مکتوب

مکتوب جنوبی امریکہ(نومبر۲۰۲۴ء)

(براعظم جنوبی امریکہ تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ)

پیرو میں چینی سرمایہ کاری سے بنی بندرگاہ جس نے امریکی دفاعی ماہرین کی نیندیں اُڑا دیں

دنیا یہ دیکھنے کی منتظر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے بعد واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کیسے تعلقات ہوں گے مگر اسی دوران چین نے ایک ایسا ٹھوس قدم اٹھایا ہے جس نے لاطینی امریکہ میں اسے انتہائی مضبوط مقام پرکھڑا کر دیا ہے۔ٹرمپ نے امریکی صدارتی الیکشن جیتنے سے قبل چینی ساختہ اشیاکی درآمد پر ۶۰؍فیصد تک ٹیکس لگانے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر جنوبی امریکہ میں چینی حمایت سے بننے والی ایک بڑی بندرگاہ ممکنہ طور پر نئے تجارتی راستے قائم کر سکتی ہے جو شمالی امریکہ کو پوری طرح بائی پاس کر دیں گے۔

صدر شی جن پنگ نے نومبر میں خود Chancay port کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ چین اس کی تعمیر کو لے کر کس حد تک سنجیدہ ہے۔چین کے صدر ایشیا پیسیفک تنظیم برائے معاشی تعاون (Asia-Pacific Economic Co-operation Forum) کے سالانہ اجلاس کے لیے لاطینی امریکہ کے ملک پیرو میں موجود تھے۔ مگر تمام نگاہیں چانکے پر تھیں اور اس حوالے سے دلچسپی پائی جاتی ہے کہ وہ خطہ جہاں روایتی طور پر امریکی اثر و رسوخ رہا ہے، وہاں اب چینی اثر و رسوخ بھی بڑھ رہا ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ واشنگٹن نے کئی برسوں تک اپنے پڑوسیوں اور ان کی ضروریات کو نظرانداز کیا ہے اور وہ اب اس کی قیمت ادا کر رہا ہے۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ طویل عرصے سے لاطینی امریکہ سے غیرحاضر رہا ہے۔ اور چین نے تیزی سے وہاں جگہ سنبھالی ہے۔

چانکے بندرگاہ کا منصوبہ اتنا اہم کیوں؟

ایک وقت تک گمنام رہنے والا ساحلی شہر’’چانکے‘‘ پیرو کے دارالحکومت لیما سے ۷۸؍کلومیٹر دور واقع ہے جہاں ماہی گیر بستے تھے۔ مگر اس بندرگاہ کے افتتاح سے قبل ہی یہ سمندری نقل و حمل کا گڑھ بن گیا اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس بندرگاہ سے ملک کی معیشت سنور جائے گی۔اس بندرگاہ کو ۳.۵؍ارب ڈالر کی لاگت سے چین کی سرکاری شپنگ کمپنی کوسکو (COSCO SHIPPING) نے تعمیر کیا ہے۔چینی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار پیپلز ڈیلی کے مطابق یہ چین اور پیرو کے بیچ تعاون اور مفاد کی فتح ہے۔پیرو کے صدر Dina Ercilia Boluarte کے مطابق یہ میگا پورٹ مرکزی بندرگاہ کے طور پر کام کرے گا اور تمام بڑی ایشین مارکیٹ تک رسائی فراہم کرے گی۔مگر اس کے اثرات محض پیرو تک محدود نہیں ہوں گے۔ جب چانکے بندرگاہ پوری طرح فعال ہوجائے گی تو چلّی، ایکواڈور، کولمبیا حتیٰ کہ برازیل کا تجارتی سامان شنگھائی اور دیگر ایشین بندرگاہوں پر پہنچنے کے لیے یہاں سے گزرے گا۔ چین اس خطے سے کئی اشیاء درآمد کرتا ہے جیسے برازیلین سویا بین اور چلی کا تانبا۔ مگر اب یہ نئی بندرگاہ سے وسیع پیمانے پر اشیاء اور بڑے بحری جہاز لے جانے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔ اس سے بحری اور تجارتی جہازوں کے سفرکا دورانیہ ۳۵؍دن سے کم ہو کر۲۳؍دن تک آ جائے گا۔یہ نئی بندرگاہ چینی درآمدات کے علاوہ برآمدات کے لیے بھی کارآمد ہوگی۔

چین کا ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبہ امریکہ میں تشویش کا باعث کیوں؟

