امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ گلف ریجن امریکہ کے تیسرے وفد کی ملاقات
کوئی بھی ایسا عمل جو ایمان کو مضبوط کرے اور انسانیت کو فائدہ پہنچائے، اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
جو بھی کام آپ کریں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے یا ان کی خدمت کرے، وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے
مورخہ ۸؍ دسمبر ۲۰۲۴ء بروز اتوار امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے گلف ریجن کےتیسرے وفد کو بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ خدام نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےامریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔یہ ملاقات اسلام آباد،ٹلفورڈ میں منعقد ہوئی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل اسی ریجن کے دو وفود اِمسال بالترتیب مورخہ ۱۷؍نومبر اور۲۳؍نومبر کو حضورِانور سے بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔
جب حضورِانور رونق افروز ہوئےتو حضور نے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا۔
سب سے پہلے امیرِ قافلہ کو حضورِانور سے شرفِ گفتگو حاصل ہوا، اس کے بعد حضور ِانور نے ہر خادم سے انفرادی طور پر گفتگو فرمائی اور ان کے رہائشی علاقوں، خاندانی پسِ منظر اور پیشہ جات کے بارے میں دریافت فرمایا۔
تعارف کے دوران ایک خادم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔
کئی خدام جو امریکہ میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے اردو میں اپنا تعارف کروایا، حضور ِانور نے ان کی اردو سیکھنے کی کوششوں کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ ایک خادم کی اردو تو بعض پاکستانیوں سے بھی بہتر ہے۔ اس خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ انہوں نے اردو خاص طور پر حضورِانور کے خطبات کو سمجھنے کے لیے سیکھی ہے۔
ایک اور خادم جو فورٹ ورتھ(Fort Worth) جماعت کے صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، انہوں نے اپنی جماعت کا سلام حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا۔
پھر حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ کیا ان کے علاقے میں مقامی سفید فام امریکی، افریقی نژاد امریکی یا لاطینی امریکی احمدی موجود ہیں؟ جس پر تصدیق کی گئی کہ ان کے علاقے میں کچھ افریقی نژاد امریکی احمدی موجود ہیں۔
بعدازاں خدام کو حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں سوالات پیش کرنے اور ان کی روشنی میں قیمتی راہنمائی حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔
سب سے پہلےایک خادم نے اس قرآنی ارشاد کی تفہیم کی بابت راہنمائی طلب کی کہ جو کفّار فرشتوں کو اِصرار سے عورتوں والے نام دیتے ہیں۔
حضورِانور نے اس کے بارے میں وضاحت فرمائی کہ یہ کفّار کی اس کوشش کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے فرشتوں کو نازک اور کمزور ظاہر کرتے ہیں، جیسے کہ خواتین جو ہلکے کام انجام دیتی ہیں، جبکہ وہ خود کو زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں۔ حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دیگر آیات میں ان کے اس منافقانہ رویے پر گرفت فرماتا ہے، کیونکہ وہ اپنے لیے بیٹوں کی خواہش رکھتے ہیں لیکن فرشتوں کو عورتوں کے نام دے کر گویا اللہ تعالیٰ پر کمزوری کا الزام عائد کرتے ہیں۔یہ کفّار کا اللہ تعالیٰ کا مذاق اڑانے اور اس کی عظمت کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے حضورِانور نے خادم کو ہدایت فرمائی کہ Five Volume Commentary (پانچ جلدوں پر مشتمل انگریزی تفسیرِ قرآن)کا مطالعہ کریں، جہاں ان آیات کی تشریح جامع طور پر بیان کی گئی ہے۔
