متفرق شعراء

جو لکھنا خط اسے شاخِ گلاب سے لکھنا


مہکتے جذبۂ عہدِ شباب سے لکھنا
جو لکھنا خط اسے شاخِ گلاب سے لکھنا

بلا کا حسن ہو اس میں غضب نزاکت ہو
حروف اس کی طرح لاجواب سے لکھنا

یہ عشق والوں کی دنیا میں اک سند ٹھہرے
وفا کے باب سے دل کی کتاب سے لکھنا

نہ فرق زیر و زبر کا پڑے نہ شعشے کا
حقیقتیں نہ کبھی طرزِ خواب سے لکھنا

کہا سنا تو یہ ممکن ہے بھول جائے کوئی
سمجھ کے سوچ کے پھر انتخاب سے لکھنا

تمام شہر کی دیواریں لڑکھڑانے لگیں
کہاں سے سیکھا ہے تم نے شراب سے لکھنا

اگر ہو آپ کے لفظوں میں روشنی عابدؔ
ہر ایک سیکھے گا اُس آب و تاب سے لکھنا

(پروفیسر مبارک عابدؔ۔ امریکہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button