امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جرمنی میں خدماتِ سلسلہ سرانجام دینے والے مبلغین سلسلہ اور واقفین زندگی کے ایک وفدکی ملاقات
مورخہ۹؍دسمبر ۲۰۲۴ء بروز سوموار امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جماعت احمدیہ جرمنی سے تعلق رکھنے والے مبلغین اور واقفینِ زندگی کے ایک وفد کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی، جنہوں نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےجرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔
ملاقات سے قبل حضورِانور نے جماعت کی تاجک ویب سائٹ کااجرا فرمایا اور دعا کروائی۔
ملاقات کے شروع ہونے پرحضورِانور سب سے پہلےامیر صاحب جماعت احمدیہ جرمنی سے مخاطب ہوئے اور اس وفد کے دَورے کی تفصیلات کی بابت دریافت فرمایا تو انہوں نے آپ کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ پروگرام انتہائی جامع اور بہت فائدہ مند رہا ہے۔
اس کے بعد حضورِانور نے وفد سے مفصّل خطاب فرمایا اور جماعتِ احمدیہ کے مربیان، مبلغین اور واقفین زندگی کی ذمہ داریوں کے مختلف پہلوؤں پر راہنمائی فراہم کی نیز وقف کے عہد کو عقیدت اور اخلاص سے نبھانے کے لیےزرّیں ہدایات سے نوازا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ جو ینگ مربیان ہیں، سارے ماشاء اللہ فیلڈ میں ہیں، تجربہ رکھتے ہیں، اپنے آپ کو وقف کیا ہے، اپنی مرضی سے وقف کیا ہے نہ کہ ماں باپ کے کہنے پر یا کسی اور اثر میں آ کر، نیز استفسار فرمایا کہ کیا کبھی آپ کو مربی بننے پر افسوس یا پچھتاواہوا؟
اس پر شاملینِ مجلس کے نفی میں جواب عرض کرنے پر حضورِانور نے دوبارہ استفسار فرمایا کہ کبھی نہیں؟
جس پر تمام شاملین نے اپنے پہلے والے جواب کا ہی اعادہ کیا۔
اس پر حضورِانور نے وقف کی حقیقی روح کی اہمیت واضح کرنے کے لیے پوچھا کہ اچھا! اگر جرمنی سے کسی جگہ دُور دراز جزیروں میں بھیج دیا جائے، جہاں کوئی احمدی نہ ہو، تو گزارا ہو جائے گا؟
اس پر مخاطب مبلغ سلسلہ نے مکمل بشاشتِ قلبی سے عرض کیا کہ جی حضور!فوراً۔
یہ سماعت فرما کر پھر حضورِانور تمام شاملینِ مجلس کی طرف متوجہ ہوئے اور دریافت فرمایاکہ اچھا! ساروں میں یہ روح ہے؟ تو سب نے بیک زبان ہو کر اثبات میں جواب دیا۔
بعد ازاں حضورِانور نےوقف کی حقیقت و اہمیت اور الله تعالیٰ کی شکرگزاری کے مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز تو یہی ہے کہ مربی کو ہمیشہ یہ سمجھنا چاہیے کہ مَیں نے وقف خدا تعالیٰ کی خاطر کیا ہے۔ خدا تعالیٰ پر احسان نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اسلام لے آئے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا اسلام لانا کوئی احسان نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کاتم پر احسان ہے، تو یہی ہر مربی کو سوچنا چاہیے کہ ہمارا جماعت پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں یہ موقع دیا کہ ہمیں زندگی وقف کرنے اور مربی بننے کی توفیق ملی، کچھ دینی علم حاصل کرنے کی توفیق ملی۔ اور اس کا اب ہم نے بہترین استعمال کرنا ہے تاکہ ہماری شکر گزاری کے جو جذبات ہیں ان کا صحیح طرح سے حق ادا ہو سکے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے بغیر یہ حق ادا نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری یہ ہے کہ پھر اپنا سب کچھ جماعت کےلیے قربان کرنا۔