پھر ایک خادم نے حضورِانور سے مشکل وقت میں صدمات سے نمٹنے اور ایمان کو مضبوط رکھنے کے حوالے سے راہنمائی طلب کی۔
حضورِانور نے فرمایا کہ صدمہ مختلف وجوہات جیسے ذاتی واقعات مثلاً بدسلوکی، خاندانی معاملات یا کسی تکلیف دہ منظر کو دیکھنے سے پیدا ہو سکتا ہے۔ حضورِانور نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے، دعا کرنے اور مشکلات سے نکلنے میں اس سے مدد مانگنے کی نصیحت فرمائی۔ اگر جذباتی بوجھ بہت زیادہ ہوجائے تو حضورِانور نے ماہر نفسیات سے پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنے کا مشورہ بھی دیا۔
ایمانی پہلو کے حوالے سے حضورِانور نے ان حالات پر روشنی ڈالی جہاں صدمہ ان افراد کے نامناسب رویے سے پیدا ہو سکتا ہے جن سے دینی اور اخلاقی معیار کے مطابق برتاؤ کی توقع کی جاتی ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ ایسے واقعات متعلقہ حکّام کو رپورٹ کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں کہ وہ حفاظت فرمائے، اس صورتِ حال سے نجات عطا کرےاور ایمان کو سلامت رکھے تاکہ یہ تجربہ ایمان کو متزلزل نہ کر سکے۔
ایک خادم نے اپنے کزن کے دو ماہ قبل وفات پا جانے پر غم کا اظہار کیا اورمرحوم کے لیے دعا کی درخواست کی۔
حضورِانور نے اظہارِتعزیت کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ ان کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ حضورِانور نے وضاحت کی کہ بیماریاں زندگی کا ایک فطری حصّہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کو طویل زندگی کا وعدہ نہیں دیا۔ قرآنِ کریم واضح فرماتا ہے کہ کچھ لوگ جوانی میں وفات پا جاتے ہیں، جبکہ کچھ بڑھاپے تک زندہ رہتے ہیں، جو اللہ کے فطری قانون کی عکاسی کرتا ہے۔
حضورِانور نے خادم کو نصیحت کی کہ وہ اپنے کزن کے لیے دعا کریں اور اپنے اطمینانِ قلب کے لیے بھی اللہ کے حضور جھکیں۔ مزید برآں حضورِانور نے خادم کو استغفار کرنے، کثرت سے درود شریف پڑھنے اور نماز میں خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کرنے کی تاکید فرمائی۔
حضورِانور کی خدمت میں اگلا پیش کیا جانے والا سوال یہ تھا کہ کس طرح اپنے کیریئر یا تعلیم میں اللہ کی رضا کو شامل کیا جا سکتا ہے؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے تقویٰ کا مطالبہ کرتا ہے، جس کا مطلب نیک اعمال انجام دینا اور دوسروں کو نقصان پہنچانے سے باز رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے اعمال کرو جو بُرائی سے پاک ہوں۔ اور بُرائی کیا ہے؟ بُرائی وہ چیز ہے جو دوسروں کو نقصان یا تکلیف پہنچائے یا انسانیت کے حقوق کو پامال کرے۔
حضورِانور نے دوسروں کے حقوق کی پاسداری کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض اوقات مَیں اپنے حقوق معاف کر دیتا ہوں یا انہیں نظرانداز کر دیتا ہوں، لیکن دوسروں کے حقوق جو تم نے پامال کیے ہوں، انہیں معاف نہیں کرتا۔ اس کے لیے سزا دی جائے گی۔ اللہ سزا دیتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو معاف بھی کر سکتا ہے، لیکن وہ واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ ایسے گناہوں کے لیے سزا کا امکان زیادہ ہے۔ رہا شرک تو وہ اسے معاف نہیں کرتا۔
