الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترمہ صاحبزادی امۃالرشید بیگم صاحبہ
اور محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ مبارکہ شاہین صاحبہ نے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کے حوالے سے خاندانِ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دو بزرگ خواتین کی سیرت رقم کی ہے۔
’’تاریخ احمدیت‘‘ میں لکھا ہے کہ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے قائم ہونے کے کچھ سالوں بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے صاحبزادی امۃالرشید بیگم صاحبہ کی تحریک پر بچیوں کے لیے ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی۔ یہ پڑھنے کے بعد دل میں پُرزور خواہش پیدا ہوئی کہ اُن سے ذاتی طور پہ ملاقات کرکے یہ بات دریافت کر سکوں۔ ۲۰۰۸ء میں پاکستان جانے پر یہ موقع مل گیا اور میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ان سے ملنے ان کے گھر گئی۔ آپ ایک روز پہلے ہی امریکہ سے واپس آئی تھیں لیکن جب ہم اندر داخل ہوئے تو آپ نے انتہائی خوش دلی سے ہمیں بیٹھنے کو کہا اور حال پوچھنے لگیں۔ خادمہ سے مٹھائی اور خشک میوہ جات منگوائے۔ آپ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی نواسی اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی صاحبزادی ہیں۔ بہت دیر تک ہمیں اپنے بزرگ آباء کی باتیں سناتی رہیں۔ ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم کے قیام کا واقعہ انہوں نے کچھ اس طرح سنایاکہ جب لجنہ اماءاللہ کی تنظیم قائم ہوئی تھی اور ان کے اجلاسات ہوتے تھے تو ہم بچیاں باہر کھیلتی رہتی تھیں۔ ایک دن مَیں نے ان کو اکٹھا کیا۔ اندر کمرے میں لجنہ کا اجلاس ہورہا تھا۔ میں نے باہر برآمدے میں تخت پوش پر سب بچیوں کو بٹھایا اور کہا کہ آؤ ہم بھی اجلاس کریں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت مصلح موعودؓ تشریف لائے۔ ہمیں دیکھا تو پوچھا:کیا ہو رہا ہے؟ مَیں نے کہا کہ ہم چھوٹی لجنہ ہیں اور ہم بھی اپنا اجلاس کر رہی ہیں۔ آپؓ بہت خوش ہوئے اور ہمیں ’ناصرات الاحمدیہ‘ کا نام عطا فرمایا۔
مکرمہ صاحبزادی امۃالرشید بیگم صاحبہ نے ہماری بہت مہمان نوازی کی۔ مجھے ایک مٹھائی بہت مزے کی لگ رہی تھی مگر میں تھوڑا سا کھا کر جھجک گئی۔ آپ نے نوٹ کرلیا اور میری بیٹیوں سے کہنے لگیںکہ اپنی امی کو وہ مٹھائی دو۔
اس کمرے میں چند خواتین مبارکہ کی تصاویر سجی ہوئی تھیں ہمیں ان کا تعارف کروایا۔ آپ کی والدہ حضرت سیدہ امۃالحئی صاحبہؓ کی بھی بہت خوبصورت بڑی سی تصویر آویزاں تھی۔ اس تصویر کا پس منظر یہ بتایا کہ یہ تصویر حضرت مصلح موعودؓ نے خود کھینچی تھی اور خود ہی ڈیویلپ کی تھی۔ چونکہ آپؓ پردے کے بہت پابند تھے اس لیے جب آپؓ سفر یورپ پر تشریف لے جا رہے تھے تو تمام موجود بیویوں کی تصاویر کھینچی تھیں اور خود ہی ڈیویلپ بھی کی تھیں۔
حضرت سیدہ بی بی امۃالباسط صاحبہ (المعروف بی بی باچھی صاحبہ)کے ساتھ خاکسار کی دوتین ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات ہوئی تو آپ نے بہت خوبصورت سبز رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔ مَیں آپ کا پُرنور چہرہ دیکھ کر مبہوت سی رہ گئی۔ آپ ملنے والیوں سے بہت سادگی اور بے تکلّفی سے ملتیں۔ آپ کی شخصیت کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا۔ ایک دفعہ ملاقات کے دوران خاکسار آپ کی ٹانگیں دبانے لگی۔ تو آپ نے ایک بہت مزیدار واقعہ سنایا۔ فرمانے لگیںکہ ایک عورت اکثر آکر مجھے دباتی تھی یہاں تک کہ مجھے دبوانے کی اچھی خاصی عادت پڑ گئی۔ ایک مرتبہ وہ کافی دنوں کے بعد آئی۔ میں نے نہ آنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگی کہ بی بی صاحبہ! طبیعت بہت خراب تھی۔ مَیں نے کہاچلوآج میں تمہیں دباتی ہوں۔ مگرمیرے اصرار کے باوجود وہ نہ مانی۔ کہنے لگی: نہ بی بی جی!اسی اے گندیاں عادتاں نئیں پائیا ہوئیاں (بی بی! ہم نے یہ گندی عادتیں نہیں ڈالی ہوئیں)۔ اس کی یہ بات سن کر مَیں بہت ہنسی گویا بالواسطہ ہمیں کہہ رہی ہو۔
