں۔
مقطعاتِ قرآن:حضرت خلیفۃ المسیح الر ابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے ترجمہ قرآن میں آیت مذکور کے فُٹ نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں ’سبعا من المثانی سے مراد سورۃ الفاتحہ کی آیات معلوم ہوتی ہیں جن کے معانی قرآن کریم میں بکثرت دہرائے گئے ہیں اور تمام مقطعات بھی سورۃ الفاتحہ سے لیے گئے ہیں۔ مقطعات میں سے ایک حرف بھی ایسا نہیں جو سورۃ الفاتحہ سے باہر ہو جبکہ سورۃ الفاتحہ میں ان کے علاوہ سات حروف ایسے ہیں جن کو مقطعات میں استعمال نہیں فرمایا گیا۔‘
جہنم کے سات دروازوں سے نجات: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوۡعِدُھُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ۔لَہَا سَبۡعَۃُ اَبۡوَابٍؕ لِکُلِّ بَابٍ مِّنۡہُمۡ جُزۡءٌ مَّقۡسُوۡمٌ۔ (الحجر:۴۴-۴۵) ترجمہ:اور یقیناً جہنم اُن سب کا موعود ٹھکانا ہے۔ اس کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لیے ان (گمراہوں) کا ایک مقررہ حصّہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’سورت الفاتحہ کی سات آیتیں اسی واسطے رکھی ہیں کہ دوزخ کے سات دروازے ہیں۔ پس ہر آیت گویا ایک دروازے سے بچاتی ہے‘‘۔
(الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۱ء صفحہ ۷)
نیز اپنی عربی تصنیف اعجاز المسیح میں سبع مثانی کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے اس کا ترجمہ یوں ہےکہ
’’اس سورۃ کے ناموں میں سے ایک نام سبع مثانی ہے اوراس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس سورۃ کے دو حصّے ہیں، اس کا ایک حصّہ بندہ کی طرف سے خدا کی ثنا اور دوسرا نصف فانی انسان کے لیے خدا تعالیٰ کی عطااور بخشش پرمشتمل ہے۔بعض علماء کے نزدیک اس کا نام السبع المثانی اس لیے ہے کہ یہ سورۃ تمام کُتُبِ الٰہیہ میں امتیازی شان رکھتی ہے اور اس کی مانند کوئی سورۃ تورات یا انجیل یا دوسرے صحفِ انبیاء میں نہیں پائی جاتی اور بعض کا خیال ہے کہ اس کا نام مثانی اس لیے ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ایسی سات آیات پرمشتمل ہے کہ ان میں سے ہر آیت کی قراءت قرآنِ عظیم کے ساتویں حِصّہ کی قراءت کے برابر ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام السبع المثانی اس بنا پررکھا گیاہے کہ اس میں جہنّم کے سات دروازوں کی طرف اشارہ ہے اور ان میں سے ہر ایک دروازہ کے لیے اس سورۃ کا ایک حِصّہ مقرر ہے جو خدائے رحمان کے اِذن سے جہنّم کے شعلوں کو دُور کرتا ہے۔پس جوشخص جہنم کے ان سات دروازوں سے محفوظ گزرنا چاہتا ہے اسے لازم ہے کہ وہ اس سورۃ کی ساتوں آیات کے حصار میں داخل ہو اور ان سے دلی لگاؤ رکھے اور ان پر عمل کرنے کے لیے خدائے قدیر سے استقلال طلب کرے اور تمام اخلاق، اعمال اور عقائد جو انسان کو جہنم میں داخل کرتے ہیں وہ اصولی طور پر سات مہلک امور ہیں اور سورت فاتحہ کی یہ سات آیات ایسی ہیں جو ان مہلکات کی شدائد کو دفع کرتی ہیں۔ احادیث میں اس سورۃ کے اور بھی کئی نام مذکور ہیں لیکن تیرے لیے اسی قدر بیان کافی ہے کہ یہ الٰہی اسرار کاخزانہ ہے۔علاوہ ازیں اس سورت کی آیات کا سات کی تعداد میں منحصر ہونا مبدء و معاد کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے میری مراد یہ ہے کہ اس کی سات آیات دنیا کی عمر کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ سات ہزار سال ہے اور ہر آیت ہزار سال کی کیفیت پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ آخری ہزار سال گمراہی میں بڑھ کر ہوگا اوریہ مقام اسی طرح اظہار کا مقتضی تھا جس طرح یہ سورۃ شروع دنیا سے لے کر آخرت تک کے ذکر کی کفیل ہے۔‘‘
(اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۷۷تا ۷۹)
سات آیات اور سات آسمانوں کا ذکر: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: ھُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰٮہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍؕ وَھُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ۔ (البقرۃ: ۳۰) ترجمہ :وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے وہ سب کا سب پیدا کیا جو زمین میں ہے۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور اسے سات آسمانوں کی صورت میں متوازن کردیا اور وہ ہرچیز کا دائمی علم رکھنے والا ہے۔