حضورِانور نے وضاحت فرمائی کہ کوئی بھی ایسا عمل جو ایمان کو مضبوط کرے اور انسانیت کو فائدہ پہنچائے، اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ جو بھی کام آپ کریں جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے یا ان کی خدمت کرے، وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر چاہے وہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو اگر وہ اپنے مریضوں کا ہمدردی سے علاج کرے، ان کی دیکھ بھال کرے اور غریبوں کو مفت علاج فراہم کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی انعام دیتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ اس پر ایمان نہیں رکھتا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ کی رضا کسی بھی ایسے عمل سے حاصل ہوتی ہے جو انسانیت کو فائدہ پہنچائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ ایمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی قسم کا شرک نہ کیا جائے۔
ایک خادم نے حضورِانور سے دریافت کیا کہ مالی مشکلات اور کیریئر کی غیر یقینی صورتحال کے باوجود کم عمری میں شادی کے بارے میں دی گئی راہنمائی پر کیسے عمل کیا جا سکتا ہے؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ فی الحال شادی کے لیے جلدی کرنا مناسب نہیں، لیکن آپ تقریباً تئیس یا چوبیس سال کی عمر میں شادی کا سوچ سکتے ہیں۔ حضورِانور نے وضاحت فرمائی کہ اگرآپ کے والدین آپ اور آپ کی فیملی کو مالی طور پر سہارا دینے پر آمادہ ہوں تو آپ عملی طور پر ایک انحصار کرنے والے شوہر ہوں گے۔ تاہم حضورِانور نےواضح فرمایا کہ ممکن ہے کہ ایسا انحصارآپ کی خودداری کے جذبے سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔اس لیے پہلے تعلیم مکمل کریں، ملازمت حاصل کریں اور مالی طور پر خود مختار ہوں تاکہ شادی کے بعد اپنی فیملی کو اپنی ذاتی آمدنی سے سپورٹ کر سکیں۔
ایک خادم نے حضورِانور سے راہنمائی طلب کی کہ وہ اپنی اکاؤنٹنگ اور آڈیٹنگ کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو جماعتی خدمت میں کس طرح بروئے کار لا سکتا ہے؟
حضورِانور نے فرمایا کہ آپ اپنی خدمات جماعت کے لیے پیش کریں اور اگر مقامی سطح پر کوئی خاص کام دستیاب نہ ہو تو آپ سال میں ایک یا دو ہفتے وقفِ عارضی کے طور پر وقف کر سکتے ہیں۔ حضورِانور نے یہ بھی تجویز دی کہ وہ افریقہ میںجماعت کے سکولوں میں تدریس کی خدمت سر انجام دیں یا دوسروں کو اکاؤنٹنگ کی تربیت دیں۔ اس کے علاوہ حضورِانور نے انہیں اس شعبے میں دوسروں کو راہنمائی فراہم کرنے یا مختلف طریقوں سے اپنی صلاحیت و مہارت کو جماعت کے فائدے کے لیے مہیا کرنے کی ترغیب دی۔
ایک خادم نے حضورِانور سے مشورہ طلب کیا کہ امریکہ میں آنے والے احمدی پناہ گزین یا مہاجر خاندانوں کے بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے، جن میں سے اکثر ٹرک ڈرائیونگ یا ٹیکسی چلانے کا کام کرتے ہیں، جو ان کے بچوں کی تربیت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جماعت ان خاندانوں کو بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے کس طرح مدد فراہم کر سکتی ہے؟