وسائل کی کمی کا شکوہ کیے بغیر حقیقی وقف اور قربانی کی روح کو ہر حال میں برقرار رکھنے کی بابت نصیحت کرتے ہوئےحضورِانور نے تاکید فرمائی کہ پھر یہ خیال نہیں آنا چاہیےکہ میرے پاس فلاں فلاں سہولت نہیں ہے۔ پرانے مربیان، مبلغین جنہوں نے افریقہ میں بھی کام کیے، ان کو تو اس زمانے میں پانچ پاؤنڈ الاؤنس ملتا تھا اور وہ بھی مشکلوں سے پہنچایا جاتا تھا اور یہ نہیں کہ پرانا زمانہ سستا تھا، اس لیے پانچ پاؤنڈ میں گزارا ہو جاتا تھا، گزارا نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً مولانا نذیر مبشر صاحب کس طرح لٹریچر لکھتے تھے؟ مشن کے پاس پیسے نہیں تھے۔ پھر وہ ایک دوائی امرت دھارا منگوایا کرتے تھے اور بیچتے تھے۔ اس کی فروخت سے پھر پیسے کماتے تھے اور پھر انہوں نے لٹریچر شائع کیا۔ پھر بڑے مشہور مربی اور مبلغ کے طور پر مولانا نذیر احمد علی صاحب مشہور ہیں، وہ بھی وہاں رہے۔ یورپ میں کرم الٰہی ظفر صاحب سپین میں رہے، انہوں نے بھی عطر بیچ بیچ کے گزارا کیا ، بلکہ اب recentزمانے تک ہمارے زمانے تک الاؤنس ایسا ہوتا تھا کہ پندرہ دن میں الاؤنس ختم ہو جاتا تھا تو مشکلوں سے گزارا ہوتا تھا، لیکن کبھی شکوہ نہیں آیا کہ ہم نے وقف چھوڑنا ہے یا regret کیا یا یہ ضرورت کی چیز فلاں کو مل رہی ہے اور فلاں کو نہیں مل رہی۔ بلکہ یہ ہوتا تھا کہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے وقف کی توفیق دی۔ تو یہ روح ہر مربی میں ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور ہم نے وقف کیا۔
جماعت کے ممبران سے جو یہ عہد لیا جاتا ہے کہ ہم جان، مال، وقت اور عزت قربان کریں گے تو ہمارے لیے تو یہ سب سے اوّل ہے کہ جو وقفِ زندگی ہے اور مربی ہے، اس کے اوپر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ روح اگر ہوگی تو پھر آپ لوگوں کے جو کام ہیں، ان میں برکت پڑے گی، اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی پیدا ہوگا ، اس کے لیےپھر اللہ کی طرف توجہ پیدا ہو گی، عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی، اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لیے، اپنی سستیاں دُور کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور اس سے دعا کریں کہ پھر اس کی توفیق بھی ملے گی۔
اس کے لیے نوافل ہیں، نمازوں کی صحیح ادائیگی ہے ، سنوار کر نمازیں پڑھنا ہے۔ لیکچر تو آپ دے دیتے ہیں کہ فلاں صحابیؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین یا چار دفعہ واپس بھیجا کہ جاؤ نماز پڑھ کے آؤ، سنوار کے نماز پڑھو، لیکن کبھی غور کیا کہ کیا ہم اس طرح سنوار کر نماز پڑھ رہے ہیں؟ اگر یہ غور نہیں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اپنے کام ، اپنے وقف اور اپنے عہد سے انصاف نہیں کیا۔
حضورِانور نے اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور اس کی رضا کی خاطرہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہونے کے ضمن میں ہدایت فرمائی کہ تو سب سے بڑی چیز مربیان اور واقفینِ زندگی کےلیے یہی ہے کہ پہلے تو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا اور پھر اس کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار ہونا۔ صرف عہد نہیں، بلکہ یہ دیکھنا کہ اگر ایسا موقع آئے تو کیا ہم یہ عمل دکھا سکتے ہیں یا نمونہ پیش کر سکتے ہیں؟ کیا صرف اس وقت ہمیں اپنے بیوی، بچوں ، گھر یا بعض سہولتوں کی فکر رہے گی؟ اللہ تعالیٰ کی خاطر جو نیک نیتی سے قربانی کرنے والے ہیں، اس کی خاطر سب کچھ پیش کرنے والے ہیں، اللہ ان کو ضائع نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ انعامات دیتا رہتا ہے ، نوازتا رہتا ہے۔ بعض دفعہ ابتلاآتے ہیں، رستے میں امتحان آتے ہیں ، بعض ساتھیوں کی طرف سے آ جاتے ہیں، بعض افسران کی طرف سے آ جاتے ہیں ، بعض دفعہ مرکز کی طرف سے بعض باتیں ایسی آ جاتی ہیں کہ انسان بڑا پریشان ہو جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں، اس کے آگے گریہ و زاری کریں، اس سے مانگیں اور اپنے آپ کو خالص ہو کے اس کے سامنے پیش کریں اور اپنی نیتوں کو صاف رکھیں تو وہ ابتلا اللہ تعالیٰ پھر دُور بھی فرما دیتا ہے، ان امتحانوں سے انسان گزر جاتا ہے۔
بعدازاں حضورِانور نے جرمنی میں مبلغین کی تعداد اور ملک کی مجموعی آبادی کے بارے میں دریافت فرمایا تو اس پر عرض کیا گیا کہ وہاں ۱۲۶؍مبلغین ہیں اور آبادی تقریباً۸۰؍ ملین ہے۔ اس پر حضورِانور نے تلقین فرمائی کہ جرمنی میں مبلغین کی تعداد وہاں کی آبادی کے لحاظ سے تھوڑی ہے لہٰذا انہیں اپنے تبلیغی مقاصد کے حصول کےلیے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
نیز اسی تناظر میں توجہ دلائی کہ کیا چیز ہے جو ہمیں زائد کرنی پڑے گی؟ اللہ تعالیٰ سے تعلق۔ اللہ تعالیٰ ایسے راستے کھولے اور آپ کے الفاظ میں وہ برکت ڈالے کہ جس سے لوگوں پر اثر بھی ہو اَور یہ اسی صورت میں ہوگا جب آپ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں گے اور اس سے مدد مانگیں گے۔ یہ آپ نے ٹارگٹ رکھنا ہے کہ ہمارے سامنے ایک پورا ملک ہے، اس کو ہم نے کس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کے ڈالنا ہے؟ کس طرح ہم نے خدا کی وحدانیت اس ملک میں قائم کرنی ہے؟ تو یہ ساری باتیں جب سوچیں گے، غور کریں گے تو اس کے لیے پھر یہ ہے کہ جہاں عبادتوں کا معیار بلند کریں وہاں علم بڑھانے کی کوشش بھی کریں۔
افریقہ سے مربیان پڑھنے کےلیے جامعہ احمدیہ پاکستان میں جاتے تھے، ان میں سے بعض لڑکے ایسے تھے جو پاکستانی مربیان سے زیادہ آگے نکلے ہوئے تھے، انہوں نے جامعہ کے دوران اپنے جیب خرچ میں سے پیسے جمع کرکے روحانی خزائن خریدی، دیگر کتابیں اور حدیث کی کتابیں خریدیں اور پھر ان کو پڑھا بھی ، پھر ان پر نوٹس بنائے، پھر ان کو فیلڈ میں استعمال بھی کیا اور ان کے معیار تقویٰ کے بہت بلند ہیں۔ تو یہ چیزیں صرف اپنے زور سے نہیں حاصل ہو سکتیں، اس زمانے کے راہنما ،مہدی، ہدایت کا منبع اور ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بنایا ہے تو ان کے لٹریچر کو پڑھنا بھی ہمارے لیےضروری ہے ، جس حدّ تک ہم پڑھ سکتے ہیں، صرف کتب شائع کرنا تو کمال نہیں ہے۔
حضورِانور نے دینی و دنیاوی علوم میں اضافہ اور عبور حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مبلغین کی راہنمائی فرمائی کہ جہاں دینی علم میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے، وہاں مبلغین کو چاہیےکہ وہ اخبارات بھی پڑھیں اور باقی علوم میں بھی عبور حاصل کریں۔حضورِانور نے مزید توجہ دلائی کہ contemporary issuesکیا ہیں، ان کو دیکھنا ہے اور اسی سے ہماری آگاہی ہوگی ، دماغ ذرا روشن ہوگا، دنیا کا بھی علم آئے گا۔ پھر ہم نے اس دینی علم کو اس کے ساتھ کس طرح اپلائی کرنا ہے اور کس طرح دنیاوی سوالات کے جواب دینے ہیں، تو یہ چیزیں ہیں کہ مربی کے اندر ایک جوش اور جذبہ ہونا چاہیے ، وہ ہوگا تو کامیابی بھی ہوگی، اگر وہ نہیں ہے تو پھر صرف باتیں ہیں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ بچوں کو قرآن نہیں پڑھانا، خود دینی علم حاصل نہیں کرنا، تبلیغ میں سستی دکھانی ہے، تو پھر اس کا فائدہ کیا؟ یہ دیکھیں کہ جماعتِ احمدیہ نے باوجود اپنے کم وسائل کے سات سال کتنا خرچ آپ کو تعلیم دینےپر کیا۔ تو دنیاوی لحاظ سے بھی اب کمی تو نہیں ہے۔ بہت سوں سے بہتر ہیں۔ جب یہ حالت ہے تو پھر ایک احساس پیدا ہونا چاہیے کہ ہمارے بڑوں ، ہمارے بزرگوں نے کیا کیا قربانیاں کیں ، ہم اس کے مقابلے میں کیا کر رہے ہیں ، انہوں نے کیا حاصل کیا ، ہم اس کے مقابلے میں کیا حاصل کر رہے ہیں، ان کو کیا سہولتیں میسر تھیں جس کے باوجود انہوں نے کس طرح کام کیا، ہم نے اس میں آج موجودہ سہولتوں کے ساتھ کتنا کام کیا؟
تو یہ ساری باتیں ذہن میں انسان کو، وقفِ زندگی کو، مربی کو رکھنی چاہئیں۔ اور جب یہ ہوگا تو پھر دیکھیں آپ جرمنی میں انقلاب لا سکتے ہیں، نہیں تو ذرا ذرا سی بات ہوتی ہے تو پوچھتے ہیں کہ یہ سوال ہے، اس کا جواب کیا ہے؟ وہ مختصر جواب تو آپ کو یہاں سے مل جائے گا، میرے سے مل جائے گا ، سینئرمربی سے،کسی سے کہہ کے مل جائے گا ، لیکن اس کی تحقیق کر کے خود توجہ سے پڑھنا، وہ تو جب تک آپ خود پانچ چھ گھنٹے روزانہ مطالعہ نہیں کریں گے ، اس کے جواب آپ کو نہیں ملیں گے اور جب جواب ملیں گے تو پھر آپ کو علم کی پیاس اور لگے گی، پھر اور پڑھنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی، پھر ان کے جواب جب آپ لوگوں کو دیں گےتو اس سے آپ کوsatisfactionملے گی کہ دیکھو !اس سے مَیں نے اگلے کو تسلی دلائی تو اس سے اور بھی توجہ پیدا ہوئی کہ ہاں! مَیں مزید علم حاصل کروں اور مزید لوگوں کو تسلی دلاؤں اور پھر ہر طبقے تک مَیں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا دوں، اللہ تعالیٰ کے قریب آنے کا پیغام پہنچا دوں، تو یہ چیزیں ہیں جو پھر انقلاب پیدا کیا کرتی ہیں۔
حضورِانور نے تلقین فرمائی کہ اپنے وقت کو تقسیم کریں اور اس کے تقسیم کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دیکھیں کہ آپ صبح کتنے بجے اُٹھے، نفل ادا کیے، آج کل تو ویسے ہی راتیں لمبی ہیں تونفل بڑے آرام سے ادا ہو جاتے ہیں، نفل ادا کیے، پھر فجر کی نماز پڑھی ، اس کے بعد مطالعہ کرنا یا قرآنِ شریف پڑھنا اور پھر دفتر کا کام کتنا کیا ، دین کا علم حاصل کرنے کے لیے کتنا مطالعہ کیا ، دنیاوی علم حاصل کرنے کے لیے کتنا مطالعہ کیا، گھر کے کام پر کتنا وقت خرچ کیا، کُل نمازوں پر سارا دن کتنا وقت خرچ ہوا، یہ سارا جب دیکھیں گے، اپنے وقت کو نوٹ کرتے جائیں کہ آج مَیں نے کس کام کو کتنا وقت دیا تو ایک ہفتہ جب آپ نوٹ کریں گے، پھر ایک ہفتے کے بعد جائزہ لیں کہ مَیں نےچوبیس گھنٹے میں، گذشتہ سات دن میں، یہ کام دین کے لیے کیے، یہ کام عبادت کے لیے کیے، یہ کام گھر کے لیے کیے، یہ کام تبلیغ کے لیے کیے، یہ کام دنیاوی علم حاصل کرنے کے لیے کیے۔ تو پھرآپ کو پتا لگے گا کہ میرے وقت کا صحیح مصرف ہوا ہے کہ نہیں۔ اگر نہیں ہوا تو پھر مَیں نے اس کو بہتر کس طرح کرنا ہے؟ تو خود یہ ساری باتیں سوچنی ہوں گی۔