نیز فرماتاہے: وَبَنَیۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعًا شِدَادًا۔(النبا:۱۳)اور ہم نے تمہارے اُوپر سات بہت مضبوط آسمان بنائے۔
پھر فرماتا ہے:اَلَمۡ تَرَوۡا کَیۡفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا (نوح:۱۶) ترجمہ: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کیسے سات آسمانوں کو طبقہ بر طبقہ پیدا کیا؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’واضح رہے کہ اس سورت کی آیات سات ہیں اور مشہور ستارے بھی سات ہیں۔ان آیات میں سے ہر ایک، ایک ستارے کے مقابل پر ہے تا وہ سب کی سب شیطان کے لیے رجم کا موجب ہوں۔‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعودؑجلد اول صفحہ ۲۷)
سورۃ الفاتحہ جملہ قرآنی مضامین کا خلاصہ ہے: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَالۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ (الحجر:۸۸)۔ ترجمہ:اور یقیناً ہم نے تجھے سات بار بار دہرائی جانے والی (آیات) اور قرآنِ عظیم عطا کئے ہیں۔
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے:اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُھُمۡ وَقُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِؕ ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ وَمَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ھَادٍ ۔(الزمر:۲۴)ترجمہ: اللہ نے بہترین بیان ایک ملتی جلتی (اور) بار بار دُہرائی جانے والی کتاب کی صورت میں اتارا ہے۔ جس سے ان لوگوں کی جِلدیں جو اپنے ربّ کا خوف رکھتے ہیں لرزنے لگتی ہیں پھر ان کی جِلدیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف (مائل ہوتے ہوئے) نرم پڑ جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس کے ذریعہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
متذکرہ بالا دونوں آیات کو ملا کر پڑھنے سے یہ مضمون نہایت واضح ہو جا تا ہے کہ ایک طرف سورۃ الفاتحہ کا نام سبعًا من المثانی بیان فرمایا گیاہے اور دوسری طرف پورے قرآن کا نام بھی مثانی یعنی بار بار دہرایا جانے والا بیان ہوا ہے۔ گویا پورے قرآن کریم کا خلاصہ سورۃ الفاتحہ جو سبعًا من المثانی ہے، میں بیان فرمایا گیاہے۔ اسی مناسبت سے سورۃ الفاتحہ کا ایک دوسرا صفاتی نام امّ القرآن بھی ہے۔
سورۃ الفاتحہ کی سات آیات اور سات آسمانی گرج کی آوازیں: نئے عہد نامہ (انجیل) کی کتب میں سے آخری کتاب مکاشفہ کہلاتی ہے اس میں یوحنا عارف کے مکاشفہ میں سورۃ الفاتحہ کی صفت سبع مثانی کی بابت پیشگوئی کا ذکر یوں ہے کہ
’’پھر میں نے ایک اور زور آور فرشتہ کو بادل اوڑھے ہوئے آسمان سے اترتے دیکھا۔ اس کے سر پر دھنک تھی اور اس کا چہرہ آفتاب کی مانند تھا اور اس کے پاؤں آگ کے ستونوں کی مانند اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کھلی ہوئی کتاب تھی۔ اس نے اپنا دہنا پاؤں تو سمندر پر رکھا اور بایاں خشکی پر ایسی بڑی آواز سے چلایا جیسے شیر ببر دھاڑتا ہے اور جب وہ چلایا تو گرج کی سات آوازیں سنائی دیں اور جب گرج کی ساتوں آوازیں سنائی دے چکیں تو میں نے لکھنے کا ارادہ کیا اور آسمان پر سے یہ آواز آتی سنی کہ جو باتیں گرج کی ا ن سات آوازوں سے سنی ہیں ان کو پوشیدہ رکھ اور تحریر نہ کر اور جس فرشتہ کو میں نے سمندر اورخشکی پر کھڑے دیکھا تھا اس نے اپنا دہنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھایا اور جو ابد الآباد زندہ رہے گا اور جس نے آسمان اور اس کے اندر کی چیزیں اور زمین اور اس کے اوپر کی چیزیں اور سمندر اور اس کے اندر کی چیزیں پیدا کی ہیں، اس کی قسم کھاکر کہا کہ اب اور دیر نہ ہوگی بلکہ ساتویں فرشتہ کی آواز دینے کے زمانہ میں جب وہ نر سنگا پھونکنے کو ہوگا تو خدا کا پوشیدہ مطلب اس خوشخبری کے موافق جو اس نے اپنے بندوں نبیوں کو دی تھی، پورا ہوگا‘‘۔
(مکاشفہ باب ۱۰ آیات ۱ تا ۷)
