بنیادی مسائل کے جوابات(قسط ۸۷)
٭…کیا نافرمان عورت کو ہلکا سا مارنا جائز ہے؟
٭…امام مہدی کا ظہور ہو گا تو ان کے ساتھ ۳۱۳؍سپاہی ہوں گے۔ اس سے کیا مراد ہے؟
٭…بینک سے قرض لے کر گھر بنانا یا تجارت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ نیز شیئر مارکیٹ کے بارے میں راہنمائی
٭…کاروباری غرض سے مکان،پراپرٹی کے لیے سود پر قرض لینے کے بارے میں راہنمائی
سوال:مراکش سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرالعزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ ایم ٹی اے العربیہ پر سنا ہے کہ نافرمان عورت کو ہلکا سا مارنا جائز ہے۔ کیا یہ درست ہے یا آیت کا کوئی اور مفہوم ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ ۷؍مئی ۲۰۲۳ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور نے فرمایا:
جواب:اسلام نے عورت اور مرد دونوں کے حقوق و فرائض بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں اور دونوں کو ان حقوق و فرائض کے اعتبار سے اپنے اپنے دائرہ میں محدود رکھا ہے۔ اور تعلیم دی ہےکہ ہر کوئی اپنے دائرہ میں نگران بھی ہے اور ہر نگران سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پُرس بھی کی جائے گی کہ اس نے اپنی رعایا کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کمی تو نہیں کی۔اس ذمہ داری میں اسلام نے جہاں مرد کو گھر کا نگران اور اسے اپنے اہل خانہ کے حقوق ادا کرنے کا پابند بنایا ہے وہاں عورت کو بھی اپنے خاوند کے گھر کا نگران قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص نگران ہے پس اس سےاس کی رعیت کے متعلق بازپرس ہوگی۔ چنانچہ وہ شخص جو لوگوں کا امیر ہے اس سے ان لوگوں کے متعلق سوال ہوگا (کہ اس نے ان کی نگرانی اور ان کے حقوق ادا کرنے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورے طور پر ادا کیا)۔ اور مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے اس سے ان کے متعلق باز پرس ہوگی۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگران ہے، اس سے اس بارے میں باز پرس ہوگی۔ (صحیح بخاری کتاب العتق بَاب كَرَاهِيَةِ التَّطَاوُلِ عَلَى الرَّقِيقِ)
پس اگر مرد اور عورت دونوں اپنے اپنے فرائض احسن رنگ میں ادا کریں تو کسی کو بھی ایک دوسرے کو مارنے تو کیا ڈانٹنے کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
عورتوں کے حقوق کے بارے میں اسلامی تعلیم کی خوبصورتی بیان کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں فرمادیا ہے۔ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْھِنَّ(البقرۃ:۲۲۹)کہ جیسے مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سُنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں۔ گالیاں دیتے ہیں۔ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کردیتے ہیں۔ چاہیے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاق فاضلہ اور خداسے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر انہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھرکس طرح ممکن ہے کہ خدا سے صلح ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہےکہ خَیْرُکُمْ خَیْرٌلِاَھْلِہٖ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے۔(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۱۲۱، مطبوعہ ۲۰۱۶ء)
