ایک عزیز کے نام خط
تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط ۶۰)
(حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان رضی اللہ عنہ )
حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان،ؓ جب ۱۹۳۹ء میں وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کے طور پر شملہ (موجودہ شمالی بھارت کاایک شہر )میں مقیم تھے، آپؓ نے اپنے ایک عزیز کے نام خط لکھا جو قریبا دو ہفتوں میں مکمل ہوا۔مذکورہ بالا معززترین اور مصروف ترین بلند عہدہ کی بھاری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ حضرت چودھری صاحبؓ نے یہ خط ۱۶؍مئی کو لکھنا شروع کیا اور ۳۱؍مئی ۱۹۳۹ء کو مکمل کرلیا تھا۔
یہ پُر خلوص تربیتی کوشش جہاں علمی اور ادبی نمونہ ہے وہاں سادگی اور پُرگوئی کا شاہکار بھی ہے۔اور اسی لیے بےپناہ افادیت کے پیش نظر ان معروضات کو مارچ ۱۹۴۰ء میں مینیجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان دارالامان کی طرف سے کتابی شکل میں شائع کیا گیا، تب اس کی قیمت چار آنے تھی۔
اس تصنیف کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا تبصرہ ان الفاظ میں تھا:’’مجھے بچپن سے تصنیف کا شوق ہے۔ اس لئے ہر عمدہ تصنیف جو کسی کے ہاتھ سے نکلتی ہے وہ خاص خوشی کا باعث ہوتی ہے۔ مکرمی چو ہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ممبر ایگزیکٹو کونسل وائسرائے ہند نے اپنی اس قیمتی تصنیف میں جو اس وقت دوستوں کے ہاتھ میں ہے۔ نہ صرف جماعت احمدیہ کی بلکہ بنی نوع انسان کی بہت عمدہ خدمت سرانجام دی ہے کیونکہ اس تصنیف میں وہ رستہ بتایا گیا ہے جس پر چل کر انسان ایک بااخلاق اور باخدا انسان بن سکتا ہے۔ دنیا میں اہل دنیا کی علمی اور اقتصادی اور سیاسی خدمت کرنے والے لوگ تو بہت ہیں مگر اخلاقی اور روحانی خدمت کی طرف موجودہ مادی زمانہ میں بہت کم لوگوں کو توجہ ہے۔ اس لحاظ سے چوہدری صاحب مکرم کی یہ خدمت جس کی اس زمانہ میں دنیا کو از حد ضرورت ہے۔ بہت ہی قابل قدر ہے۔ احمدی نوجوان تو خیر اسے پڑھیں گے ہی۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مفید تصنیف کو غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب تک بھی کثرت کے ساتھ پہونچا یا جائے تاکہ وہ بھی اس پاکیزہ چشمہ کے مصفیٰ پانی سے سیراب ہوں ۔
…مجھے اس عزیز کا نام معلوم ہے۔ مگر جب چوہدری صاحب نے نام ظاہر نہیں کیا تو میں کیوں ظاہر کروں۔ اور پھر اس نام کا اس وجہ سے بھی مخفی رہنا ضروری ہے کہ تا ہر وہ شخص جو اس خط کو پڑھے وہ گویا اس میں اپنے کو ہی مخاطب خیال کرے اور اس کی طبیعت اس مخفی اثر کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجائے جو خدا کے ازلی قانون کے ماتحت ایک دل سے دوسرے دل کی طرف جاتا ہے…‘‘
اس کتاب میں مصنف نے اپنے عزیز کو بتایا ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اسے امرالٰہی کی حقیقت بتائی ہے۔ انسانی ترقی کے ادوار سے متعارف کرواکر انسانی روح کی پیدائش اور انسانی زندگی کی انواع پر روشنی ڈالی ہے۔
