احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
’’سو اگر نواب صاحب ممدوح اس کے جواب میں یہ لکھتے کہ ہماری رائے میں کتاب ایسی عمدہ نہیں جس کے لئے کچھ مدد کی جائے تو کچھ جائے افسوس نہ تھا۔ مگر صاحب موصوف نے پہلے تو یہ لکھا کہ پندرہ بیس کتابیں ضرور خریدیں گے اور پھر دوبارہ یاد دہانی پر یہ جواب آیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا ان میں کچھ مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں۔ سو ہم بھی نواب صاحب کو امیدگاہ نہیں بناتے بلکہ امیدگاہ خداوند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے‘‘(مسیح موعودؑ)
براہین احمدیہ اور نواب صدیق حسن خان صاحب
کچھ لوگوں نے جودولت اور شہرت رکھتے تھے،عوام اور خواص میں نام رکھتے تھے نخوت وتکبرکاایک عجیب مظاہرہ کیا۔وہ یہ کہ بھیجی گئی کتاب کوبڑے غرورکے ساتھ واپس کردیاکہ ہمیں ایسی کتاب کی ضرورت ہے نہ ایسے مامورکی۔ان میں سے ایک لدھیانہ کے رئیس شاہ دین تھے۔ جنہوں نے کتاب واپس کر دی جو میر عباس علی صاحب کی تحریک پر بھیجی گئی تھی۔ جب حضرت کی طرف سے اس کتاب کے متعلق کوئی اطلاع نہ ملی اور معلوم ہوا کہ کتاب واپس ہو گئی ہے تو انہوں نے حضرت ؑکو لکھا کہ مجھے واپسی کتاب کی اطلاع کیوں نہیں دی گئی۔ حضرتؑ نے ۲۱؍مئی ۱۸۸۳ء کو میر عباس علی کو لکھا:
’’آپ کوشش میں توکل کی رعایت رکھیں اور اپنے حفظ مرتبت کے لحاظ سے کارروائی فرماویں اور جو شخص اس کام کا قدر نہ سمجھتا ہو یا اہلیت نہ رکھتا ہو اس کو کچھ کہنا کہانامناسب نہیں۔ ‘‘
(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ۵۳۱مکتوب نمبر ۱۶)
ایک اَور صاحب تھے۔حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ نے ان کاذکرکرتے ہوئے لکھا:
’’تونسہ یعنی سنگھڑ سے تو کچھ جواب نہ آیا ایک دفعہ پہلے بھی ایسا ہوا تھا کہ جب براہین احمدیہ کی چاروں جلدیں چھپیں تھیں تو بعض آدمیوں کے کہنے سے حضرت اقدس علیہ السلام نے کتاب براہین احمدیہ تونسہ میں اللہ بخش صاحب کے نام روانہ کی تھی انہوں نے کتاب پھاڑ کے واپس ڈاک میں بھیج دی تھی اور اس کتاب کے کسی گوشہ پر یہ لکھا تھا کہ ہمیں کسی مجدد اور کسی کتاب کی ضرورت نہیں ہے ہمیں ہمارے بزرگوں کی ملفوظات کافی ہیں اس متکبرانہ حالت کو دیکھ کر حضرت اقدس علیہ السلام نے افسوس ظاہر فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ جب ان کو کسی مجدد اور مامور الٰہی کی ضرورت نہیں تو اللہ تعالیٰ کو بھی ایسے لوگوں کی ضرورت اور پروا نہیں ہے آنحضرت ﷺ کے بھی مبارک وقت میں اس قسم کے راہب اور درویش تھے جنہوں نے اپنی متکبر انہ حالت سے اس وجود باجود سے انکار کر کے وبال و نکال اور غضب الٰہی سر پر لیا اور اس کے بعد ان کا نام نشان مٹ گیا۔‘‘
(تذکرۃ المہدی صفحہ ۱۲۸)