امریکی دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر چانکے میں کنٹینر لے جانے والے بڑے بحری جہاز جھیلنے کی گنجائش اور صلاحیت ہے تو یہاں چین کے فوجی جہاز بھی آ سکتے ہیں۔حال ہی میں امریکی سدرن کمانڈ سے ریٹائر ہونے والی سربراہ جنرل لارا رچرڈسن اس منصوبے کی بڑی ناقدین میں سے ہیں۔ یہ کمانڈ لاطینی امریکہ اور کیریبین کی نگرانی کرتی ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ چین اس خطے میں اپنے ترقیاتی منصوبوں سے طویل مدتی منصوبہ بندی میں ملوث ہے اور یہ مقامات نہ صرف چینی فوج (پیپلز لبریشن آرمی) کو مستقبل میں رسائی فراہم کریں گے بلکہ یہاں علاقائی گزرگاہیں قائم کی جاسکتی ہیں۔اگر یہ مقاصد کبھی پورے نہ بھی ہوں تو اس کے باوجود یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے باعث امریکہ، لاطینی امریکہ میں اثر و رسوخ کھو رہا ہے۔پیرو کے اس اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن بھی شریک ہوئے تھے۔ اپنے چار سالہ دور اقتدار میں یہ ان کا جنوبی امریکہ کا پہلا اور آخری دورہ تھا۔ بعض مبصرین نے یہاں تک کہا کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے مقابلے میں ایک کمزور راہنما کے طور پر نظر آئے۔لندن سکول آف اکنامکس کے گلوبل ساؤتھ یونٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر ایلوارو مینڈیز کہتے ہیں کہ ایک طرف جہاں امریکہ لاطینی امریکہ کو نظر انداز کر رہا تھا تو وہیں شی جن پنگ خطے میں بار بار دورے کر رہے تھے اور اچھے تعلقات استوار کر رہے تھے۔ان کی رائے میں امریکہ کے لاطینی امریکہ سے تعلقات اس حد تک تنزلی کا شکار تھے کہ چین کو دروازے سے داخل ہونے کے لیے بس تھوڑی سی کوشش کرنی پڑی۔

تاریخ کے سابق استاد یوراگوئے کے صدارتی انتخابات میں کامیاب

بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک سابق تاریخ کے استاد Yamandú Orsiنے یوراگوئے میں صدارتی انتخاب جیت لیا ہے۔ مسٹراورسی نے انتخاب کے دوسرے مرحلے میں کنزرویٹو اتحاد کے امیدوار Álvaro Delgadoکو تین فیصد سے زیادہ پوائنٹس سے شکست دی۔ ڈیلگاڈو نے شکست تسلیم کی اورنومنتخب صدراور اس کے براڈفرنٹ اتحاد کو مبارکباد دی، جو اب پانچ سال کی قدامت پسند حکمرانی کے بعد اقتدار میں واپس آئے گا۔ براڈ فرنٹ پارٹی نے ۲۰۰۵ء سے ۲۰۲۰ءتک پندرہ سال تک یوراگوئے پر حکومت کی۔ ستاون سالہ مسٹر اورسی نے اپنی سادہ اور معمولی طرز زندگی سے یوراگوئے میں بہت سے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔ عوام الناس نے انہیں دنیا کا غریب ترین صدر قرار دیا۔ نو منتخب صدر کا ماضی انتہائی سادہ رہا ہے۔ موصوف کی پرورش ملک کے دیہی علاقے میں بغیر بجلی کے گھر میں ہوئی۔ پھر مقامی سکول میں تاریخ کے استاد کے طور پر کام کرتے ہوئے وہ مقامی سیاست میں سرگرم ہو گئے، بالآخر یوراگوئے کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے شہر Canelones کے میئر بن گئے۔ اور اب موجودہ صدر کو شکست دے کر ملک کے صدر بن گئے ہیں۔