کتاب کے صفحہ ۲۱ پر انسان پر خدا تعالیٰ کے انعامات کی طرف متوجہ کیا اور انسانی زندگی کا کمال نہایت سادہ الفاظ اور عام فہم اسلوب میں سمجھایا ہے۔
صفحہ ۲۴ پر معرفت الٰہی کے حصول کے لیے صفات الٰہی کے علم کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ہمارا خدا کون ہے ۔
صفحہ ۴۵ پر تعلق باللہ کے ذرائع بتا کر الہام کی کیفیت بتائی اور پھر اگلے قریباً دس صفحات پر قرآن کریم کےمتعلق مواد پیش کیا ہے۔
صفحہ ۵۸ پر بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا تذکرہ شروع ہوتا ہے اور اس حصہ میں آپ ﷺ کے اسوہ کامل، اخلاق کامل، بیویوں سے سلوک، بچوں پر شفقت، غلاموں سے معاملہ، نیز بطور حاکم وقت آپ ﷺ کا اسوہ سمجھایا۔ آنحضورﷺ کی سادہ زندگی، اور عفوو کرم، شجاعت، اعتدال پسندی، وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
اس کتاب میں مصنف نے اسلام میں رہبانیت کی مناہی سمجھاکر حقوق العباد کے متعلق صفحہ ۷۶ پر کچھ مواد پیش کیا ہے۔
آگے بڑھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی ضرورت اور اس کا پس منظر سمجھایا ہے کہ آپؑ سے قبل اسلام کی نازک حالت کا نقشہ کیسا تھا، اور یہ اسلام کا دوسرا دور ہے، اس دور میں سائنس اور مذہب، ملائکہ کے وجود کو سمجھنے کی کیسی ضرور ت ہے۔
مصنف نے اپنے عزیز کو روحانی اصلاح میں نماز کے مقام کے متعلق نہایت تفصیل اور دردمندی سے سمجھایا ہے، یہ قیمتی مواد قریباً دس صفحات پر مشتمل ہے۔
مصنف نے اپنے اس خط کے آخر پر کتب برائے مطالعہ کی فہرست بھی دی ہے۔ اور لکھا ہے:’’یہ ایک نہائیت ہی مختصر خاکہ اس تعلیم کے بعض پہلوؤں کا ہے جو ہمیں اسلام احمدیت کی تشریح کے مطابق زندگی کے مختلف شعبوں کے متعلق دیتا ہے۔اس خاکہ کے پیش کرنے سے میری اغراض یہ ہیں کہ اول تو تمہیں اسلامی تعلیم سے دلچسپی پیدا ہواور جب تمہیں یہ معلوم ہوجائے کہ اس تعلیم کے اندر کس قدر خزانے مخفی ہیں تو تم اس مختصر تمہید کے نتیجہ میں خود اسلامی تعلیم کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کرو۔
اس مطالعہ کی ترتیب یہ ہونی چاہیے کہ اوّل تو تم قرآن کریم کو باترجمہ پڑھنا شروع کردو اور اس کے بعد اس کا مطالعہ متواتر جاری رکھو….
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصانیف میں سے کم سے کم ذیل کی تصانیف کا تمہیں ضرور مطالعہ کرنا چاہیے…
اسلامی اصول کی فلاسفی
کشتی نوح
براہین احمدیہ پانچوں حصے
ازالہ اوہام
آئینہ کمالات اسلام
تریاق القلوب
چشمہ معرفت
تحفہ گولڑویہ
نزول المسیح
حقیقۃ ا لوحی‘‘(صفحہ ۱۴۳)
ان دس کتب کے نام لکھنے کے بعد مطالعہ کی اس فہرست میں مصنف نے خلفاء کی بعض تصنیفات اور خطبات کا ذکر کیا ہے اورکہا کہ ’’اگر پچھلے خطبات میسر آجائیں تو وہ بھی سب۔ ورنہ احتیاط کرنی چاہئے کہ آئندہ ہمیشہ خطبہ جمعہ توجہ سے پڑھ لیا کرو۔‘‘
کتاب کاموجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن انگلستان سے اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز کا شائع کردہ ہے جو قریباً ڈیڑھ صد صفحات پر مشتمل ہے اور جماعت کی مرکزی ویب سائٹ پر موجود ہے۔