قارئین! ابھی ہم نے براہین احمدیہ کی اشاعت وطباعت کے ضمن میں اس وقت کےکچھ صاحب ثروت ودولت لوگوں کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کس طرح سردمہری وعدم دلچسپی کااظہارکیا۔لیکن ان میں سے کچھ خوش نصیب ایسے بھی تھے کہ کچھ نہ کچھ اعانت وتعاون کرنے کے نتیجے میں ان مقبول دعاؤں کے خزانوں کے وارث ٹھہرے کہ جورہتی دنیاتک کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ اوراس کے ساتھ ساتھ ہراحمدی جب بھی یہ کتاب پڑھے گا وہ فاصلوں اور جسمانی تعلقات کی حدوں سے بے نیازوماوراء ہوکران پردعاؤں کی دولت نچھاورکرتارہے گا۔
لیکن کچھ ایسے بدنصیب بھی ثابت ہوئے کہ جنہوں نے اپنی عارضی شان وشوکت اور مانگے کی مستعار نوابی کوبچانے کے لیے اورمال غنیمت میں ملنے والی دولت پرنازکرتے ہوئے خست ونخوت کااندازاپناتے ہوئے خداکی نگاہ میں قبولیت کاشرف پانے والی اس کتاب اور مصنف کوحقارت کی نظرسے دیکھا۔جس کی پاداش میں وہ خود راندۂ درگاہ ہوگئے۔اور وَاُتۡبِعُوۡا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا لَعۡنَۃً وَّیَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ(ہود:۶۱)کے مصداق رجم ونفرین کی پھٹکارکاموردبن گئے۔
اس وقت ان میں سے ایک ایسے شخص کا تفصیلی ذکر کرنا مقصود ہے جو اپنے غروروتکبر اورمنافقت کی بنا پر اس درویش اورمحبوب الٰہی کی آہ کا ایسا شکار ہواکہ نوابی کاخطاب تو جاتارہا لیکن بدنصیبی کا ٹیکہ اس کے ماتھے پر تب تک رہے گا جب تک کہ اس ولیٔ درویش کی تحریرات رہیں گی ہاں اُسی درویش کی جس نے کہاتھا :
زِآہِ زُمرۂِ اَبدال، بایَدَت ترسید
علی الخصوص، اگر آہِ میرزا باشد
(ترجمہ از مصنف )تجھے ابدالوں کی جماعت کی آہوں سے ڈرنا چاہیے۔خصوصاً اگروہ آہ میرزا(غلام احمدؑ) کی آہ ہو…
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۱۳۷)
حضرت اقدس علیہ السلام نے اس بدنصیب نواب کا ذکر اسی براہین احمدیہ میں فرمایاہے۔آپؑ فرماتے ہیں:
’’کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ اس خاکسار نے ایک نواب صاحب کی خدمت میں کہ جو بہت پارسا طبع اور متقی اور فضائل علمیہ سے متصف اور قال اللہ اور قال الرسولؐ سے بدرجہ غایت خبر رکھتے ہیں کتاب براہین احمدیہ کی اعانت کے لئے لکھا تھا۔ سو اگر نواب صاحب ممدوح اس کے جواب میں یہ لکھتے کہ ہماری رائے میں کتاب ایسی عمدہ نہیں جس کے لئے کچھ مدد کی جائے تو کچھ جائے افسوس نہ تھا۔ مگر صاحب موصوف نے پہلے تو یہ لکھا کہ پندرہ بیس کتابیں ضرور خریدیں گے اور پھر دوبارہ یاد دہانی پر یہ جواب آیا کہ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا ان میں کچھ مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی ہے اس لئے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں۔ سو ہم بھی نواب صاحب کو امیدگاہ نہیں بناتے بلکہ امیدگاہ خداوند کریم ہی ہے اور وہی کافی ہے (خدا کرے گورنمنٹ انگریزی نواب صاحب پر بہت راضی رہے) ‘‘
(براہین احمدیہ،روحانی خزائن جلد ۱صفحہ ۳۲۰)