انقلاب پیدا کرنے کے حوالے سے حضورِانور نے ذاتی محنت اور کوشش کے ساتھ ساتھ کام کے نئے طریقے explore کرنے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ آپ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے عہد کیا ہے کہ ہم انقلاب پیدا کریں گے، عمل سے انقلاب آتے ہیں اور اس کے لیے ہم نے جو طریقے اختیار کرنے ہیں، وہ دیکھنے ہیں کہ کیا ہیں، اس کے لیے آپ کوخود طریقے explore کرنے پڑیں گے۔ بعض دفعہ وسائل نہیں ہوتے۔ ہمارے گھانا میں مربی تھے۔ باقی مربیان کہتے تھے کہ ہمارے پاس لٹریچر available نہیں ہے ، ہمارے وسائل نہیں ہیں، کہاں جائیں ، کس طرح تبلیغ کریں؟ تو بڑی محنت سے تبلیغ کرنے والے مربی تھے اور وہ ایسے remote area میں تھے ، جہاں بالکل ہی وسائل نہیں تھے۔ گھانا سے جماعت کا اخبار گائیڈنس(guidance) چھپتا تھا۔ اس کو لے کے چلے جاتے تھے، سڑک پر کھڑے ہوجاتے تھے، ساتھ درود شریف پڑھتے رہتے تھے اور ساتھ کہتے تھے یہ لو۔ اس پرکوئی آ جاتا تھا ، لیا ، اس کو تبلیغ کر دی۔ سوال و جواب شروع ہو گئے۔ ایک سے دو، دو سے چار ، اس طرح واقفیت بڑھتی چلی گئی۔ شام کو یا کسی وقت ان کو مسجد میں بلا لیا ، وہاں تبلیغی مجالس ہونے لگیں تو ان کی تبلیغ کا معیار بہت اونچا تھا اور واقفیت بھی بڑی تھی۔ سارا شہر ان کو جانتا تھا، کسی جگہ کوئی جا رہا ہے، اس سے پوچھ لو۔ احمدیہ مشن یا فلاں مربی کا نام وہ بتا دے گا، ہاں وہاں چلے جاؤ، دو لاکھ کی آبادی میں ان کو لوگ جانتے تھے۔ آپ لوگوں کو کتنے لوگ ہیں جو آپ کو آپ کےarea میں ہی جانتے ہیں؟ پانچ، سات سَو یا ہزار بندہ بھی آپ کو صحیح طرح نہیں جانتا ہوگا۔حالانکہ area میں ساری آبادی کو آپ کو جاننا چاہیے۔ کم از کم آپ کی اتنی واقفیت ہونی چاہیے کہ آپ کے علاقے میں کم از کم دس ہزار آدمی کو آپ کو جاننا چاہیے۔ جب دس ہزار آدمی آپ کو جانے گا تو اس کا مطلب ہے کہ ایک لاکھ آدمی تک آپ کا پیغام بھی پہنچ جائے گا۔ گھر میں بیٹھے رہیں گے، تو کچھ بھی نہیں ہوگا، کوئی کام نہیں ہو گا۔ کام توخود exploreکرنے پڑتے ہیں۔ خود explore کرنا پڑے گا کہ ہم نے کیا کام نکالنے ہیں، سوچیں ،بیٹھیں۔
حضورِانور نے تلقین فرمائی کہ پس اللہ سے تعلق کس طرح پیدا کرنا ہے، اپنا دینی علم کس طرح بڑھانا ہے ، دنیاوی علم میں بھی کچھ حدّ تک کس طرح آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے یا کم از کمcontemporary issuesکے اوپر تاکہ کسی سےconfidence سے بات کر سکیں۔ مربی کا علم تو بڑا گہرا علم ہونا چاہیے۔ اتنی آپ کو عادت ہونی چاہیے کہ رسالوں،کتابوں اور اخباروں میں آپ کے آرٹیکل آنے چاہئیں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا آج کل رواج ہے، اس کو لوگ زیادہ دیکھتے ہیں، اپناعلم پہلے بڑھائیں گے تو اس رواج میں بھی شامل ہوں گے۔ جب اس کا سوال کوئی اُٹھے گا تو اس کاجواب آپ فوری طور پر دیں۔ اسلام کی تعلیم کیا ہے، اسلام کیا کہتا ہے، اس کا حل کیا ہے، عصرحاضر کے کیا مسائل ہیں، جوcontemporary issuesہیں،ان کے کس طرح جواب دینے ہیں؟
اس دوران حضورِانور نے امیر صاحب جرمنی سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کے لیےکوئی ترجمہ کر رہا ہے؟ اس پر محترم امیر صاحب کے اثبات میں جواب عرض کرنے پر حضورِانور نے مزید دریافت فرمایا کہ وہ کہاں ہے، باہر ہے؟جس پر امیر صاحب نے عرض کیا کہ جرمنی میں ایک مربی صاحب ترجمہ کر رہے ہیں۔
اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ اچھا! میری آواز جرمنی تک جا رہی ہے اور پھر واپس آ رہی ہے۔
اسی حوالے سے مزید فرمایا کہ اب اتنی سہولتیں مل گئی ہیں۔ اب یہاں سے دو ہزار میل پر ایک آواز جاتی ہے ، پھر وہاں سے دو ہزار میل سےواپس آ رہی ہے اور یہاں بیٹھے سن رہے ہیں۔