حضورِانور نے اس پر فرمایا کہ بہت سے پناہ گزینوں کی تعلیم محدود ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے پاس کم مواقع ہوتے ہیں۔ حضورِانور نے وضاحت فرمائی کہ جو شخص صرف میٹرک کے امتحانات پاس کر چکا ہو، یا حتیٰ کہ فیل ہو چکا ہو، اس کے پاس سوائے ٹرک چلانے کے اور کوئی راستہ دستیاب نہیں ہوتا۔ غریب شخص اور کیا کر سکتا ہے؟ وہ پی ایچ ڈی نہیں کرسکتے۔ تاہم جماعت کو اس کی ذمہ داری اُٹھانی چاہیے اور انہیں بتانا چاہیے کہ اگرچہ ان کے پاس خود تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں تھا، لیکن اب چونکہ وہ امریکہ میں ہیں، ان کے لیے اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دینے کے مواقع موجود ہیں۔ لہٰذا انہیں اس حوالے سے کوشش کرنی چاہیے۔
حضورِانور نے جماعت کی ذیلی تنظیموں مجلس خدام الاحمدیہ، مجلس انصار اللہ اور لجنہ اماء الله کے کردار کو اُجاگر کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ جماعت کو ان خاندانوں کے لیے ایسے پروگرامز منعقد کرنے چاہئیں جن میں ان کے بچے حصّہ لے سکیں اور دلچسپی دکھا سکیں۔ یہ صرف مذہبی پروگرامز نہیں ہونے چاہیے بلکہ ان میں تعلیم، راہنمائی اور مشاورت کے سیشنز بھی شامل ہونے چاہئیں تاکہ والدین، جو کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، اپنے بچوں کی راہنمائی کر سکیں۔
حضورِانور نے ایسے بچوں کے حوالے سےجن کے والدین ٹرک ڈرائیور ہیں اور جو طویل عرصے تک گھر سے باہر رہتے ہیں، درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اگر والد ٹرک ڈرائیور ہو اور کئی دن یا ہفتوں تک گھر سے دُور رہتا ہو، تو بچے گھر پر رہ جاتے ہیں اور ماؤں کے قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔ وہ بے قابو ہو سکتے ہیں اور ان کے ماحول پر کوئی نگرانی نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال میں خدام الاحمدیہ اور لجنہ کو ان خاندانوں کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے۔ انہیں ایسے گھروں میں جا کر ان کے حالات دریافت کرنے چاہئیں، بچوں سے بات کرنی چاہیے اور یہ انتظامات کرنے چاہئیں کہ وہ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد آئیں۔
حضورِانور نے بچوں کو جماعت سے جوڑنے اور ان کی صحیح تربیت اور دیکھ بھال کے لیے ہفتہ وار کلاسز اور دیگر اقدامات کی اہمیت پر زور دیا کہ اگر بچوں کے لیے ہفتہ وار کلاسز ہو رہی ہوں، تو انتظامات کیے جائیں کہ وہ ان کلاسز میں آئیں تاکہ ان کی صحیح دیکھ بھال ہو سکے۔ جب وہ جماعت سے جُڑیں گے تو آخرکار وہ خود آپ سے رابطہ کریں گے اور آپ سے سرگرمیوں میں شامل ہونے کی درخواست کریں گے۔
آخر پرحضورِانور نے توجہ دلائی کہ اب جو لوگ امریکہ ہجرت کر رہے ہیں، انہیں زندہ رہنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے، اس کے بغیر وہ بھوکے مر جائیں گے۔ انہیں کسی نہ کسی طرح روزگار حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ان کی ملازمتیں انہیں طویل عرصے تک گھر سے دُور رکھتی ہیں، تو جماعت کو ان بچوں سے رابطہ رکھنا چاہیے تاکہ ان کے بچوں کی مناسب دیکھ بھال کی جا سکے۔
ایک خادم نے حضورِانور سے اپنے مکینیکل انجینئر بننے اور جماعت کی خدمت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا نیز افریقہ میں حضورِانور کی خدمت کے بارے میں دریافت کیا۔