مکاشفہ کے اس نہایت اہم حوالے میں بہت سے اہم امور کی طرف اشارہ ملتا ہے جن کا مختصر ذکر اس مضمون کی مناسبت سے یوں ہے کہ فرشتہ کے ہاتھ میں ایک کھولی ہوئی (مفتوح) کتاب کا ذ کر ہے جو بعینہٖ سورۃ الفاتحہ کا نام ہے۔ فرشتے کے چلانے سے جو سات آوازیں سنائی دیں وہ سورۃ الفاتحہ کی سات آیات کی طرف اشارہ ہے۔ آخر پر بتایا گیاہے کہ اس سورت اور اس کے مضامین کے نزول کا وقت ہنوز قریب ہے تاہم وہ اپنے وقت پر نازل ہو گی اور خشکی اور سمندر پر محیط ہونے سے مراد ایک عالم گیر شریعت کا ناز ل ہونا ہے جو بحر و بر پر یکساں فیض ربانی برسائے گئی۔
سبع مثانی اور قبولیت دعا کے سات اصول: حضرت مصلح موعود ؓتفسیر کبیر میں فرماتے ہیں ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہو جاتی ہے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو ذریعہ دُعا کو قبول کروا دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ ذریعہ کیا ہے؟ جیسا کہ اس سورۃ کی عبارت سے ظاہر ہے وہ ذریعہ اوّل بِسْمِ اللّٰہِ دوم اَلْحَمْدُللّٰہِ سوم الرَّحْمٰن۔ چہارم الرَّحْیِم اورپنجم مٰلکِ یَوْمِ الدِّیْن اور ششم اِیَّاکَ نَعْبُدُ اور ہفتم اِیَّاک نَسْتَعِیْن ہے گویا جس طرح سات آیتوں کی یہ سورۃ ہے اسی طرح سات اصول دُعا کی قبولیت کے لیے اس میں بیان کئے گئے ہیں بِسْمِ اللّٰہ یہ بتایا گیا ہے کہ جس مقصد کے لیے دُعا کی جائے وہ نیک ہو یہ نہیں کہ جو چوری کے لیے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے تو وہ بھی قبول کرلی جائے گی۔ خدا کا نام لےکر اور اس کی استعانت طلب کرکے جو دُعا کی جائے گی لازماً ایسے ہی کام کے متعلق ہوگی جس میں اللہ کی ذات بندہ کے ساتھ شریک ہو سکتی ہو۔ دیکھو ان مختصر الفاظ میں دُعا کے حلقہ کو کس طرح واضح کر دیا گیا ہے۔ میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے۔ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی دُعائیں کرتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ ہماری دُعاقبول نہیں ہوئی۔ اسی طرح ناجائز مطالب کے لیے دُعائیں کرتے (ہیں اور) پھر شکایت کرتے ہیں کہ دُعا قبول نہیں ہوئی۔ بعض لوگوں نے جھوٹا جامہ زہد و اتقا کا پہن رکھا ہے اور ناجائز امور کے لیے تعویذ دیتے اور دُعائیں کرتے ہیں حالانکہ یہ سب دُعائیں اور تعویذ عاملوں کے مُنہ پر مارے جاتے ہیں۔ دوسرا اصلی (اصول) اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن میں بتایا ہے یعنی دُعا ایسی ہو کہ اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے دوسرے بندوں کا بلکہ سب دُنیا کا فائدہ ہو یا کم سے کم ان کا نقصان نہ ہو اور اس کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی حمد ثابت ہوتی ہو اور اس پر کسی قسم کا الزام نہ آتا ہو۔ تیسرے یہ کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کو جنبش دی گئی ہو اور اس دُعا کے قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ظاہر ہوتی ہو۔ چوتھے یہ کہ اس دُعا کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے بھی ہو یعنی وہ نیکی کی ایک ایسی بنیاد ڈالتی ہو جس کا اثر دُنیا پر ایک لمبے عرصہ تک رہے اور جس کی وجہ سے نیک اور شریف لوگ متواتر فوائد حاصل کریں یا کم سے کم ان کے راستہ میں کوئی روک نہ پیدا ہوتی ہو۔ پانچویں یہ کہ دُعا میں اللہ تعالیٰ کی صفت مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کا بھی خیال رکھا گیا ہو یعنی دُعا کرتے وقت ان ظاہری ذرائع کو نظر انداز نہ کر دیا گیا ہو جو صحیح نتائج پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تجویز کئے ہیں کیونکہ وہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے طریق کو چھوڑ کر اس سے مدد مانگنا ایک غیر معقول بات ہے گویا جہاں تک اسباب ظاہری کا تعلق ہے بشرطیکہ وہ موجود ہوںیا ان کا مہیّا کرنا دُعا کرنے والے کے لیے ممکن ہو ان کا استعمال بھی دُعا کے وقت ضروری ہے ہاں اگر وہ موجود نہ ہو ں تو پھر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفت اسباب سے بالا ہو کر ظاہر ہوتی ہے۔ ایک اشارہ اس آیت میں یہ بھی کیا گیا ہے کہ دُعا کرنے والا دوسروں سے بخشش کا معاملہ کرتا ہو اور اپنے حقوق کے طلب کرنے میں سختی سے کام نہ لیتا ہو۔ چھٹا اصل یہ بتایا ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق ہو اور اس سے کامل اخلاص حاصل ہو اور وہ شرک اور مشرکانہ خیالات سے کلی طو رپر پاک ہو۔ اور ساتویں بات یہ بتائی ہے کہ وہ خدا کا ہی ہو چکا ہو اور اس کا کامل توکل اسے حاصل ہو اور غیر اللہ سے اس کی نظر بالکل ہٹ جائے اور وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ خواہ کچھ ہو جائے اور کوئی بھی تکلیف ہو۔ مانگوں گا تو خدا تعالیٰ ہی سے مانگوں گا۔
