حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص کے قبولِ اسلام کا واقعہ

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۰؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء)

آج بھی بدر کے فوری بعد ہونے والے بعض واقعات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے ذکر کروں گا۔ تاریخ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص کے قبولِ اسلام کا واقعہ یوں درج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ چھ ہجری میں زید بن حارثہؓ کی کمان میں ایک سریہ عیص مقام کی جانب روانہ فرمایا۔ عِیْص مدینے سے چار دنوں کی مسافت پر ہے۔ دنوں کی مسافت کا یہ ذکر جب ہوتا ہے تو تاریخ دان یہ کہتے ہیں ایک دن کی مسافت بارہ میل ہوتی ہے۔ اس طرح یہ مقام اڑتالیس میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ اس سریہ کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ چھ ہجری میں زید بن حارثہ کو ستر صحابہؓ کی کمان میں مدینہ سے روانہ فرمایا۔ اس مہم کی وجہ یہ لکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تھی کہ شام کی طرف سے قریش مکہ کا ایک قافلہ آ رہا ہے تو آپؐ نے اس دستے کو روانہ فرمایا۔ اور وہ جو تجارتی سامان کا قافلہ تھا ان کا مقصد یہ تھا کہ اس کی آمد سے پھر مسلمانوں پہ حملہ کیا جائے اور جنگ کی جائے۔ بہرحال انہوں نے اس کو روک لیا اور ان کا سازو سامان قبضےمیں لے لیا۔ بعض قیدی بھی پکڑے۔ ان قیدیوں میں ابوالعاص بھی گرفتار ہوئے تھے۔ (ماخوذ از شرح الزرقانی علیٰ المواہب اللدنیۃ جلد۳ صفحہ ۱۲۴-۱۲۵، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۹۹۶ء) (اردو لغت جلد ۱۷ صفحہ ۷۷۲ زیر لفظ ‘‘مرحلہ’’)

سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کو یوں لکھا ہے کہ ’’ان قیدیوں میں جو سریہ بطرف عِیص میں پکڑے گئے ابوالعاص بن الربیع بھی تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اورحضرت خدیجہؓ مرحومہ کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے۔ اس سے قبل وہ جنگِ بدر میں بھی قید ہوکر آئے تھے مگر اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس شرط پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ مکہ پہنچ کر آپؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کو مدینہ بھجوا دیں۔ ابوالعاص نے اس وعدہ کو تو پورا کر دیا تھا مگر وہ خود ابھی تک شرک پرقائم تھے۔ جب زید بن حارثہ انہیں قید کر کے مدینہ میں لائے تورات کاوقت تھا مگر کسی طرح ابوالعاص نے حضرت زینبؓ کو اطلاع بھجوا دی کہ میں اس طرح قید ہو کر یہاں پہنچ گیا ہوں۔ تم اگرمیرے لئے کچھ کرسکتی ہو تو کرو۔ چنانچہ عین اس وقت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ صبح کی نماز میں مصروف تھے [حضرت] زینبؓ نے گھر کے اندر سے بلند آواز سے پکار کر کہا کہ ’’اے مسلمانو! مَیں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ ؓکی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔’’جو کچھ زینب نے کہا ہے وہ آپ لوگوں نے سن لیا ہوگا۔ واللہ! مجھے اس کا علم نہیں تھا۔‘‘ یہ بات میرے علم میں نہیں تھی ’’مگر مومنوں کی جماعت ایک جان کاحکم رکھتی ہے اگران میں سے کوئی کسی کافر کوپناہ دے تو اس کا احترام لازم ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے [حضرت] زینبؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ ’’جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں‘‘ اور جو مال اس مہم میں ابوالعاص سے حاصل ہوا تھا وہ اسے لوٹا دیا۔ پھر آپؐ گھر میں تشریف لائے اوراپنی صاحبزادی زینبؓ سے فرمایا ’’ابوالعاص کی اچھی طرح خاطر تواضع کرو۔مگر اس کے ساتھ خلوت میں مت ملو کیونکہ موجودہ حالت میں تمہارا اس کے ساتھ ملنا جائز نہیں ہے۔‘‘ چند روز مدینہ میں قیام کرکے ابوالعاص مکہ کی طرف واپس چلے گئے مگر اب ان کا مکہ میں جانا وہاں ٹھہرنے کی غرض سے نہیں تھا کیونکہ انہوں نے بہت جلد اپنے لین دین سے فراغت حاصل کی اور کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر مسلمان ہو گئے۔ جس پر آپؐ نے حضرت زینبؓ کو ان کی طرف بغیر کسی جدید نکاح کے لوٹا دیا …بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اس وقت حضرت زینبؓ اورابوالعاص کا دوبارہ نکاح پڑھا گیا تھا مگر پہلی روایت زیادہ مضبوط اورصحیح ہے۔‘‘(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ ۶۷۰-۶۷۱)کہ نکاح کی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے یہ فتویٰ بھی مل گیا کہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے کفر کی وجہ سے علیحدہ ہوتی ہے تو پھر خاوند کے ایمان لانے پر دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی۔