بایں ہمہ حضورِانور نے اظہارِ تبسم کرتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ امیر صاحب براہِ راست میری بات نہیں سن رہے، ان سے سن رہے ہیں، جس پر تمام شاملینِ مجلس بھی مسکرا دیے۔
حضورِانور نے توجہ دلائی کہ اس ایڈوانس دنیا میں ہمیں کیا کچھ کرنا چاہیے؟ کیا ہم اس طرح کر رہے ہیں ؟ اور اب جو حالات دنیا کے بدل رہے ہیں اس نے تو پتا نہیں کیا کچھ کرنا ہے، اس لیےکئی دفعہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، ابھی سے دنیا کو آگاہ کر دیں کہ جو دنیا تباہی سے باقی بچے گی کہ کچھ لوگ ایسے تھے، جو تمہیں آگاہ کرنے والے تھے کہ کس طرح تباہی کی طرف جا رہے ہو۔ اب تو ہر ایک کہنے لگ گیا ہے۔ جو بڑے بڑے analystsہیں وہ یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ تیسری جنگِ عظیم تو شروع ہو چکی ہے۔ صرف نیوکلیئر وَار ابھی شروع نہیں ہوئی۔ جس دن نیو کلیئر وار شروع ہوئی اس دن بےشمار تباہی ہوگی۔ اس لیے ابھی بھی لوگوں کو آگاہ کرنے کا وقت ہے کہ اس سے بچنے کے لیے تم کیا کر سکتے ہو۔ تباہی تو ہو رہی ہے۔ لاکھوں آدمی ہر جگہ مر رہے ہیں ، یورپ میں بھی مر رہے ہیں، روس میں بھی مر رہے ہیں، امریکہ میں بھی مر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو frustrationہے۔ کیوں ایک دوسرے پر امریکہ میں فائر کرتے رہتے ہیں۔ فرسٹریشن ہی ہے؟ دین سے دُوری ہے، بے چینی ہے۔ مسلمان، مسلمان کو مار رہا ہے، دشمن مسلمانوں کو مار رہا ہے، دنیا کے جو اپنے مسائل ہیں وہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ توان حالات میں ہمارے لیے کتنا ضروری ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق پہلے سے بڑھ کے پیدا ہو اَور دنیا کو ہم بچانے کی کوشش کریں، آگاہ کریں۔
اجتماعی دعاؤں کی اہمیت کے نفسِ مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے حضورِانور نے توجہ دلائی کہ ایک آدمی یا دو آدمیوں کی دعا سے کہہ دینا کہ خلیفۂ وقت بیٹھا ہے، دعا کر رہا ہے، ٹھیک ہے دعا کر رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے کہا کہ میرے لیے دعا کریں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم بھی دعا کر کے میری دعاؤں میں مدد کرو۔ تو جب مربیان اجتماعی طور پر دعائیں کر رہے ہوں گے تو وہ خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی مدد کر رہے ہوں گے اور ہر اس شخص کی مدد کر رہے ہوں گے جو ایک دوسرے کے لیے، ایک مقصد کے لیے دعا کر رہا ہوگا۔
یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیےکہ ہمارا ایک مقصد ہے، اس کےلیے ہم اجتماعی دعائیں کرتے ہیں ، گھر میں بیٹھ کے چاہے نفلوں میں بھی دعا کر رہے ہیں، وہ اجتماعی رنگ اختیار کر لیتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو کے ایک اجتماعی رنگ میں اس کے پھر نتائج بھی پیدا ہوتے ہیں۔ تو یہ چیزیں ہیں جو ہر ایک کو ذہن میں رکھنی چاہئیں۔
پھر امیر صاحب نے مبلغین اور واقفینِ زندگی کے ہمراہ ان نصائح پر عمل کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کا عزم کیا۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق اور طاقت عطا فرمائے۔
ایک شریکِ مجلس کی جانب سے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ پچھلے دنوں ہی ہم نے دیکھا ہے کہ دمشق میں حیة التحریر شام حکومت میں پہنچ گئی ہے، تو خاکسار نے پوچھنا تھا کہ حضور کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
