محترم مولانا محمد سلیم صاحب۔ مبلغ بلاد عربیہ
محترم مولوی محمد سلیم صاحب فاضل ولد قاضی محمد حسین صاحب میدان تبلیغ کے عظیم الشان مجاہد تھے۔ آپ کو بلاد عربیہ کے علاوہ اندرون ہندوستان بھی بہت سی جگہوں پر خدمت دین کی توفیق ملی۔ آپ ۱۲؍دسمبر ۱۹۱۰ء کو پیدا ہوئے اور پیدائشی احمدی تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور ایک لائق اور ہونہار طالب علم ثابت ہوئے۔ ۲۸؍جنوری ۱۹۲۹ء کو قادیان کے مرکزی اداروں کا تقسیم انعامات کا مشترکہ جلسہ ہوا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے، جامعہ احمدیہ کی طرف سے انعام لینے والوں میں آپ بھی شامل تھے۔ (تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۱۲۷، ۱۶۹) نومبر ۱۹۲۹ء میں طلبہ جامعہ احمدیہ قادیان کے درمیان ایک مباحثہ کرایا گیا جس میں آپ نے بھی حصہ لیا۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے آپ کو سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سیٹ بطور انعام دیا۔ (الفضل ۱۲؍نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ۱) آپ ۱۹۲۹ء میں جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ کو ہندوستان کے مختلف علاقوں کے مناظروں میں شامل ہونے کا موقع ملا اور آپ نےجماعت احمدیہ کی بھرپور نمائندگی کی۔ ۱۹۳۴ء میں مناظرہ کراچی، مناظرہ گوجرہ، مناظرہ کلکتہ میں جماعت احمدیہ کی نمائندگی کی اور کامیاب مناظرہ کیا۔ ۱۹۳۴ء میں ہی آپ کی تعیناتی مبلغ بنگال کے طور پر ہوئی اور آپ کلکتہ میں مقیم ہوئے۔ فروری ۱۹۳۵ء میں آپ نے محترم مولوی ظلّ الرحمٰن صاحب بنگالی کی معیت میں غیر احمدیوں سے مناظرہ کیا جس کے نتیجے میں ۱۳؍افراد داخل احمدیت ہوئے۔ (الفضل ۲۱؍فروری ۱۹۳۵ء صفحہ ۲) اسی طرح مشرقی بنگال میں برہمن بڑیہ کے مدرسہ عربیہ کے صدر المدرسین مولوی تاج الاسلام کے ساتھ آپ کا عربی زبان میں مناظرہ ہوا جو چودہ گھنٹےتک جاری رہا۔(الحکم ۲۱؍مارچ ۱۹۳۵ء صفحہ ۲) آپ کی ان تبلیغی خدمات کو دیکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’نئے مبلغ جو پیدا ہو رہے ہیں، ان میں بھی اچھے نوجوان نکل رہے ہیں۔ مولوی محمد سلیم صاحب ایک اچھے مبلغ ہیں …‘‘(الفضل ۹؍جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ۳)
ابھی آپ بنگال میں ہی تھے کہ وسط ۱۹۳۴ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بلاد عربیہ میں مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب کے بعد آپ کو ان کی جگہ بطور مبلغ بھیجنے کا فیصلہ فرمایا اور آپ ۴؍جنوری ۱۹۳۶ء کو قادیان سے روانہ ہوئے، اخبار الفضل نے لکھا: ’’۴؍جنوری۔ مولوی محمد سلیم صاحب مولوی فاضل تبلیغ اسلام کے لیے فلسطین روانہ ہوئے۔ سٹیشن پر سینکڑوں کی تعداد میں احباب کا ہجوم الوداع کہنے کے لیے موجود تھا۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بذات خود تشریف فرما تھے۔ حضور نے مولوی صاحب کو معانقہ کا شرف بخشا، آخر میں دعا فرمائی اور گاڑی اللہ اکبر کے نعرہ میں روانہ ہوگئی۔‘‘ (الفضل ۷؍جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱)
سر زمین فلسطین میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے والے چار ابتدائی مبلغین کرام
آپ اپنی تبلیغ میں خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہونے والے فہم قرآن کو پیش کرتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے طلبہ جامعہ احمدیہ ربوہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’قرآن کریم کی تفسیر سیکھنے میں خوب محنت کریں۔ سب سے بڑھ کر چیز قرآن کریم کی تفسیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں ملی ہے۔ یہ اصل چیز ہے۔ اب تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تفسیر قرآن تفسیر کبیر کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔ آپ لوگوں کو اس کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ تفسیر قرآن کے ذریعہ ہی ہم لوگ دوسروں پر ممتاز ہو سکتے ہیں۔ میں جب فلسطین گیا تو اس وقت چوبیس سال کا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے سکول اور کالج سے اٹھاکر سمندر میں پھینک دیا گیا ہے۔ وہاں جامعہ ازہر کے علماء کی دھاک تھی گویا وہ علم کے لحاظ سے سمندر تھے مگر جب کبھی میں نے قرآن کریم کی کوئی آیت ان کے سامنے پیش کی کہ غیر مسلم اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں، اس کا کیا جواب ہے؟ تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے اور پھر وہ لوگ ہمارے جوابات سے بہت متاثر ہوتے تھے …جن کے پاس قرآن کریم کا ہتھیار ہو وہ بڑی آسانی سے تبلیغی میدان میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تفسیر کبیر ایک علمی خزانہ ہے جو ہمیں مل گیا ہے اس سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘‘ (الفضل۱۸؍جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ ۵)