حضرت زینبؓ اپنے خاوند کے اسلام قبول کرنے کے بعد زیادہ دیر تک زندہ نہ رہیں۔ آٹھ ہجری میں ان کا انتقال ہو گیا۔ حضرت ام ایمنؓ، حضرت سودہؓ، حضرت ام سلمہؓ اور حضرت ام عطیہؓ نے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق غسل دیا۔ (سیرالصحابہ جلد ۶صفحہ ۹۰، دارالاشاعت کراچی ۲۰۰۴ء) حضرت ام عطیہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں حکم دیا کہ وہ آپؐ کی بیٹی کو غسل دیں تو آپؐ نے فرمایا تھا اس کے داہنے پہلو سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا۔ ایک دوسری روایت میں اس کی تفصیل یوں ملتی ہے کہ حضرت ام عطیہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی زینبؓ فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا اس کو طاق یعنی تین یا پانچ دفعہ غسل دینا اور پانچویں دفعہ کافور ڈالنا یا فرمایا کچھ کافور ڈالنا۔ جب تم ان کو غسل دے چکو تو مجھے اطلاع کرنا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم نے آپؐ کو اطلاع دی۔ آپؐ نے ہمیں اپنا ازار عطا فرمایا اور فرمایا اسے اس کا شعار بنا دینا۔(صحیح مسلم کتاب الجنائز باب فی غسل المیت حدیث ۲۱۷۶،۲۱۷۳) کپڑا جو کمر پہ باندھتے ہیں وہ دیا۔ شعار وہ کپڑا ہے جو بدن کے ساتھ لگا ہوا ہو۔(لغات الحدیث جلد۲صفحہ۴۸۶ نعمانی کتب خانہ لاہور۲۰۰۵ء)

اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔ خود قبر میں اترے اور اپنی صاحبزادی کو سپرد خاک کیا۔ حضرت زینبؓ نے اولاد میں دو بچے چھوڑے۔ علی اور امامہ۔ ایک روایت کے مطابق علی نے بچپن میں ہی وفات پائی جبکہ دوسری روایت کے مطابق سن رُشد کو پہنچے۔ ابن عساکر نے لکھا ہے کہ یرموک کے معرکے میں انہوں نے شہادت پائی۔ فتح مکہ میں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔(سیرالصحابہ جلد ۶صفحہ ۹۰، دارالاشاعت کراچی ۲۰۰۴ء)

حضرت امامہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ نے ان کے ساتھ نکاح کر لیا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد۸ صفحہ۲۵، دارالکتب العلمیۃ بیروت۱۹۹۰ء) حضرت ابوالعاصؓ کا تجارتی کاروبار مکّہ میں تھا اس لیے وہ مدینہ میں قیام نہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ قبولِ اسلام کے بعد وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر پھر مکّہ لوٹ آئے۔ مکّہ کے قیام کی وجہ سے انہیں غزوات میں شرکت کا موقع نہ مل سکا۔ صرف ایک سریہ میں جو دس ہجری میں حضرت علی ؓکی سرکردگی میں بھیجا گیا تھا اس میں شریک ہوئے۔ حضرت علیؓ نے یمن سے واپسی میں انہیں یمن کا عامل بنایا تھا۔ حضرت زینب ؓکے انتقال کے بعد ابوالعاص بھی زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اور بارہ ہجری میں انہوں نے وفات پائی۔ (سیرالصحابہ جلد۷صفحہ ۴۹۱ دار الاشاعت کراچی)(اسدالغابۃ جلد ۶ صفحہ ۱۸۲-۱۸۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ابوالعاص کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس طرح لکھا ہے :’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص بن الربیع حضرت خدیجہؓ مرحومہ کے قریبی رشتہ دار یعنی حقیقی بھانجے تھے اور باوجود مشرک ہونے کے ان کا سلوک اپنی بیوی سے بہت اچھا تھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی میاں بیوی کے تعلقات بہت خوشگوار رہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس جہت سے ابوالعاص کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے کہ اس نے میری لڑکی کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ ابوالعاص حضرت ابوبکرؓکے عہد خلافت میں ۱۲ھ میں فوت ہوئے مگر ان کی زوجہ محترمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہو گئیں۔‘‘ اس روایت سے تو یہ لگتا ہے کہ حضرت علیؓ کے بارے میں پہلے جو روایت ہے کہ انہوں نے عامل بنایا وہ ذرا مشکوک ہے۔ ’’ان کی لڑکی امامہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت عزیز تھی حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں مگراولادسے محروم رہیں۔‘‘(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ ۶۷۴)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button