اس نہایت اعلیٰ اور حسین تعلیم کے بعد اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی جائز حد تک اطاعت سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے ساتھ باغیانہ رویہ اختیار کرتی ہے تو پھر ایسی عورت کو راہ راست پر قائم رکھنے کے لیے اسلام نے بعض اصلاحی تدابیر کے اختیار کرنے کا مرد کو حکم دیا ہے، جس میں پہلی تدبیر یہ ہے کہ اسے نصیحت کر کے سمجھایا جائے۔ اگر نصیحت کا بھی اس پر اثر نہ ہو تو فرمایا کہ خاوند ایسی بیوی کی اصلاح کے لیے اس کے ساتھ کچھ وقت کے لیے اپنے تعلقات زوجیت ختم کر دے۔(جس میں بیوی سے زیادہ خاوند کو تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے) علاوہ ازیں اس حکم میں مرد کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ اپنا بستر بیوی سے الگ کرے، یہ نہیں فرمایا کہ بیوی کو بستر سے نکال دے۔ اس اصلاحی تدبیر کا بھی اثر اگر بیوی پر نہ ہو اور وہ اپنی نافرمانیوں اور باغیانہ رَوِش سے باز نہ آئے تو فرمایا کہ پھر تم اسے ایک حد تک بدنی سزا دے سکتے ہو۔ (سورۃ النساء:۳۵)لیکن اس بدنی سزا کے بارے میں حضور ﷺ نے یہ شرط بھی لگا دی کہ نہ اس کے چہرہ پر مارو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب النکاح بَاب حَقِّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ)اور نہ اس کو جسم پر اس زور سے مارو کہ اس کے جسم پر کوئی زخم آئے یا جلد کے اندر اسے کوئی چوٹ پہنچے۔ (بخاری کتاب النکاح بَاب مَا يُكْرَهُ مِنْ ضَرْبِ النِّسَاءِ)
پس کسی کی اصلاح اور اسے راہ راست پر لانے کے لیے اس سے زیادہ خوبصورت اور متوازن تعلیم نہ تو کسی مذہب نے دی ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی ملک اس کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ اسلام اپنے پیروکاروں کو ایسے ملکی قوانین جو ان کے بنیادی مذہبی عقائد میں روک نہ بنتے ہوں، کی اطاعت کا بھی حکم دیتا ہے۔ اس لیے افراد جماعت کو یہ بھی تاکید کی جاتی ہے کہ ایسے ممالک جہاں بیوی کو مذکورہ بالا صورتوں اور مذکورہ بالا شرائط کے تحت بھی بدنی سزا دینا خلاف قانون ہو وہاں ضرورت کے باوجود بھی اس سے اجتناب کیا جائے۔
سوال: پاکستان سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ اہل تشیع کے نزدیک جب امام مہدی کا ظہور ہو گا تو ان کے ساتھ ۳۱۳؍سپاہی ہوں گے۔ اس سے کیا مراد ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ ۷؍مئی ۲۰۲۳ء میں اس کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب:یہ حدیث اہل تشیع کی مختلف کتب میں روایت ہوئی ہے۔ اور اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آنحضور ﷺ کے عہد مبارک میں اہل بدر جن کی تعداد ۳۱۳تھی اور جنہوں نے اسلام کے مشکل اور کمزوری کے حالات میں آنحضورﷺ کا ساتھ دیا تھا اور دین اسلام کے لیے آپؐ کی معاونت کی سعادت پائی تھی۔ اسی طرح اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں تجدید اسلام کے لیے جب آنحضور ﷺ کے غلام صادق اور آپ کے روحانی فرزند مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت ہو گی تو اس وقت بھی ابتدائی طور پر آپ کے ۳۱۳ اصحاب آپ کی تائید و نصرت کی غیرمعمولی سعادت پائیں گے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے اپنی بعض تصانیف میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ضمیمہ رسالہ انجام آتھم میں حضور اس حدیث کو اپنی صداقت کے لیے بطور دلیل پیش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہوگی جس میں اس کے تین سو تیرہ اصحاب کا نام درج ہوگا۔ اس لئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ پیشگوئی آج پوری ہوگئی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے اس سے امت مرحومہ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا کہ جو مہدویت کا مدعی ہوتا اور اس کے وقت میں چھاپہ خانہ بھی ہوتا۔ اور اس کے پاس ایک کتاب بھی ہوتی جس میں تین سو تیرہ نام لکھے ہوئے ہوتے۔ اور ظاہر ہے کہ اگر یہ کام انسان کے اختیار میں ہوتا تو اس سے پہلے کئی جھوٹے اپنے تئیں اس کا مصداق بنا سکتے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی پیشگوئیوں میں ایسی فوق العادت شرطیں ہوتی ہیں کہ کوئی جھوٹا ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اور اس کو وہ سامان اور اسباب عطا نہیں کئے جاتے جو سچے کو عطا کیے جاتے ہیں۔
شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اپنی کتاب جواہر الاسرار میں جو ۸۴۰ ھ میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں۔ ’’دراربعین آمدہ است کہ خروج مہدی ازقریہ کدعہ باشد۔ قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج المھدی من قریۃ یقال لھا کدعہ ویصدقہ اللّٰہ تعالٰی ویجمع اصحابہ من اقصَی البلاد علی عدّۃ اھل بدر بثلاث ماءۃ وثلاثۃ عشر رجلا ومعہ صحیفۃ مختومۃ(ای مطبوعۃ) فیھا عدد اصحابہ باسمائھم وبلادھم وخلالھم یعنی مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے (یہ نام دراصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا۔ اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار سے برابر ہوگا۔ یعنی تین سو تیرہ ہوں گے۔ اور ان کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے۔
اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں۔ لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سوتیرہ نام درج کرچکا ہوں اور اب دو بارے اتمام حجت کے لیے تین سوتیرہ نام ذیل میں درج کرتا ہوں تا ہریک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی۔اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق و صفا رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضا کی راہوں میں ثابت قدم کرے۔ اور وہ یہ ہیں۔ (ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۲۵،۳۲۴)
اس کے بعد حضور علیہ السلام نے اپنے ان ۳۱۳ اصحاب کے نام درج فرمائے ہیں، جنہوں نے حضور علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی اور اپنے غیر معمولی ایمان اور اخلاص کے ساتھ دین اسلام کے کاموں میں مسیح پاک علیہ السلام کی معاونت کی سعادت پائی۔
سوال: بنگلہ دیش سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ ایک نئے احمدی نے سوال کیا ہے کہ بینک سے قرض لے کر گھر بنانا یا تجارت کرنا جائز ہے یا نہیں؟عام طور پر رائج ہے کہ جائز نہیں ہے کیونکہ بینک قرض اس شرط پر دیتا ہے کہ بینک کو اتنے فیصد سود دینا ہوگا۔ اس بارے میں کیا فتویٰ ہے۔ نیز یہ کہ حضور نے Bitcoin سے منع فرمایا ہے۔ لیکن شیئر مارکیٹ بھی Bitcoin جیسی معلوم ہوتی ہے۔ اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ ۱۶؍مئی ۲۰۲۳ء میں ان سوالوں کے بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب:کوئی بھی قرض جس پر سود لیا جائے یا سود دیا جائے اسلام نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرمایا یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْامَابَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ۔ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ۔(البقرہ:۲۸۰،۲۷۹)یعنی اے ایمان دارو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اگر تم مومن ہو تو سود (کے حساب) میں سے جو کچھ باقی ہو اسے چھوڑ دو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے (برپا ہونے والی) جنگ کا یقین کر لو۔
پس کوئی بھی خرید و فروخت یا مالی لین دین جس میں سود کی ملونی ہو تو وہ بہرحال حرام ہے۔ البتہ اگر سود کے بغیر قرض ملے تو ایسے قرض سے گھر خریدنے یا تجارت کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔
اور اگر آپ مغربی دنیا میں رائج مارگیج کے ذریعہ مکان خریدنے کی بابت پوچھنا چاہتے ہیں تو اس طریق کار میں عموماً بینک یا کسی مالیاتی ادارہ سے قرض حاصل کیا جاتا ہے، اور جب تک یہ قرض واپس نہ ہو جائے ایسا مکان قرض دینے والے بینک یا اس مالیاتی ادارہ ہی کی ملکیت رہتا ہے۔ اور بینک یا مالیاتی ادارہ اپنے اس قرض پر کچھ زائد رقم بھی وصول کرتا ہے۔ جس کی وجہ وہ پیسہ کی Devaluation بتاتے ہیں۔