نصف صدی بعد بھارتی وزیر اعظم کا دورہ گیانا

بھارت کے وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی نے اپنے وزیر  خارجہ اور اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ گیانا کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا ہے۔ چھپن سال کے طویل وقفے کے بعد کسی بھارتی وزیر اعظم کا گیا نا کا یہ انتہائی اہم دورہ تھا۔ قبل ازیں ۱۹۶۸ء میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے گیانا کا دورہ کیا تھا۔ گیانا کے صدر ڈاکٹر عرفان علی نے اپنی کابینہ کے ہمراہ معزز مہمان کا استقبال کیا۔ دونوں ملکوں نے متعدد تجارتی اور دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے۔ مسٹر مودی نے متعدد ثقافتی پروگرامز میں شرکت کی، نیزکلائیو لائیڈ سمیت ویسٹ انڈیز کے سابقہ کرکٹ کھلاڑیوں سے بھی ملاقات کی۔ گیانا کی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران مسٹر مودی نے کہا کہ انڈیا گیانا کو اپنی توانائی کی ضرورت پورا کرنے کے ضامن کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس دورے کے دوران دوسری ’’کریبئن انڈیا کانفرنس‘‘ بھی منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے کربیئن ممالک کے سربراہان گیانا پہنچے۔ متعدد ممالک کے سربراہان نے بھارتی وزیر اعظم سے الگ الگ ملاقات بھی کی اور باہمی مفادات پر تبادلہ خیال کیا۔ تیل کے وسیع ذخائر کی دریافت کے باعث گیانا عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے اور دنیا کے اکثر ممالک اب جنوبی امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ گیانا تین آئل فیلڈز سے یومیہ تقریباً ساڑھے چھ لاکھ بیرل خام تیل پیدا کرتا ہے، آئندہ کچھ عرصے تک یہ پیداوار یومیہ ۱۰لاکھ بیرل سے زیادہ ہونے کی توقع ہے کیونکہ اگلے تین سال میں مزید تین آئل فیلڈز میں پیداوار شروع ہونے والی ہے۔

وینزویلا نے متنازعہ انتخابی نتائج کے بعد گرفتار کیے گئے افراد کو رہا کر دیا

وینزویلا کےانسانی حقوق کے ایک گروپ کے مطابق حکام نے امسال جولائی میں ہوئے صدارتی انتخابات کے بعد گرفتار کیے گئے ایک سو سے زائد افراد کو رہا کر دیا ہے۔ غیرسرکاری تنظیمForo Penal کے الفریڈو رومیرو کے بقول وینزویلا میں انتخابات کے بعد کی صورتحال میں حراست میں لیے گئے ۱۰۷ سیاسی قیدیوں کوچار مختلف جیلوں سے رہا کر دیا گیا ہے۔سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی ویڈیوز میں قیدیوں کو رہائی کی خوشی مناتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ تنظیم کے مطابق جولائی کے انتخابات کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہروں میں کردار ادا کرنے پر ۱۸۰۰؍سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ صدر نکولس مادورو کے وفادار انتخابی حکام نے انہیں فاتح قرار دیا، لیکن عالمی برادری نے اس دعوے کو بڑے پیمانے پر مسترد کر دیا ہے۔ مادورو کی فتح کے دعوے کے بعد حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سینکڑوں افراد پر دہشت گردی، نفرت پر اکسانے اورحکام کے خلاف مزاحمت سمیت دیگر جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ مادورو اپنی تیسری چھ سالہ مدت جنوری میں شروع کرنے والے ہیں۔ نیشنل الیکٹورل کونسل (سی این ای) کی طرف سے جولائی کے انتخابات کے سرکاری نتائج میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ۶۱؍سالہ مادورو نے ۵۲ فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ اپوزیشن امیدوار ایڈمنڈو گونزالیز کے ۴۳؍فیصد ووٹ ہیں۔ تاہم حزب اختلاف نے کہا کہ اس کے پاس شواہد موجود ہیں کہ گونزالیز نے بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی ہے۔ گونزالیز کو امسال ستمبر میں سپین میں سیاسی پناہ دی گئی تھی۔

ایکواڈور کی جیل میں فسادات
کم از کم پندرہ قیدی ہلاک ہوگئے

ایکواڈور کی ایک بدنام زمانہ جیل میں ہنگاموں اور لڑائی میں کم از کم پندرہ قیدی ہلاک اور چودہ زخمی ہو گئے۔ ایکواڈور کی جیل سروس کے حکام نے بتایا کہ یہ سنگین واقعات Guayaquilشہر کیEl Litoral جیل میں پیش آئے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے جیل کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا ہے اور وہ پورے احاطے کی تلاشی لے رہے ہیں۔گذشتہ سالوں میں بھی اس جیل میں پرتشدد ہنگامے اور مسلح گروہوں کے درمیان تصادم ہو چکے ہیں، جن میں سے سب سے مہلک واقعہ ستمبر ۲۰۲۱ء میں ہوا۔ جب ۱۲۰ سے زیادہ قیدی مارے گئے۔ اب ایک بار پھراس جیل کے قریب رہنے والے لوگوں نے گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔ ایک ہیلی کاپٹر کو جیل کے اوپر اڑتے ہوئے دیکھا ہے اور پولیس یونٹس کو آتے دیکھا ہے۔ حکام نے ابھی تک ہلاک ہونے والوں کے بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں،صرف اتناکہا ہے کہ ہلاکت خیز لڑائی کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس جیل میں ایکواڈور کے چندانتہائی پرتشدد گروہوں کے ارکان موجود ہیں، جو بہت سے معاملات میں اپنے مجرمانہ کاروبار کو سلاخوں کے پیچھے سے چلاتے رہتے ہیں۔ یہ گروہ جیل کے عملے کو ڈراتے اور دھمکاتے ہیں۔ امسال ستمبر میں اس جیل کی ڈائریکٹرMaría Daniela Icaza کو مسلح افراد نے ان کی کار پر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ مرحومہ کے بھائی نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حملے سے پہلے اسے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوتی رہی تھیں۔ ایکواڈورگروہی تشدد کی لہر پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے جس نے اسے لاطینی امریکہ کے محفوظ ترین ملک کی بجائے ایک مہلک ترین ملک میں تبدیل کردیا ہے۔