حضورِانور نے اس کے جواب میں پہلے وضاحت فرمائی کہ آپ نے انجینئر کے طور پر خدمت نہیں کی۔ نیز حضورِانور نے خادم کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرے اور پھر جماعت کی انجینئرز اینڈ آرکیٹیکٹس ایسوسی ایشن سے رابطہ کرے تاکہ یہ معلوم کر سکے کہ آیا اس کی خدمات کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ مناسب راہنمائی فراہم کریں گے۔
ایک خادم جو کہ پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، انہوں نے حضورِانور سے راہنمائی طلب کی کہ وہ دنیا میں ممکنہ عالمی جنگ یا ایٹمی تنازعے کی صورت میں اپنے خاندان کی تیاری کے لیے کیا اقدامات کریں؟
حضورِانور نے فرمایا کہ عالمی جنگ دراصل کئی طریقوں سے شروع ہو چکی ہے اور تجزیہ کار اب اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا یہ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو جائے گی جو کہ تباہ کن نتائج کا سبب بنے گی۔ حضورِانور نے متنبہ فرمایا کہ ایسی صورت میں بقا سب سے اہم معاملہ بن جائے گا اور یہاں تک کہ ڈاکٹرز بھی محفوظ نہیں ہوں گے۔ توجہ اس بات پر مرکوز ہو گی کہ ایٹمی تابکاری کے اثرات آئندہ نسلوں پر کس طرح مرتب ہوں گے۔
اس قسم کے تنازعات کے ایٹمی جنگ میں تبدیل نہ ہونے کے لیے اللہ سے دعا کی جائے اور اس کی حفاظت طلب کی جائے۔ حضور نے اس خادم کو فرمایا کہ وہ احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر ایسے حالات کے لیے منصوبے تیار کرے اور تجاویز دے۔ حضورِانور نے تذکرہ فرمایا کہ آپ نے حال ہی میں احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک کانفرنس میں ان مسائل پر خطاب کیا تھا اور ڈاکٹروں کے کردار کو اُجاگر کیا تھا جو عالمی جنگ کی صورت میں سامنے آنا چاہیے۔
مزید برآں حضورِانور نے فرمایا کہ آپ صدر احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن امریکہ سے رابطہ کریں، جنہوں نے پہلے ہی ایک جامع منصوبہ تیار کیا ہے اور اس منصوبے کو حاصل کرکے اس کے نفاذ پر غور کریں۔
اس مجلس میں پیش کیا جانے والا اگلا سوال یہ تھا کہ اگر حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ظلّی نبی آ سکتے ہیں تو کیا حضرت مسیح ِموعود علیہ السلام کے بعد بھی کوئی ظلّی نبی ہو سکتا ہے؟
حضورِانور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی کہ مسیح موعود اور مہدی معہودؑ کا درجہ نبی کا ہو گا اور وہ شریعت کو جاری کرنے کے لیےآئیں گے۔ حدیثوں سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو زمانے کی تقسیم کی تھی، وہ پہلے زمانۂ نبوت، پھر خلافت، پھر بادشاہت، پھر ظالم بادشاہت اور آخر میں مسیح موعود کے آنے کے زمانے کا ذکر کیا، جو اسلام کی revival کا وقت ہو گا۔ اس میں مسیحِ موعود ؑکا آنا ضروری تھا۔
تو ایک نبی کے آنے کا ذکر ملتا ہے، لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی صفات کا کام بند نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ طاقت والا ہے، وہ چاہے تو کسی وقت نبی بھیج سکتا ہے۔ اس لیےحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم لوگ صحیح نہیں ہو گے، تو ہو سکتا ہے کہ کسی زمانے میں کوئی جلالی نبی آ جائے جو سخت ہو، مگرمَیں نرم تعلیم لے کر آیا ہوں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ بات نرمی سے ہو، پیار سے ہو، اسلام کی تعلیم آرام اور پیار سے پہنچائی جائے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ کسی کو بھیج سکتا ہے، لیکن یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو بھی آئے گا، وہ مسیح ِموعود کے ماننے والوں میں سے ہی ہو گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ کوئی باہر سے آ کر نبی بن جائے۔