ان کی شفقت کا ایک انداز مجھے آج بھی یاد آتا ہے تو بےاختیار ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ ایک ملاقات میں میری چھوٹی بیٹی بھی میرے ساتھ تھی۔ وہ بار بار میرے کان میں بی بی صاحبہ کا گھر اندر سے دیکھنے کی ضد کر رہی تھی۔ مگر مَیں اس کو ٹال رہی تھی۔ آپ نے نوٹ کر لیا کہ بچی کچھ مطالبہ کررہی ہے۔ پوچھنے لگیں کہ بچی کیا کہہ رہی ہے؟ میں نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی مگر پھر ان کے اصرار پر مجھے بتانا پڑا۔ انتہائی شفقت سے فرمانے لگیں: اس میں کون سی بڑی بات ہے، آؤ مَیں تمہیں اپنا گھر دکھاؤں۔ پھر اُس کی انگلی پکڑ کر اسے سارا گھر دکھایا۔
ایک بار آپ سے شادی بیاہ کے موضوع پر بات ہوئی تو خاکسار نے حضرت اماں جانؓ کا ذکر کرتے ہوئے عرض کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کس قدر سادگی سے کیں۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کو خود جا کر نواب محمد علی خان صاحبؓ کے گھر چھوڑ کے آئیں۔ اس پر فرمانے لگیں کہ میری اپنی شادی بھی ایسے ہی ہوئی تھی۔
………٭………٭………٭………
محترمہ صاحبزادی امۃالرشید بیگم صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۷؍جنوری ۲۰۱۴ء میں مکرم محمود مجیب اصغرصاحب کے قلم سے محترمہ صاحبزادی امۃالرشید بیگم صاحبہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ۲۶؍نومبر ۱۹۵۰ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے مولد و مسکن بھیرہ کا دورہ فرمایا اور وہاں موجود احباب سے دو گھنٹے کے قریب ایک معرکہ آراء خطاب فرمایا آپ نے اس تاریخی خطاب میں یہ بھی فرمایا: ’’اس بستی سے مجھے روحانی اور جسمانی تعلق ہے اس بستی کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی میری بیوی تھی اور اس بیوی سے میری اولاد بھی ہے…۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۱۴)
بھیرہ کی بستی کے معزز گھرانے سے مراد حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ ہیں جن کی لڑکی حضرت سیدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ سے ۱۹۱۴ء میں آپؓ نے شادی کی اور اولاد ہوئی۔ جو بالترتیب محترمہ صاحبزادی امۃ القیوم صا حبہ، محترمہ صاحبزادی امۃالرشید صا حبہ اور محترم مرزا خلیل احمد صاحب پر مشتمل تھی۔ اس اولاد میں سے آخری نشانی محترمہ صاحبزادی امۃ الرشید بیگم صا حبہ اہلیہ محترم میاں عبدالرحیم احمد صاحب تھیں جو ۲۰؍ستمبر ۲۰۱۳ء کو اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
ہمارا تعلق بھی بھیرہ سے ہے۔ حضرت سیدہ اُمّ متین مریم صدیقہ صا حبہ نے بتایا کہ جب میری والدہ ملنے جاتیں تو صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ کہا کرتیں کہ میرے ’نانکے‘ آگئے ہیں۔ دراصل وہ بھیرہ کے تعلق کی وجہ سے ایسا کہا کرتی تھیں۔ میری اہلیہ کو بھی کہتی تھیں کہ تمہارے ساتھ میرا دوہرا رشتہ ہے۔ ایک تمہارے میاں کے خاندان کی طرف سے اور ایک تمہارے والدین کے خاندان کی طرف سے۔ دراصل میرے آباء و اجداد بھی حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ذریعے مامور زمانہ حضرت مسیح موعودؑ سے ۱۸۹۸ء میں وابستہ ہوئے تھے اور میری اہلیہ کے دادا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے پاس ہی پلے بڑھے تھے۔
آپ نے ایک یتیم بچی فرزانہ پالی ہوئی تھی۔ ایک بار جب امریکہ اپنے بچوں کے پاس جانے لگیں تو اس بچی کو ہمارے سپرد کر گئیں اور فرمایا کہ میرے زیر نظر کئی گھر تھے لیکن جو اعتماد مجھے آپ کے گھر پر ہے اس کی بنا پر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد اپنی کئی عزیز خواتین کو خاص طور پر اس بات کی ہدایت کرتی تھیں کہ ہمارے گھر ضرور جائیں اور فرزانہ کا حال احوال دریافت کریں۔