حضورِ انورنے اس کے جواب میں بیان فرمایا کہ یہی کہا جاتا ہے کہ وہ بڑا ظالم جابر تھا۔ پچاس سال اس کے خاندان نے حکومت کی تو اس ملک میں ڈکٹیٹرشپ ہی تھی۔ تو ان لوگوں نے ظلم تو کیےہیں ، جیلیں وہاں ایسی تھیں کہ بڑے ظلم ہوتے تھے، تیسری دنیا کی جیلوں میں بھی ظلم ہوتے ہیں ، لیکن وہاں کی جیلوں کے ظلم کی جو کہانیاں ہم سنتے ہیں وہ تو بہت ہی خوفناک ہیں۔
ہر چیز کی ایک انتہا ہوتی ہے، وہاں کہتے ہیں کہ ظلم کی بھی انتہا تھی اور بعض لوگ ہمیں جو واقعات سناتے ہیں ، اس سےواقعی لگتا ہے کہ تھی، وہ ظلم ختم ہو گیا۔
باقی سیریا میں مختلف قومیں ہیں۔ تین بڑی قومیں سنّی، شیعہ اور کُردہیں اور کُردوں کے اپنے حقوق ہیں۔ کُرد کہتے ہیں کہ ہمیں حکومت اورآزادی ملنی چاہیے، ہمیں کچھ توindependence ہو ، لیکن ان پر ظلم ہوتے رہے۔ اِدھر سے سیریا کرتا رہا ، اُدھر سے ترکی والے بارڈر کے علاقے میں کرتے رہے۔کُرد پھیلے ہوئے ہیں ، زیادہ ایک جگہ بھی نہیں ہیں، کچھ ایک علاقے میں ہیں اورکچھ ترکی کے بارڈر کی طرف زیادہ دُور ہیں۔ سنا ہے کہ بیچ میں فاصلہ بھی ہے۔ پھر سنّی ہیں، ان کے بھی حقوق مارے جاتے رہے۔ صرف شیعوں کے حقوق تھے جن کو حزب اللہ اور ایران سپورٹ کرتے رہے۔ توجب اس طرح کی حالت ہوتی ہے تو پھر اس کے یہ منطقی نتیجے تو نکلتے ہیں ، نکلنے چاہئیں تھے، جو نکل آئے۔ تو ظلم بھی ایک حدّ تک جاتا ہے اور اب دیکھو یہ کیا کرتے ہیں؟ یہ بھی کوئی انصاف تو نہیں کریں گے، یہ بھی ظلم ہی کریں گے۔ ہیں تو اسی قوم کے، احمدی تو نہیں ہو گئے۔
کسی جرنلسٹ نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ لوگ پاکستان میں اس طرح بدلہ نہیں لیتے؟ تو مَیں نے اس کو یہی کہا تھا ہم بھی اسی قوم کے ہیں۔ ہمارے اندر بھی چودھری ہیں، ہمارے اندر ملک ہیں، ہمارے اندر بھی کھوکھر ہیں، ہمارے اندر بھی کشمیری ہیں، پٹھان بھی ہیں، بلوچی بھی ہیں۔ سب کچھ ہم کر سکتے ہیں ، لیکن ہم نے مسیح موعود اور مہدی معہود ؑکو مانا ہے، ہم نے ایک عہد کیا ہےکہ ہم نے ظلم نہیں کرنا اور ظلم کا ساتھ نہیں دینا۔ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرنی ہے، اس لیے ہم بدلے نہیں لیتے، بدلے ہم بھی لے سکتے ہیں۔لیکن ہم کیونکہ ایک ہاتھ پر چلنے والے ہیں، اس لیے ہم نے یہ باتیں نہیں کرنیں، اس لیے اگر ہم یہ کرتے تو تم نے یہ کہنا تھا کہ جب تم بھی وہی بدلہ لے رہے ہو اَور وہ بھی لے رہے ہیں تو فرق کیا ہوا؟ تمہاری ہمدردیاں ہمارے ساتھ نہیں ہونی تھیں یا بہت ساری سپورٹ دنیا کی نہیں ہونی تھی اور سب سے بڑی چیز یہ کہ اللہ کا فضل نہیں ہونا تھا۔
۷۴ء کے فسادوں کے بعد خلیفہ ثالث رحمہ الله کے پاس کچھ پٹھان آئے کہ آپ ہمیں اجازت دیں ہم بھی ان سے بدلہ لیں۔ ہم ایسے کر دیں گے، مار دیں گے، یہ کر دیں گے، وہ کردیں گے۔ خلیفہ ثالثؒ سنتے رہے، اس کے بعد کہا کہ ٹھیک ہےمَیں تمہیں اجازت دے دوں گا اورتم بدلہ لے لو گے، مگر تم جتنے وہاں ہو، ہزار،دو ہزار، چار ہزار یا دس ہزار بندے کو مار دو گے اورخود بھی مر جاؤ گے۔ اگر بچ بھی جاؤ گے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کہے گا کہ اب انہوں نے معاملہ خود اپنے ہاتھ میں لے لیا تواب مَیں اپنا ہاتھ اُٹھا دیتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اُٹھ جائے گا ، تم آپس میں بدلے لیتے رہو گے۔