لیکن حدیثوں میں جو ذکر ملتا ہے، اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مسیحِ موعود کے نبی کے طور پر آنے کی پیشگوئی کی تھی، اس کے بعد کوئی نہیں آئے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات تو بند نہیں ہو سکتیں، اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مَیں یہ نہیں کہتا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی آئے گا تو وہ میرے ماننے والوں میں سے ہی آئے گا، میرے پیروکاروں میں سے آئے گا یا اللہ تعالیٰ اس وقت، جب تک خلافت قائم رہتی ہے، ہو سکتا ہے کہ کسی خلیفہ کو کوئی ایسا درجہ دے دے، وہ کہہ دے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے۔ نبوت کیا ہے؟ اس کا مطلب خبر دینا ہی ہے۔ تو اللہ کا پیغام لے کے آگے خبر پہنچانا اور سختی سے عمل کروانا یہ باتیں وہ کروا سکتا ہے۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے ۲۰۱۷ء میں کیا دیکھا کہ آپ نے بدری صحابہؓ اور دیگر اسلامی تاریخ پر خطبات کا آغاز کرنے کا فیصلہ فرمایا؟
اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ مَیں ٹاپک (topic) تلاش کر رہا تھا کہ کیا کروں۔ کیونکہ بہت سارے تربیتی اور تبلیغی ٹاپکس پر خطبات تو مَیں پہلے ہی دے چکا ہوں، پندرہ سولہ سال دیے تھے۔
پھر مجھے خیال آیا کہ صحابہؓ کے اوپرمَیں خطبات کا سلسلہ شروع کروں۔ پھر مَیں نے وہ شروع کیا تا کہ ہمیں تھوڑی تاریخ پتا لگے اور اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے کہ صحابہؓ تمہارے لیے اسوۂ حسنہ ہیں ان کے نقشِ قدم پر چلو۔ ان میں سےہر ایک تمہارے لیے ایک ستارے کی طرح ہے، اس کے پیچھے چلو گے، تو وہ تمہیں گائیڈ کرے گا۔ پھر مَیں نے کہا کہ یہ تو بہت لمبی چیز بن جائے گی پھر اس کو سمیٹنا مشکل ہو گا۔
پھر بدری صحابہؓ کی طرف دھیان گیا اور مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام بھی دیکھ لیا کہ جنگِ بدر کا قصّہ مت بھولو۔ اس کی بنیاد پر مَیں نے پھر بدر کے صحابہ کا ذکر شروع کر دیا اور وہ سارے بیان ہو گئے۔ اس لیے ابھی جنگوں کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت آ رہی ہے تاکہ اس میں آپؐ کا جو اسوۂ حسنہ ہے، جو سیرت ہے، جو نمونہ آپؐ نے قائم کیا، وہ لوگوں کو پتا لگے۔ بہت سارے نئے سبق سامنے آ جاتے ہیں۔
تو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان ختم ہو جائے گا تو بدری صحابہ ؓکا ذکر بھی یہاں ختم ہو جائے گا۔ پھر دیکھیں گے، اللہ میاں نے کوئی اَور مضمون سکھانا ہو گا، تو سکھا دے گا۔
ایک خادم نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ پیارے حضور! میرا سوال ہے خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی آزمائش کیوں کرتا ہے؟
حضورِ انورنے اس پر فرمایا کہ ان کی نیکیوں کا اور زیادہ اجر دینے کےلیے۔ پھر اگلے جہان میں جا کے ان کو بہت سارے rewardدیتا ہے جو آزمائش پر پورا اُترتے ہیں۔
اور اس لیے اللہ تعالیٰ کہتا ہے وہاں سارے لوگ صحت مند بھی ہوں گے، آزمائش سے خالی بھی ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ رہے ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے ایمان کے مطابق مستقل زندگی eternal life تو اگلا جہان ہی ہے۔ یہاں تو پچاس ساٹھ سال یاستّر اسّی سال کوئی بندہ زندہ رہ کر چلا جائے گا۔تو اس میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ پھرمَیں rewardدیتا ہوں جو یہاں اچھا اس آزمائش سے گزر جاتے ہیں، لیکن جو ناشکرے ہوتے ہیں ان کو پھر اللہ تعالیٰ وہ reward نہیں دیتا ، جو شکرگزاروں کو دیتا ہے۔