اس نواب نے صرف یہ ہی نہیں کیا کہ عہدووعدہ کرنے کے بعد ایفائے عہدکی بجائے کتاب خریدنے سے انکار کیا بلکہ ان کی خدمت میں بھیجی گئی کتاب کو چاک کرکے واپس بھیج دیا۔چنانچہ ایک چشم دید راوی حضرت حافظ حامدعلی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’جب کتاب واپس آئی تو اس وقت حضرت اقدسؑ اپنے مکان میں چہل قدمی کررہے تھے…کتاب کی یہ حالت دیکھ کر کہ وہ پھٹی ہوئی ہے اورنہایت بری طرح سے اس کوخراب کیاگیاہے۔حضرت صاحب کا چہرہ متغیر ہوگیا…‘‘
حامد علی صاحب کہتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی ساری عمر میں حضرت صاحبؑ کو ایسے غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا۔آپؑ کے چہرہ کو دیکھ کرایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپؑ کے قلب میں ناراضگی کی کیفیت پیداہوگئی ہے۔آپؑ بدستور اِدھر اُدھر ٹہلتے تھے اورخاموش تھے کہ یکایک آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے :
’’اچھا تم اپنی گورنمنٹ کو خوش کرلو‘‘
(حیات احمدؐ جلد دوم صفحہ ۱۹۲، ۱۹۳)
’’آہِ میرزا‘‘ کے شکار ہونے والے یہ نواب صاحب،نواب صدیق حسن خان صاحب تھے۔
نواب صدیق حسن خان قنوج کے رہنے والے تھے اوران کے والد سیداولاد حسن تھے جو کہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے جو کہ بعد میں ترک کردیا۔[واضح رہے کہ نواب صدیق کی یہ وصیت تھی کہ اس کی کوئی اولاد شیعوں میں رشتہ نہ کرے۔](ماخوذ ازاِبقاء المنن بالقاء المحن صفحہ۳۳۵)
نواب صدیق حسن ۱۴؍اکتوبر ۱۸۳۲ء ۱۹؍جمادی الاولیٰ ۱۲۴۸ھ کو بمقام بریلی، یوپی میں پیداہوئے۔بچپن میں ہی یتیم ہوئے۔۱۸۵۵ء میں بھوپال میں ۳۰؍روپے ماہوار مشاہرہ پر ملازمت اختیار کرلی۔دوران عرصہ ملازمت عباس علی چریاکوٹی کے ساتھ ایک مباحثہ کے نتیجے میں معزولی بھی ہوئی اورکچھ عرصہ بعد[۱۸۵۹ء میں] پھر طلبی ہوئی۔ اور ملازمت کے دوران ہی ۱۸۷۱ء میں پہلی بیوی ذکیہ بیگم کی موجودگی میں ہی نواب شاہجہان بیگم سے عقد ثانی ہوا۔پہلی بیوی جو کہ محمد جمال الدین خان کی بیوہ بیٹی تھی اس سے مولوی صاحب کے دو بیٹے نورالحسن اور علی حسن اور دو بیٹیاں صفیہ اور حفصہ پیدا ہوئیں۔زکیہ بیگم کا انتقال اگست ۱۸۸۴ء کو ہوا۔
اور اس نکاح کے نتیجے میں نوابی وغیرہ کے خطابات مع مختلف جاگیروں کے پچھترہزار(۷۵۰۰۰)روپے سالانہ مشاہرہ بھی مقررہوگیا۔اوراسی طرح عقدکے بعد رئیسہ صاحبہ نے مولوی صاحب کی اولاد اورداماد کو بھی جاگیر اور ہربیٹے کو بارہ بارہ ہزارروپے اوربیٹی کو چھ ہزارروپے اور دامادکو تین ہزارروپے کا وظیفہ بھی مقررکردیا۔(ماخوذ ازابقاء المنن بالقاء المحن صفحہ۱۲۸)
اب مولوی صاحب،مولوی صدیق حسن سے نواب صدیق حسن خان بن گئے اورعلاوہ بیوی کے محلات کے اپنا ایک ذاتی محل بھی ’’نورمحل‘‘ کے نام سے پونے دولاکھ روپے میں بنا کر اپنے بچوں کے نام کردیا اورکہہ دیا کہ ’’میرے پاس نقدین کے سوا اورکوئی زکوٰ ة طلب مال بھی نہیں ہے …میرے پاس کوئی ذاتی جائیداد نہیں۔میں رئیسہ معظمہ کے گھر میں مستعار رہتاہوں۔‘‘