اس قرآن دانی کے اچھے اثر کا نمونہ آپ کے سفر فلسطین میں بھی دیکھنے کو ملا جب آپ بمبئی میں نزیل تھے تو ہوٹل میں ایک عرب سے ملاقات ہوگئی جو سورۃ ہود کی تلاوت کر رہے تھے۔ آپ نے ان سے عربی زبان میں سورۃ ہود میں مذکور حضرت لوطؑ کے قول يَا قَوْمِ هٰٓؤُلٓاءِ بَنَاتِي اور حضرت نوحؑ کی دعا رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي کے حوالے سے گفتگو کی اور سوالات پوچھے جن کا وہ جواب نہ دے سکے۔ آپ نے موقعہ غنیمت جانا اور ان آیات کی تفسیر بیان کی۔ وہ عرب دوسرے لوگوں سے کہنے لگا کہ یہ صاحب پنجاب سے آئے ہیں اور مصر جا رہے ہیں، کہتے ہیں اضافۂ علم کی غرض سے سفر اختیار کیا ہے حالانکہ یہ خود بہت بڑا عالم ہے۔ (الفضل ۶؍فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۶)
آپ جنوری ۱۹۳۶ء سے مارچ ۱۹۳۸ء تک فلسطین میں بطور مبلغ رہے اور نہایت محبت، محنت اور دعا سے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ جماعت کی تعلیم و تربیت اور تبلیغی کاوشوں کے علاوہ فلسطین سے شائع ہونے والے عربی رسالے البشریٰ کی ادارت اور اشاعت کو بڑی توجہ سے دیکھتے رہے۔ قرآن کریم، حدیث نبویؐ اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح کے تازہ خطبات کا خلاصہ بزبان عربی احمدی احباب تک پہنچاتے۔
فروری ۱۹۳۷ء میں آپ نے محترم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب (وفات: ۲۷؍دسمبر ۱۹۸۷ء) ابن حضرت ماسٹر عبدالرحمٰن صاحبؓ سابق مہر سنگھ کی معیت میں عمان (شرق الاردن) کا سفر اختیار کیا جہاں علاوہ اور تبلیغی مہمات کے شرق الاردن کے ولی عہد عبداللہ الاول بن الحسین (وفات: ۲۰؍جولائی ۱۹۵۱ء) سے ملاقات کرنے اور انہیں احمدیت کا پیغام پہنچانے کی بھی توفیق ملی۔ عزت مآب ولی عہد نے اردن کے شہر شونہ آنے اور کھانے کی دعوت دی۔ چنانچہ آپ وہاں بھی ان سے ملے۔ آپ کی غیر موجودگی میں ولی عہد صاحب نے اپنے ایک انگریز حکومتی مشیر کو بتایا کہ یہ لوگ ہندوستان کے رہنے والے ہیں اور احمدی ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور قرآن کریم سے استدلال کرتے ہیں۔ (الفضل یکم اپریل ۱۹۳۷ء صفحہ ۵ تا ۷)
اگست ۱۹۳۷ء میں آپ بعض حالات کی بنا پر حیفا سے مصر میں تبلیغی مہمات کی انجام دہی کے لیے تشریف لے گئے جہاں کچھ عرصہ بعد فریضۂ حج ادا کرتے ہوئے اوائل جنوری ۱۹۳۸ء میں عازم قادیان ہوئے۔ (الفضل ۲۰؍جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۶) ہندوستان واپس آنے کے بعد آپ کو پھر اندرون ہندوستان خدمت دین کی توفیق ملی۔ جون ۱۹۳۸ء میں آپ کانپور میں تھے کہ جماعت احمدیہ نے مسلم لیگ کے تعاون سے ایک جلسہ منعقد کیا جس میں آپ نے بلادعربیہ کے سفر کے حالات بیان فرمائے۔ (الفضل ۱۷؍جولائی ۱۹۳۸ء صفحہ ۶) ۱۳؍اپریل ۱۹۴۰ء سے لے کر دسمبر ۱۹۴۰ء تک برما مشن کے انچارج مبلغ رہے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۷ صفحہ ۲۸۳)
بعد ازاں آپ کی تقرری پھر کلکتہ میں ہوئی۔ آپ نے ایک لمبا عرصہ کلکتہ میں گزارا، جماعتی لٹریچر میں آپ زیادہ تر مبلغ کلکتہ کے طور پر ہی معروف رہے۔ کلکتہ میں بھی تربیتی اور تبلیغی لحاظ سے بہت اچھا کام کیا، مثلًا اخبار الفضل ۱۰؍اکتوبر ۱۹۴۵ء میں آپ کی ایک سالانہ رپورٹ شائع شدہ ہے جس میں درس و تدریس، اجتماعی جلسے اور تبلیغی تقاریر، مناظرے، تبلیغی دورہ جات، تبلیغ بذریعہ ملاقات، مضمون نویسی و مطالعہ، چندے کے لیے مساعی، نو مبائعین سے ملاقات وغیرہ جیسی مصروفیات کا ذکر ہے۔ تقسیم ہندوستان کے بعد بھی آپ کلکتہ میں ہی بطور مبلغ کام کرتے رہے۔ مرکز قادیان سے آپ کو دیگر صوبہ جات میں بھی دوروں کے لیے جانے کا ارشاد ہوتا، اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۶۶ء صفحہ ۴ پر نظارت بیت المال کی طرف سے آپ کو بسلسلہ تحریک جدید و فضل عمر فاؤنڈیشن صوبہ بہار و اُڑیسہ کی جماعتوں میں دورہ پر بھیجنے کا ذکر اور اس کی تفصیلی رپورٹ موجود ہے۔
آپ نے ۳۰؍مارچ ۱۹۸۶ء کو بعمر ۷۴ سال وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر ۴۳۶۹) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ حفیظہ بیگم صاحبہ (وفات: ۱۵؍جون ۱۹۸۲ء) بھی بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہیں۔اللہ تعالیٰ غریق رحمت عطا فرمائے۔آمین