انبیاء پر بھی بہت زیادہ آزمائشیں آتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی صحابی ؓنے ہاتھ لگایا ، کہا کہ اتنے گرم! آپؐ کو بخار بھی ہوتا ہے، آپؐ اس تکلیف سے گزر رہے ہیں، آپؐ کو تکلیف بھی ہو سکتی ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہارے سے زیادہ تکلیفیں ہوتی ہیں، لیکن میری برداشت بھی اللہ تعالیٰ نے بڑی رکھی ہوئی ہے اور مَیں اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کرتا رہتا ہوں۔
بہت ساری تکلیفیں ہیں، کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے نہیں گزرے، جنگِ اُحد میں ان سے کیا ہوا؟ کتنے زخمی ہوئے، کیل اندر کُھب گئے، دانت ٹوٹ گئے، خون و خون ہو گئے، چلا نہیں جا رہا تھا۔ طائف میں آپؐ سے کیا سلوک کیا گیا، پتھروں سے مار مار کے لہو لہان کر دیا گیا، جوتوں کے اندر تک خون آ گیا۔ مکّہ میں جب تھے تو اوجڑی سجدے کے دوران آپؐ کے اوپر ڈال دی گئی، گلے میں پھندا ڈال کے کھینچنا شروع کر دیا گیا۔ پھر اور تکلیفیں بخار وغیرہ، اس قسم کی بیماریاں بھی رہیں، لیکن اس آزمائش پر پورے اُترے۔ اس لیے سب سے زیادہ اجر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومل رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے زیادہ آزمائشیں تمہیں نہیں آئیں۔
ایک خادم نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ اکثر خدام ہر طرف سے مشکلات دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے finances ، قریبی رشتوں میں مسئلے ہوتے ہیں، کیریئر میں مسئلے ہوتے ہیں، تو یہspirtual cycleمیں ڈال دیتا ہے۔ جیسے بندہ گرتا ہے ، پھر اُٹھتا ہے، پھر گرتا ہے۔ نیز راہنمائی طلب کی کہ ہم ایسا کیا کر سکتے ہیں کہ ہم کھڑے ہی رہ جائیں اور ہمارا ایمان مضبوط ہو جائے؟
حضورِانور نے اس پر سمجھایا کہ بات یہ ہے کہ آزمائش تو آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ شریف میں کہہ دیا ہے کہ مَیں تم لوگوں کو آزماتا ہوں ، تکلیفوں میں ڈالتا ہوں ، مشکلات میں ڈالتا ہوں، بیماریوں میں ڈالتا ہوں اور جو نیک لوگ ہوتے ہیں، وہ یہی کہتے ہیں کہ انا للہ و انا الیہ راجعون! یعنی ہم اللہ کے لیےہیں اور اللہ کی طرف ہی ہم نے جانا ہے۔ ہم ہر چیز اللہ تعالیٰ کی خاطر برداشت کریں گے۔اور یہ مشکلات جو آتی ہیں یہ تو اس دنیا کاایک common featureبن چکا ہے۔ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے یا نہیں مانتا، اس پر بھی اچھے وقت بھی آتے ہیں اور بُرے وقت بھی آتے ہیں۔قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا۔اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا۔یعنی تنگی کے بعد آسانی۔آسانی کے بعد تنگی ہے۔ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں تا کہ لوگوں کو آزماتا بھی رہے کہ کس حدّ تک وہ شکرگزاری کرتے ہیں۔
باقی ایک سسٹم ہے، ایک کامن اصول بھی دنیا میں ہے، بزنس میں لے لیں یا عام طور پر کہ ہر ایک rise کا ایک fallہوتا ہے یا اکنامکس میں بھی کہتے ہیں کہ اگر آپ بڑا flourish کر رہے ہیں تو ایک نقطے پر پہنچ کے diminishing return شروع ہو جاتا ہے۔یہاں فنانس والے، اکنامکس والے بھی بیٹھے ہیں انہوں نے پڑھا ہو گا۔یہ تو ایک نیچرل چیزہے۔ نیچر کے لاء کے مطابق چل رہا ہے۔ تو یہ سسٹم اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بنایا ہوا ہے۔