البتہ ’’نَقْدَیْن‘‘ بھی اتنی تھی کہ بقول نواب صاحب کے ’’میرے پاس جتنا مال ہے اس کی ہرسال زکوٰة اداکرتاہوں بلکہ زکوٰة سے کچھ زیادہ ہی دے دیتاہوں۔اگرچہ زکوٰة کی مقدار کئی ہزارتک پہنچ جاتی ہے۔‘‘(ابقاء المنن بالقاء المحن صفحہ۱۶۰-۱۶۱)
عجیب ماجراہے کہ مولانا سیدمحمدجعفرشاہ پھلواری صاحب جو کہ نواب صدیق حسن کی پڑنواسی گوہرجہاں بیگم کے شوہرتھے انہوں نے ’’ذاتی جائداد‘‘ کا بھانڈاخواہ مخواہ ہی پھوڑدیاوہ بیان کرتے ہیں کہ
’’گردشِ ایام اورانقلاباتِ زمانہ کا کوئی زندہ نمونہ دیکھناہو تو میری خوشدامن سیدہ اشرف جہاں بیگم کو دیکھ لیجئے [اشرف جہاں نواب صدیق حسن خان کی نواسی تھی۔نواب سیدنورالحسن خان صاحب (فرزندِ اکبر نواب صاحب )کی بیگم صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ اشرف سلمہا کی تقریب شادی دیکھنے والوں کو کبھی بھول نہیں سکتی میں (صفیہ جہاں بیگم ) نے ان کو جو جہیز دیا تھا اس میں تئیس۲۳ سیر سونا اورچھتیس ۳۶ من چاندی کے برتن اورظروف تھے۔اوردس بڑے صندوقوں میں سَو تو صرف وہ جوڑے تھے جو کبھی کبھی تقریب میں یا عید بقر عید میں پہنے جاسکیں۔دوسری چیزوں اورسامان کا اندازہ اسی سے کرلو،کئی گاؤں مسلّم اورمتعدد گاؤں میں حصے تھے۔مشرقی پنجاب کے انقلاب میں یہ کپورتھلے میں میرے ساتھ تھیں۔اور لاہور میں برابر ساتھ رہیں۔اب اپنے لڑکوں کے ساتھ کراچی کے ایک تنگ وتاریک مکان میں مقیم ہیں۔انقلابات ہیں زمانے کے۔‘‘
(ابقاء المنن بالقاء المحن صفحہ ۳۳۷)
چندصفحات کے بعد لکھتے ہیں …
’’نواب صاحب صرف عالم نہ تھے بلکہ حکمران بھی تھے۔اس لئے فوجی بینڈ باجے کو جائز سمجھتے تھے۔آپ کی قبر بھوپال میں ہے اورکمرتک اونچی کرکے محفوظ کردی گئی ہے…نواب صاحب اپنی زندگی کے آخری دور میں تمام سامان،روپیہ جائداد وغیرہ اپنے ورثاکے نام کرگئے تھے۔اس میں ایک حصہ نواب شاہ جہان بیگم کے نام بھی تھا۔ایک صندوق سونے کی اینٹوں کا بھی تھا۔(ایک اینٹ چالیس تولے کی)…اس میں سے اٹھارہ اینٹیں ہماری خوشدامن کے حصہ میں بھی آئی تھیں۔(اس وقت سونا پچیس روپے تولہ تھا۔)یہ چھٹا حصہ تھا اس سونے کا جو نواب صفیہ جہاں بیگم کے حصے میں آیا تھا۔ اورگویا بھائیوں کو اس کادگنا دگنا ملاتھا۔‘‘
(ابقاء المنن بالقاء المحن صفحہ۳۴۰)
نوٹ: یہاں نواب صاحب کی جائیداد اوردولت کاذکر کرنے کا مقصدصرف یہ بتانا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے جن نوابوں کو اس اہم دینی خدمت کے لیے بلایا تھاوہ صرف نام کے ہی نواب نہ تھے بلکہ وہ صاحب حیثیت تھے اوران لاکھوں کی جائیدادودولت رکھنے والوں کے لیے اکیلے ہی پوری کتاب طبع کروانا کوئی مشکل کام نہ تھا۔لیکن دراصل وہ روحانی طورپر مجذوم ہوچکے تھے جیساکہ حضرت اقدسؑ نے ان امراء کا نقشہ کھینچاہے۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