چونکہ ان ممالک میں ہر انسان اپنے رہنے کے لیے بھی مکان آسانی سے نہیں خرید سکتا، اس لیے یا تو اسے ساری زندگی کرایہ کے مکان میں رہنا پڑتا ہے، جس میں اسے زندگی بھر ادا کیے گئے کرایہ کے اس مکان میں رہنے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ کرایہ کی اتنی بڑی رقم ادا کرنے کے باوجود یہ مکان کبھی بھی اس کی ملکیت نہیں ہوتا۔ یا پھر وہ ان مجبوری کے حالات میں مارگیج کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر اپنی رہائش کے لیے ایک گھر خرید لیتا ہے۔ جس پر اسے تقریباً اتنی ہی مارگیج کی قسط ادا کرنی پڑتی ہے جس قدر وہ مکان کا کرایہ دے رہا ہوتا ہے، لیکن مارگیج میں اسے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان اقساط کی ادائیگی کے بعد یہ مکان اس کی ملکیت ہو جاتا ہے۔
پس مارگیج کے ذریعہ مکان خریدنا ایک مجبوری اور اضطرار کی کیفیت ہے، جس سے صرف اپنی رہائش کے لیے ایک مکان کی خرید تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن مارگیج کے اس طریق کار کے ذریعہ کاروبار کے طور پر مکان درمکان خریدتے چلے جانا کسی صورت میں بھی درست نہیں اور جماعت اس امر کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کرتی، بلکہ اس سے منع کرتی ہے۔
باقی جہاں تک مختلف کمپنیوں کے صرف شیئرز خریدنے کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی ہرج کی بات نہیں کیونکہ یہ بھی ایک طرح سے نفع و نقصان میں شراکت والا ایک کاروبار ہی ہے، اگرچہ اس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کاروبار میں دھوکہ دہی کا بہت امکان ہوتا ہے۔
البتہ اگر یہ صورت ہو کہ ادھر شیئرز خریدے، ادھر فروخت کیے اور صبح شام شیئرز مارکیٹ کے انڈیکس بورڈ پر ہی نظر جمائے رکھی جائے تو یہ لاٹری سے ملتی جلتی صورت ہو گی جس کی ممانعت کا کسی کو انکار نہیں۔
سوال: جرمنی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اسلام میں سود لینے اور دینے کی ممانعت ہے مگر استثناء کے طور پر ذاتی اور کاروباری غرض سے مکان،پراپرٹی کے لیے سود پر قرض کی اجازت دی گئی ہے۔ تو ایسے افراد جو مجبوری کی وجہ سے سؤر اور شراب والی جگہ پر کام کرتے ہیں ان کو کیوں استثنائی طور پر عام اجازت نہیں دی گئی۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ جس طرح قرآن کریم میں موجود ممنوع یا حرام اشیاء کی استثنائی صورتحال میں استعمال کی اجازت دی جاتی ہے تو کیا مجبوری کی صورت میں دو بہنوں کا ایک شخص کے نکاح میں بیک وقت ہونا بھی جائز ہو سکتا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مؤرخہ ۱۶؍مئی ۲۰۲۳ء میں ان سوالوں کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب:یہ آپ نے کہاں سے نکال لیا ہے کہ استثنائی طور پر ذاتی اور کاروباری غرض سے سود پر قرض لینے کی اجازت ہے۔ اسلام نے تو سود لینے اور دینے کو بہر صورت منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ فرمایا یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْامَابَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ۔ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ۔(البقرہ:۲۸۰،۲۷۹)یعنی اے ایمان دارو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اگر تم مومن ہو تو سود (کے حساب) میں سے جو کچھ باقی ہو اسے چھوڑ دو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے (برپا ہونے والی) جنگ کا یقین کر لو۔
اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ قرآن کریم نے سؤر کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے۔ مگر سود کے لیے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے۔(اخبار بدر نمبر ۵، جلد ۷، مؤرخہ ۶ فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۶)