آپ نے اپنے ایک مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ کے معمورالاوقات ہونے کا یوں ذکر کیا ہے کہ آپ نے ابا حضور (حضرت مصلح موعودؓ)کو کبھی سوئے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس خواہش کے پیش نظر آپ نے رات گئے تک چائے اور قہوہ پی پی کر انتظار کیا کہ دیکھوں کہ ابا حضور کب سوتے ہیں؟ حتیٰ کہ کرسی پر ہی نیند آگئی اور جب گھبرا کر اُٹھیں تو حضرت مصلح موعودؓ تہجد ادا کر رہے تھے۔ آپ کہتی ہیں مجھے نہیں معلوم کہ حضورؓ کب سوئے اور کب اٹھ کر تہجد ادا کرنے لگے۔ ایسے عظیم الشان انسان کی تربیت کا آپ پر گہرا اثر تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ کی درج ذیل نظم کا ذکر کرتی تھیں جس کا پہلا شعر حضرت سیدہ امۃ الحئی بیگم صا حبہؓ کا ہے:
پوچھو جو اُن سے زلف کے دیوانے کیا ہوئے
فرماتے ہیں کہ میری بلا جانے کیا ہوئے
اے شمع رُو بتا تیرے پروانے کیا ہوئے
جل جل کے مر رہے تھے جو دیوانے کیا ہوئے
خم خانہ دیکھتے تھے جو آنکھوں میں یار کی
تھے بے پیئے کے مست جو مستانے کیا ہوئے
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں آپ نے بتایا کہ ایک بار کھانے کے وقت حضور میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے کھانے کے لیے کہا۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ میں آپ کی رکابی سے ہی کھاؤں گا۔ چنانچہ حضورانور نے اس طرح آپ سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔
………٭………٭………٭………
حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ امۃالمتین صاحبہ نے حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کی سیرت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میرے والد صاحب فوج سے ریٹائرڈ ہوئے تو ہم ربوہ شفٹ ہوگئے۔ اس بےسرو سامانی کے مشکل حالات میں نوکری کی تلاش شروع کی تو پتا چلا کہ حضرت صاحبزادی صاحبہ کو ایک سیکیورٹی گارڈ کی ضرورت ہے۔ میرے ابا نے اس خدمت کے لیے درخواست دی جو منظور ہوگئی۔ ابو نے اس کام کوکرنا ہمیشہ اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ اس کام کی برکت سے ہمیں قصرخلافت کے ایک کوارٹر میں رہائش مل گئی۔ میری والدہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ وہ بہت مرتبہ یہ خواب دیکھا کرتی تھیں کہ میرے والد صاحب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی کرسی کے پیچھے باڈی گارڈ کی طرح کھڑے ہیں،اس خواب کی تعبیر اللہ کے فضل سے اس رنگ میںپوری ہوئی کہ میرے والد اور والدہ کو حضرت مسیح موعودؑ کی پوتی اور پیارے آقا کی والدہ ماجدہ کی خدمت کی توفیق ملی۔ اسی خدمت کے طفیل ہمارا حضرت سیّدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے گھر آنا جانا رہتا تھا۔ آپ میری والدہ کو اپنی بیٹی کی طرح عزیز رکھتی تھیں۔ ہر خوشی کے موقع پر ضرور بلاتیں۔ اگر کسی وجہ سے نہ جاسکتے تو خادم بھیج کر پوچھواتیں کہ حفیظ بیگم کیوں نہیں آئی؟ اسی طرح ہر موسمی پھل ہمارے گھر بھجواتیں۔
جب میری شادی ہونے والی تھی تو والدہ صاحبہ نے آپ سے دعا کے لیے کہا۔ آپ نے فرمایا کہ لڑکے میں نیکی تقویٰ کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا کہ اچھے اخلاق کا مالک ہو اور خدمت دینیہ بجا لاتا ہو۔ لڑکا محنتی ہوناچاہیے۔ پڑھا لکھا مناسب ہو۔ اپنی بیٹی سے کہو اپنے نیک نصیب کے لیے دعا کیا کرے اور تم خود بھی دعا کرنا۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۷؍ستمبر۲۰۱۶ء میں مکرم بشارت محمود طاہر صاحب کی ایک غزل شامل اشاعت ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
مری زمیں کو فلک کا سفر دیا تُو نے
مَیں کم نظر تھا وفا کا ہنر دیا تُو نے
مَیں بےنصیب کو تُو نے نصیب بخشے ہیں
مَیں بےمُراد مُرادوں سے بھر دیا تُو نے
شکستہ پا کو وہ بخشے ہیں حوصلے تُو نے
ہر اِک اُمید کو منزل کا گھر دیا تُو نے
مرے جنوں کو بھی بخشی ہے تُو نے دانائی
مرے غموں کو خوشی کا ثمر دیا تُو نے
وہ ایک دل جو سدا ہی تڑپتا رہتا تھا
اُسے سکون کے جیسا گہر دیا تُو نے
مزید پڑھیں:الفضل ڈائجسٹ