دینی تعلیمات کی روشنی میں بد رسوم اور بدعات سے نجات
دین میں سب سے زیادہ خرابی پیدا کرنے والی باتوں میں سرفہرست بد رسوم اور بدعات ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے گھروں میں قسم قسم کی خراب رسمیں اور نالائق عادتیں جن سے ایمان جاتا رہتا ہے گلے کا ہار ہو رہی ہیں۔ اور ان بری رسموں اور خلاف شرع کاموں سے یہ لوگ ایسا پیار کرتے ہیں جو نیک اور دین داری کے کاموں سے کرنا چاہیے…سو آج ہم کھول کر بآواز کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے۔ یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر دین اسلام کی راہ اختیار کی جائے اور جو کچھ اللہ جلّشانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور اس کے رسول ﷺ نے ہدایت کی ہے۔ اس راہ سے نہ بائیں طرف منہ پھیریں نہ دائیں۔ اور ٹھیک ٹھیک اسی راہ پر قدم ماریں۔ اور اس کے برخلاف کسی راہ کو اختیار نہ کریں۔ ‘‘
( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۰۹۔۱۱۰۔ ایڈیشن۲۰۱۹ء)
آپؑ مزید فرماتے ہیں: ’’اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کے لئے تین چیزیں ہیں۔ 1۔ قرآن شریف۔ جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی الائشوں سے پاک ہے۔
2۔ دوسری سنت…سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرتﷺ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے…یا یہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سنت رسول اللہ ﷺ کا فعل…
3۔ تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے۔ ‘‘ (ریویوبر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد19 صفحہ 209-210)
ایک اَور جگہ حضورؑ فرماتے ہیں:
’’قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ(آل عمران:۳۲)اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے کہ آنحضرتﷺ کی سچی فرماں برداری کی جاوے۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں۔ کوئی مر جاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں حالانکہ چاہیے کہ مردہ کے حق میں دعا کریں۔ رسومات کی بجا آوری میں آنحضرتﷺ کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرتﷺ کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا۔ اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی۔‘‘
(ملفوظات جلد۵صفحہ ۴۴۰،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
حضرت رسول کریم ﷺ نے بدعت کے بارے فرمایا ہے: دین میں نئی باتوں کی ایجاد سے بچو کیونکہ ہر نئی بات جو دین کے نام پر جاری ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔(ترمذی کتاب العلم باب الاخذ بالسنة )
پھر فرمایا: سب سے اچھی تعلیم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر ہدایت (طریق) محمد ﷺ کی سنت ہے اور سب سے بری بات ( میری سنت میں) کوئی نئی چیز (بدعت) پیدا کرنا ہے کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور بدعت ضلالت (گمراہی) ہے اور ہر گمراہی کا انجام بالآخر دوزخ ہے۔ (سنن النسائی کتاب الصلوۃ العیدین باب کیف الخطبة)
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’انسان میں ایک مرض ہے جس میں یہ ہمیشہ اللہ کا باغی بن جاتا ہےاور اللہ کے رسول اور نبیوں اور اس کے اولوالعزموں اور ولیوں اور صدیقوں کو جھٹلاتا ہے۔ وہ مرض عادت، رسم ورواج اور دم نقد ضرورت یا کوئی خیالی ضرورت ہے۔ یہ چار چیزیں میں نے دیکھا ہے، چاہے کتنی نصیحتیں کرو جب وہ اپنی عادت کے خلاف کوئی بات دیکھے گا یا رسم کے خلاف یا ضرورت کے خلاف تو اس سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرے گا۔‘‘
(خطبات نور صفحہ ۶۵۰)
بد رسوم کے متعلق حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:
’’اگر ہم بدعتوں اور رسموں کے پابند رہیں گے اور اندھیرے میں ہی پڑے رہیں گے تو ہر گز اس نور سے فائدہ نہ اٹھا سکیں گے اور نہ ہی اس نور کے ذریعہ سے جو سنت اور جواسوہ حسنہ دنیا میں قائم کیا گیا ہے ہم اس کی اتباع کر سکیں گے اور اگر ہم ایسا نہ کر سکیں گے تو نہ اس دنیا میں فلاح حاصل ہوگی اور نہ ہی اخروی زندگی میں۔ پس ہر احمدی پر،ہر احمدی خاندان اور ہر احمدی تنظیم پر یہ فرض ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو رسوم اور بدعتوں سے بچائے رکھے اور اس بات کی بھی نگرانی کرے کہ کوئی احمدی بھی رسوم و رواج کی پابندی کرنے والا نہ ہواور بدعات میں پھنسا ہوا نہ ہو۔ دنیا میں رسوم و بدعات کا عجیب جال بچھا ہوا ہے۔ جب آدمی ان پر غور کرتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ خدا نے جس مخلوق (انسان) کو اشرف المخلوقات بنایا اور جس پر آسمانی رفعتوں کے دروازے کھولے وہ کس طرح اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے اور پھر کس طرح نور کی بجائے ظلمات میں آرام و راحت پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ان رسوم و بدعات سے محفوظ رکھے۔‘‘
( خطبات ناصر جلداول صفحہ 385-386)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’تم ایسے دین اور نبی کو ما ننے والے ہو جو تمہارے بوجھ ہلکے کرنے والا ہے۔ جن بے ہودہ رسم و رواج اور لغو حرکات نے تمہاری گردنوں میں طوق ڈالے ہوئے ہیں، پکڑا ہوا ہے، ان سے تمہیں آزاد کرانے والا ہے۔ تو بجائے اس کے کہ تم اس دین کی پیروی کرو جس کو اب تم نے مان لیا ہے اور ان طور طریقوں اور رسوم ورواج اور غلط قسم کے بوجھوں سے اپنے آپ کو آزاد کرو، ان میں دوبارہ گرفتار ہو رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم تو خوش قسمت ہو کہ اس تعلیم کی وجہ سے ان بوجھوں سے آزاد ہو گئےہو اور اب فلاح پا سکو گے، کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی، نیکیوں کی توفیق ملے گی۔ پس ہمیں یہ سوچنا چاہیےکہ اللہ تعالیٰ تو ان رسموں اور لغویات کو چھوڑنے کی وجہ سے ہمیں کامیابیوں کی خوشخبری دے رہا ہے اور ہم دوبارہ دنیا کی دیکھا دیکھی ان میں پڑنےوالے ہو رہے ہیں۔‘‘
(خطبات مسرور جلد سوم صفحہ 692)
پس ہم جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ امام آخرالزمان اور آپؑ کے خلفاء کے ہاتھ پر بیعت کی ہے ہمیں آپؑ کے اس ارشاد کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا چاہیے کہ ہر قسم کی رسوم اور ہوا و حوس کو چھوڑ کر خالص اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی زندگیاں گزاریں۔ ایک پاک تبدیلی ہمارے نفوس میں پیدا ہو اور اس کی روشنی ہر طرف پھیلے۔ ہم اسلامی برکات کا نمونہ بنیں اور ان لوگوںمیں شامل ہوں جن کو قبولیت اور نصرت دی جاتی ہے۔ آمین اللّٰھم آمین
(مرسلہ: فوزیہ شکور۔جرمنی)