مسافر طیارے پر فائرنگ کے بعد ہیٹی کے لیےپروازیں معطل کر دی گئیں

متعدد ایئر لائنز نے ہیٹی کے لیے اپنی پروازیں اس وقت معطل کر دیں جب امریکا سے آنے والے ایک مسافر طیارے پر پورٹ او پرنس میں لینڈنگ کی کوشش کے دوران فائرنگ کی گئی۔ اس واقعہ کے بعد فلوریڈا کے شہر Fort Lauderdale سےآنے والی Spirit Airlinesکی متاثرہ پرواز ۹۵۱ کا رخ ہمسایہ ملک ڈومینیکن ریپبلک کی طرف موڑ دیا گیا، جہاں یہ سینٹیاگو ایئرپورٹ پر بحفاظت اتر گئی۔ ایک فلائٹ اٹینڈنٹ کو معمولی چوٹیں آئیں لیکن اس حملے میں کوئی مسافر زخمی نہیں ہوا۔ ہیٹی کے دارالحکومت کے اوپر سے پرواز کرنے والے طیارے پر تین ہفتوں میں یہ دوسرا حملہ ہے۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا، جب ایک نئے وزیر اعظم نے بحران زدہ ملک میں عہدہ سنبھالا ہے، جو مسلح گروہوں اور بڑھتے ہوئے تشدد سے دوچار ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق Alix Didier Fils-Aiméنے کہا کہ ان کی ترجیح سیکورٹی کی بحالی ہے۔ ملک کے مشکل حالات کے باوجود انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں قوم کی خدمت میں لگا دیں گے۔ بوسٹن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے مسٹر ایلکس جو ایک کاروباری شخصیت ہیں۲۰۱۵ء میں سینیٹ کی نشست کے لیے ناکام رہے تھے۔ انہیں ملک کی حکمران کونسل نے چھ ماہ قبل مقرر کیے گئے وزیر اعظم مسٹر گیری کونیل کو ہٹائے جانے کے بعد اس عہدے کے لیے نامزد کیا۔ سپرٹ ایئرلائنز کی پروازToussaint Louverture International Airport پر اترنے والی تھی۔ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی اس واقعے کی غیر تصدیق شدہ ویڈیو میں طیارے کے اندر گولیوں کے کئی سوراخ دکھائی دے رہے ہیں، جہاں فضائی عملہ ٹیک آف اور لینڈنگ کے دوران بیٹھا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ہیٹی میں سیکیورٹی کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ اکتوبر میں تشددپسندگروہ کے ارکان نے اقوام متحدہ کے ایک ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کی تھی جس کی وجہ سے کچھ ایئر لائنز نے اس ملک کے لیے پروازیں عارضی طور پر منسوخ کر دی تھیں۔