ہاں ! بعض لوگ ہوتے ہیں، وہ بڑی اچھی حالت میں رہتے ہیں، لیکن بعض کو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ان کو مَیں اتنا دیتا ہوں کہ وہ پھر اس سے پاگل ہی ہو جاتے ہیں، دماغ خراب ہوجاتا ہے، لیکن ایک وقت میں وہ بھی آ کے پکڑے جائیں گے اور اگر اس دنیا میں نہیں تو اگلے جہان میں، پھر مَیں ان کو اچھی طرح گھولوں گا۔
اب یہ جو سعودی عرب میں آئل منی ہے یا عرب ملکوں میں اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بڑے اچھے ہیں اور ان کو کچھ نہیں ہوگا، لیکن ان کے بھی حالات خراب ہو رہے ہیں۔ قذافی کو انہوں نے ستیاناس کر دیا ، پھر عراق میں ہو گیا، اب بشار الاسد کے ساتھ کیا کچھ کر رہے ہیں۔ تو اسی طرح ان لوگوں کے ساتھ بھی ہوتا رہتا ہے اور جو یہاں نہیں ہوتا وہ اگلے جہان میں جا کر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر مَیں کسی کو یہاں نہیں پکڑوں گا تو اگلے جہان میں پکڑ لوں گا۔ لیکن پکڑوں گا ضرور۔
تو اس دنیا کی زندگی کو جو سب کچھ سمجھتے ہیں وہ مومن تو نہیں ہیں۔ مومن تو وہی ہے جو اس دنیا کو عارضی ٹھکانہ سمجھ کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے کہ اگلے جہان میں اس کی بچت ہو جائے۔
تو یہ ایک نظام ہے جو چل رہا ہے۔ یہ کہنا کہ ہم صرف عیاشیاں کرتے کرتے چلے جائیں اور اگلے جہان میں بھی عیاشیاں ہی کرتے رہیں، یہ نہیں ہو گا، یہاں آزمائے جاؤ گے تو اگلے جہان میں rewardبھی ملے گا۔
قرآنِ شریف میں الله تعالیٰ کہتا ہے کہ قارون کی بڑی دولت تھی۔ اس کے جو boxesتھے یا ان کی جو چابیاں تھیں، ان کو اُٹھانے کے لیے بھی کئی اونٹوں اور ہاتھیوں کے اوپر ڈالا جاتا تھا۔ تو بعض لوگ جن کو دین کا اتنا علم نہیں تھا، کہتے تھے کہ اَے کاش! ہمارے پاس بھی دولت ہو۔ زلزلہ آیا توسب کچھ غرق ہو گیا۔ اس کی حالت دیکھ کے جو دوسرے لوگ تھے، وہ کہنے لگے کہ ہم تمہیں کہتے نہیں تھے کہ اس کو نہ دیکھو۔ تو وہ کہتے تھے کہ الله کا شکر ہے کہ ہمارے پاس یہ نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے جس طرح اس کو تباہ کر دیا، ہمیں بھی تباہ کر دیتا۔
تو یہ تو مختلف دنیا میں نمونے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا سسٹم ہے کہ آزماتا ہے اور دیتا بھی ہے، اوپر نیچے، اُتار چڑھاؤ بھی ہوتا رہتا ہے۔
مذہبی دنیا میں عبادتوں میں بھی ایک جیسا سٹیٹس(status) نہیں رہتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ آپؐ عبادت کرتے تھے، کئی راتیں ایسی گزریں کہ ساری ساری رات کھڑے رہے، اتنی دیر تک نیّت باندھ کے کھڑے رہے کہ پاؤں سوج گئے، ٹانگوں میں وَرم ہو گیا، خون بہنے لگ گیا۔ یا سجدے میں چلے گئے تو اتنا لمبا سجدہ ہوا کہ بعض لوگ ساتھ نماز پڑھنے والے کہتے تھے کہ لگتا تھا کہ ہمارے ناک میں سے خون بہنے لگ جائے گا۔ لیکن ہر روز تو نہیں ایسا ہوتا تھا۔ عام حالت میں کم سجدے بھی ہوتے تھے۔
تو یہ اُتار چڑھاؤ تو آتا ہے، زندگی کا حصّہ ہے، چاہے وہ روحانی زندگی ہے یا مادی دنیا کی زندگی ہے۔
ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو حضورِانور کے ہمراہ گروپ تصویر بنوانے کی بھی سعادت حاصل ہوئی اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔
٭…٭…٭