تو یہ قومیں تو وہ ہیں کہ جن پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ تو ہے نہیں، یہ تو آپس میں ایک دوسرے سے بدلے لے رہی ہیں۔ یہ جونئی حکومت آئی ہے، وہ بھی بدلے لے گی ، نیا لیڈر کیا انصاف قائم کرے گا، نہیں کرے گا؟ ایک کو امریکہ سپورٹ کرے گا، ایک کو رشیا سپورٹ کرے گا، ایک کو ایران سپورٹ کر رہا ہو گا۔
پہلے انہوں نے بڑے طریقے اور حکمت سے یہ ساری پالیسی بنائی۔ اسرائیل نے فلسطین کو تباہ کیا ، پھر حزب اللہ کو کمزور کیا، ایران کو کمزور کیا۔ ایران اور حزب اللہ اسد کی مدد کر رہے تھے ،وہ کمزور ہوئے، رشیا کو اُدھر سے یوکرین کی جنگ میں involveرکھا تووہ بھی کمزور ہو گیا۔ یہ ساری چیزیں اکٹھی ہو گئیں ،جس کی وجہ سے ان کی جو سپورٹ تھی وہ کم ہوگئی اور دوسروں کو موقع مل گیا اور امریکہ نے پھر ایسے موقع سے فائدہ اُٹھا کے بڑی پلاننگ سے وہاں یہ سب کیا ہے۔ پھر انہوں نے اس کی گورنمنٹ کو topple کرناشروع کرنے کی کوشش کی اور کر دیا۔تو یہ تو ہونا تھا اور ہوتا ہے جب دنیا میں اس طرح کی باتیں ہوں۔ جب خدا خوفی ختم ہو جاتی ہے، جب بدلے لینے شروع ہو جاتے ہیں، جب اپنی مَیں انسان میں پیدا ہو جاتی ہے، جب عاجزی ختم ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ سے تعلق ختم ہو جاتا ہے تو پھر یہی نتیجہ نکلتا ہے اور اب کیا خیال ہے کہ یہ نہیں ہوگا؟ یہ اب بھی اسی طرح ہو گا۔ یہ disturbanceمستقل رہے گی۔
شاید اس ملک کا بھی لیبیا والا حال رکھیں گے یا اس کو تین ملکوں میں تقسیم کر دیں۔ ایک کُردوں کو دے دیں، سنّیوں کا کچھ علاقہ علیحدہ ہو جائے اور شیعوں والا علیحدہ ہو جائے۔
تو حالات تو خطرناک ہیں اور اس سے پھر بے چینی پیدا ہو گی، آج نہیں تو دس سال بعد پھر دوبارہ لاوا پھٹے گا یا کسی اور ملک میں پھٹے گا ، اس لیے اس سے پہلے پہلےمَیں یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اپنی ذمہ داریاں سنبھال لینی چاہئیں اور دنیا کو آگاہ کر دیں کہ ابھی بھی سبق اگر نہیں لیتے تو پھر اب فوری طور پر اٹامک وار نہیں بھی ہوتی تو کچھ سال بعد ہو جائے گی۔ دماغ تو لوگوں کے اس طرح ہی خراب ہو رہے ہیں اور اس طرح کے لیڈر آتے رہیں گے۔
تو حالات تو بہرحال خراب ہیں۔ اس لیے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے، ہمارے وسائل کے اندر ہم لوگوں کو سمجھانے اور بتانے کی جو جو کوشش کر سکتے ہیں ، وہ ہمیں کرنی چاہیے اور یہی صورت ہے اور تو اس کا کچھ حل نہیں ہو سکتا۔
آخر میں ایک مبلغ نے ذکر کیا کہ جب سؤر کے گوشت کے استعمال کے خلاف ایک خاص دلیل پیش کی جاتی ہے تو بعض جرمن یہ کہتے ہیں کہ ان دلائل کی حمایت میں کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے۔
حضورِانور نے اس کےجواب میں سب سے پہلے سؤر کے گوشت کی ممانعت کے بارے میں اسلامی دلائل تفصیل سے بیان کیے۔اس کے بعد فرمایا کہ جماعت کی ذمہ داری اپنی تعلیمات کو پہنچانا ہے، کسی کو ان کو قبول کرنے پر مجبور کرنا نہیں۔ حضورِانور نے مزیدوضاحت فرمائی کہ اسلام میں سؤر کے گوشت کی ممانعت کسی ایک دلیل پر مبنی نہیں ہے بلکہ مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔مزید برآں آپ نے نصیحت فرمائی کہ دلائل حکمت کے ساتھ پیش کیے جانے چاہئیں۔
آخر پر امیر صاحب نے حضورِانور سے گروپ تصویر کی درخواست کی، جسے حضورِانور نے از راہ ِشفقت منظور فرما لیا۔ اسی کے ساتھ ہی یہ ملاقات اختتام پذیر ہوئی۔
٭…٭…٭