کیوبا سمندری طوفان کے بعد بحالی کے لیے کام کر رہا ہے

سمندری طوفان Rafaelکی وجہ سے کیوبا کے مختلف علاقےتاریکی میں ڈوب گئے۔ملک کے صدر کا کہنا ہے کہ کیوبا میں حکام نے سمندری طوفان رافیل کی وجہ سے ملک بھر میں بلیک آؤٹ ہونے کے بعد بجلی بحال کرنا شروع کر دی ہے۔ سمندری طوفان رافیل نے ۱۸۵کلومیٹر فی گھنٹہ (۱۱۵ میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے تیز ہوائیں چلائیں، جس کی وجہ سے صرف چند ہفتوں میں دوسری بار ملک کا بجلی کا نظام بند ہوگیا۔ کم از کم ستّر ہزار لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ حکام کی طرف سے قبل ازیں برق رفتار ہواؤں، طوفانی سیلاب اور مٹی کے تودے گرنے کی وارننگ دی گئی تھی، تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ صدر (Miguel Díaz-Canel) نے کہا کہ ملک کے دو صوبوں کے ساتھ ساتھ دارالحکومت ہوانا کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مقام سے آگے کا ہر قدم بحالی کی طرف گامزن ہے۔ ہم بحیثیت قوم مل کر یہ کریں گے۔ ملک کے مغربی حصوں میں سمندری طوفان کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سیلاب اور املاک کو نقصان پہنچا۔ ملک کی ۱۰ کروڑ آبادی میں سے زیادہ تر اب بھی بجلی سے محروم ہیں۔ ہوانا میں رہائشیوں نے کوڑےکیچڑ اور گرے ہوئے درختوں کو صاف کرنے کے لیے بیلچے، جھاڑو اور بالٹیاں استعمال کیں۔ حکام اس طوفان سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانے میں مصروف ہیں۔ سڑکوں پر بے شمار درخت اور بجلی کے کھمبےگرے ہوئے ہیں۔ گذشتہ ماہ بھی کیوبا میں لاکھوں لوگ چار دن تک بجلی کے بغیر رہے جب توانائی کے پرانے اور بوسیدہ نظام کی وجہ سے پورا ملک تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔

بولیویا کی فوجی چوکی پر قبضہ اور فوجیوں کو اغوا کرلیا گیا

بولیویا کے سابق صدر Evo Morales کے مسلح حامیوں نے کم از کم دو سو فوجیوں کو یرغمال بنایا لیا ہے، وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ فوج نے اطلاع دی کہ مسلح گروپ نے بولیویا کےشہر Cochabambaکے قریب ایک فوجی تنصیب کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ بولیویا کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس گروپ نے ہتھیار اور گولہ بارود بھی قبضے میں لے لیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ تین فوجی یونٹوں پر مسلح گروہوں نے حملہ کیا۔ مقامی ٹیلی ویژن پر مسلح افرادکے درمیان گھرے ہوئے فوجیوں کی قطاریں دکھائی گئیں جن میں ان فوجیوں کی صرف پشت نظر آرہی ہے۔ کوچابامبا شہر بولیویا کے وسط میں ہے جو سابق صدر کے حامیوں کا گڑھ ہے۔ مورالس کے حامیوں نے گذشتہ کئی دنوں سے ملک بھر میں ناکہ بندی کر رکھی ہے، اور موجودہ حکومت کی جانب سے سابق صدر کے خلاف مبینہ عصمت دری اور انسانی سمگلنگ کی تحقیقات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق صدر نے ان الزامات سے انکار کیا ہے اور کہا ہے ان میں کوئی سچائی نہیں۔

برازیل میں G20سربراہی اجلاس

برازیل کے مشہور ساحلی شہر ریو ڈی جنیرومیں G20ممالک کے سربراہان کی انیسویں سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی۔یہ سربراہی اجلاس ریو ڈی جنیرو کے ماڈرن آرٹ میوزیم میں منعقد ہوا۔ G20 ممالک کے نمائندوں نے ایک مشترکہ بیان کی توثیق کی جس میں بھوک سے نمٹنے کے لیے ایک معاہدے، غزہ کے لیے مزید امداد، یوکرین میں جنگ کے خاتمے پر زور دیا گیا تھا۔ برازیل کے صدر نے G20 سربراہی اجلاس کے دوسرے دن کے آغاز پر گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کو نقصان دہ گیسز کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اپنے اقدامات کو تیز کرنا چاہیے۔ موصوف نے کہا کہ اس تنظیم کے رکن ممالک دنیا میں %۸۰ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے ذمہ دار ہیں۔ اور ان گیسز کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ہم نے سال ۲۰۵۰ء کا جو ہدف مقرر کیا تھا ترقی یافتہ ممالک کواسے ۲۰۴۰ء یا ۲۰۴۵ء تک لانےپر غور کرنا چاہیے۔ چینی صدر شی جن پنگ اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ دونوں ممالک یوکرین میں امن کے فروغ کے لیے یکساں خیالات رکھتے ہیں۔ G20 ممالک کے نمائندوں کی طرف سے جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں مشرق وسطیٰ میں تنازعات میں پھنسے شہریوں کو فوری انسانی امداد اور بہتر تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا، نیز فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی توثیق کی گئی۔ مشترکہ بیان میں برازیل کی جانب سے دنیا میں موجود ارب پتیوں کی آمدنی پر دو فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز بھی شامل تھی۔اس سے حاصل ہونے والی آمدنی دنیا میں بھوک اور افلاس مٹانے کے لیے استعمال کی جائے گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button