یہ سات امور وہ ہیں کہ جب انسان ان پر قائم ہو جائے تو وہ لعبدی ماسأل کا مصداق ہو جاتا ہے اور حق بات یہ ہے کہ اس قسم کی دُعا کا کامل نمونہ رسول کریم صلعم یا آپؐ کے کامل اتباع نے ہی دکھایا ہے اور انہی کے ذریعہ سے دُعائوںکی قبولیت کے ایسے نشان دُنیا نے دیکھے ہیں جن سے اندھوں کو آنکھیں اور بہروں کو کان اور گونگوں کو زبان عطا ہوئی ہے مگر اتباع رسول کا مقام بھی کسی کے لیے بند نہیں جو چاہے اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کر سکتا ہے اور اس مقام کو حاصل کر سکتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد اول تفسیر سورۃ الفاتحہ)
سات آسمانی راستوں کا بیان:اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعَ طَرَآئِقَ وَمَا کُنَّا عَنِ الۡخَلۡقِ غٰفِلِیۡنَ۔(المومنون:۱۸)ترجمہ: اور یقیناً ہم نے تمہارے اوپر سات راستے بنائے ہیں اور ہم خلق سے غافل رہنے والے نہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے ضمن میں فُٹ نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’یہاں انسانوں کے اوپر سات آسمانی رستوں کا ذکر ملتا ہے۔ سات کے عدد سے مراد ایسا عدد ہے جو بار بار دہرایا جائے جیساکہ ہفتہ ہر سات دن کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ پس سبع طرائق سے مراد اَن گنت آسمانی رستے ہیں۔‘‘
سات کا ہندسہ عربی زبان میں مبالغہ اور لا متناہی اور لا محدود کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یوں سورت الفاتحہ کی سات آیات میں بھی اس کے لا متناہی مضامین کی طرف اشارہ ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ میں فرماتا ہے کہ وَلَوۡ اَنَّ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ شَجَرَۃٍ اَقۡلَامٌ وَّالۡبَحۡرُ یَمُدُّہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ سَبۡعَۃُ اَبۡحُرٍ مَّا نَفِدَتۡ کَلِمٰتُ اللّٰہِؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ۔(لقمان:۲۸)ترجمہ: اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر سب قلمیں بن جائیں اور سمندر (روشنائی ہوجائے اور) اس کے علاوہ سات سمندر بھی اس کی مدد کریں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔ یقیناً اللہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔
اس آیت میں بھی کلمات اللہ کے لا محدود اور لامتناہی ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے سات سمندروں کا بطور سیاہی میسر آنا ہے پھر بھی کلمات اللہ ختم نہیں ہوں گے۔
انفاق فی سبیل اللہ کا وسیع اجر: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍؕ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُؕ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ۔(البقرۃ:۲۶۲)ترجمہ: ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے بیج کی طرح ہے جو سات بالیں اُگاتا ہو۔ ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے (اس سے بھی) بہت بڑھا کر دیتا ہے۔ اور اللہ وسعت عطا کرنے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں انفاق فی سبیل اللہ کے وسیع اجر کی بابت فرمایا گیاہے کہ جو خدا سات بالیوں کو سات سو تک بڑھاتا ہے وہ خدا ہماری حقیر اور عاجزانہ نیکیوں کا اجر بھی جس کے لیے چاہے، اسی طرح دینے پر قادر ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی ذات اور پاک کتاب قرآن کریم کا عرفان عطا فرمائے اور سورۃ الفاتحہ کے مضامین کا فہم و ادراک بھی بخشے تاکہ ہم اپنی عبادات کو ذوق و شوق سے ادا کرنے والے ہوں اور حقیقی عبد بننے کی لذت حاصل کرنے والے ہوں۔ آمین
(‘ابو سلطان’)