پس یہ تصور کہ بحالت اضطرار سود لینے اور دینے کی اجازت ہےہر گز درست امر نہیں۔ اور اگر اس سے آپ کی مراد مغربی دنیا میں رائج مارگیج کے طریق سے ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ اسے سودی قرض قرار دینا کلیۃً درست نہیں۔کیونکہ اس طریق کار میں مکان خریدنے کے لیے بینک یا کسی مالیاتی ادارہ سے جو قرض حاصل کیا جاتا ہے، جب تک یہ قرض واپس نہ ہو جائے یہ مکان ایک حد تک قرض دینے والے بینک یا اس مالیاتی ادارہ کی ملکیت رہتا ہے۔جو اسلام کے جائز کردہ طریق کار رہن کی ایک صورت بنتی ہے۔ اور بینک یا مالیاتی ادارہ اپنے اس قرض پر جو کچھ زائد رقم وصول کرتا ہے، اگرچہ وہ اس کی وجہ پیسہ کی Devaluation بتاتا ہے، لیکن وہ اس مکان کا کرایہ بھی تو سمجھا جا سکتا ہے، جو رہن سے فائدہ اٹھنے کے زمرہ میں آئے گا۔ یاپھربینک یا اس مالیاتی ادارہ کے اس قرض کے حساب کتاب رکھنے اور اس کی وصولی کے لیے مساعی کرنے میں اس کے Management and administrative charges بھی قرار دیے جا سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ان مغربی ممالک میں چونکہ ہر انسان اپنے رہنے کے لیے بھی آسانی سے مکان نہیں خرید سکتا، اس لیے یا تو اسے ساری زندگی کرایہ کے مکان میں رہنا پڑتا ہے، جس میں اسے زندگی بھر ادا کیے گئے کرایہ کا اس مکان میں رہنے کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ کرایہ کی اتنی بڑی رقم ادا کرنے کے باوجود یہ مکان کبھی بھی اس کی ملکیت نہیں ہوتا۔ یا پھر وہ مارگیج کی سہولت سے فائدہ اٹھا کر اپنی رہائش کے لیے ایک گھر خرید لیتا ہے۔ جس پر اسے تقریباً اتنی ہی مارگیج کی قسط ادا کرنی پڑتی ہے جس قدر وہ مکان کا کرایہ دے رہا ہوتا ہے، لیکن مارگیج میں اسے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان اقساط کی ادائیگی کے بعد یہ مکان اس کی ملکیت ہو جاتا ہے۔
پس مارگیج کے ذریعہ سے مکان خریدنا ایک مجبوری اور اضطرار کی کیفیت ہے جو حضورﷺ کے ارشاد ’’الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ۔(صحیح بخاری کتاب الایمان بَاب فَضْلِ مَنْ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ)یعنی حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی ظاہر ہے) اور دونوں کے درمیان میں کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا اور جو شخص ان مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا تو(اس کی مثال ایسی ہے) جیسے کہ کوئی شخص اپنے جانور شاہی چراگاہ کے بالکل قریب چر ارہا ہو جس کے متعلق اندیشہ ہو کہ ایک دن وہ جانور اس چراہ گاہ کے اندر بھی داخل ہوجائیں۔‘‘ کے تحت مشتبہ اشیا میں سے قرار دی جا سکتی ہے۔ اور جس کے ذریعہ صرف اپنی رہائش کے لیے ایک مکان کی خرید تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن مارگیج کے اس طریق کار کے ذریعہ کاروبار کے طور پر مکان در مکان خریدتے چلے جانا کسی صورت میں بھی درست نہیں اور جماعت اس امر کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کرتی، بلکہ اس سے منع کرتی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص بغیر مارگیج کے مکان خریدنے کی مالی استطاعت رکھتا ہو تو اسے مارگیج کے اس مشتبہ طریق سے بھی اجتناب کرنا چاہئے۔ کیونکہ مجبوری اور اضطرار کی یہ ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ تذکرۃ الاولیا میں قبولیت حج کے سلسلہ میں بیان ہونے والے واقعہ میں کئی دنوں کی فاقہ کشی میں مبتلا خاندان کے لیے اپنی جان بچانے کے لیے مردہ گدھے کا گوشت وقتی طور پرجائز تھا لیکن اس کے پڑوسی کے لیے جس کے پاس مالی استطاعت تھی اور اس نے حج پر جانے کے لیے رقم بھی جمع کر رکھی تھی، اس کے لیے یہ گوشت جائز نہیں تھا۔ (تذکرۃ الاولیاء صفحہ ۱۲۳، مطبوعہ مئی ۱۹۹۷ء ناشر الفاروق بک فاؤنڈیشن)
پس آپ کا اپنے زعم میں ایک بے بنیاد بات پر احتمال کرکے سؤر اور شراب بیچنے کے کام کا جواز پیدا کرنا ہرگز درست نہیں۔اگر کوئی شخص مجبوری اور اضطرار کی حالت سمجھ کر سؤر اور شراب بیچنے کا کام کرتا ہے تو جماعت کے لیے تو کوئی مجبوری نہیں کہ ایسے شخص سے پھر ضرور چندہ وغیرہ لے۔
اسی طرح اس بے بنیاد تصور کی بنا پر آپ نے اسلام کے ایک واضح حکم کے خلاف ایک وقت میں دو بہنوں کے ساتھ شادی کرنے کے جواز کی جو بات کی ہے وہ بھی کلیۃً غلط اور لغو خیال ہے۔
٭…٭…٭